عدل وانصاف ، جودوسخا، صدق وصفا، امانت ودیانت ، شرافت
ومتانت اور ذکاوت وذہانت کے ایک حسین پیکر اور اور عشق رسالت مآب کی دولت
لازوال سے مالا مال ایک جلیل القدر صحابی کانا م حضرت امیر معاویہ ہے۔ لقب
ابو عبدالرحمن اوروالد کا نام حضرت ابوسفیان ہے،رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے
پانچ سال قبل مکۃ المکرمہ میں پیدا ہوئے، فتح مکہ کے موقع پر اپنے والد
گرامی کے ساتھ قبول اسلام کا اعلان کیا۔آپ مکہ شریف کے ان منتخب اور
معززافرادمیں سے تھے ، جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ قبول
اسلام کے بعد کاتبین وحی کی مقدس جماعت میں آپ کو شامل کیا گیا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تاریخ اسلام کی وہ عظیم ترین شخصیت ہیں ، جن
کے وجود ِ بابرکت سے اسلام کو بڑی تقویت ملی،ان کے دورِحکومت میں اسلام کو
پھلنے پھولنے کا موقع ملا، لیکن اس کے باوجود ایک طبقے کی جانب سے یزید کی
آڑ لے کرانھیں بد نام کرنے کے لیے بڑی کوششیں ہوئیں اور اس مقدس صحابی
رسول کو دشمن اہل بیت ثابت کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ۔
حضرت امیر معاویہ کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانے کے لیے بے سروپا افسانے
گھڑے گئے ،الزامات کے تیر و تفنگ داغے گئے،آپ کی شخصیت کو مجروح کرنے کی
ہرممکن کوشش کی گئی اور ایسا طوفان ِ بدتمیزی برپا کیاگیاکہ اس کی لہروں
میں اچھے خاصے فہیم و دانا،سنجیدہ و متین علما بھی بہہ گئے، جب کہ احادیث
نبویہ اورمعتمد کتب تاریخ و سیر کا مطالعہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح
عیاں ہوجاتی ہےکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل ِبیت کے درمیان نہ
صرف رشتہ داری اور خاندانی مراسم تھے ؛بلکہ آپس میں اخوت و محبت کا ایک
مستحکم رشتہ بھی تھا ، ایک دوسرے سے ہمدردی اور خیرسگالی کا صالح جذبہ تھا
،وقتی طور پر جو حالات ان کے در میان پیدا ہوئے انھیں بنیاد بناکر شب وستم
کا بازار گرم کرنا کسی طورجائز نہیں ہے،ہمارےعلماے کرام نے ان ہنگامی حالات
میں پیش آنے والے ناخوش گوار واقعات کے سلسلے میں بڑے واضح انداز میں
گفتگو کی ہے، ان کے سلسلے میں اہل حق کے صحیح موقف کو اجاگر کیا ہے۔لیکن
فقہاے کرام،محدثینِ عظام اور علماے سلف وخلف کی ان تصریحات کو پسِ پشت ڈال
کر بر صغیر ہند وپاک میں ایک بار پھر بد تمیزی کا ایک طوفان آیا ہوا
ہے،اور ماضی کی طرح اس بار بھی اس طوفانِ بلامیں کئی شخصیتوں کے جبہ ودستا
رآلودہ ہو چکے ہیں،سنیت کا لبادہ اوڑھےکئی رافضیت زدہ ذہنوں کی غلاظتیں
طشت از بام ہو چکی ہیں،ہمیں ایسے لوگوں کی فہم وبصیرت پر شدیدافسوس ہو تا
ہے جو اپنے آپ کو سنی کہتے ہوئے بھی ایک مقدس صحابی کی شان میں دریدہ دہنی
کا مظاہرہ کرتے ہیں اور محبت ِاہل بیت کا ڈھونگ رچاکررسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے اصحاب کبار کو اپنی طعن کا نشانہ بنانے میں دریغ نہیں کرتے ۔
ذیل کی سطروں میں ہم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جلیل القدر
شخصیت،اوصاف وکمالات،افکارونظریات اور آپ پرطعن وتشنیع کر نے والوں کا
اجمالی جائزہ پیش کیا ہے۔
حضرت امیر معاویہ اورشرف صحابیت :
کاتب وحی،حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلیل القدر صحابی رسول ہیں
بلکہ آپ صحابی ابن صحابی ہیں،آپ کے والد ماجد حضرت ابو سفیان صخر، والدہ
