(سائنس دان‘ محقق‘ صاف گو‘ درویش صفت انسان‘ پرنسپل
(گورنمنٹ کالج) موجودہ G.Cیونیورسٹی لاہور)
تحریر:ڈاکٹر لئیق بابری انتخاب و پیشکش:محمداسلم لودھی
گورنمنٹ کالج کی فضائیں تغیر پذیر تھیں‘ ایک نیا افق روشن ہو رہا تھا‘
آزادی کی مہک آ رہی تھی‘ رونقیں اور گہماگہمی تھی‘ کالج کے ٹاور کے اندر
رہنے والے سلیٹی رنگ کے جنگلی کبوتر ،کالج کی فضاؤں میں پرواز کرتے اور آپس
میں سرگوشیاں کرتے ۔ وہ ہر روز صبح رہائش گاہ سے کالج آتے ہوئے ایک شخص کو
دیکھتے جو کرتہ شلوار میں ملبوس‘ واسکٹ پہنے‘ سلیم شاہی جوتی پاؤں میں
ڈالے‘ تیز تیز چلتے دفتر میں آ کر بیٹھ جاتا۔ اس دفتر میں طلباء جہاں پہلے
داخل ہوتے ہوئے بھی ڈرتے تھے ،بے دھڑک دروازہ کھولتے اور اندر داخل ہو
جاتے۔ پھر یوں ہوتا کہ یہ شخص ملاقاتیوں کے ہجوم کے مسائل حل کر کے اپنے
دفتر کی کرسی سے اٹھ کر باہر آتا اور اپنے لمبے لمبے بالوں کو کبھی سر کو
یونہی جھٹک کر اور اپنی لمبی انگلیوں سے سنوارتا ہوا کالج کے برآمدوں میں
گھومتے ہوئے مسکراتے ہوئے نکل جاتا۔ کبھی سردیوں کی صبح کی نکھرتی ہوئی
دھوپ میں کرکٹ پریکٹس کرنے والے طلباء کے پاس جا پہنچتا۔ کھلاڑی سے بلا لے
کر ایک ہٹ لگاتا اور انہیں یہ بتا کر آگے نکل جاتا کہ وہ بچپن میں گلی ڈنڈا
کھیلا کرتا تھا۔ کیفے ٹیریا میں آتا‘ کبھی اساتذہ کے ساتھ کبھی طلباء کے
ساتھ خوشگوار گفتگو کا چٹخارہ لیتا اور کبھی یہ شخص چپڑاسی کو گھنٹی بجا کر
بلانے کے بجائے خود ہی ڈھونڈتا پھرتا۔
دفتر میں رسومات سے آزاد یہ شخص ڈاکٹر نذیر احمد تھا جس میں کالج کے روایتی
بیورو کریٹ پرنسپل والی کوئی بات نہ تھی اور نہ کالج کو پرانے سانچے میں
ڈھالنے کے لئے خواہش یا آمادگی۔وہ اپنے رویوں میں قطعاً غیررسمی تھا۔ اس کا
کردار گورنمنٹ کالج کے روایتی رویے اور ذہنیت کا مخالف تھا۔ وہ بذات خود
ایک روایت تھا ،جسے قدرت نے شاید اس لئے پرنسپل بنا کر بھیجا تھا کہ کالج
کی نبض پر درویشانہ ہاتھ رکھے۔ نئی نسل کو سچائی اور محبت کا درس دے‘
اخلاقی حسن عطا کرے اور کالج کو لال فیتے کی کارروائیوں سے نجات دلا کر ایک
نئے مستقبل کا خواب دکھلائے۔
یہ 1960ء کی بات ہے‘ سردیوں کے دن تھے‘ میں علی الصبح پہلے لیکچر کے بعد
پرانے سٹاف روم میں بیٹھا تھا۔ برآمدے سے ڈاکٹر نذیرا حمد کا گزر ہوا۔ اندر
آ کر سلام دعا کے بعد مجھے کہنے لگے ’’کہئے فارغ ہیں؟‘‘ میں نے کہا
’’ہاں‘‘۔ کہنے لگے ’’مجھے آپ سے کچھ کام ہے‘ میرے ساتھ آفس میں چلئے۔‘‘
مجھے آفس میں لے گئے۔ پوچھا ’’کافی پئیں گے؟‘‘ میں نے کہا ’’ہاں‘‘۔ چپڑاسی
کو کہا ’’کافی لاؤ۔‘‘ ہم نے کافی پی‘ وہ بڑی دلچسپ باتیں کرتے رہے‘ میرے
