جب مجھے جنت سے نکالا گیا

مجھے ایسا لگا کہ لوگ میرے خلاف سازش کر رہے ہیں ۔ لوگ مداخلت کر رہے ہیں ۔ میری مرضی پر دوسروں کی مرضی تھوپی جا رہی ہے ۔ میں کسی اور کی مرضی پر کیوں چلوں ؟ یہ میرا گھر ہے۔ میری مرضی ہے۔ میری جنت ہے۔
شائد خدا کی مرضی کچھ اور تھی۔

اپنی مرضی کرنے کے جنون کا پودہ درخت بن چکا تھا۔

وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ
البتہ اس درخت کے قریب نہ جانا

جس شجر ممنوعہ کا پھل چکھنے سے منع کیا گیا تھا ، میرے قدم اس طرف انجانے میں بڑھنے لگے۔

والدہ نے جب تک اجازت نہیں دی میں نے یہ گھر نہیں چھوڑا ۔ کئ سال بعد جب ایک دن انہوں نے خود کہا کہ یہ گھر بدل لو تو میں خوشی خوشی چل پڑا ۔ ان کے کہنے کو بظاہر ان کی رضا مندی ہی سمجھا لیکن شائد اس میں تقدیر اپنا کام کر رہی تھی یا شائد کسی اور کی مرضی چل رہی تھی ۔ اطمینان کی بات یہ تھی کہ ہم اپنی جنت کو اپنے ساتھ لے جا رہے تھے ۔

اس دوران اچانک والدہ کی رہائش کا علیحدہ انتظام ہو گیا ۔ یہ سن کر جیسے ہمارے قدموں تلے کی زمین نکل گئی ہو ۔ جیسے جنت چھن گئ ہو ۔ جیسے مجھے جنت سے نکال دیا گیا ہو ۔ اس دن یہ بھی احساس ہوا کہ جب کوئ لڑکی شادی کے وقت والدین کا گھر چھوڑتی ہو گی تو اس کے احساسات کیسے ہوتے ہونگے۔
والد سے تعلق کا شعور تو تھا اور ان سے محبت کا ادراک تو ان کے ہوتے ہوے ہوتا تھا لیکن والدہ سے تعلق کا احساس ان کے نا ہوتے ہوا اور وہی ہوا جس کا ڈر بھی نا تھا۔

اب ہم جنت میں نہیں رہ رہے ہیں ۔ اب ہم دنیا میں رہ رہے ہیں ۔ جہاں کچھ نیک کام کر کے ہی جنت مل سکتی ہے ۔
شرمندہ اور تائب ہونے کے ساتھ ساتھ اور اس اعتراف کے ساتھ کہ
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَاۜ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَـرْحَـمْنَا لَنَكُـوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ

ان دونوں نے کہا اے رب! ہمارے ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اور اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم ضرور تباہ ہوجائیں گے۔

پھر یوں ہوا کہ ایک دن ذہن پر چھائے دھند چھٹی اور نئ سوچ داخل ہوئ۔
ایک اور زاویہ سے سوچا جو کہ کتاب " زاویہ " میں پڑھا تھا کہ
قصہ یوسف میں ہے کہ دنیاوی حالات نے انہیں کنوئیں میں ڈالا تو اس سے نکلنے کا راستہ بھی ملا اور ایک بہترین زندگی بھی ملی ۔ کنوئیں کی گہرائی کا زوال ہی مصر کی بادشاہت کے عروج کا سبب بنا جب مصر کے بادشاہ نے انہیں غلام سمجھ کر خریدا اور گھر میں رکھا اور ان سے متاثر ہو کر وزیر خزانہ بنایا اور آخر کار بادشاہ بنے۔
عروج کا یہ سفر شروع تو ڈپریشن اور غم کے اندھیروں سے ہی ہوا اور پھر والد سے جدائ بھی برداشت کی ، بھائیوں کو معاف کیا، آخر کار جدائ بھی ملن میں تبدیل ہوئ۔
بعض اوقات لوگ آپ کو نیچا دکھا رہے ہوتے ہیں اور آپ کی تنزلی کی تدبیر کرتے ہیں اور قدرت کی طرف سے وہی واقعات دراصل آپ کی ترقی کا سبب بن رہے ہوتے ہیں جو روحانی بھی ہو سکتی ہے اور دنیاوی بھی لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا جس پر ہم پریشان ہو رہے ہوتے ہیں۔

حامد یہ سب لکھتے لکھتے ڈپریشن کے کنوئیں سے آہستہ آہستہ باہر آرہا ہے ۔ اندھیروں میں سے امید کی کرنیں نظر آنا شروع ہو رہی ہیں اور بتا رہی ہیں کہ باہر روشنی انتظار کر رہی ہے ۔

بالآ خر وه اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، بیشک میں ہی قصوروار ہوں۔
پس ہم نے اسکی پکار سن لی اور اسے غم سےنجات دے دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچالیا کرتے ہیں۔


 

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 262854 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.