حضرت سید عبد العلیم بقائی اور تصوف

آسمان صوفیت کے ماہ پارے تھے علیم
کتنے بھولے کتنے سچے کتنے پیارے تھے علیم
لب پہ تھا ذکر محمد دل میں تھا حُب یتیم
رحمتیں تھیں سایہ فگن جب سدھارے تھے علیم
عارف با للہ سید شاہ عبد العلیم بقائی علیہ الرحمۃ والرضوان کی تصوفانہ زندگی پر روشنی ڈالنے سے پہلے تصوف کا اجمالی تعارف ضروری سمجھتا ہوں تاکہ اسی کی روشنی میں موضوع پر گفتگو ہو سکے۔ طبقات الشافعیۃ الکبریٰ ص:۴ ؍پر عارف باللہ سیدی عبد الوہاب شعرانی قدس سرہ فرماتے ہیں:
’’التصوف انما ہو زبدۃ عمل العبد باحکام ا الشریعۃ‘‘یعنی تصوف نام ہے احکام شریعت پر بندے کے عمل کے خلا صہ کا۔
سیدی ابو عبد اللہ محمد بن خفیف ضبی قدس سرہ فر ما تے ہیں:
’’التصوف تصفیۃ القلوب، واتباع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الشریعۃ‘‘ یعنی تصوف اس کو کہتے ہیں کہ دل کو صاف کیا جائے اور شریعت میں نبی کریم کی پیر وی کی جائے۔
حضرت با یزید بسطامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
’’اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ ایسی کرامت دی گئی ہو کہ ہوا پر چار زانو بیٹھ سکے تو اس سے فریب نہ کھانا؛ جب تک یہ نہ دیکھو کہ فرض وواجب، مکروہ وحرام اور محافظت حدود وآداب شریعت میں اس کا حال کیا ہے[قشیریہ ص:۱۸ بحو الہ امام احمد رضا اور تصوف۔ از: علامہ محمد احمد مصباحی]
آسمان ولایت کے ان درخشندہ ستاروں کے ارشادات کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اصل تصوف تصفیہ قلب اور شریعت پر استقامت ہی ہے۔ اور سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ شریعت مصطفے کی پیر وی کی جائے۔
عارف باللہ حضرت سید شاہ عبد العلیم بقائی کی حیات مبارکہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جا تی ہے کہ آپ کی زندگی اتباع شریعت سے عبارت تھی، آپ کا باطن یاد الہی سے معمور تھا،آپ کے اندر کمالات انسانی کے ساتھ تقویٰ وخشیت الہی کے عناصر غالب تھے۔ آپ کا ظاہر شریعت کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھاتوآپ کا باطن خلوص وللہیت کا بحر بیکراں تھا۔
حضرت سید شاہ عبد العلیم بقائی کی ولادت شہرستان علم وادب قصبہ آسیوں ضلع اناؤ صوبہ اتر پردیش میں۱۹۰۴ء کو ہوئی۔ آپ والد گرامی کی طرف سے فاروقی اور والدہ محترمہ کی جانب سے حسینی تھے۔اپنے ماموں میر معشوق علی شاہ اور میر مقصود علی شاہ اور خالو درویش کامل حضرت علاء الدین شاہ کی تربیت ونگہداشت میں پروان چڑھے۔ مختصر سی عمر میں علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ علوم عصریہ میں بھی کمال حاصل کیا۔
کان پور میں قیام کے دوران عارف باللہ حضرت مولاناسید شاہ بقاء اللہ قدس سرہ کی بارگاہ میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ پہلی ہی ملاقات میں شیخ کے دست حق پر بیعت ہو گئے اور مسلسل ساڑھے تین سال تک شیخ کی خد مت میں رہ کرتز کیہ نفس اورروحانی تربیت حاصل کر کے تصوف کے رموزو اسرار سے واقف ہوئے۔۱۹۲۶ء میں شیخ طریقت نے سر پر مشہو داللہ شاہ کا صوفیانہ تاج رکھ کرخلافت واجازت سے سرفراز فرمایا۔