دوسرے لیکچر کے شروع ہونے کا وقت قریب آیا تو میں نے اجازت لینے سے پہلے
پوچھا ’’آپ نے کہا تھا کچھ کام ہے‘ فرمایئے کیا کام ہے۔‘‘ کہنے لگے ’’بس
یہی کام تھا مل کر کافی پی لیں۔‘‘ یہ ان سے میری پہلی قدرے طویل ملاقات
تھی۔ میں ان کی سادگی‘ بے ساختگی‘ بھول پن اور خلوص سے بے حد متاثر ہوا‘ ان
کے آفس سے نکلتے ہوئے عصرحاضر کے عظیم فرانسیسی شاعر ژول سپروی ایل کے یہ
الفاظ یاد آئے۔
’’حقیقی معنوں میں اپنی اصل پر قائم رہنے اور سادہ رہنے کے لئے بہت زیادہ
فن کی ضرورت ہے۔‘‘
میں نے سوچا اس شخص نے یہ اخلاقی برتری حاصل کرنے کے لئے بڑی محنت اور
ریاضت کی ہو گی تبھی تو وہ تصنع اور بناوٹ سے پاک‘ منافقت سے کوسوں دور سچا
پرستار ہے اور یہ بات میرے کان میں پڑی کہ ڈاکٹر نذیر احمد شیرانوالہ
دروازہ لاہور کے عظیم درویش عالم حضرت مولانا احمد علی رحمتہ اﷲ علیہ سے
فیض حاصل کرتے رہے۔ نصف صدی تک لاہور کے شہریوں کو سچائی اور محبت کا درس
دیتے رہے۔ یہ درس محبت ہی تو تھا جو ایک شفیق باپ کی طرح ڈاکٹر نذیر احمد
کو مجبور کرتا کہ صبح سویرے نامکمل شیو کی حالت میں نیکر پہنے ریسنگ سائیکل
پر سوار مال روڈ جا پہنچتے اور حکومت کے خلاف اپنے کالج کے طلباء کے
احتجاجی جلوس کو واپس کالج میں لے آتے کہ کوئی طالب علم پولیس کے لاٹھی یا
گولی سے زخمی نہ ہو جائے۔ انہوں نے کبھی پولیس کو کالج میں داخل ہونے کا
موقع نہیں دیا اور ہمیشہ انتہائی بحران کے موقع پر اعلیٰ اخلاقی جرأت اور
فراست کا ثبوت دیا۔ وہ کبھی سمجھوتہ نہ کرتے اور فرعون کے سامنے بھی اپنے
کردار کا عصائے کلیمی لے کر کھڑے ہو جاتے۔ انہوں نے ایک غیر مستحق طالب علم
کو جنرل ایوب کے مارشل لاء دور کے سخت گیر گورنر ملک امیر محمد خان کی
سفارش پر بھی داخلہ دینے سے انکار کر دیا اور اس کی سزا کی پاداش میں
تبادلہ گوارا کر لیا۔ کالج کے طلباء نے ’’ہمارا باپ واپس لاؤ۔‘‘ کے نعرے
لگائے اور گورنر کا حکم منسوخ ہوا اور درویش پرنسپل کو طلباء اپنے کندھوں
پر بٹھا کر خوشی سے ناچتے ہوئے کالج واپس لائے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی پوری
تاریخ، طلباء کی پرنسپل کے ساتھ ایسی محبت اور عقیدت کی مثال پیش کرنے سے
قاصر ہے۔
ڈاکٹر نذیر احمد ایک بیباک درویش تھے۔ وہ حکام کے درباروں یا بنگلوں میں
کبھی نہ دیکھے گئے۔ وہ اپنے طلباء کے دلوں میں رہتے تھے۔ وہ درویشوں‘
شاعروں اور فنکاروں کے حلقے میں نظر آتے تھے۔ فیض احمد فیض کو ملتے‘ استاد
دامن کے حجرے میں پہنچتے‘ ہندوستان جاتے تو راجندر سنگھ بیدی سے دوستانہ
ملاقاتیں ہوتیں‘ گورنمنٹ کالج میں سالانہ سپورٹس میں مہمان خصوصی کے لئے
