یں کس کے ہاتھوں پر اپنا لہو تلاش۔۔۔۔
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔
73سال سے قائم اسلام کے نام پر بننے والا اسلامی جمہوریہ پاکستان آج خون کے
آنسو رونے پر مجبور ہے شاید اب تو خون بھی باقی نہ رہا۔انسانیت آج شرمندہ
ہے۔لیکن انسانیت ہوگی تو شرمندہ ہوگی۔ یہ ملک بد سے بھی بد ترین دور سے
گزرہا ہے اور نہ جانے کتنے ایسے اندوہناک واقعات دیکھنے کو ملیں گے۔ابھی تو
زینب اور اس جیسی اور بھی معصوم کلیوں کے روندے جانے کا غم کم نہ ہوا
تھا۔لاہور موٹروے واقعہ ایک دل دہلادینے والا خوفناک واقعہ جب حوا کی ایک
بیٹی، اپنے ہی بچوں کے سامنے وحشی بھیڑیوں کی ہوس کا نشانہ بن گئی۔ ایسے
کئی واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے،مگر آج یہ واقعہ ریاست مدینہ میں رونما
ہوگیا زینب قتل کیس کے بعد اس کے مجرم کو پھانسی تو ضرور ہوئی ہم سب نے ایک
ٹھنڈی سانس ضرور لی اور یہی سوچا کہ شایدعمران خان کے نئے پاکستان میں ایسے
واقعات نہیں ہوں گے۔ مگر ریاست مدینہ نیا پاکستان بھی انہی پرانے لوگوں سے
آج بھی بھرا پڑا ہے۔ہم نے شاید اندازہ ہی نہیں کیا کہ ہم ایسے لوگوں کو
تحفظ دے رہے ہیں، جو حوا کی بیٹی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنائے جارہے
ہیں۔ایسے مجرموں کو پھانسی دینے کے بجائے ہم آج اس پھانسی کی ہی سزا کے
خلاف ہوگئے ہیں۔ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ ہم بڑوں کو کیا ہم نے تو بچو ں
کو نہیں چھوڑا۔مدرسوں کے بچوں کو نہیں چھوڑا۔قانون نہ ہونے کے برابر رہ گیا
ہے۔جو قانون ہے اس پر کوئی عملدرآمد ہی نہیں ہے۔ہمارے معاشرے میں عورت ذات
کو کھلونا سمجھ لیا ہے جس کا دل چاہے جب توڑ دے اس کو چاہے،ہم تباہ حالی کی
طرف جاتے جارہے ہیں۔عورت کو وہ مقام نہیں دے سکے جو کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ
نے ہمیں آج سے 1400پہلے ہی بتادیا تھا۔دور جہالت میں جہاں عورتوں کو زندہ
دفن کر دیا جاتا تھا۔لیکن آج جدید اور تعلیم یافتہ دور میں ہم جہالت سے بھی
بدتر حرکتیں کرتے چلے جارہے ہیں۔رہی سہی کسر ہماری میڈیا انڈسٹری نے پوری
کردی۔آج کل کے دور جس طرح کے ڈرامے ہمارے ہاں بنائے جارہے ہیں وہ تو شاید
ہالی ووڈ میں بھی نہ بنتے ہوں جس طرح رشتوں کو پامال کیا جاتا ہے جس طرح کی
فحاشی اور عریانیت ہمارے میڈیا میں دکھائی جارہی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔سول
سوسائٹی عورتوں کے حقوق کی بات توکرتی ہے لیکن انہوں نے بھی آواز اٹھائی؟آج
بھی وہ سوسائٹی میرا جسم میری مرضی کا الاگ الاپ رہی ہے۔ یہی سول سوسائٹی
اور موم بتی مافیا ہی ان درندوں کو پھانسی دینے کے کل بھی خلاف تھیں اور آج
بھی ہیں۔ پاکستان میں جتنے بھی میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں وہ سب کے
سب اپنے نمبرز بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔کوئی بھی اصل ایشو پر بات کرنے کو
تیار نہیں کہ یہ کیوں ہورہا ہے۔یہ صرف اس لئے ہورہا ہے کہ آج ہم اپنے
اسلامی اقدار سے کوسوں دور جاچکے ہیں۔اسلامی قانون کے بھی سخت خلاف ہوچکے
ہیں۔اور جو اسلامی قانون کے نفاذ کی بات کرے، اس کو پرانے مائنڈ سیٹ کا شدت
پسند بنادیتے ہیں،کیا اسی نئے پاکستان کا عمران خان صاحب نے اپنی قوم سے
وعدہ کیا تھا۔؟ہمیں اگر اس اخلاقی پستی اورو حشی درندوں کو روکنا ہے تو
اسلامی قانون کا نفاذ لازمی کرنا ہوگا،کڑی سے کڑی سزا دینی ہوگی تاکہ کوئی
بھی حوا کی بیٹی کسی وحشی جانور کے ہاتھوں اس کی ہوس کی بھینٹ نہ چڑھے۔امید
کا دامن ابھی ہاتھ سے چھوٹا نہیں۔ اب بھی کچھ ایسے لوگ اس ملک کے اندر
موجود ہیں جو کہ اس ملک اور قوم کو بد ل سکتے ہیں۔ وہ آپ اور ہم میں سے ہی
ہیں۔ ہم سب کو مل کر اس ملک کو پاک کرنا ہوگا ایسے لوگوں سے نئے پاکستان کے
پرانے لوگوں سے۔تب ہی جا کر یہ ملک حوا کی بیٹی کے لئے محفوظ ملک بن سکے
گا۔ان شاء اللہ۔ |