ڈاکٹر غلام شبیر رانا
پس نوآبادیاتی دور میں اس خطے میں ماضی کے واقعات بالخصوص تاریخ ،تہذیب و
ثقافت،تمدن و معاشرت اور ادب و فنون لطیفہ کے ارتقا پر تحقیق کا سلسلہ جاری
ہے ۔ ایامِ گزشتہ کی کتاب کے اوراق پر نظر ڈالتے ہوئے تاریخ کے اس سبق پر
نظر ڈالنااحتساب ذات کی دلیل ہے اسے ماضی پرستی پر محمول کرنا درست نہیں۔
ماضی پرستی اورروایت کی پاس داری میں جو حد فاصل ہے اُس کی تفہیم وقت کا
اہم ترین تقاضا ہے ۔ روایت کو جامد و ساکت ،اٹل اور ناقابل اصلاح سمجھنا
ایسی غلط سوچ ہے جوزندگی کی مسلمہ صداقتوں کی تکذیب حقائق کی تمسیخ اور
روایات کو منہدم کر کے بے حسی اوربے عملی کو تحریک دیتی ہے ۔ زندگی کے تلخ
حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کووتیرہ بنانے والے سستی جذباتیت کاشکار ہوکر خوب
اور زشت میں امتیاز کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ زندگی کی حقیقی معنویت سے آ
گاہی،مسائل زیست کے بارے میں مثبت شعور اورعصری آگہی سے مزین روایت کے
اعجازسے معاشرتی نظام کو صحت مندبنیادوں پراستوار کرنے میں مدد ملتی
ہے۔ماضی کے واقعات اور تجربات کی روشنی میں آنے والے دورکے لیے لائحہ عمل
مرتب کرتے وقت ترک و انتخاب پر توجہ دینا ضروری ہے ۔تیزی سے بدلتے ہوئے
حالات میں یہ دیکھناچاہیے کہ کون سی اشیاکا وجود ناگزیر ہے اور کون سی
اشیاسے گلوخلاصی حاصل کرناوقت کا اہم ترین تقاضاہے ۔ روایت کے احساس کے لیے
تاریخ کے مسلسل عمل کی اساس پر استوار ہونے والے تاریخی شعور کی اہمیت
مسلمہ ہے ۔ایام گزشتہ کے واقعات کوطاقِ نسیاں کی زینت بنانا غیر حقیقت
پسندانہ سوچ ہے ۔اپنے رفتگاں کی تخلیقات کو زمانہ حال میں یاد رکھنا دلوں
کو ان کے عہد کے واقعات،مشاہدات اور تجربات سے آباد کرنے کے مترادف ہے ۔
زندگی کے ہر مر حلے پرتاریخی شعور انسان کو افکار ِ تازہ کی مشعل تھام کر
مہیب سناٹوں کے خاتمے اور سفاک ظلمتوں کو کافورکر تے ہوئے جہانِ تازہ کی
جانب سرگرم سفر رہنے کاولولہ عطا کرتاہے ۔ آئینہ ٔ ایام میں اپنی ادا پر
غورکرتے وقت محض اپنے زمانے پر نظر رکھناکوتاہ اندیشی کے مترادف ہے ۔تاریخی
شعو ر حریت فکر کے مجاہدوں اور تخلیق کار وں کو وہ فقید المثال بصیرت عطا
کرتاہے جو قدیم یونانی ادیب ہومر ( Homer)کے عہدسے لے کر لمحۂ موجودتک کے
عظیم علمی و ادبی اثاثے اور فکری میراث کواپنے فکر و خیال کی اساس بناتاہے
۔ امریکی نقادٹی۔ایس۔ایلیٹ( ٹی ۔ایس ۔ایلیٹ ( T.S. ELIOT ,1888-1965)
کاخیال ہے کہ محض گزرے ہوئے زمانے کے ’ ماضی پن ‘ کے احساس کو تاریخی شعور
نہیں کہاجاسکتابل کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کی فکری میراث کوزمانہ حال
کے لیے لائق صدرشک و تحسین اثاثہ سمجھتے ہوئے روشنی کے سفر میں ساتھ لے کر
چلیں ۔ اس رجحان ساز ادیب نے اپنے تنقیدی اسلوب کے ایک اہم اور نمائندہ
مضمون روایت اور انفرادی ذہانت ( TRADITION AND THE INDIVIDUAL
TALENT)مطبوعہ 1917ء میں روایت کے بارے میں متعدد اہم حقائق کی گرہ کشائی
کی ہے ۔ماضی اور حال کے شعور سے عبارت روایات کے بارے میں ٹی ۔ایس ۔ایلیٹ
نے لکھاہے :
if you want it you must obtain it by great Tradition is a matter of much
wider significance.It cannot be inherited,and " labour .It involves in
the first place ,the historical sense,which we may call nearly
indespensable to anyone who would continue to be a poet beyond his
twenty-fifth year;and the historical sense, involves a perception ,not
only of the pastness of the past,but of its presence;the historical
sense compels a man to write not merely with his own generation in his
bones,but with a feeling that the whole of the literature of Europe from
Homer and within it the whole of the literature of his own country has a
simultaneous existence and composes a simultaneous order .This
historical
sense ,which is a sense of the timeless as well as of the temporal and
of the timeless and of the temporal together,is what makes a writer
traditional."
.And it is at the same time what makes a writer most acutely concious of
his place in time of his contemporancity.(1)
جنوبی ہند اور شمالی ہند میں اردو زبان و ادب اور دکنی زبان و ادب کے ارتقا
کامطالعہ اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر چکاہے ۔دنیابھر
کے محققین روشنی کے اس سفر پر نگاہیں مرکو ز کررہے ہیں جس کے معجز نمااثرسے
ان علا قوں میں صدیو ں تک اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا۔ روایت کا
جو تصور ٹی ۔ایس ۔ایلیٹ نے پیش کیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے بے بصری پر
مبنی کورانہ تقلیدجدت اور خیا ل آفرینی کی راہ میں سدِ سکندری بن کر حائل
ہو جاتی ہے ۔ تاریخ اور اس کے پیہم رواں عمل پربرطانوی تاریخ دان کیرو لین
فنکل (Caroline Finkel) نے اپنی کتاب (Osman,s Dream) اور جیسن گڈون (
Jason Goodwin)نے سلطنت عثمانیہ کے متعلق اپنی کتاب (Lords of the
Horizons: A History of the Ottoman Empire)سلطنت عثمانیہ کی شقاوت آمیز نا
انصافیوں اور سفاکانہ روّیے کی مظہر جن روایات کا ذکر کیاہے وہ ایک خاص
منفی سوچ کی مظہر ہیں ۔یہی وہ منفی سوچ ہے جس کے تحت کینہ پرور اور متعصب
مورخ ولیم فنچ نے ایک من گھڑت کہانی میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس
قدر ظالم کے روپ میں پیش کیا کہ اس نے ایک بے بس کنیر انار کلی (نادرہ )کو
لاہور میں ایک دیوار میں زندہ چنوا دیا۔بہتان طرازی پر مبنی اس کہانی کے
مطابق سلطنت عثمانیہ کے مطلق العنان حاکم اور اپنے باپ سلطان مراد کی وفات
کے بعدسال 1595ء میں سلطان محمد سوم ( عرصۂ حیات :1566-1603) نے جب اقتدار
( عرصہ ٔ اقتدار:1566-1603) سنبھالا تواپنے سگے بھائیوں کو قتل کر کے بلا
شرکتِ غیرے حکومت کرنے کی صدیوں پرانی شاہی روایت کے مطابق اِس سلطان نے
اپنے اُنیس( 19)بھائیوں کو گلا گھونٹ کر مار ڈالا۔اپنی زندگی سے مایوس ایک
نوجوان شہزادے نے اپنے بڑے بھائی سے التجا کی کہ وہ ان کے باپ کی جگہ ہے ۔
وہ ان پر رحم کرے اور ان کی جاں بخشی کر دے تو اسلاف کی روایات کی پاس داری
کرتے ہوئے سلطان ٹس سے مس نہ ہوااور ایک ایک کر کے اپنے چھوٹے بھائیوں کا
گلا گھونٹ کر انھیں موت کے گھاٹ اُتارنے کے اپنے فیصلے پر نہایت سفاکی سے
ڈٹ گیا۔ سب سے چھوٹے بھائی کی عمر گیارہ سال تھی انیس بھائیوں کی ہلاکت کے
اس صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے نوجوان شہزادوں کی بہنیں بھی دم توڑ گئیں۔
اپنے اُنیس بھائیوں کی زندگی کی شمع گُل کرنے کے بعدسلطان مگر مچھ کے آ نسو
بہانے لگا۔ اس سانحہ کے بعد اس روایت کے خلاف نفرت بڑھنے لگی اور سال 1603
ء میں سلطان محمد سوم کے قتل کے بعد یہ روایت ختم ہو گئی۔ گو سفندانِ قدیم
کے مانند ایک ہی ڈگر پر چلنا اور شتر بے مہار کی طرح پامال راہوں پر گامزن
رہنا اوربز اخفش کی صورت ہر بات پر اثبات میں سر ہلادینا ذہنی افلاس کی
دلیل ہے ۔ ٹی ۔ایس۔ایلیٹ نے اس قسم کی کیفیت کے خلاف آواز بلندکی اورتخلیق