تصوف اور ارادت و طریقت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے شیخ طریقت سے کامل وابستگی اور سچی عقیدت ہو۔ مرشدبر حق کے فیضان قلب و نظر سے وہی شخص بہرہ ور ہو سکتا ہے جس کے اندر شیخ طریقت کے اشارہ ابرو پر جان نچھاور کر نے کا جذبہ صادق موج زن ہو۔ ممدوح گرامی سید شاہ عبد العلیم بقائی فنا فی الشیخ تھے، تصوف کے اصول کے مطابق اپنے جان ومال، اہل وعیال سب کو شیخ طریقت کی غلامی کاصدقہ سمجھتے تھے۔ شیخ کامل سے کامل وابستگی اورسچی عقیدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے دست حق پر بیعت حاصل کرنے والے وابستگان کو اپنے پیر سے منسوب کر کے بقائی کا تخلص عطا فرمایاخود اپنی طرف نسبت کرکے علیمی لکھنے کی اجازت مرحمت نہیں فرمائی۔ آپ نے کبھی کوئی کام اپنے شیخ طریقت کی اجازت اوررضا کے بغیر نہیں کیا۔ ان کے ہر حکم کی تعمیل کو اپنے لیے باعث صد افتخار سمجھتے رہے۔ مرشد گرامی بھی آپ کے کردارو عمل سے خوش ہوکرآپ پر بے حد شفقت فر مایا کرتے تھے؛ یہاں تک کہ اپنے مریدین کی تربیت کی ذمے داری بھی آپ ہی کو دے رکھی تھی۔
سُنت و شریعت کی پابندی تصوف کی حقیقی تعبیر ہے۔ حضرت سید شاہ عبد العلیم بقائی کی ذات پیکر سُنت و شریعت تھی۔ جناب ایم ذکی بقائی کے بقول’’ آپ کی نماز پنج گانہ اور تہجد کبھی قضا نہ ہوئی۔ اٹھنے ،بیٹھنے، لیٹنے ،سونے، جاگنے، خلوت وجلوت غرض کہ ہرہرلمحہ سنت نبوی اور احکامات الہی کو ملحوظ خاطررکھا کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ سر کار دو عا لم کی کسی بھی سنت کو اگر کوئی شخص معمولی جان کر ترک کر تا ہے تو وہ ولی نہیں ہو سکتا۔‘‘
آپ شر عی امورکی سختی سے پابندی فرمایا کرتے تھے۔ شادی بیاہ کی انہی تقریبات میں شر کت فر ماتے جن میں شر عی احکامات کی پابندی ہوتی اور غیر شرعی افعال سے احتراز کیا جاتا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ آپ کے حلقہ مریدین میںجو بھی شادی ہوتی وہ گانے بجانے کے خرافات سے پاک اور سنت رسول کے مطابق ہوتی۔ مولا نا فصیح الرحمٰن مصباحی لکھتے ہیں:
’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ بہرائچ شریف کے قصبہ بھنگہا بازار میں آپ کے انتہائی عقیدت مند مرید و خلیفہ حاجی خدا بخش صا حب نے اپنی نواسیوں کے عقد میں مدعو کیا۔ آپ کے ہمراہ آپ کے چہیتے پیر بھائی حاجی محمد وارث صاحب اور میں حاضر تھا ، بارات آتے وقت باراتیوں نے باجا بجا دیا اور گو لے داغ دیے، اس پر آپ نے اس قدر برہمی ظاہر فرمائی کہ رات کو ہی واپسی کا حکم صادر فرمادیا۔ ہزار منت وسماجت اور معافی تلافی کے بعدتقریب نکاح میں شر کت پر راضی نہ ہوئے؛ جب کہ حاجی خدا بخش متمول ترین آدمی تھے اور حضرت کے نہایت عقیدت مند مرید بھی۔ یہ واقعہ حضرت کے استقامت علی الشریعۃ پر واضح دلیل ہے۔ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کوئی ہوا میں اڑتا ہو، پانی پر چلتا ہو؛لیکن اگر شریعت کے کسی مستحب مسئلہ کو بھی ہلکا سمجھتا ہے تو وہ کبھی ولی نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کے بہت سے واقعات حضرت بقائی صاحب کی زندگی سے وابستہ ہیں جن میں آپ کے تقویٰ اور شریعت پر استقامت کے جلوے صاف نظر آتے ہیں۔
