یہ میرے ملک کو کس کی نظر لگ گئی

ایک لمحے کے لئے سوچیے کہ اس وطن عزیز کو پاکستان کا نام دینے والے اس سانحے کے بعد کیا کرتے ؟ شائد وہ تو اس ملک کا نام بدل کر ریپستان ہی رکھ دیتے. لیکن یہ سب تو میری قیاس آرائی ہے. کیونکہ انھوں نے جس وطن کا نام پاکستان رکھا تھا وہ تو قائد کے افکار کی طرح پاک اور شفاف ملک تھا. لیکن پھر اس ملک کو بد روحوں کی، بد حواسوں کی، بد تمیزوں کی اور بد ترین لوگوں کی نظر لگ گئی.

چند دنوں سے وطن عزیز میں افسوس ناک مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں . وطن عزیز میں ہر طرف ظلم و بربریت کی فضا قائم ہے. کیونکہ کہیں کراچی میں چھوٹے سے پھول کو زیادتی کے بعد جلا کر ہمیشہ کے لئے ماند کردیا گیا. تو کہیں سرعام موٹر وے پر عورت کو بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا. ظلم و بربریت کے یہ دو سانحات ایک سے دو دن کے وقفے سے انجام دیے گئے. یعنی ابھی عوام ننھی پری کو نہیں بھولی تھی کہ اس سے بھی زیادہ انسانیت سوز سانحہ نے اپنی طرف توجہ مبذول کروالی.

سانحہ یہ تھا کہ ایک عورت اپنے بچوں کے ساتھ رات کے پہر گاڑی پر سوار تھی. گاڑی کی منزل براستہ موٹر وے لاہور سے گوجرانوالا تھی. لیکن اس سفر کے دوران گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا اور یہ گاڑی موٹر وے پر ایک جگہ رک گئی. اسی اثناء میں دو افراد پیدل چلتے ہوئے ڈنڈے ہاتھ میں اٹھائے گاڑی کے قریب آئے اور اس گاڑی کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا. جس کے نتیجے میں عورت گاڑی سے باہر نکل آئی . بس پھر ان دو افراد نے ڈنڈوں کو وہیں پھینک دیا اور اس عورت کو اپنی حوس کا نشانہ بنایا. یعنی ان دو افراد نے اس عورت کو تین بچوں کی موجودگی میں یا پھر ان کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا . یہ عورت شائد اپنے رشتہ داروں کے انتظار میں ہو. لیکن اب یہ عورت کسی مسیحا کے انتظار میں تھی کہ کوئی فرشتہ بن کر آئے اور ان دو شیطانوں سے اس عورت کی عزت تار تار ہونے سے محفوظ کرلے.

لیکن مدینہ کی ریاست میں کوئی بھی اس عورت کی مدد کو نہ پہنچا اور وہ دونوں شیطان بدبودار فعل انجام دے کر چلتے بنے. اس سانحہ کی اگر منظر کشی کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت عورت کتنی بے بس ہوگی. لیکن میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ بد قسمتی سے یہ بے بسی صرف اس عورت کی نہیں جو اس سب دردناک سانحے سے گزری ہے. بلکہ یہ بے بسی تو وطن عزیز کی ہر اس عورت کے حصے میں آئی ہے جو آج سے پہلے اسی قسم کے فعل کا نشانہ بنی ہوگی. لیکن اب یہ بے بسی وطن عزیز کی بے بسی ہے. جہاں اب یہ فعل سرعام ہوتے نظر آرہے ہیں.

ایک لمحے کے لئے سوچیے کہ اس وطن عزیز کو پاکستان کا نام دینے والے اس سانحے کے بعد کیا کرتے ؟ شائد وہ تو اس ملک کا نام بدل کر ریپستان ہی رکھ دیتے. لیکن یہ سب تو میری قیاس آرائی ہے. کیونکہ انھوں نے جس وطن کا نام پاکستان رکھا تھا وہ تو قائد کے افکار کی طرح پاک اور شفاف ملک تھا. لیکن پھر اس ملک کو بد روحوں کی، بد حواسوں کی، بد تمیزوں کی اور بد ترین لوگوں کی نظر لگ گئی. نیز اس ملک میں قصور جیسا علاقہ جہاں بابا بلھے شاہ مدفن ہیں. وہ بھی اس بے حیائی سے نہ بچ سکا اور وہاں بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والا گروپ پکڑا گیا. جس کے بعد بھی قصور سے بد روحوں کی نظر نہ ہٹی بلکہ ننھی زینب کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا گیا. مزید یہ کہ آج بھی اس ملک کے بیشتر علاقوں میں ایسے واقعات دیکھنے کو عام ملتے ہیں.

لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کب تک میرے ملک میں یہ بد نظری برقرار رہے گی؟ آخر کب ان بد روحوں سے چھٹکارا حاصل ہوگا؟ کب یہ ملک اپنے نام کی طرح پاک اور شفاف ہوگا؟ ان سب سوالوں کا جواب شائد قانون کی بالادستی سے دیا جا سکتا ہے. لیکن افسوس یہ ہے کہ یہاں تو قانون بھی شفاف نہیں اور نہ ہی یہاں کا منصف شفاف ہے. بلکہ ہمارا قانون تو مجرموں کی حمایت کرتا ہے اور انھیں تحفظ فراہم کرتا ہے.

لہٰذا اب آخری امید حکمران بالا سے ہی ہے کہ وہ اس ملک کو بیشک ریاست مدینہ بنائیں ، لیکن اس سے پہلے وہ اس ملک کو پاکستان بنائیں . کیونکہ جب ہم پاک ہوں گے تب ہی ہم ریاست مدینہ کی طرف پیش رفت کرسکتے ہیں. اس سلسلے میں سب سے پہلا اقدام جو حکمران بالا کو کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر سرعام پھانسی کی سزا پر قانون سازی کی جائے اور اس قانون سازی پر من و عن عمل درآمد کروایا جائے. تاکہ کوئی بھی ایسا ظالمانہ فعل کرنے سے پہلے اپنا انجام آنکھوں سے دیکھ لے. نیز یہ کہ بحیثیت قوم ہمیں اپنے وطن کی بقا کے لئے اس قسم کے واقعات پر آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے. یہ اس لئے کہ بروز حشر بھی ہم ﷲ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کو منہ دکھا سکیں کہ جب ظلم ہورہا تھا تو ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کیے ہوئے تھے. نیز اپنے ملک کی کھوئی ہوئی ساکھ جو کہ اس کے نام (پاکستان) میں پوشیدہ ہے اس کو حاصل کرنے میں کردار ادا کریں.

وطن عزیز میں خواتین اور بچوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے. اس کے بعد مجھے امرتا پریتم کی وہ نظم یاد آرہی ہے. جس میں وہ وارث شاہ کو مخاطب کرتی ہیں. آج وطن عزیز میں بھی یہی آواز بلند ہو رہی ہے اور آج کی بے بس عورت یہی نوحہ بلند کرتے ہوئے پکار رہی ہے کہ؛
آج آکھاں وارث شاہ نٌوں، کتوں قبراں وچوں بول
تے آج کتاب عشق دا، کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی، تُو لکھ لکھ مارے وَین
اَج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن

تحریر : ہمایوں شاہد

 

Muhammad Humayun Shahid
About the Author: Muhammad Humayun Shahid Read More Articles by Muhammad Humayun Shahid: 34 Articles with 27475 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.