ادب میں ندرت و تنوع کو زاد راہ بنانے پر زور دیا۔تقلید کی اس روش پر گرفت
کرتے ہوئے شاعر نے سچ کہاتھا:
تقلید کی روش سے تو بہترہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈخضر کا سودا بھی چھوڑ دے
جنوبی ہند اور شمالی ہند بالخصوص دکن اور دہلی میں اردو زبان و ادب اور
دکنی زبان و ادب کے ارتقا کامطالعہ کرتے وقت ٹی ۔ایس ۔ایلٹ کے تصور روایت
سے مدد لی جا سکتی ہے ۔ ایک رجحان ساز ادیب اور نقاد کی حیثیت سے 1920 ء سے
لے کر 1930 ء تک کے عرصے میں ٹی۔ایس۔ایلیٹ نے جو مضامین لکھے وہ اس کے
تنقیدی خیالات اور ادبی نصب العین کے آئینہ دار ہیں ۔ان مضامین کے مطالعہ
سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بیسویں صدی کے وسطی عشروں میں نئی تنقید کی ادبی
تھیوری جس نے مروّج امریکی ادبی تنقید پرغلبہ حاصل کر لیا ،اس نے چشم کشا
صداقتوں کے امین ان مضامین کی اساس پر اپنے افکار کی بنیاد رکھی ۔ رومانوی
تنقید نے تخلیق شعرکے اس تصور پر گرفت کی جس کے مطابق یہ کہا جاتاہے کہ
شاعری کی تخلیق کامقصدتخلیق کار کی شخصیت کا اظہار ہوتاہے ۔ٹی ۔ایس۔ایلیٹ
نے تخلیق فن کو غیرشخصی نوعیت کی فعالیت سے تعبیر کیا ۔استعارے کوشاعری کا
حقیقی جوہر قرار دینے کے معاملے میں ٹی۔ایس۔ایلیٹ اور امریکی شاعر اور نقاد
ایذرا پاونڈ ( 1885-1972 : Ezra Pound )کے خیالات میں گہری مماثلت پائی
جاتی ہے ۔ استعارے کے متعلق جہاں تک ایذرا پاونڈ کاتعلق ہے اس کے خیالات
چینی خط تصویری سے نمو پاتے ہیں جب کہ ٹی ۔ایس۔ایلیٹ کی تنقید میں استعارے
کے بارے میں جو احساس جلوہ گر ہے اس کے سوتے فرانس کے علامت پسندوں،سٹیفن
میلارمے ( Stéphane Mallarmé,) ،پال ورلین( Paul Verlaine) ،آرتھر رمباڈ(
Arthur Rimbaud)، جولیس لیفورگ(Jules Laforgue) ، ہینرائڈریگنر (Henri de
Régnier)اور سترہویں صدی کے ’ مابعد الطبیعاتی ‘ فکر کے علم بردار انگریزی
کے شعرا سے پھوٹتے ہیں۔
تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی تمنا میں ہر تخلیق
کارپامال راہوں سے بچ کر نئے انداز اور نئے موضوعات کی جستجو کرتاہے یہی اس
کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ اٹھارہویں صدی کے خاص حالات میں جب عقلیت پرستی
کے مظہر معاشرتی نظم و ضبط کے کڑے معائر کے خلاف شدید ردِ عمل سامنے آیاتو
متعدد مشاہیر نے اپنے ان خیالات کا اظہار کیا کہ فطرت نے تو انسان کو آزاد
پیداکیاہے مگر معاشرے کی طرف سے عائدکی گئی ناروا پابندیوں کے نتیجے میں
انسان ہر جگہ پا بہ جولاں ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچاکہ حقائق کی دنیا تو
محدود ہے مگر تخیل کی جولانیاں حدِ ادراک سے بھی باہر ہیں ۔جنیوا سے تعلق
رکھنے والے فلسفی،مصنف اور فنون لطیفہ کے نقاد روسو ( 1712-1778
:Jean-Jacques Rousseau ) نے اس جانب متوجہ کیا کہ مادی دور میں صنعتی ترقی
کے باعث ہوسِ زرمیں ہونے والے اضافہ نے افراد کو غیر یقینی حالات اور غیر
معمولی اضطراب کی بھینٹ چڑھا دیاہے ۔ یہ زوال پذیر معاشرہ ہی ہے جو پیدائشی
طور پر خوش خصال بچے کوبُر ی عادات و نا پسندیدہ اطوار اورتباہ کن خصائل کی
دلدل میں پھینک دیتاہے ۔ بیسویں صدی میں بھی حالات نے ایسا رخ اختیار کیا
کہ مجبور انسانوں کی کوئی امید بر نہ آئی اورنہ ہی اصلاح احوال کی کوئی
صورت دکھائی دی ۔ معاشرتی انتشار کی جس لرزہ خیز اوراعصاب شکن صورت حال نے
وکٹورین عہد کے بر طانوی شاعر اور ادبی نقاد میتھیو آرنلڈ (
1822-1888:Matthew Arnold )کے زمانے میں زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی
تھیں بیسویں صدی میں انھوں نے انتہائی گمبھیر صورت اختیار کر لی ۔بیسویں
صدی کے آغاز میں روسو کے افکارکے خلاف جن ادیبوں کا رد عمل سامنے آیااُن
میں امریکی ادیب ارونگ بیبٹ (1865-1933 :Irving Babbitt ) ،امریکی
نقادایذرا پاونڈ( 1885-1972 :Ezra Pound)اوربر طانوی فلسفی ٹی ۔ای ہیوم
(1883-1917 : T. E. Hulme ) شامل ہیں ۔ارونگ بیبٹ نے رومانوی سوچ کی وضاحت
کرتے ہوئے اس امر کی صراحت کر دی کہ رومانویت نے ’ تغیر ‘ کو اِس عالمِ آب
و گِل کی مسلمہ صداقت قراردیاہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک ’ ثبات ‘ اور
’تغیر ‘ کاتعلق ہے بادی النظر میں دونوں ہی ارض و سماکے جملہ حقائق کی گرہ
کشائی کرتے ہیں ۔ان شواہدکے پیش ِنظر چشمِ بیناسب گورکھ دھندوں اورسرابوں
سے بچ کر آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری میں ’ ثبات ‘ میں ’ تغیر ‘ اور ’ تغیر
‘میں ’ ثبات ‘ کی جلوہ گری کے حیران کن مناظر دیکھ لیتی ہے ۔ شایداسی لیے
علامہ اقبال نے کہا تھا:
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اپنی ادبی زندگی کے آغازمیں میں ٹی۔ایس۔ ایلیٹ نے دیکھاکہ معاشرتی زندگی کے
افق پر رومانویت کے تصورات چھائے ہوئے ہیں۔ان حالات میں ٹی۔ایس۔ ایلیٹ نے
انفرادیت کو لائق استرداد ٹھہراتے ہوئے ارفع معائر کی جستجو کو اپنا مطمح
نظر ٹھہرایا۔ اپنی ادبی زندگی میں ٹی ایس ایلیٹ نے جدیدیت کو اہم خیال
کیا۔اپنے اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے ٹی ۔ایس ۔ایلیٹ نے سال 1928میں کہا تھا:
’’ میں سیاست میں شاہ پسند،مذہب میں کیتھولک اور ادب میں کلاسیکیت کا قائل
ہوں ۔‘‘ (2)
جنوبی ہند اور شمالی ہند بالخصوص دکن اور دہلی میں اردو زبان و ادب اور
دکنی زبان و ادب کے ارتقا کامطالعہ کرتے وقت عالمی کلاسیک اور تنقید ی
اثاثے پر نظر ڈالنا ضروری ہے ۔ تخلیقی فن پارے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے
ٹی۔ایس۔ ایلیٹ نے ممتاز نقادایذرا پاونڈ اور بر طانوی فلسفی ٹی ۔ای ہیوم کے
خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے تخلیق کار کے بجائے تخلیقی فن پارے کے عمیق
مطالعہ پر اصرار کیا۔ ٹی۔ایس۔ ایلیٹ کواس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون ہے
جو کچھ کہہ رہاہے بل کہ وہ یہ دیکھنا چاہتاہے کہ کیاکہاگیاہے ۔اس کی توجہ
اس بات پر مرکوز رہتی ہے کہ کسی بھی زبان کے ادب پارے کی غواصی کرنے سے
مفاہیم کے کون سے گوہر نایاب دستیاب ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے تنقید میں
ادب پارے کی تحلیل ،تجزیہ اور وضاحت کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا۔تاریخ
ایک مسلسل عمل کانام ہے جس کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ہر عہد کی نسل
اپناذوق سلیم اپنے ساتھ لاتی ہے ۔وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلیں
اقتضائے وقت کے مطابق تخلیق کار سے نئے زمانے نئے صبح و شام پیداکر نے
کاتقاضا کرتی رہی ہیں۔ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے
ٹی۔ایس۔ایلیٹ نے اقدار کے تعین کے سلسلے میں تخلیق ادب اور تنقید کے
ارتقائی مدارج پر بھی نظر ڈالی ہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کی کسی بھی زبان کا پور ا نظام
اور مکمل لسانی ڈھانچہ اُس زبان کی گرامر کے قواعد کی اسا س پر استوار
ہوتاہے ۔اس لسانی ڈھانچے میں زبان کی ساخت ،صرف و نحو
،قواعدی صوتیات ،معنویات اور آوازوں کا زِیر و بم شامل ہے ۔کسی زبان کی
گرامر ہی قاری اور لسانیات کے مبتدی طالب علموں کو اُس زبان کے استعمال اور