ماجدہ حضرت ہند،بھائی حضرت ابو خالد اور حضرت عتبہ، بہنیں حضرت ام حبیبہ
رملہ،حضرت ام الحکم اورحضرت عزہ رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی شرف صحابیت سے
مشرف تھے۔[اسدالغابۃفی معرفۃالصحابۃ،ج:۴ص،۴۷۷]
حضرت امیر معاویہ قرابت رسول:
حضرت امیر معاویہ کو ذاتی فضائل وکمالات کے علاوہ رسول اللہ کی قرابت ورشتہ
کا جو شرف حاصل تھا اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا،یقینا سر کار دوعالم کی
قرابت ورشتے داری دونوں جہاں کی عظمتوں اور فضیلتوں سے بڑھ کر ہے،کوئی رشتہ
اور قرابت کام آئے یا نہ آئے لیکن رسول اللہ کی قرابت دنیا وآخرت دونوں
میں نفع بخش ہے،اس کی شہادت خود سرکار دوعالم کی احادیث سے ملتی ہے ۔
حضرت امیر معاویہ کا شجرۂ نسب والد کی طرف سے پانچویں پشت پر جاکر رسول
کریم سے مل جاتا ہے،دوسری جانب آپ کی ہمشیرہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا
رسول کریم کی شرف زوجیت سے مشرف تھیں، گویا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
شرف صحابیت کے علاوہ سر کاردوعالم کی نسبی اور سسرالی دونوں طرح کی قرابت
کےشرف سے مشرف تھے،ان دونوں قرابتوں کی عظمتوں کو سرکار دوعالم نے اس حدیثِ
پاک میں بیان فر مایا ہے:
کل نسب وصھرینقطع یوم القیامۃالانسبی وصھری
قیامت کے دن تمام نسبی اور سسرالی رشتے منقطع ہو جائیں گے ماسوا میرے نسب
والوں اور سسرالی رشتے کے۔[کنز العمال بحوالہ ابن عساکر ۱۱/۴۰۹، مؤسسۃ
الرسالۃ بیروت]
ثقہ محدث حافظ ابوالحسن عبد الملک بن الحمید میمونی [متوفیٰ ۲۷۴ھ]فرماتے
ہیں کہ میں نے حضرت امام احمد بن حنبل سے اس حدیث پاک سے سلسلے میں عرض
کیا:
وھذہ لمعاویۃ؟
سید نا معاویہ بھی اس میں داخل ہیں ؟
قال:نعم لہ صھرونسب
آپ نے فرمایا : ہاں! سیدنا معاویہ بھی نبی کے نسبی وسسرالی رشتے دار ہیں
۔[شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃسیاق ماروی عن النبی ﷺ فی فضائل بی
عبدالرحمن معاویۃ، ج۸، ص: ۱۵۳۲]
حضرت امیر معاویہ اور دعاے رسول:
رسول کریم جس کے حق میں ہدایت کی دعافرمائیں وہ کبھی بھی جادۂ مستقیم سے
منحرف نہیں ہو سکتا ، رسول کریم کی ہر دعا مستجاب اور ہر سوال بارگاہ الہی
میں مقبول ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ فر ماتے ہیں:
اجابت نے جھک کر گلے سے لگایا
بڑھی ناز سے جب دعاے محمد ﷺ
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں سر کار دوعالم نے متعدد مواقع پر
دعافرمائی جسے متعدد صحابۂ کرام نے روایت کیا۔ حضرت سید نا ابو عمیرہ رضی
اللہ عنہ کی روایت ہے:
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اللھم اجعلہ ھادیا مھدیا واھدہ واھدبہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے
دعافرمائی : اے اللہ ! اسے ہادی ومہدی بنا، اسے ہدایت دے اور اس کے ذریعہ
لوگوں کو ہدایت دے ۔[مسند احمد حدیث عبد الرحمن بن ابی عمیرۃ، ج،۲۹ ص: ۴۲۶]
اس حدیث پاک کو تیس سے زائد مستندعلما ،محدثین، محققین اورمفسرین نے اپنی
اپنی کتابوں میں نقل فر مایا ۔
سرکاردوعالم کی اس دعاکے سلسلے میں امام ابن حجر مکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
فرماتے ہیں :
فتأمل ھذالدعاء من الصادق المصدوق وانہ ان ادعیتہ لامتہ لاسیمااصحابہ
مقبولۃ غیر مردودۃ تعلم ان اللہ سبحانہ استجاب لرسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم بھذالدعا لمعاویۃ فجعلہ ھادیا للناس مھدیا فی نفسہ من جمع اللہ بین
