اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک ایسا ملک جہان اسلام کا نفاذ
ہو ، جمہوریت ہو او رپاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ہو۔ مگر پتہ نہیں کیوں مجھے
آج معصوم زینب بہت یاد آرہی ہے جو اس اسلامی اور پاک ملک میں رہتے ہوئے بھی
درندگی کا شکار ہوئی لیکن اس وقت دل کو تسلی ہوئی جب اس کے گناہ گار انجام
کو پہنچے اس سے وہ معصوم واپس تو نہیں آسکتی مگراتنی امید ہوئی کہ اب اور
کوئی بچی اس درندگی کا شکار نہیں ہوگی۔ مگر کتنے ہی بے گناہ بچوں کو اس
درندگی کا سامنا ابھی بھی کرنا پڑ رہا ہے۔تعلیمی اداروں میں بھی معصوم بچے
محفوظ نہیں۔ ابھی حال ہی میں کراچی میں 5سالہ مروہ کو بھی اسی درندگی کا
سامنہ کرنا پڑا جس کا ابھی تک انصاف نہیں ہو سکا اور خونی درندے ابھی بھی
آزاد ہیں۔
پتہ نہیں آج سانحہ ساہیوال کے وہ معصوم بچے کیوں دماغ سے اتر ہی نہیں رہے
جن کے بے گناہ والدین کو ان کی آنکھوں کے سامنے ایسے مار ڈالا گیا جیسے وہ
معاشرےکے لیے نقصان دہ ہوں۔کیا گناہ تھا ان کا ؟آج تک کسی کو پتہ نہیں چل
سکا ۔اور اگر کوئی گناہ نہیں تھا تو ان بے گناہ کے خون کا قصاص کیوں نہیں
لیا گیا؟ کیا وہ بچے ایسا دل دوز واقعہ اپنی بقایا زندگی میں فراموش کر
پائیں گے؟ کیا وہ بڑے ہو کر ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل کر پائیں گے؟
ایسا ہر واقعہ جب بھی ہوتا ہے تو لوگوں میں شور اٹھتا ہے ، مذمتیں ہوتی ہیں،
انصا ف کی چیخ و پکا ر ہوتی ہےجس سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی چوکس
ہو جاتے ہیں ، حکومتی ارکان بھی بڑے دعوے کرتے ہیں مگر اس سے پہلے کہ انصاف
ہو وہ شور بھی تھم جاتا ہے اورہم لوگ پھر اسی بے حسی و بے بسی کا شکار ہو
جاتے ہیں۔ ہم کتنی جلدی بھولنے کے عادی سے ہو گئے ہیں۔ اسلام تو ہمیں تعلیم
دیتا ہے کہ ایک معصوم کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ہم اتنے گر گئے
ہیں کہ معصوم بچوں کو درندگی کا نشانہ بنا کرقتل کرتے ہیں اور پھر بھی اللہ
پاک کی زمین پر اتراتے پھرتے ہیں ۔ پھر بھی ہمارے دل خوف سے نہیں پھٹتے،
پھر بھی ہم اپنے اپنے کاموں میں ایسے مشغول ہوتے ہیں جیسے کچھ ہو ا ہی نہیں۔
ہمیں عذاب الہی کا ڈر نہیں؟
تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں صفحہء ہستی سے مٹا دی جاتی ہیں جن میں انصاف
باقی نہیں رہتا۔خیبر پختونخواہ میں ایک درندہ گرفتار ہوتا ہے جس نے کئی
معصوم بچوں کے ساتھ درندگی کی اور ان کی وڈیوز بنا کر بیچتا رہا اور وہ
ہماری ہی حکومت کے وزیروں کی سفارش پر ایک اعلی عہدے پر کام بھی کرتا رہا
اور ابھی تک اس کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اتنا اندھیر کہ خود قبول کر کے
بھی انصاف کے لیے ثبوتوں کی ضرورت ہو۔
اگر انصاف وقت پر ملتا تو لاہور سے سیالکوٹ جانیوالی موٹر وے پر جو واقعہ
پیش آیا اس طرح کے واقعات کبھی بھی نہیں ہوتے۔ جہاں ایک خاتون اپنے بچوں کے
سامنے ہوس کا نشانہ بنی ، جہاں پر ایک خاتون نے قانون کے محافظوں کو فون
بھی کیا مگر جواب ملا کہ یہ ہماری حدود میں نہیں اوراب اس پر الٹا یہ کہتے
ہیں کہ کیا ضرورت تھی اکیلے جانے کی؟ اور کہنے والے بھی وہ جو خود ذمہ دار
ہیں اس طرح کی واردات نہ ہونے کے۔ جن کا کام ہی یہی ہے عوام کے جان و مال
کی حفاظت کرنا۔یعنی ذمہ داری کا احساس ہی ختم ہو چکا۔علاقہ مکینوں کے مطابق
اسی جگہ پہلے بھی ڈکیتی کی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں اگر پہلے ہی ایکشن لیا
جاتا تو کیا اس واقعہ سے بچا نہیں جا سکتا تھا ؟ کس کی نا اہلی ہے؟
خیرہم بھی بحیثیت انسان کم نہیں ہم نے بھی ابھی رولا ڈالنا ہے اور پھر کچھ
ہویا نہ ہو ہم نے بھول جانا ہے اور ہماری توجہ کسی اور طرف ہو جانی ہے۔ان
واقعات میں جو ملوث ہیں وہ تو درندے ہیں ہی مگر کیا خاموشی سے ہم بھی ان کی
پشت پناہی نہیں کرتے؟ ان درندوں کو پابند سلاسل کس نے کرنا ہے؟ ان کا شکار
کس نے کرنا ہے؟
ان درندوں سےمعصوم بچوں، لڑکوں،لڑکیوں،عورتوں کی عصمتوں کو کس نے بچانا ہے؟
یہ کام حکومت وقت کے کرنے کے ہیں کہ ان درندوں کو ایک ایسے عبرت ناک انجام
تک پہنچائے کہ کل کو کوئی اور ایسی درندگی کرنے سے پہلے ہی کانپ جائے ، اسے
سنگسار کرو یا پھر چوراہوں میں لٹکاو تاکہ کوئی اور ایسی خباثت کا سوچ بھی
نہ سکے ورنہ اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے اور ہمارے بچے غیر محفوظ رہیں
گے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکےگا ، تو جم جائیگا۔
|