اس سے وابستہ جملہ اسرار و رموزکے بارے میں مثبت شعور و آ گہی سے فیض یاب
کرتی ہے۔کسی زبان کی گرامر کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس خاص زبان
میں الفاظ کو باہم مربوط بنانے اور انھیں گہری معنویت عطا کرنے کی غرض سے
لسانی سطح پر کیا اقدامات نا گزیر ہیں ۔ واقعتاً یہ گرامر ہی ہے جس کے
وسیلے سے کسی بھی زبان کی ساخت ،صرف و نحو ،لحن ،قواعدی صوتیات اور معنویات
کے بارے میں مستند ،قابل فہم اورثقہ معلومات ملتی ہیں ۔گرامر کے معجز نما
اثر سے بات چیت اوراظہار و ابلاغ کے تمام مروّج سلسلوں کو ایسا دل کش آ ہنگ
نصیب ہوتا ہے کہ محو تکلم فرد کے دِل سے نکلنے والے حرفِ صداقت سے ثروت مند
پُر کیف، با معنی اور قلب او رر وح کی گہرائی میں اُترنے والی اثر آفرینی
سے مزّین جُملے جامد و ساکت پتھروں ،سنگلاخ چٹانوں اور بے حس مجسموں سے بھی
اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتے ہیں۔ در اصل کسی بھی زبان کی گرامر زبان کے
اُن قواعد سے عبارت ہے جو تقریر و تحریر کے دوران میں ا ہلِ زبان میں مروّج
و مقبول رہے ہیں ۔ اپنی ہمہ گیر افادیت اور اہمیت کی وجہ سے گرامر اور اس
سے متعلق مباحث ہر عہد میں قارئین ِ ادب کی دلچسپی کا محور رہے ہیں ۔
بادی النظر میں یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ معاشرتی زندگی میں انسانی
افعال،عادات و اطوار،تکلم اور اظہار و ابلاغ کے سلسلوں سے مطالب و معانی کے
سوتے پُھوٹتے ہیں۔اس حقیقت کے پیشِ نظر اس بارے میں کوئی ابہام نہیں کہ اس
تمام عمل کے پس پردہ کوئی نظام یقیناً کار فرما ہے جو اس پُورے نظام کو
ممکنہ حد تک صحیح سمت میں رواں دواں رکھنے میں ہمہ وقت مصروف عمل ہے ۔
جنوبی ہند اور شمالی ہند بالخصوص دکن اور دہلی میں اردو زبان و ادب اور
دکنی زبان و ادب کے ارتقا کامطالعہ کرتے اکیسویں صدی کے امریکی ماہر
لسانیات جو ناتھن کیولر ( Jonathan Culler:B,1944 )کے خیالات بھی خضر راہ
ثابت ہو سکتے ہیں۔ جو نا تھن کیولرنے لسانیات کی تکنیک کو براہ راست تخلیقِ
ادب اور اس کے لا شعوری محرکات پر منطبق کرنے کے رجحان کے بارے میں اپنے
تحفظات کا اظہار کیا۔اس نے زور دے کر یہ بات کہی کہ ادب کی گرامر ہی ید
بیضا کا معجزہ دکھاتی ہے اور یہی ادبی ساختیات اور تخلیقات کے جُملہ اسرار
و رموز کے طلسم کی گرہ کشائی کی استعداد سے مالا مال ہے ۔ ایک رجحان ساز
ادیب اور جری نقاد کی حیثیت سے جوناتھن کیولر نے تخلیق ادب کی گرامر کو بہت
اہم قرار دیا ۔ اس کا خیال ہے کہ تکلم اور گفتگوکے سبھی سلسلوں سے صر ف
اُسی صورت میں قابل فہم،مثبت اور نتیجہ خیز مفاہیم اور مطالب کے گہر ہائے
آب دار بر آ مد ہو سکتے ہیں جب ان کے بارے میں نہ صرف مکمل سیاق و سباق کا
علم ہو بل کہ پہلے سے موجود مجلسی قواعد و ضوابط اور زبان و ادب کی گرامر
کے بارے میں حقیقی شعور و آ گہی بھی حاصل ہو ۔ اس کی رائے میں ادب کے
سنجیدہ قاری کا ذوقِ سلیم سے متمتع ہونا ضروری ہے جس کے اعجاز سے وہ کسی
بھی ادب پارے کے بارے میں اپنی رائے قائم کرنے کا مجاز سمجھا جاتا ہے ۔
لسانیات کے حوالے سے سوئٹزر لیند سے تعلق رکھنے والے ماہر لسانیات سوسئیر (
Ferdinand de Saussure :1857-1913 )کا ایک اہم کام یہ ہے کہ اس نے لسانی
امور کی تفہیم کے لیے دو اہم اصطلاحیں متعارف کرائیں ۔ان دو اصطلاحو ں کے
ذریعے وہ اپنے تصورات کی توضیح کرتا ہے۔پہلی اصطلاح کو وہ لانگ (Langue)ٌکا
نام دیتا ہے ۔لانگ سے مراد زبان کا تجریدی نظام (Abstract System)ہے۔اس سے
وہ ایسی زبان مراد لیتا ہے جو ابلاغ ،بول چال اور مکالمات کے ذریعے اپنی
تفہیم کی یقینی صورت پیدا کر سکے ۔دوسری اصطلاح پارول (Parole)ہے ۔سوسئیر
پارول سے ایسی زبان مراد لیتا ہے جو بولنے والے کی کامل دسترس میں ہوتی ہے
۔دوسرے لفظوں میں یہ بات اس طرح بیان کی جا سکتی ہے کہ لانگ(Langue)اپنی
نوعیت کے لحاظ سے قواعد کے ایک غیر شخصی ذہنی تصور اورفعالیت کا ایک روپ ہے
۔جہاں تک پارول (Parole)کا تعلق ہے اسے سوسئیر کے خیال کے مطابق ایک قابل
عمل طریق کار کا نام دیاجا سکتا ہے ۔ اس کے معجز نما اثر سے مطالب و مفاہیم
کے غیر مختتم سلسلے سے آ گہی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔دنیا کی کسی بھی
زبان کے لسانی ارتقا اور اس میں اظہار و ابلاغ کی کیفیات کے بارے میں جاننے
کے لیے ضروری ہے کہ اس زبان کے پورے نظام کو سمجھا جائے اور مختلف مفاہیم
اور مطالب کے ضم ہونے کے پیچیدہ عمل پر نگاہ ٖڈالی جائے ۔ایک ذہین ماہر
لسانیات کی بنیادی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ذوق سلیم کی تسکین کی
خاطرمحض زبان میں ادا کیے جانے والے الفاظ ،آوازوں اور لہجوں پر توجہ مرکوز
رکھے بل کہ دیگر عوامل کو بھی پیشِ نظر رکھنا از بس ضروری ہے ۔ اُسے چاہیے
کہ وہ اُن تمام شواہد پربھی غور کرے جو زیرِ مطالعہ لسانی نظام کی حقیقت او
ر اصلیت کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوں ۔ لانگ اور
پارول کے موضوع پر اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے جوناتھن کیو لر نے لکھا
ہے :
,,The basic distinction on which modern linguistics rests,and which is
equally crucial to the structuralist enterprise in other fields,is
Saussure,s isolation of langue from parole.The formeris a system ,an
institution ,a set ofinterpersonal rules and norms,while the later
comprises the actual manifestations of t hw system in speech and
writing. It is of
learn English is not to memorize a set of utterances;it is to master a
system of rulesand norms which make it possible to produce and
understand utterances.(3)
جو نا تھن کیولر نے سو سئیر کے خیالات کے بجائے عصر ِ حاضر کے ممتاز امریکی
ماہر لسانیات نوم چومسکی ) B:1928:Noam Chomsky )کے لسانی تصورات کو لائقِ
اعتناسمجھا۔ نوم چو مسکی کا خیال ہے کہ کسی بھی شخص کو زبان کی تفہیم کی جو
صلاحیت ودیعت کی گئی ہے وہی اس کی اہلیت(Competence) ہے اور وہ جس انداز
میں زبان سے اظہار و ابلاغ کو یقینی بناتا ہے اسے نوم چومسکی اس شخص کی
کارکردگی (Performance) سے تعبیر کرتا ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ سامنے آ تا ہے
کہ لسانیات میں کسی شخص کی اہلیت اور کا رکردگی ہی لسانی ارتقا اور تخلیقی
فعالیت کی ضامن ہے۔ جو نا تھن کیولر کا خیال ہے کہ نوم چومسکی کا اہلیت اور
کا ر کر دگی (COMPETENCE and PERFORMANCE )کا نظریہ عصری آ گہی کوپروان
چڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔نوم چومسکی نے ان خیالات کا اظہار اپنی
تصنیف نظریہ اور نحو کے پہلو( Aspects of the Theory of Syntax)میں کیا ہے
۔ اپنے لسانی نظر یات کے بارے میں نوم چومسکی نے تخلیقی گرامر ( GENERATIVE
GRAMMAR)میں کُھل کر اظہار خیال کیا ہے ۔اس کے مطابق جملوں کی ساخت ،تشریح
اورتلفظ کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔ جنوبی ہند اور شمالی ہند
بالخصوص دکن اور دہلی میں اردو زبان اور دکنی زبان کے قدیم ادب کے ارتقا
کامطالعہ کرتے وقتلسانی گرامر کے بارے میں نوم چومسکی کا خیالات سے استفادہ