ھاتین المرتبتین کیف یتخیل فیہ ماتقولہ علیہ المبطلون ووصمہ بہ المعاندون
معاذاللہ۔
صادق ومصدوق کی اس دعا پر غور کرو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ
دعائیں جو آپ نے اپنی امت بالخصوص اپنے اصحاب کے لیے خدا کے حضور مانگیں
مقبول ہو ئیں ، ان میں سے کوئی بھی رد نہیں کی گئی ، تو تمہیں معلوم ہو
جائے گا کہ یہ دعا جو حضور نے حضرت امیر معاویہ کے لیے کی ، یہ بھی مقبول
ہو ئی اورا للہ جل جلالہ نے آ پ کو لوگوں کو ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے
والا بنادیا اور جس شخص میں اللہ رب العزت نے یہ دونوں صفتیں جمع فر دمادی
ہو اس کے بارے معاذ اللہ وہ باتیں کیوں کر خیال کی جاسکتی ہیں جو باطل پرست
معاندین بکتے ہیں ۔
امام کبیر شرف الدین حسین بن عبد اللہ طیبی [ متوفیٰ ۷۴۳] اس حدیث پاک کے
تحت لکھتے ہیں :
ولاارتیاب ان دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم مستجاب فمن کان حالہ ہذاکیف
یرتاب فی حقہ۔
اس میں کو ئی شک نہیں کہ حضرت امیر معاویہ کے حق میں نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہو چکی ہے ، پس جس کا یہ حا ل ہو کہ اللہ تعالیٰ
نے اسے ہدایت دینے والا اور خود ہدایت پر قائم رہنے والا بنادیا ہو تو اس
کے بارے میں شک کیسے کیا جاسکتا ہے ۔[شرح الطیبی علیٰ مشکوۃ المصابیح ۔ ج،
۱۲ ص، ۳۹۴۸]
مشہور صحابی رسول حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک
صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان شریف کے مہینے میں مجھے سحری کی دعوت دی تو
میں نے آپ سے سنا:
اللھم علم معاویۃ الکتاب والحساب وقہ العذاب
اے اللہ معاویہ کو کتاب وحساب کا علم عطا فرما اور عذاب سے بچا۔[مسند احمد
حدیث العرباض بن ساریہ ج، ۲۸، ص، ۳۸۳]
سحر کا وقت دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہو تاہے ، پھردعا جب سید عالم صلی اللہ
علیہ وسلم کی زبان اقدس سے ہو تو اس کی قبولیت میں کیا شبہہ ہو سکتاہے۔
حضرت امیر معاویہ کے حق میں اس مضمون کی متعدد دعائیں منقول ہیں جنھیں
کبارِ علما نے اپنی تصانیف میں نقل فرمایا ہے ، جن سے بارگاہ رسالت مآب
میں آپ کی مقبولیت اور صحابہ کرام کے درمیان آپ کی عظمت و فضیلت کا
اندازہ ہو تا ہے ۔
اب ذیل کی سطروں میں ہم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے چند اوصاف جلیلہ
کا ذکر کریں گے ، ان اوصاف کا ذکر اجلہ صحابہ، تابعین ، تبع تابعین رحمۃ
اللہٰ علیہم اجمعین کے زبان فیض تر جمان سے منقول ہے ، جن سے آپ کی عظیم
الشان شخصیت اور آپ کے بے شمار فضائل ومناقب کا اندازہ ہو گا۔
حضرت سید نا ابو اسحاق سعد بن ابی وقاص مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
مارائیت احدا اقضی بحق من صاحب ھذالباب یعنی معاویۃ ۔
میں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد کوئی شخص حضرت معاویہ رضی اللہ
عنہ سے بہتر حق کے ساتھ فیصلہ کر نے والا نہیں دیکھا ۔[التاریخ الکبیر،
معاویہ بن ابی سفیان ، ج،۷ص، ۳۲۶]
شیخ الاسلام امام ابوبکر محمد بن سیرین انصاری تابعی [ متوفی ۱۱۰ ھ ]
فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
کان معاویۃ احلم الناس
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے زیادہ حلیم وبردبار تھے۔[ السنۃ،
ذکر ابی عبد الرحمن معاویۃ بن ابی سفیان ج، ۲ ص، ۴۴۳]