خوف خدا اور خشیت تصوف کے اولین شرائط سے ہیں۔ حضرت سید شاہ عبد العلیم بقائی ہمیشہ خشیت ایزدی سے لرزہ بر اندام رہا کرتے تھے۔راتوں کی تنہائی میں اپنے معبود حقیقی کی بار گاہ میں سر بسجودہو کرزارو قطار روتے، گریہ وزاری کرتے۔اگر آپ کے سامنے قرآن پاک کی ان آیتوں کی تلاوت کی جاتی جن میں قیامت کی ہو لناکیوں کا بیان ہے توآپ کی آنکھوں سے آنسووں کا سیلاب رواں ہو جاتا اور اس قدر روتے کہ ہچکیاں بندھ جاتیں۔
ایم ذکی بقائی لکھتے ہیں:
’’قاری عبد الحکیم عزیزی آپ کے بڑے عقیدت مند تھے۔ آپ ان سے اکثر قرآن مجید کی تلاوت کی فرمایش کرتے۔ قاری صاحب جب جب قرآن مجید کی تلاوت شروع کرتے تو آپ پر رقت کی کیفیت طاری ہو جا تی اور روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتیں‘‘۔[اجمالی حیات و خدمات حضرت عبد العلیم بقائی ص:۲۷ ۔از: ایم ذکی بقائی]
اولیاے کاملین کی صراحت کے مطابق تواضع و انکساری بھی تصوف کی بنیا دی شرط ہے۔ تصوف کی راہ پر چلنے والے مسافر کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو سب سے حقیر سمجھے، کبرو نخوت اور غرور وتکبر سے کنارہ کش ہو جائے ۔صوفیہ کرام علم وعمل کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہو نے کے باوجوداپنے آپ کو گنہگار کہا کرتے تھے ، یقینا یہ ان کی تواضع اور انکسا ری ہی تھی۔
حضرت سیدعبد العلیم بقائی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں بھی صو فیہ کرام کا یہ عملی جو ہر آب و تاب کے ساتھ نظر آتاہے۔ مریدین کا ایک طویل حلقہ، جاں نثاروں کی ایک لمبی قطار ہو نے کے باوجودآپ کی تواضع وانکساری میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آپ کبھی بھی اپنی تعظیم و اکرام کے خواہش مند نہیں رہے۔ ذاتی زند گی کا حال یہ تھا کہ پوری زندگی ایک کرایے کے مکان میں گزار دی آپ چاہتے تو عالی شان محل تیار ہوجاتا لیکن آپ نے سادہ زندگی گزار نا پسند کیا اور صوفیہ کرام کی روش پر چلتے ہوئے دنیاوی زند گی میںعیش و آرام اور ٹھاٹ باٹ کو داخل ہو نے نہیں دیا۔
خلق خدا سے محبت اور ان کے نجات و فلاح کی فکرصوفیہ کرام کا شیوہ رہا ہے۔ حضرت سید عبد العلیم بقائی بھی اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خلق خدا کی صلاح و فلاح کے لیے متفکر رہا کرتے تھے۔کبھی کبھی بڑے دردمندانہ انداز میں قوم کی دین سے بے رغبتی کا تذ کرہ کیا کرتے ۔آپ کو اپنی قوم کے فلاح ونجات کی کس قدر فکر رہا کرتی تھی اس کا اندازہ ذیل کے واقعے سے لگا یا جا سکتا ہے۔
ایم ذکی بقائی لکھتے ہیں:
’’ایک مرتبہ کان پور کے ایک صنعت کارجناب بشیر صاحب نے یتیم خانہ صفویہ میں ایک ہال کی تعمیر کرائی جس میں انہوں نے تقریبا بارہ ہزارروپے صرف کیے۔ متعلقین مدرسہ کو خوشی ہوئی ،مگر حضرت بقا ئی صاحب علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا:کاش!اس کمرہ کی تعمیر میں صرف ہو نے والے بارہ ہزار روپے میں ایک ایک روپیہ کر کے بارہ ہزار افراد شریک ہوتے اور یہ تعمیر ان کے لیے صد قہ جاریہ اور ذریعہ نجات بنتی تو مجھے زیادہ سکون ملتا‘‘[اجمالی حیات و خدمات حضرت عبد العلیم بقائی رحمہ اللہ ص:۲۸ ۔از: ایم ذکی بقائی]
صوفیہ کرام کی عملی زندگی کااصل مقصد دین کی دعوت وتبلیغ اوراسلام کی نشر واشاعت ہو اکرتا ہے۔ اسلام کی نشر واشاعت سب سے زیادہ ان بوریا نشیں صوفیہ ہی کے توسط سے ہو ئی ہے۔ حضور غوث پاک رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی مجلس وعظ میں سیکڑوں افراد کفرو شرک سے تائب ہو کر دامن اسلام سے وابستہ ہوا کرتے تھے۔اور ہزاروں گم گشتگان راہ فسق وفجور اورمعاصیات کے دلدل سے نکل کر سُنت و شریعت کے عامل بن جایا کرتے تھے حضرت سید شاہ عبد العلیم بقائی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات مبارکہ کا اس رخ سے مطا لعہ کیا جائے تو دعوت و تبلیغ کے زریں کا رنا موں کی ایک طویل داستان سامنے آتی ہے۔
خداے بزرگ وبرتر نے آپ کو علم وعمل دونوں طرح کی دولت سے حظ وافر عطا فرمایا تھا۔ آپ دعوت وتبلیغ کے رموز واسرار اور اس کی باریکیوں سے بخوبی واقف تھے۔ آپ نے جہاں تحریر وتقریر کے ذریعہ دین کی نشرو اشاعت کا فریضہ انجام دیا وہیں اپنے کردارو عمل سے بھی ہزاروں گم گشتگان راہ کو ساحل مراد سے ہم کنار فرمایا۔
آپ نے دعوت وتبلیغ اورارشادو مو عظت کے لیے مذہبی اعتبارسے اتر پر دیش کا پس ماندہ علاقہ گونڈہ ،بستی ، بہرائچ وغیرہ اضلاع کا انتخاب فرمایا۔ آپ جن دنوں گونڈہ تشریف لائے یہاں کی حالت نہا یت ابتر تھی مسلم عوام مشرکانہ رسم ورواج کے عادی ہو چکے تھے۔ طرح طرح کے خرافات نے مسلمانوں کے دینی ومذہبی تشخص کو پوری طرح پامال کردیاتھا۔ان حالات سے آپ کو شدید قلق پہنچا۔دعوت وتبلیغ کا کام موثر طریقے سے انجام دینے کے لیے آپ نے پہلے اپنے پیر ومرشدکو اس علاقے کے دورے کی دعوت دی۔پیر ومرشد نے ضعف ونقاہت کے با وجوددین کی اشاعت کی خاطرآپ کی دعوت پر گونڈہ کا دورہ کیا۔ ہزاروں افراد شرف بیعت سے سرفراز ہوئے۔ یہیں سے مسلمانوں کے اصلاح حال کا کام شروع ہوا۔ دین کی تبلیغ واشاعت کی راہ میں آپ کو کئی طرح کی مصیبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے جبل استقامت بن کر ان کلفتوں کو نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ آ پ کے جہد پیہم اور مخلصانہ کو ششوں سے اس دیار میں اسلامی رسم و رواج کو فروغ ملا۔ مسجدیں آباد ہو گئیں، شراب خانے ویران ہوگئے اور ہر طرف اسلامی بہاروں کی معطر فضا قائم ہوگئی۔
آپ قر آن و حدیث سے ترغیب وترہیب کے نصوص کی روشنی میں نہایت مؤثر نصیحت فر ماتے جس کا اثر یہ ہو تا کہ چور، ڈاکو،رہزن لٹیرے آپ کے دست حق پر تائب ہو کراسلامی احکام کے پابند ہو جاتے۔ اس ضمن میں ایک اہم واقعہ حیات حضرت عبدالعلیم بقائی کے مؤلف ایم ذکی بقائی کی زبانی سنیے:
’’مولا نا شبیر احمد مبلغ الجامعۃ الاسلامیہ رو ناہی فیض آباد ودیگر متعدد معتمدافراد کے توسط سے معلوم ہواکہ قصبہ پرس پور کے نز دیک مرچَور سے متصل ایک مسلم بستی ہے۔حضرت کو معلوم ہوا کہ اس بستی میں ایک مسلم خاندان برسوں سے عصمت فروشی کے ناپاک دھندے میں ملوث ہے حضرت اس گاؤں میں تشریف لے گئے اور اس عصمت فروش خاندان کی عورتوں کو جمع فرماکرتر غیب و ترہیب پرمشتمل آیات و احادیث کو مؤثر اور دل نشیں انداز میں اس طرح بیان فرمایا کہ اُن عصمت فروش عورتوں کی آنکھیں ساون بھادو برسانے لگیں۔ حضرت کا خطاب ختم ہوا،اور ان عورتوں نے عصمت فروشی سے توبہ کرکے آپ کے دست حق پرست پر شرف بیعت حاصل کیااور معاشرے میں با عزت زندگی گزار نے لگیں۔
حضرت بقائی صاحب کی تبلیغ کا دائرہ مسلمانوںہی تک محدود نہیں تھابلکہ غیر مسلموں کے یہاں بھی جاتے انہیں اسلام کی دعوت پیش کرتے، اور کفر وشرک کے وبال سے ڈراتے، اللہ تعالیٰ کی وعیدیں سناتے۔ اس ضمن میں حاجی عبد اللہ صاحب کے قبول اسلام کا واقعہ بڑا دل چسپ ہے۔
ضلع بستی میں ایک معزز زمین دار ٹھا کر گھرا نہ آباد تھا۔شان و شوکت اور ٹھاٹ باٹ کی وجہ سے پو رے علاقے میں معروف تھا۔ حضرت بقائی صاحب دعوت و تبلیغ کے لیے اس علاقے میں تشریف لے گئے۔ راستے میں ٹھاکر صاحب سے ملاقات ہوگئی ۔ حضرت نے ٹھاکر صاحب سے مسکراتے ہوئے فرمایا: ٹھاکر صاحب !کیا اب بھی خداکی پو جا کا وقت نہیں آیا؟خدا جانے آپ کے اس جملے میں کیا تاثیر تھی۔ ٹھاکر صاحب تھوڑے توقف کے بعدگھوڑے سے اترے اور آپ کے دست اقدس کو بوسہ دے کر رونے لگے۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے ،حضرت مجھ کو پوتر کر دیجیے،حضرت مجھ کو پوتر کر دیجیے۔ آپ نے اسے وہیں لاالہ الاللہ محمدرسول اللہ پڑھا کر حلقہ اسلام میں داخل کر لیا۔ عبد اللہ نام تجویز ہوا۔ مال ودولت اوراہل وعیال سب کچھ چھوڑ کر اخیر عمر تک حضرت کی خدمت میں رہے۔ حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ بعد میں حاجی عبد اللہ کے نام سے معروف ہوئے۔
ممدوح گرامی حضرت سید شاہ عبد العلیم بقائی رحمۃ اللہ علیہ شعرو سخن کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ آپ نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی فرمائی۔ آپ کی عملی زندگی کی طرح آپ کی شاعری میں بھی تصوفانہ فکر وخیال کا عنصر غالب نظر آتاہے۔ صوفیہ کاملین کے نزدیک دنیا اور متاع دنیا کی کوئی اہمیت نہیں۔ چند روزہ دنیا کی رنگینیاں ان کی نظر میں بے معنیٰ ہیں۔ ان کا مطمح نظر ابدی زندگی ہواکرتی ہے۔ ان کا متاع حیات عشق رسول ہوا کرتا ہے۔ ان کے ہر درد کا مدوا اسی در سے ہو تا ہے۔ حضرت بقائی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک بلند پا یہ صوفی اور خدارسیدہ بزرگ تھے۔ ان کا سب سے بڑا سرمایہ حیات عشق رسول تھا۔ وہ اپنی داستان غم اسی بارگاہ میں سنایا کرتے تھے۔ وہ دنیا وی غموںسے نجات پا نے کے لیے اپنے محبوب کی بارگاہ میںیوں فریاد کرتے ہیں۔
یہ دل زارو حزین یہ دل غم گیں و اداس
تا بکے تو ہی بتا مائل فریاد رہے
التجا یہ ہے کہ یہ بندہ درگاہ تیرا
تیری تعلین کے صدقے سدا شاد رہے