بہت مفید ہے۔ اُس کا خیال ہے کہ کسی بھی زبان کی گرامر کے وسیلے سے اظہار و
ابلاغ کے نئے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔اس عمل کے دوران میں تکلم او ر سماعت
کے سلسلے کو آگے بڑھانے کی غرض سے ایسے جوڑے اور سیٹ بنائے جاتے ہیں جو
صوتیات،نحویات اور لسانیات میں کلیدی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ جو نا
تھن کیولر کا خیال ہے کہ لسانی نظام کو اپنی نو عیت کے اعتبار سے نوائے
سروش کی حیثیت حاصل ہے ۔اس نے سوسئیر کے بجائے نوم چومسکی کے نظریات کو اس
لیے بھی ارفع سمجھا کہ اس کے
مطابق متکلم کے فکر و خیال کی دنیا اور اظہار و ابلاغ میں ایک خاص نو عیت
کی ہم آ ہنگی پیدا ہو جاتی ہے جس کی نوم چومسکی نے ایک ادراکی ماڈل کے
ذریعے لسانی عمل کی تفہیم کے سلسلے میں سعی کی ہے:
اشارات ------ PM --------- نحوی نمائندگی
دیگر اطلاعات -------- ------- لسانی نمائندگی
-------------صوتی نمائندگی
جو نا تھن کیولر نے اپنے معاصر اور ہم وطن ماہر لسانیات نوم چومسکی کے
لسانی نظریات کو ہمیشہ قدر کی نگا ہ سے دیکھا ۔ نوم چومسکی نے ایس آئی(
SI)کی صورت میں لسانی جوڑے کو اپنے ماڈل میں جگہ دی ہے ۔اس نے ایس(S)سے
صوتی نمائندگی مراد لی ہے جب کہ وہ آئی ( I ) کولسانی نمائندگی کا ایسامظہر
قرار دیتا ہے جو بیان کی تشریح و توضیح کی استعدا درکھتا ہے۔اپنی اصلیت کے
اعتبار سے یہ ایک ایسا
لسانی ماڈل ہے جو اپنی کارکردگی کے اعتبار سے ایک خاص آہنگ رکھتا ہے اور اس
کا انسلاک آوازوں اور مفاہیم سے ہے ۔یہ ایک ادراکی ماڈل ہے جسے نوم چومسکی
نے پی ایم(PM)کا نام دیا ہے۔ یہی لسانی ماڈل نوم چومسکی کے خیال میں لسانی
گرامر کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔اسے وہ ایک ایسے ادراکی لسانی
آلے سے تعبیر کرتا ہے جو اشارات ،نوائے دل کشا اور آہنگ و صوت کو درآمدی
معلومات کے طور پر وصول کرنے کے بعدبر آمدی اظہارات کے مختلف رُوپ سامنے
لاتا ہے جن کا کرشمہ نحوی،لسانی اور صوتی نمائندگی کی صورت میں قاری کو
مسحور کر دیتاہے ۔جو نا تھن کیو لر نے نوم چومسکی کے خیالات کوبہ نظر تحسین
دیکھتے ہوئے لکھا ہے :
,, In linguistics the distinction between rule and behaviour is most
conveniently expressed by Chomsky,s terms competence and
performance,which are related ,respectively to langue and parole.(4)
کاروان ہستی کا تیز گام قافلہ پیہم رواں دواں ہے ،رخش ِ حیات رو میں ہے اور
انسان کا نہ توہاتھ باگ پر ہے اور نہ ہی وہ پا در رکاب ہے ۔ پرِ زمانہ کے
بارے میں یہ تاثر ہے کہ یہ تو پروازِ نُور سے بھی کہیں بڑھ کر تیز ہے اور
عملی زندگی میں افکار و تصورات بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں ۔جو نا تھن
کیولر کو اس بات کا شدت سے احساس رہا کہ یورپ میں سال 1900میں نمو پانے
والی ساختیاتی فکر کے متعدد علم بردار اپنے کیمپ کو چھوڑ کر چلے گئے اور پس
ساختیاتی فکر کا پر چار کرنے میں اپنی صلاحیتوں کا بر ملا اظہار کرنے
لگے۔اس کے نتیجے میں سال 1970کے بعد ساختیاتی فکر کو ہدف تنقید بنایا جانے
لگا۔جو ناتھن کیولر نے جوزی ہراری(Jouse Harari)کی ایک کتاب کے حوالے سے
لکھا ہے کہ مصنف کی تحقیق کے مطابق وہ ماہرین لسانیات، نقاد اور محققین جو
کسی زمانے میں ساختیاتی فکر کے بنیاد گزاروں اور پُر جوش حامیوں میں شمار
ہوتے تھے مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد اب وہ اپنا پرانا موقف بدل چکے ہیں۔مثال
کے طور پر ،رولاں بارتھ(Roland Barthes) ،گلز ڈیلیوز(Gilles Deleuze)،یو
گینو ڈو نیٹو(Eugenio Donato)،مشل فوکاں(Michel Foucault) ،گری ناڈ گرنٹے
(Gerard Genette) ،رینی گیراڈ (Rene Girard) ،لوئس مارن(Louis Marin)،مشل
رفاترے (Michael Riffaterre) اور مشل سیریس(Michel Serres) نے پس ساختیاتی
فکر کو اپنا لیا ۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ادب کے عالمی افق پر ساختیاتی
فکر کے ہم نوا کم کم دکھائی دیتے تھے ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ فرانسیسی
ماہر لسانیات کلاڈ لیوی سٹراس ( 1908-2009 :Claude Lévi-Strauss )اور
بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے ماہر علم بشریات،ماہر لسانیات اور نقاد تزویتان
تودوروف ( Tzvetan Todorov: 1939-2017 )کے علاوہ کوئی بھی ساختیاتی فکر کے
حق میں اپنی آواز بلند نہ کر سکا ۔جو نا تھن کیولر کے خیال میں یہ اصولِ
فطرت ہے کہ فکر و خیال کی بنیادی تبدیلیاں اقتضائے وقت کے مطابق رونما ہوتی
رہتی ہیں ۔ اس کا خیال ہے کہ چرب زبانی اور ملمع سازی سے کسی نئے نظریے کو
تقویت دینا حیران کن واقعہ ہے ۔پس ساختیاتی فکر کی چکا چوندکے بارے میں
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جو نا تھن کیو لر نے لکھا ہے:
,, Of Course ,radical transformations and conversions do occur,but hen
so many of yesterday,s structuralists are today,s post-
structuralists,oubt arise about the distinction,especially since it is
so dubiously defined.If post -structuralism is supposed to be the
vigilant critique of prior delusions of mastery, it is difficult to find
writings by
structuralists that are sufficiently unself-concious to fit this pattern
.,, (5)
جنوبی ہند اور شمالی ہند بالخصوص دکن اور دہلی میں سولہویں صدی عیسوی میں
تخلیق ہونے والے ادب پر تحقیق کام وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔یہاں سوال پیدا
ہوتا ہے کہ تاریخی اعتبار سے اس قدیم ادب کی اہمیت اور افادیت کیاہے ؟ادبی
نظریہ سے کیا مراد ہے ؟ادب ،تہذیب وثقافت اور تخلیقی محرکات کا آپس میں کیا
تعلق ہے ؟یہ وہ استفہامیے ہیں جن کو بالعموم ساتواں در سمجھا جاتا ہے ۔اکثر
نقاد ان موضوعات کو بھاری پتھر سمجھتے ہوئے چُوم کر رکھ دیتے ہیں۔ اس موضوع
پر جوناتھن کیولر کے خیالات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ۔جو نا تھن کیولر نے
کلاسیکی عہد کے مصنفین یا اپنے عہد کے پیش رو ادیبوں کی نمائندہ تخلیقات کا
محتاط مطالعہ کیا ۔اس نے اس جانب توجہ دلائی کہ ہر عہد میں لسانی تصورات
پیہم مائل بہ ارتقا رہے ہیں۔لسانیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر عہد
میں لسانی ارتقا کے متعدد مدارج سامنے آتے رہے ہیں۔ساختیاتی فکر کے بنیاد
گزاروں کے فکر ی ارتقا کو بھی اسی تاریخی تناطر میں دیکھنا چاہیے ۔کلاڈ
لیوی سٹراس اور رولاں بارتھ (1915-1980 : Roland Barthes )کے افکار کا
تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت یہ بات کُھل کر سامنے آ تی ہے کہ وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ ان نقادوں کے اسلوب میں ساختیاتی فکر کے ٹمٹماتے چراغ کی لو مدھم
پڑنے لگی تھی ۔رفتہ رفتہ ان زیرک تخلیق کاروں کو اس بات کا احساس ہونے
لگاکہ اگر انھوں نے اقتضائے وقت کا ساتھ دیتے ہوئے خود کو اظہار و ابلاغ کی
حدود اور قیود سے رہا نہ کیاتو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وقت سے بہت پیچھے رہ
جائیں ۔آئینِ نو سے ڈرنااور طرز کہن پہ اڑنا فکر و خیال کی وادی کے رہ