نظر انتخاب پڑتی تو جسٹس کیانی پر پڑتی جو جنرل ایوب کے دور حکومت میں کسی
ناانصافی کے خلاف خوبصورت مزاح کے ساتھ اشاروں کنایوں میں آواز بلند کر
جاتے۔ وہ خوشامد کو ناپسند کرتے تھے‘ خودنمائی اور نمائش سے کتراتے تھے۔
ہماری فرنچ سوسائٹی کی رو سوکی تصاویر کی نمائش کے موقع پر جس کا افتتاح
فرنچ سینٹر کی ڈائریکٹرس نے کیا تھا‘ ڈاکٹر نذیر احمد آئے اور پیچھے کھڑے
ہو گئے‘ انہیں بڑی مشکل سے کھینچ کر آگے لایا گیا۔
میں نے لوگوں کو ڈاکٹر نذیر احمد سے بے پناہ محبت کرتے دیکھا ہے۔ لاہور
ایئرپورٹ پر پی آئی اے کے ایک افسر کو ڈاکٹر نذیر احمد کے آنے پر ان کے
ہاتھ چومتے دیکھا ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں ان کی ادائیں ایسی ہوتیں کہ لوگ
گرویدہ ہو جاتے۔ موسیقی سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ ان کے ایماء پر میوزک
سوسائٹی کے زیراہتمام استاد شریف خان پونچھ والے آئے۔ انہوں نے ستار پر راگ
چھیڑا۔ ڈاکٹر نذیر احمد ایسے محو ہوئے کہ بے اختیار صوفے سے کھسک کر فرش پر
آن بیٹھے۔ ان کی اس ادا میں ایسی معصومیت تھی کہ محفل میں شامل ایک ہسپانوی
خاتون جو آرٹ کونسل میں میوزک کی طالبہ تھیں ڈاکٹر نذیر احمد کی گرویدہ ہو
گئی۔ وہ کئی مرتبہ گورنمنٹ کالج میں ڈاکٹر صاحب سے ملنے اور ان کی باتیں
سننے آ جاتی۔ وہ چونکہ صرف ہسپانوی اور فرانسیسی بولتی تھی‘ ڈاکٹر نذیر
احمد مجھے اس کی ترجمانی کے لئے بلا لیتے۔ وہ ہمیشہ کہتی کہ ڈاکٹر نذیر
احمد کمال کے انسان ہیں اور اسے بہت اچھے لگتے ہیں۔ ایک دفعہ ڈاکٹر نذیر
احمد نے مجھ سے اس کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتایا کہ وہ سپین واپس چلی
گئی۔ آپ کو خدا حافظ کہنے آئی تھی مگر آپ ملے نہیں اور میں آپ کو فوری طور
پر نہ بتا سکا۔ ساتھ ہی میں نے انہیں یہ بتایا کہ وہ آپ کی بڑی گرویدہ تھی
تو ڈاکٹر نذیر احمد بے ساختگی سے بولے ’’تساں پہلے کیوں نہیں دسیا۔‘‘
ڈاکٹر نذیر احمد کے زمانے میں کالج کی مختلف انجمنوں کی غیرنصابی سرگرمیاں
پورے عروج پر تھیں۔ ان میں باہر کے دانشور بھی شامل ہوتے اور ڈاکٹر نذیر
احمد خود بھی شریک ہوتے۔ ان سرگرمیوں سے طلباء کی ان صلاحیتوں کی تعمیر
ہوتی جنہیں رسمی نصابی تعلیم نہیں ابھار سکتی۔ کالج یونین‘ ڈرامیٹک کلب‘
فلم سوسائٹی‘ مجلس اقبال‘ سوندھی ٹرانسیشن سوسائٹی‘ میوزک سوسائٹی‘ پنجابی
مجلس بہت نمایاں تھیں۔
ڈاکٹر نذیر احمد کو علامہ اقبال اور فیض کی شاعری سے گہری دلچسپی تھی۔ فیض
کی شاعری کے انگریزی ترجمے میں تو انہوں نے کیرنن کے ساتھ بھرپور تعاون کیا