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےحضر ت امیر معاویہ رضی اللہ
عنہ کے سلسلے میں فرمایا: کاش میرے پاس ان جیسے لوگ ہوتے جن سے میں
مسلمانوں کے مسائل میں مدد لیتا۔[المعجم الکبیر، اخبار عمر بن سعد،ج:۱۷، ص:
۵۱]
مورخ ومحدث علامہ ابوالحسن نورالدین علی بن سلطان القاری حنفی[ متوفی
۱۰۱۴ھ] لکھتےہیں:
معاویۃ؛ فھومن العدول الفضلاءوالصحابۃ الاخیار
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عادل، فاضل اور اخیار صحابہ میں سے ہیں ۔[مرقاۃ
المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح ، باب مناقب الصحابۃ ، ج: ۰ص:۳۸۷۵]
حضرت امیر معاویہ اور محبت اہل بیت:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول کریم ﷺکے جلیل القدر صحابی تھے اور آپ
کی سنتوں پر پابندی سے عمل فرمایا کرتے تھے ، آپ کے ایک ایک طرز عمل کو
عملی جامہ پہنانے میں فخر محسوس کرتے تھے،اہل بیت کی محبت کے حوالے سے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے بھی آپ کے پیش نظر تھے ، اس لیے اس
عظیم ذات کے سلسلے میں بغضِ اہل بیت کا تصور کس طرح کیا جا سکتاہے۔ حضرت
علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیتِ اطہار کے ساتھ آپ کا جو مشفقانہ برتاؤ تھا
اس کی تفصیلات سیر وتاریخ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ مذکورہیں ، ذیل میں
صرف دو شہادتیں نقل کرتا ہوں جن سے ظاہر ہو جائے گا کہ حضرت امیر معاویہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عظمت ورفعت کس طرح
جا گزیں تھی اور وہ آپ کے فضائل ومناقب کے کس درجہ معترف تھے :
امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نقل فر مایا کہ امیر معاویہ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ سےکسی نے مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا:سل عنھا علی ابن ابی
طالب فھو اعلم مولا علی سے پوچھو وہ زیادہ علم والے ہیں، سوال کرنے والےنے
کہا: امیر المؤمنین! مجھے آپ کا جواب ان کے جواب سے زیادہ محبوب ہے، تو
آپ نےفرمایا:
بئسما قلت لقد کرھت رجلا کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یغرہ بالعلم
غرا ولقد قال لہ انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی وکان
عمر اذا اشکل علیہ شیئ یاخذ منہ۔
ترجمہ: تونے سخت بُری بات کہی ایسے کو ناپسند کیا جس کے علم کی نبی صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم عزت فرماتے تھے اور بے شک حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم نے ان سے کہا تجھے مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسٰی علیہما
الصلوٰۃوالسلام سے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، امیر المومنین عمر
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جب کسی بات میں شبہہ پڑتا ان سے حاصل کرتے رضی اﷲ
تعالیٰ عنہم اجمعین۔[ فضائل الصحابۃ لامام احمد بن حنبل ،ص: ۶۷۵،حدیث:
۱۱۵۳، فضائل علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ]
حضرت ضرار بن ضمرہ کنانی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت معاویہ کی
خدمت میں گیا تو حضرت معاویہ نے ان سے فرمایا کہ میرے سامنے حضرت علی کے
اوصاف بیان کیجیے،توحضرت ضرارنے کہا اے امیر المومنین !آپ مجھےمعذور
سمجھیں، اس پر حضرت معاویہ نے کہا کہ میں تمہارا کوئی عذر قبول نہیں کروں