نوردانِ شوق کی طویل مسافت میں ایک کٹھن مر حلہ ہے ۔ساختیاتی فکر کو ابتدا
ہی سے اپنی جو لاں گاہ کی تنگی کا احساس تھا ۔اُن کے ہاں احتسابِ ذات کی
مظہر تنقیدی بصیر ت قاری کے لیے انوکھا تجربہ ہے ۔اسی بصیرت کے معجز نما
اثر سے انھوں نے اپنے افکار کی نئے سرے سے شیرازہ بندی کی اور نئے عزم کے
ساتھ پامال راہوں سے بچتے ہوئے، خضر کا سودا چھوڑ کر نئی منزل کی جانب اپنے
سفر کا آ غاز کیا۔انھوں نے ساختیاتی فکر سے نمو پانے والے افکار کی اس طرح
حنا بندی کی کہ نئے تصورات کی مسحور کُن مہک سے قریۂ جاں معطر ہو گیا۔جونا
تھن کیولر نے ادب پاروں کے قابل مطالعہ ہونے کی
اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس امر کی صراحت کی ہے کہ تخلیق کار کو قارئین
ادب کے ذوق اور مقیاس ذہانت کو ملحوظ رکھنا چاہیے ۔اگر تخلیق کار کی زبان
سادہ ،سلیس اور عام فہم ہو گی تو یہ وصف اسلوب کی اثر آفرینی کو چار چاند
لگا دے گا۔
جنوبی ہند اور شمالی ہند بالخصوص سر زمین دکن اور دہلی کے مضافات میں اردو
زبان و ادب اور دکنی زبان و ادب کے ارتقا کامطالعہ کرتے وقت اس عہد کی
تخلیقات کے پا پردہ کارفرما محرکات اور ادبی تھیوری پر نظر ڈالنا ضروری ہے
۔ قدیم زمانے کے ادب سے وابستہ متعددحقائق ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں
اوجھل ہو چکے ہیں۔ ادبی تھیوری کیا ہے اس کے بارے میں جو نا تھن کیو لر کا
خیال ہے کہ اس کی مکمل اور جامع تعریف ایک کٹھن مر حلہ ہے ۔جوناتھن کیولر
نے معروف امریکی فلسفی رچرڈ رورٹی (Richard Rorty)کاحوالہ دیا ہے جس نے
انیسویں صدی میں شروع ہونے و الے ایک نئے ملے جلے اسلوب یا سٹائل کی جانب
اشارہ کیا تھا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب گوئٹے(Johann Wolfgang Goethe)
،میکالے(Macaulay) ،ایمرسن(Emerson) اور کا رلائل(Thomas Carlyle) کے اسلوب
کی ہر سُو دھوم مچی تھی۔اس عہد میں ایک خاص نوعیت کے اسلوب کی آ ئینہ دار
تحریروں کو پزیرائی نصیب ہوئی۔اسی کی جانب متوجہ کرتے ہوئے رچرڈ رورٹی نے
اسے ایک نئے جینر (Genere)سے تعبیر کیا ہے ۔اگر کوئی تخلیق کاراپنے منفرد
اسلوب کو اپناتے ہوئے ایسے ادب پارے منصۂ شہود پر لاتا ہے جو قارئین کے فکر
وخیال میں سما کرقلب اور روح کی گہرائیوں میں اُتر جائیں تو ایسی تخلیقات
کو آفاقیت کا مظہر سمجھا جاتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنوبی ہند اور
شمالی ہند بالخصوص سر زمین دکن اور دہلی کے مضافات میں اردو زبان و ادب اور
دکنی زبان و ادب میں سولہویں صدی عیسوی میں نمو پانے والے نئے ادبی جینزکی
جستجو کی جائے۔
اپنی تنقیدی بصیرت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے جو نا تھن کیو لر نے اس حقیقت کی
طر ف اشارہ کیا ہے کہ صریرِ خامہ بلا شبہ نوائے سروش ہی ہے جس کے لا شعوری
محرکات اور مضمرات کاکھوج لگانا بعید از قیاس ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ امر بھی
پیشِ نظر رکھنا لازم ہے کہ جب ایک تخلیق کار تخلیق فن کے لمحوں میں اپنے
اشہبِ قلم کی جو لانیاں دکھاتا ہے تو صریر خامہ نوائے سروش کی صورت اختیار
کر لیتی ہے ۔ تخلیقی فعالیت کے دوران میں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے
کار لاتے ہوئے گل دستۂ معانی کواس منفر د ،پر کشش اور نئے ڈھنگ سے آراستہ
کرتا ہے کہ ایک گلِ تر کا مضمون بھی سو رنگ سے نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔
اسلوب کی اس ہمہ گیر بو قلمونی ،ندرت اور تنوع کے باوجود اس گلِ تر کی
رنگینی ،رعنائی اور عطر بیزی کا استحسان ممکن ہے ۔جس طرح مٹی کے گل دان کے
بجائے اس میں سجے گل ہائے رنگ رنگ دیکھنے والے کی نگاہوں کو بھلے لگتے ہیں
اسی طرح متن کے بجائے اس میں موجود مفاہیم ہی قاری کے لیے نشاط اور بے خودی
کا منبع ثابت ہوتے ہیں۔ طرزِ خاص ،منفرداسلوب (Genere) کے حوالے سے جو نا
تھن کیو لر نے لکھا ہے :
,,Theory in literature is not an account of the nature of literatureor
methodsfor its study.It,s a body of thinking and writingwhose limits are
exceeedingly hard to define.---------- The most convenient designation
of this miscellaneous gener is simply nick name theory.,, (6)
جو نا تھن کیولر نے نئی نسل کو اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے اور تحقیق و
تنقید میں دلچسپی لینے کا مشورہ دیا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح طوفانِ باد
و باراں میں سمندروں یا دریاؤں کی متلاطم موجوں میں جو سفینہ پتوار یا
بادبان سے محروم ہو اس کا کوئی نگہبان نہیں ہوتا ۔اس بد قسمت سفینے کی
تباہی نوشتۂ تقدیر کے مانند اس پر ثبت ہو جاتی ہے ۔اسی طرح عملی زندگی میں
منزل مقصود کے تعین کے بغیر کوئی بھی انسان مطمئن زندگی بسر نہیں کر
سکتا۔منزل مقصود پر پہنچ کر گوہرِ مراد حاصل کرنے کے لیے علم کی محبت
،زندگی کے اسرار و رموز سمجھنے کی لگن،حقائق کی گرہ کشائی کی تمنا اور ادب
پاروں میں پنہاں مفاہیم کی تہہ تک پہنچنے کی تڑپ نا گزیر ہے ۔یہی وہ معیار
ہے جسے فہم و فراست اور بصیرت و تدبر کی کسوٹی سمجھا جاتا ہے ۔
تاریخ کے ہر دور میں مختلف ادبی تحریکیں فکر و نظر کو مہمیز کرتی چلی آ رہی
ہیں۔ان میں نئی تنقید،مارکسی تنقید،وجودیت،مظہریات،جدیدیت ما بعد جدیدیت،
ساختیات ،پس ساختیات،علامتی ابلاغ اور رد تشکیل نے جمود کا خاتمہ کر کے
تنقید ،تحقیق اور تخلیق ادب کے شعبوں پر دُوررس اثرات مرتب کیے ۔ ادب کے
تجزیاتی مطالعہ کے متعدد طریقے ہیں،ان میں نئی تنقید کو ماضی میں ایک معتبر
طریقے کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ۔لفظ نئی تنقید (New Criticism)کو سب سے پہلے
جول الیس سپنگرن (Joel Elias Spingran,B:17-5-1875,D:25-7-1939) نے اپنے
ایک توسیعی لیکچر میں استعمال کیا جو اس نے کو لمبیا یو نیورسٹی میں نو
مارچ 1910کو دیا۔ یہ لیکچر سال 1911میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ سال
1920سے سال1930کے عرصے میں نئی تنقید کے ابتدائی دھندلے نقوش بحر اوقیانوس
کے پار کے ممالک اور امریکی ادبیات پر دکھائی دیتے ہیں ۔نئی تنقید کے علم
بردار اس امر پر اصرار کرتے تھے کہ تخلیق فن کا مقصدمحض تخلیق فن ہی ہے اور
تخلیقی فن پارے میں نہاں متن اس قدر جامع ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف آپ اپنے
مفاہیم کی گرہ کشائی کرتا ہے بل کہ اس کو ہر اعتبار سے ہئیت کے ہم پلہ
سمجھنا چاہیے۔ نئی تنقید نے تخلیقی فعالیت کی درجہ بندی،مختلف اصناف میں اس
کے شمار اور خاص زمروں میں اس کی ترتیب کے سلسلے میں وہ معیار اپنانے پر
زور دیا جو ادب پارے کی ہئیتی صفات سے مطابقت رکھتا ہو۔نئی تنقید کے بارے
میں یہ تاثر عام ہے کہ نئی تنقید نے ادب کے بالعموم اور بالخصوص شاعری کے
عمیق مطالعہ پر اپنی توجہ مرکوز کی۔نئی تنقید کے علم برداروں کا استدلا ل
یہ تھا کہ ہر متن مجموعی اعتبار سے اس قدر خود کفیل ہوتا ہے کہ اس کی خود
انحصاری ،جمالیاتی موضوع اور اپنے وجود اور ذات کے معتبر حوالے کی حیثیت سے
اس کی جاذبیت قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔متن میں صنائع،بدائع اور
اظہار و ابلاغ کے متنوع ذرائع کو مرکز نگاہ بنانے کی نئی سوچ نے رفتہ رفتہ