اے شہ حسن گزارش ہے بصد عجز ونیاز
نار دوزخ سے بقائی تیرا آزاد رہے
صوفیہ کرام نے اپنی قلبی واردات اور تصوفانہ نکات کے اظہار کے لیے غزل کا سہارا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیہ کے دواوین میں آج بھی بے شمار تصوفا نہ غزلیں محفوظ ہیں۔حضرت بقائی صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان کی تصوفانہ غزلوں سے ان کے صوفیانہ فکرو خیال اور زاہدانہ سوزو گداز کا اندازہ لگا یا جا سکتاہے۔
صوفیہ کہتے ہیں انسان اپنی کم نگاہی اور بے بصیرتی کے سبب جمال حق کا مشاہدہ کرنے سے قاصر رہتا ہے اگر انسان جلوۂ ظاہر سے جلوۂ باطن کی طرف توجہ کرے تو جمال حق کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ حضرت بقائی صاحب تصوف کے اس نکتے کو شعر کے قالب میں اس طرح پیش کرتے ہیں
تیرے دل میں خود ہے پنہاں لیلی پردہ نشیں
بے خبر کیوں دوڑتا پھرتا ہے محمل کی طرف
اسی تصوفانہ رمز کی طرف اس شعر میں بھی اشارہ کیا ہے:
کہاں بھٹکتاہے اپنے میں دیکھ اے ہم دم
مکاں میں کوئی نہیں لا مکاں میں کوئی نہیں
صوفیہ کا نظریہ یہ بھی ہے کہ عا شق صادق جب عشق میں فنا ہو جا تا ہے تو اسے تقرب کا درجہ حاصل ہو جا تا ہے۔پھر رموز سے پردے خود بخود اٹھتے جاتے ہیں اورحقیقت عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ امام غزالی نے اسے منزل آخر کا نام دیا ـ؛لیکن اقبال نے اس منزل سے احتراز کا مشورہ دیا ہے ؛ کیوں کہ وصال کے بعد عاشق کی تڑپ ختم ہو جاتی ہے اور وہ لذت انتظار سے محروم ہو جاتا ہے ۔ اقبا ل کہتے ہیں:
آئی صدا جبرئیل تیرا مقام ہے یہی
اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی
اس سلسے میں حضرت بقائی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بلندی فکر بھی ملاحظہ فر مائیں
نہیں وصال میسر نہ ہو فراق تو ہے
حریم دل میں غم کام یاب توہے
یہ چند نمونے تھے مرشدبر حق سیدنا شاہ عبد العلیم بقائی قدس سرہ کی صوفیا نہ اور زاہدانہ زندگی کے۔مزید تفصیلات پیش کیے جائیں تو مقالہ طویل ہوجائے گا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت کی جامع اور تفصیلی سوانح مرتب کی جائے جس میں آپ کی حیات مبارکہ کے تمام روشن پہلووں پر روشنی ڈالی جائے،ان کی دینی و مذہبی خدمات کو حتی الامکا ن اجاگر کیا جائے ۔ ہمیں امید ہے کہ جوان عزم ، جواں سال اورجواں فکر قائدحضرت سید شاہ شعیب العلیم بقائی دام ظلہ سر براہ اعلیٰ درالعلوم یتیم خانہ صفویہ کی قیادت میں یہ کام جلد ہی انجام پذیر ہو گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت بقا ئی صاحب کے روحانی فیضان سے مالا مال کرے اور ان کے مشن کا سچا داعی بنائے۔امین بجاہ حبیبک سید المر سلین و علیٰ آلہ وصحبہ اجمعین۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے

محمد ساجدرضا مصباحی
About the Author: محمد ساجدرضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجدرضا مصباحی: 56 Articles with 106223 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.