گا۔حضرت علی کے اوصاف جمیلہ ہم سے بیان کرنے ہی ہوں گے۔ حضرت ضرار نے کہا
کہ اگر ان کے اوصاف کو بیان کرنا ضروری ہی ہے تو سنیے کہ حضرت علی اونچے
مقصد والے ، بڑی عزت والے اور بڑے طاقتور تھے، فیصلہ کن بات کہتے اور عدل و
انصاف والافیصلہ کرتے تھے، آپ کے ہر پہلو سے علم پھوٹتا تھا،[ یعنی آپ کے
اقوال و افعال اور حرکات و سکنات سے لوگوں کو علمی فائدہ ہوتا تھا] اور ہر
طرف سے دانائی ظاہر ہوتی تھی، دنیا اور دنیا کی رونق سے ان کو وحشت تھی،
رات اور رات کے اندھیرے سے ان کا دل بڑا مانوس تھا،[ یعنی رات کی عبادت میں
ان کا دل بہت لگتا تھا] اللہ کی قسم!وہ بہت زیادہ رونے والے اور بہت زیادہ
فکرمند رہنے والے تھے، اپنی ہتھیلیوں کو الٹتے پلٹتے اور اپنے نفس کو خطاب
فرماتے ،سادہ اور مختصر لباس اورسادہ کھانا پسند تھا۔۔۔۔۔اور میں اللہ کو
گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ! میں نے ان کو ایک دفعہ ایسے وقت میں کھڑےدیکھا کہ
جب رات کی تاریکی چھا چکی تھی، اور ستارے ڈوب چکے تھے، اور آپ اپنی محراب
میں اپنی ڈاڑھی پکڑے ہوئے ،جھکے ہوئے تھے ،اور اس آدمی کی طرح تلملا رہے
تھے جسے کسی بچھونے کاٹ لیا ہو، اور غمگین آدمی کی طرح رو رہے تھے، اور ان
کی صدا گویا اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے کہ باربار یاربنا یا ربنا
فرمارہے تھے، اور اللہ کے سامنے گڑ گڑا تے، پھر دنیا کو مخاطب ہوکر فرماتے
کہ اے دنیا! تو مجھے دھوکا دینا چاہتی ہے، میری طرف جھانک رہی ہے، مجھ سے
دور ہو جا، مجھ سے دور ہو جا، کسی اور کو جاکر دھوکا دے، میں نے تجھے تین
طلاق دی ہے؛ کیونکہ تیری عمر بہت تھوڑی ہے، اور تیری مجلس بہت گھٹیا ہے،
تیری وجہ سے آدمی آسانی سے خطرے میں مبتلا ہو جاتا ہے، ہائے ہائے[ میں
کیا کروں]زادِ سفر تھوڑا ہے، اور سفر لمبا ہے، ہر راستہ وحشت ناک ہے۔
یہ سن کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے وہ
اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکے، اور اپنی آستین سے ان کو پوچھنے لگے،
اورمجلس میں موجود لوگ ہچکیاں لے کر اتنا رونے لگے کہ گویاکہ گلے پھٹ گئے،
اس پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک بے شک ابوالحسن [یعنی
حضرت علی] ایسے ہی تھے اللہ ان پر رحمت نازل فرمائے۔[حلیۃ الاولیاء ،ذکر
علی بن ابی طالب ملخصا]
حضرت امیر معاویہ پر طعن اور اہل سنت کا موقف:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں بعض غیر معتمد روایات کو بنیاد
بناکر طعن وتشنیع کر نے والوں کے وبال کے سلسلے میں ہمارے اسلاف نے باضابطہ
کتابیں لکھی ہیں ،خود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس
سرہ[۱۳۴۰۔۱۲۷۲ھ]نے اس حوالے متعدد رسائل لکھے،مثلا:
o البشری العاجلۃ من تحف اجلہ[۱۳۰۰ھ]
o الاحادیث الراویۃ لمد الامیر المعاویۃ[۱۳۰۳]
o عرش الاعزاز والاکرام لاول ملوک الاسلام
o ذب الاھواء الواھیۃ فی باب الامیر معٰویۃ[۱۳۱۲ھ] وغیرہ
صحابہ کرام خصوصا حضرت معاویہ کے سلسلے میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ
والرضوان کا درج ذیل اقتباس بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
’’ سیر میں بہت سے اکاذیب واباطیل بھرے ہیں، کمالایخفیٰ، بہ ہر حال فرق
مراتب نہ کرنا اگر جنوں نہیں تو بد مذ ہبی ہے، بد مذہبی نہیں تو جنون ہے،
سیر جن بالائی باتوں کے لیے ہے، اس حد سے تجاوز نہیں کر سکتے ، اس کی