نئی تنقید کی راہ ہموار کر دی۔ نئی تنقید نے واضح کر دیا
کہ متن کا عمیق مطالعہ متن کے موضوع ،پلاٹ،ترتیب اورساخت سے متعلق جملہ
اسرار و رموز کی گرہ کشائی کرتا ہے۔نئی تنقید سے پہلے ادبی تنقید کاجھکاؤ
تاریخ کی جانب تھا۔ اس تحریک کا نام’’نئی تنقید‘‘ ممتازامریکی ادیب جان کرو
و رینسم(John Crowe Ransom,B:30-04-1888,D:03-07-1974) کی سال 1941میں شائع
ہونے والی تنقید کی اہم کتاب "The New Criticism" میں بھی موجود ہے۔ شعبہ
تنقید میں گراں قدر خدمات اور مقبولیت کی بنا پر جان کرو رینسم کو نئی
تنقید کے فلاسفر جنرل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔جو نا تھن کیولر نے نئی
تنقید کے اسلوب ،دائرۂ کار اوراثرات کے بارے میں اپنے تحفظات کا بر ملا
اظہار کیا ۔اس کی رائے میں نئی تنقید نے محض تدریس ادب میں آسانیاں تلاش
کرنے کی سعی کی جب کہ تخلیق ادب جیسے اہم موضوع پر وہ کوئی موثر لائحۂ عمل
دینے میں ناکام رہی۔نئی تدریس نے مدارس،کالجز اور جامعات میں تدریس ادب کے
حوالے سے کسی حد تک مقبولیت اور کامیابی حاصل کی لیکن بالآخر اس کی محدود
کار کردگی اور ادبی تنقید کی بے کراں وسعتوں تک نئی
تنقید کی نا رسائی اس کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بنتی چلی گئی۔نئی تنقید نے
متن کی خود مختاری اور خو دکفالت پر شدت سے انحصاراور اصرار کرتے ہوئے جو
موقف اختیار کیا وہ ادبی نقادوں کے لیے ناقابلِ فہم تھا ۔جو نا تھن کیولر
نے اس واضح حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے کہ اگرنئی تنقید کے مطابق متن کو
خود کفیل تسلیم کر لیا جائے توپھر اِسے کسی سہارے کی احتیاج نہیں ہونی
چاہیے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ متن کامطالعہ کرتے وقت کوئی حوالہ درکار نہیں
۔اسے کسی بیرونی سیاق و سباق (جن میں سوانحی ،تاریخی،تحلیل نفسی اور سماجی
حوالے شامل ہیں ) کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ۔ نقاد کے لیے کسی ادیب کی
تخلیقی فعالیت کی ترجمانی ایسی کسوٹی ہے جس پر تنقیدی معائر کو پر کھنا
دشوار ہے۔ نئی تنقید نے اس کسوٹی پر ادبی تخلیقات اور دیگر تخلیقات کو پر
کھنے پر اصرار کیا تاہم آخری تجزیے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہم کون سی
الجھن کو سلجھا رہے ہیں اور ادبی تھیوری کے حوالے سے ہونے والے کام کا سراغ
کہاں ملے گا۔ اس موضوع پر جو نا تھن کیولر نے اپنے تجزیاتی مطالعہ میں لکھا
ہے :
,,In short,it would be possible to demonstrate that,given its
premises,the New Criticism was necessarily an interpretive criticism.But
in fact this is scarcely necessary since the most important and
insidious legacy of the New Criticism is the widespread and
unquestioning acceptance of the notion that the critic,s job is to
interpret literary works.(7)
تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر نگاہ ڈالنے سے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا
لسانی تجزیے فی الواقع کسی ادبی تخلیق کی تفہیم میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔جو
نا تھن کیولر نے نئی تنقید کے بارے میں جن خیالات کااظہار کیا ہے ان کے
مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسے فکر وخیال کی وادی میں نئی تنقید
کے حوالے سے اُترنے والے موسموں اور ان کے مسموم اثرات کا پور ی طرح احساس
ہے ۔قارئینِ ادب کے لیے یہ بات بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ ادیب کی تخلیقی
فعالیت کی ترجمانی کرنے والوں کی تجزیاتی گرفت پرجب نزع کا عالم طاری ہو
جاتا ہے تو قطرے پہ گہر ہونے تک کیا گزرتی ہے ۔یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ
اس کیفیت میں تخلیقی فعالیت کیا رخ اختیار کرتی ہے اور اس کے تخلیق کے پس
پردہ کار فرما لا شعوری محرکات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
شمالی ہند اور جنوبی ہند کے قدیم ادب میں لوک گیتوں کو بہت مقبولیت حاصل
رہی ہے ۔ دنیا کے تمام ممالک میں معاشرتی زندگی میں سُریلے گیت تہذیب و
ثقافت کی پہچان سمجھے جاتے ہیں ۔اپنی کتاب’’ گیت کا نظریہ‘‘ (Theory of the
Lyric)میں جو نا تھن کیولر نے نظم میں سُر ،لے اور آ ہنگ کے حوالے سے پُر
مغز اور موثربحث کی ہے۔اُس کا خیال ہے کہ اسلوب کے لحاظ سے گیت کی صورت میں
لکھی جانے والی نظم در اصل کسی بھی موضوع پرتخلیق کار کے داخلی مد و جز
ر،منفرد تجربات اور منھ زور جذبات کا پر جوش اظہار ہوتا ہے ۔ اپنی نو عیت
کے اعتبار سے گیت حسن و رومان ،پیمان وفا اور غمزہ و ادا کا افسانوی انداز
پیش کرتے ہیں۔ گیتوں اورتخلیقی ادب پارے میں معانی تو سیاق و سباق کی حدود
میں رہتے ہیں مگر سیاق و سباق لا محدود ہے ۔ زندہ ٔ جاوید تخلیقی تجربہ جو
لوح ِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیتا ہے اس کی پہچان یہ ہے کہ اس میں شاعری
کو سدامحوری حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ گیتوں سمیت ہر قسم کی شاعری ہی وہ صنف ہے
جو تخلیقی عمل کے مد و جزر،تخلیق کار کے قلب اورر وح پر اُترنے والے مو
سموں اور ادب کی تشریح و توضیح پر کامل دسترس رکھتی ہے ۔ مطالعۂ ادب کے
دوران میں قاری کے ذہن میں کئی خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ان سب سوالات کا جواب
اسے سریلے گیتوں کی مدھر تان کی صورت میں ملتا ہے ۔اس کتاب میں مصنف نے
قدیم رومانوی گیت کی روایت اور جد ید دور میں گیتوں کے بدلتے ہوئے رجحانات
سے بحث کی ہے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ پس نو آبادیاتی
دور میں اس خطے میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں لوک گیت معاشرتی اور
سماجی زندگی سے وابستہ ڈسکورس سے بے تعلق ہو نے کے باعث عوامی مقبولیت کھو
بیٹھے ہیں اور گیتوں کی صدیوں پرانی روایت اوران سے وابستہ داستانیں تاریخ
کے طوماروں میں دب چکی ہیں۔
دکن اور دہلی کے قدیم ادیبوں کے سوانح پر بھی ابھی کام کی ضرورت ہے ۔ممتاز
ماہر لسانیات رولاں بارتھ کے بارے میں اپنی کتاب(Barthes:A Very Short
Introduction) میں جو نا تھن کیولر نے مطالعۂ احوال کا اعلا معیار پیش کیا
ہے ۔اس کتاب میں مصنف کی گل افشانیٔ گفتار کا جادو سر چڑھ کر بو لتاہے ۔جو
نا تھن کیو لر نے فرانس سے تعلق رکھنے والے نامور ادبی تھیورسٹ رولاں
بارتھ(Roland Barthes) کے بارے میں لکھا ہے :
,, Barthes is always flavourful,perhaps especially when,in un expected
turns of phrase,he appears to make himself vulnerable. The idea that
Barthes is essentially a flavoursome personality has gained authority
because it suits two influential groups:Barthes,s idolaters,for whom his
every work is ,song of Roland,and journalists ,who can discuss a
personality more easily than a theorist.,, (8)
سولہویں صدی عیسوی میں جنوبی ہند اور شمالی ہند بالخصوص دکن اور دہلی میں
تخلیق ہونے والے ادب کا مطالعہ کرتے وقت جوناتھن کیولر کے خیالات سے
استفادہ کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ جو نا تھن کیو لرکا شمار ان