روایات مذکورہ کسی حیض ونفاس کے مسئلے میں سننے کی نہیں کہ معاذ اللہ ان
واہیات ومعضلات وبے سروپا حکات سے صحابہ کرام حضور سید الانام علیہ وعلیٰ
آلہ وعلیھم افضل الصلاۃ والسلام پر طعن پیداکرنا، اعتراض نکالنا،ان کی شان
رفیع میں رخنے ڈالنا، کہ اس کا ارتکاب نہ کرے گا مگر گمراہ ، بد دین ،
مخالف ومضاد حق مبین ۔ آج کل کے بد مذہب،مریض القلب،منافق شعار ان خرافات
سیر وخرافات تواریخ وامثالہاسے حضرات عالیہ خلفاے راشدین وام المومنین
وطلحہ وزبیر ومعاویہ وعمربن الاص ومغیرہ بن شعبہ وغیرہم اہل بیت وصحابہ رضی
اللہ عنھم کے مطاعن مردودہ اور ان کے باہمی مشاجرات میں موحش ومہمل حکایات
بے ہودہ جن میں اکثر تو سرے سے کذب واحض اور بہت الحاقات ملعون روافض چھانٹ
لاتے اور ان سے قرآن عظیم وارشادات مصطفیٰ اجماع امت واساطین ملت کا
مقابلہ چاہتے ہیں ۔[ العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ج، ۶ ص: ۶۲۶]
امام شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی مصری حنفی[ متوفی ۱۰۶۹ھ] فرماتے ہیں:
ومن یکن یطعن فی معاویۃ
فذک کلب من کلاب الھاویہ
جو حضرت امیر معاویۃ رضی اللہ عنہ پر طعن کرتاہے وہ جہنم کے کتوں میں سے
ایک کتا ہے ۔[نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض ج:۴ ص:۵۲۵]
ہمارے لیے صدر الشریعہ ، بدرالطریقہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ
علیہ کا یہ فرمان مشعل راہ ہے ، ہمیں اپنے آپ کو اس طوفان بد تمیزی کے
محفوظ رکھتے ہوئے اپنے اسلاف کے نظریات کو سینے سے لگائے رہنا چاہیے اور
اسی کو اپنے لیے واجب العمل سمجھنا چاہیے۔
’’ تمام صحابہ کرام اہل خیر وصلاح ہیں ،اور عادل، ان کا جب ذکر کیا
جائےتوخیر ہی کے ساتھ ہو نا فرض ہے۔ کسی صحابی کے ساتھ سوئے عقیدت بد مذہبی
وگم راہی واستحقاق جہنم ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغض ہے؛
ایساشخص رافضی ہے اگرچہ چاروں خلفا کو مانےاور اپنے آپ کو سنی کہے۔ مثلا:
حضرت امیر معاویہ اور ان کے والد حضرت ابو سفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہند،
اسی طرح حضرت سیدنا عمروبن عاص وحضرت مغیرہ بن شعبہ وحضرت وبو موسیٰ اشعری
رضی اللہ عنھم حتی کہ حضرت وحشی جنھوں نے قبل اسلام حضرت سید الشہد حمزہ
رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور بعد اسلام اخبث الناس خبیث مسیلمہ کذاب ملعون
کو واصل جہنم کیا،وہ خود فرماتے تھے کہ میں نے خیر الناس واشر الناس کو قتل
کیا۔ ان میں سے کسی کی شان میں گستاخی ،تبرا ہے اور اس کا قائل رافضی۔[بہار
شریعت، امامت کا بیان ، ج۱ ص: ۲۵۲، ۲۵۳]
موضوع بڑا وسیع ہے اور اس کالم میں اتنی گنجائش نہیں کہ مزید گفتگو کا
سلسلہ آگے بڑھایا جائے،اس لیے میں شوسل میڈیا سے وابستہ قارئین کو یہ
پیغام پہنچاتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
کے شان میں گستاخی کا جوسیلاب شوسل میڈیا میں آیا وہ بہت ہی تباہ کن ہے،
اس کی نحوستوں سے اپنے آپ کو بچائیں، اس سیلاب کی طغیانی سے اپنے ایمان
وعقیدہ اور دنیا وآخرت محفوظ کریں اور کسی طرح بھی اس نامسعود تحریک کا
حصہ نہ بنیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام کی عظمتوں کا پاسبان بنائے اور
ہماری آنے والی نسلوں کو بھی اسلاف کے روش پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ حبیبہ سید المر سلین ۔
|