نابغۂ روزگار ماہرین لسانیات ،ادبی تھیورسٹس اور ادبی تصورات کے مو رخین
میں ہوتا ہے جن کی عالمانہ تحریریں محض چند خاص موضوعات کا احاطہ نہیں
کرتیں بل کہ ان کی تحریر کا ایک ایک لفظ چشم کشا صداقتوں کاامین ثابت
ہوتاہے۔ ساختیاتی فکر کے ایک انتہائی پر جوش حامی کی حیثیت سے جو نا تھن
کیولر نے ساختیاتی فکر کے موضوع پر سو سئیر (Ferdinand de Saussure) اور
کلاڈ لیوی سٹرا س (Claude Lévi-Strauss)کے خیالات کا پوری توجہ سے مطالعہ
کیا ۔ان مفکرین نے علامتی ابلاغ (Semiology)کے بارے میں جن خیالات کا اظہار
کیا ان کی تو ضیح کرتے ہوئے جو نا تھن کیو لر نے جس ادبی فہم و فراست اور
تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا وہ صحت مند تنقید کا عمدہ نمونہ ہے ۔ جو نا تھن
کیولر نے معاصر ادبی تھیوری اور اس کی تشریح کرنے والے ادیبوں کے افکار کا
تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت سخت تنقیدی معیاراور انتہائی محتاط مطالعہ کاجو
ارفع معیار قائم رکھا ہے وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں ۔ادبی تنقید
میں دلچسپی رکھنے والوں کو اس سلسلے میں جو ناتھن کیولر کے ان تجزیاتی
مضامین کا مطالعہ کر نا چاہیے جو اس نے رولا ں بارتھ ،کلاڈ لیوی سٹراس
،رومن جیکب سن اور گریماس کے بارے میں لکھے ہیں ۔جو نا تھن کیولرنہ صرف
لسانیات اور ادب کے محتاط مطالعہ پر اصرار کرتا ہے بل کہ معاشرتی
زندگی کے جملہ مظاہر جن میں تہذیبی و ثقافتی عوامل اور انسانی زندگی کے
جملہ نشیب و فراز کے بارے میں وہ نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ اپنے
خیالات کا بر ملا اظہار کر تا ہے ۔ عملی طور پرا س کے بیان کردہ ہر نکتے سے
متنوع خیالات، نادر مو ضوعات اور نئے تصورات کا دھنک رنگ منظر نامہ سامنے
آتا ہے ۔
سر زمین ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے ممتاز ادیب، نامور محقق اور ماہر
لسانیات اوٹو جس پرسن (Otto Jesperson:1860-1943)نے اپنی ایک اہم تصنیف
گرامر کا فلسفہ (The Philosophy Of Grammar)میں لسانیات بالعموم اورگرامر
کے قواعد کے موضوع پر بالخصوص برطانوی فلسفی ،ماہر معاشیات اور اپنے عہد کے
باوقار اور موثر تاریخ دان و مفکر جان سٹیورٹ مِل( John Stuart Mill :
1806-1873 )کے خیالات کا ذکرکرتے ہوئے کسی بھی زبان کی گرامر کی افادیت پر
روشنی ڈالتے ہوئے اپنے عہد کے اس ممتاز فلسفی کے ان خیالات کو خضر راہ قرار
دیا ہے ۔اوٹو جس پرسن کی یہ معرکہ آرا تصنیف سال 1924ء میں شائع ہوئی
۔تاریخ اور فلسفہ کے اصولوں کی اساس پر مرتب کی گئی اس گرامر کو ہر عہد میں
نشانِ منزل سمجھا گیاہے ۔ لسانیات اور گرامر میں اوٹوجس پرسن کو وہی اہمیت
حاصل ہے جو موسیقی میں اپنے عہد کے ممتاز جرمن موسیقار اور سازو آواز کے
رمز آشنا ( 1685-1750 : Johann Sebastian Bach) کو بی مائنر ماس ( B minor
mass)کے حوالے سے حاصل ہے ۔ عالمی شہرت کی حامل اس وسیع اور ہمہ گیر نوعیت
کی گرامر میں لسانیات اور نحو کے اصل اور بنیادی نظریات کو متعارف کرایا
گیاہے ۔ نحوی مباحث کا مربوط خلاصہ ،لسانی عوامل کاماہرانہ تجزیہ ، لسانی
ارتقا کاعمیق اور بصیرت افروزمطا لعہ گرامر کا امتیازی وصف سمجھاجاتاہے
۔گرامر کے بارے میں اس رجحان ساز ماہر گرامر نے لکھا ہے :
, ,Consider for a moment what Grammar is .It is the most elementary
part of logic.It is the beginning of the analysis of the thinking
process.
The principles and rules of grammar are the means by which the forms
of language ared made to correspond with the universal forms of thought.
The distinctions between the various parts of speech,between the cases
of nouns,the moods and tenses o verbs,the functions of particles,are
distinctions in thought,not merely in words...The structure of every
sentence is a lesson in logic.,, (9)
ترجمہ : ’’ایک لمحہ کے لیے اس امر پر غور کریں کہ گرامرکیا ہے ؟ یہ منطق کا
اہم ترین بنیادی حصہ ہے۔اسی سے غور
و فکر اور تحلیل و تجزیہ کے عمل کا آغاز ہوتا ہے ۔گرامر کے اصول اور ضابطے
ہی وہ ذرائع ہیں جن کے وسیلے سے زبان کی
ہئیتوں کی تشکیل کی جاتی ہے تا کہ وہ افکار و خیالات کی ہمہ گیر آفاقی
ہئیتوں کے ساتھ مطابقت پیدا کر سکیں۔تکلم کے مختلف
حصوں میں امتیاز،اسما کی مختلف اقسام،افعال کے مزاج اور زمانوں کی کیفیات
اور مشمولات کی اکائیوں کا عمل، افکار کے
ایسے امتیازات ہیں جو محض الفاظ ہی میں نہیں بل کہ ۔۔۔۔ہر جملے کی ساخت میں
منطق کا ایک سبق موجود ہے ۔‘‘
قدیم زبانوں کے ارتقا کے بارے میں ماہرین لسانیات کے تصورات کے مطالعہ کے
بعدشمالی ہند اورجنوبی ہندکی زبانوں کے ارتقا کی تاریخ اور اس کے ثمرات کو
سمجھنے میں مدد ملے گی۔ جہاں تک اُردو زبان اور دکنی زبان کی تقابلی گرامر
کا تعلق ہے اِن کے اظہار و ابلاغ کے انداز اس بات کا منھ بولتا ثبوت ہیں کہ
یہ دونوں زبانیں مشترک لسانی اساس کی بناپر حیران کن حد تک باہم مربوط ہیں۔
بر صغیر میں بولی جانے والی دونوں قدیم زبانوں کے ادب اور زبانوں کی ساخت
میں پائی جانے والی مشابہت اور مماثلت سے اس امر کا اندازہ لگایا جا سکتاہے
کہ صدیوں کے ارتقائی عمل کے دوران میں اِن زبانوں کے معتبر ربط سے نہ صرف
ان زبانوں کے ذخیرہ ٔالفاظ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا بل کہ تخلیقِ ادب کو
بھی ایسی منفرد جہت نصیب ہوئی جس سے عہد بہ عہد لسانی ارتقا کے نتیجے میں
نئے آفاق اور جہانِ تازہ تک رسائی کے واضح امکانات پیدا ہوتے چلے گئے۔جدید
دور میں گرامر کا دائرہ کار بہت وسیع ہو گیا ہے اس میں معاشرتی لسانیات
،زبان دانی ،لسانی روّیوں سے وابستہ نفسیاتی امور ،میزان سحرو شام کی روداد
،فریب سود و زیاں ،تقابلی لسانیات ،ساختیاتی مسائل ، ردِ تشکیل ،تخلیقی عمل
اور اس کے پسِ پردہ کار فرما لا شعوری محرکات،شعور کی رو ،طلسمی حقیقت
نگاری اور احتساب ِ ذات شامل ہیں جو سب ادب، لسانیات اور گرامر کے اثمار
ہیں ۔
اُردو زبان اور دکنی زبان کی قدیم گرامر کا مطالعہ
تخلیق ادب میں گرامرایک متاع بے بہا اور موثرقوت کی حیثیت رکھتی ہے جو
قارئین کو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی استعداد عطا کرتی ہے ۔اس طرح
تخلیق ہونے والا ادب ایک تخلیق کار کو آدابِ خو دآگاہی سکھا کراسرارِ
شہنشاہی اور حریتِ ضمیر سے جینے کے انداز سے روشناس کراتا ہے۔سائنسی اندازِ
فکر کی شمع فروزاں کر کے زبان کے آغاز و ارتقا کے بارے میں تمام حقائق منظر
عام پر لانا گرامر کا اہم ترین اور افادیت سے لبریز منصب سمجھاجاتا ہے۔
لسانیات سے دلچسپی رکھنے والے ذوق ِ سلیم سے متمتع قارئین ِ ادب کے لیے یہ
حقائق یقیناًحیران کن ہو ں گے کہ دنیا کی اکثر زبانوں کی گرامرکی ترتیب پر
اہلِ زبان نے بالعموم بہت کم توجہ دی ۔اس کے برعکس گرامر کے قواعد و ضوابط
کی تشکیل میں مادری زبان کے مقامی ادیبوں کے بجائے غیر ممالک سے تعلق رکھنے
والے ماہرین لسانیات نے زیادہ انہماک اور دلچسپی کا مظاہرہ کیا جن کی زبان
اکتسابی تھی۔اس اہم موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر ابو
اللیث صدیقی نے لکھا ہے :
’’کسی زبان یا بولی کی پیدائش یا اُس کی ابتدائی نشو و نماقواعد و ضوابط
اور اصولوں کی مرہونِ منت
نہیں ہوتی ،بل کہ زبان کی نشو و نما کے ایک خاص دور میں یہ قواعد اور اصول
آہستہ آہستہ متعین ہوتے
ہیں اور خود بولی جانے والی زبان سے ماخوذ اور مستخرج ہوتے ہیں۔ہاں جب ایک
مرتبہ یہ مرتب اور
واضح ہو جاتے ہیں تو پھر ایک معیار اورسند کی حیثیت اختیار کر لیتے
ہیں۔اہلِ زبان کو پھر بھی ان میں
تصرف کا حق رہتا ہے ۔‘‘ (10)
ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کا خیال ہے کہ لسانیات کی اقلیم کے دستور بھی
نرالے ہوتے ہیں جہاں تکلم کے انداز، الفاظ ،آوازوں ،جملوں اور ان سے وابستہ
مسائل و مضمرات کو سکہ رائج الوقت کی حیثیت حاصل رہی ہے ۔بولنے والے تو
گرامر ،قواعد و انشا اور ضوابط سے بے نیاز رہتے ہوئے اظہار و ابلاغ کے
سلسلے جاری رکھتے ہیں اس کے بعد باہر سے آ کر ہمہ تن گوش ہو کر سننے والے
اور ان باتوں پر سر دُھننے والے نو وارد شائقین ِ ادب اپنے ذوقِ سلیم ،تجسس
اوروجدان کورو بہ عمل لاتے ہوئے اہلِ زبان کے جملوں کے زِیر و بم ،مآخذ
،مضمرات اور ہمہ گیر اثرات پر غور کر کے اِن کے تخلیقی محرکات ،تشکیل اور
ترتیب کی نزاکتوں اور گہرائیوں سے وابستہ متعدد حقائق کی نشان دہی کرتے ہیں
۔ بر صغیر میں سو لہویں صدی عیسوی سے مستعمل اُردو زبان کی گرامر اور قواعد
کو زیب ِقرطاس کرنے کا معاملہ بھی حیران کن ہے۔جس وقت اُردو اور دکنی ابھی
ارتقائی مدارج طے کر رہی تھیں اُس وقت لسانیات کی وادی میں روشنی کا سفر
شرع کرنے والی یہ مشعل ایسے پروانوں کی سودائی تھی جن کی دِل سوزی سے اس کی
ضیا پاشیوں کا سلسلہ جاری رہے ، اس کی تابانیوں سے سفاک ظلمتوں کوکافُور
کیا جا سکے اور اِس کی نوائے سروش سے مہیب سناٹوں کا طلسم توڑا جا سکے ۔یہ
انتہائی کٹھن اور صبر آزما مرحلہ اس زبان کی گرامر کی ترتیب سے وابستہ تھا
۔ اردو زبان کے ارتقا پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں دکنی اور
اردو زبان کی گرامر کی تشکیل و ترتیب کرنے والے دانش ور سر زمینِ ہند سے
نہیں اُٹھے بل کہ یورپ کے مستشرقین نے یہ اہم معرکہ سر کیا ۔یہ کوئی ہفتے
،عشرے اور ماہ و سال کی بات نہیں بل کہ یورپی مستشرقین کی ان کامرانیوں کے
ایک سو سال بعد مٹی کی محبت سے سر شار بر صغیر کے اہلِ زبان نے بھی دیارِ
مغرب سے سر زمین ہند پہنچنے والے ادیبوں،نقادوں ،محققین اور اردو زبان میں
دلچسپی رکھنے والے ممتاز ماہرین لسانیات کی تقلید میں اردو زبان کی گرامر
لکھنے کا قصد کیا۔اپنی مادری زبان کی معیاری اور مستند گرامر کی ترتیب کی
یہ کاوشیں کسی حد تک ثمر بار تو ہو گئیں مگر مقامی زبانوں کے قارئین ِ ادب
کے لیے یہ امر چونکا دینے والا تھا کہ اُردو کے اہلِ زبان نے اپنی مادری
زبان کی جوپہلی گرامر تشکیل دی وہ فارسی زبان میں منصہ شہود پر آئی ۔اُرد و
زبان کی طرح انگریزی زبان کا معاملہ بھی جداگانہ نہیں۔ولیم بلوکر (William
Bullokar) کی لکھی ہوئی انگریزی زبان کی سب سے پہلی گرامر’’ Pamphlet for
Grammar‘‘ بھی سال 1586میں لاطینی زبان میں منظر عام پر آئی ۔
اُردوزبان /دکنی زبان کی گرامر کی اساس
دکنی زبان کے تخلیق کاروں نے ابتدا میں تراجم میں گہری دلچسپی لی ۔ یہ
تراجم بالعموم نثر میں کیے گئے اس لیے دکن میں تخلیق ِ ادب کا آغاز نثر ہی
سے ہوا۔اس کے بعد دکن میں نظم کا پہلا شاعر خواجہ بندہ نواز سید محمد حسینی
گیسو دراز ہے جس نے اپنی نظم ’’ چکی نامہ ‘‘ میں زندگی کے نشیب وفراز کی
جانب متوجہ کیا ہے ۔ جدید دور میں لسانیات اور سماجی علوم کے تعلق کا
مطالعہ بہت اہمیت حاصل کر چکا ہے ۔اس تعلق کو تاریخی تناظر میں دیکھنے سے
ماضی کی ادبی تاریخ سے وابستہ متعدد حقائق سے پردہ اُٹھتا ہے ۔ کسی بھی
زبان کا تخلیق کار جب اپنے تخلیقی کام کا آغازکرتا ہے تووہ ید بیضا کا
معجزہ دکھانے کی خاطر اپنے ما فی الضمیر کو جملوں کی صورت میں صفحۂ قرطاس
پر منتقل کرتاچلا جاتاہے ۔اس طرح خیالات الفاظ کے قالب میں ڈھلنے کے بعد
جملوں کی لڑی میں پر و دئیے جاتے ہیں۔ اس تمام عمل میں لسانی گرامر کلیدی
کردار ادا کرتی ہے ۔ تخلیق ِ ادب میں تخلیق کار، متکلم،قاری اور سامع سب کا
واسطہ ایک خاص نوعیت کے پیرایۂ اظہار سے پڑتا ہے ۔اس پیرایہ ٔ اظہار کو
حسین ،دل کش اور پر لطف ا نداز عطا کرنے میں گرامر بہت اہم کردار ادا کرتی
ہے ۔عملی زندگی میں یہ عام مشاہدہ ہے کہ آوازیں جب سکوت کا خاتمہ کر کے فضا
میں گونجتی ہیں تو سننے والے ان آوازوں کی بازگشت پر کان دھرتے ہیں اوران
آوازوں کے مطالب اور ان کے پس پردہ کار فرما محرکات کی جستجو میں گہری
دلچسپی کامظاہرہ کرتے ہیں ۔خارجی مظاہر کے مشاہدے اور داخلی کیفیات کی
غواصی کا یہ سفردنیا بھر میں اظہار و ابلاغ کے آفاقی طور پر مسلمہ معائر کا
نمایاں ترین پہلو سمجھاجاتا ہے ۔ بر صغیر میں بولی جانے والی مقامی زبانیں
صدیوں تک مسلمان فاتحین کی زبان فارسی کے زیر اثر رہیں ۔سرکاری سطح پر سر
پرستی کے باوجود متعدد وجوہات کے باعث اس خطے میں فارسی زبان عوامی پزیرائی
سے محروم رہی۔ تخلیق ادب اور لسانیات سے دلچسپی رکھنے والے اس حقیقت سے آ
گاہ ہیں کہ بر صغیر کے طول و عرض میں فارسی کی جڑیں نہیں تھیں اور یہاں کے
مقامی باشندے فارسی زبان کو اجنبی زبان خیال کرتے تھے ۔ بر صغیر کے باشندوں
کو فارسی زبان سکھانے پر کوئی توجہ نہ دی گئی اِس لیے فارسی زبان میں لوگوں
کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی ۔نا سازگار معاشرتی حالات ،تاریخی واقعات
اور عمرانی مسائل کے باعث فارسی کا تخم سر زمین ہند میں پروان نہ چڑھ
سکااور مٹی کی محبت سے سرشاریہاں کے باشندوں نے بر صغیر کی مقامی زبانوں کے
فروغ میں دلچسپی لی ۔ مقامی زبانوں کی روز افزوں ترقی سے مقامی تہذیب و
تمدن اور معاشرت وثقافت کو فروغ مِلا۔نو آبادیاتی دور میں جان گِل کرسٹ
اوراس کے ساتھیوں نے بر صغیر کی مقامی زبانوں بالخصوص ہندوی /ریختہ سیکھنے
پر توجہ دی اور اِ ن زبانوں کے قواعد مرتب کرنے پر توجہ مرکوز کر دی ۔ بر
صغیر کی مقامی زبانوں کی گرامر اسی عہد کی یاد دلاتی ہے ۔ تخلیقی عمل کے
دوران میں جملوں کے وسیلے سے اظہار و ابلاغ کے نئے امکانات سامنے آتے ہیں۔
مآخذ
T.S.Eliot : Selected Essays , Faber and Faber Limited,London ,1932 ,Page
14 . 1.
2۔سجاد باقررضوی ڈاکٹر : مغرب کے تنقیدی اصول ،مقتدرہ قومی زبان ،اسلام
آباد،طبع اول ،جون 1987، صفحہ 321
3-Jonathan Culler :Structuralist Poetics,Routledge London,1975, page ,9.
4.Jonathan Culler:On Deconstruction,Cornell University Press,New
York,2007,Page 25.
5-Jonathan Culler: Structuralist Poetics, Page ,10-
6-Jonathan Culler:Literary Theory,Oxford University,London,2000,Page,
7 - Jonathan Culler:The Pursuit of Signs,Cornell University
Press,NewYork,2002,Page,5-
8-Jonathan Culler:Barthes A Very Short Introduction, Oxford University
Press London, page ,6
9.Otto Jespersen:The Philosophy Of Grammar,London,1935,Page,47
(10) ابواللیث صدیقی ڈاکٹر :جامع القواعد (حصہ صرف )، لاہور ،مرکزی اردو
بورڈ ،بارِ اول ،1971،صفحہ 137۔
|