اور کیرنن نے ترجمے میں اس رہنمائی پر انہیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین
پیش کیا ہے۔ انہیں جہاں انگریزی‘ فارسی‘ اردو اور پنجابی ادب سے لگاؤ تھا
وہاں فرانسیسی ادب سے ان کی دلچسپی پر میں اس وقت حیران ہوا جب انہوں نے
مجھے انیسویں صدی کے مشہور ناول نگار فلوبیر (Flaubert) کی کتاب ’’سینٹ
آنتونی کی ترغیب‘‘ (La Tentation de sa int Antonie) کا ذکر کیا۔ انہوں نے
مجھ سے کہا یہ کتاب کہیں مل جائے تو ضرور لانا اور جب میں پیرس سے لے آیا
تو وہ بہت خوش ہوئے۔ حیرانی کی بات ہے کہ فلوبیر کو دنیا میں اس کے ’’ناول
مادام بوداری‘‘ کی وجہ سے شہرت ملی اور عام قاری اس کی اس کتاب کے نام سے
بھی واقف نہیں تھا‘ اس میں مذاہب عالم کے بارے میں حوالہ جات ہیں جو عام
پڑھنے والے کی سمجھ سے باہر ہیں۔
یہ کتاب بروگل (Breugel) کی ایک شاندار تابلو سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔
اس کا پس منظر ایک ریگستان ہے‘ ٹیلے کی چوٹی پر ایک راہب آنتونی نامی اپنی
آنکھوں کے سامنے عجیب وغریب بتوں کی مخلوق کا ایک طویل جلوس دیکھتا ہے جس
میں دنیا کے تمام مذاہب کی نمائندگی ہے۔ شیطان اسے سمندر کی طرف دھکیل کر
لے جاتا ہے اور سمندر اسے اپنی اتھاہ گہرائیوں میں لے جاتا ہے اور پھر
بالآخر یہ مادیت کے ابلتے ہوئے ایک منظر میں گم ہو جاتا ہے۔ ترغیب جو راہب
کو گھیر لیتی ہے دراصل انسانی فریب نظر کے چکر کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس
کتاب کے کئی مکالمات ہمارے آج کے سائنسی ترقی کے دور کے لئے ازحد سبق آموز
ہیں مثلاً ایک جگہ سینٹ آنتونی کہتا ہے ’’تم کون ہو؟‘‘ اور مہیب سایہ جواب
دیتا ہے ’’میری سلطنت کائنات میں پھیلی ہوئی ہے اور میری آرزو لامحدود ہے‘
میں ہر جگہ جاتا ہوں‘ ذہنوں کو پھلانگتے ہوئے‘ دنیاؤں کو جانچتے ہوئے‘ بغیر
فطرت کے بغیر رحم‘ بغیر محبت کے اور بغیر خدا کے۔ میرا نام سائنس ہے‘‘ لیکن
آنتونی جواب دیتا ہے ’’تمہیں شیطان کہنا چاہئے۔ سائنس بغیر خدا کے روح کی
بربادی ہے۔‘‘ اور آنتونی کی رائے میں سائنس کے ساتھ شر کے عنصر کی شمولیت
قابل غور ہے۔ جب یہ بات کہی گئی تھی تو وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دریافتوں
کی ابتداء کا زمانہ تھا‘ ابھی سائنس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم
کی صورت میں انسانی بربادی کے اتنے خوفناک ظالمانہ چہرے سے پردہ نہیں
اٹھایا تھا۔ کیمیائی ہتھیاروں‘ لانگ رینج میزائل اور دوسرے جنگی ہتھیاروں
کی رونمائی نہیں ہوئی تھی اور جنگوں نے انسان کو ان رستے ہوئے زخموں سے
آشنا نہیں کیا تھا۔ ماحول کی آلودگیوں نے انسانی زندگی کو خطرے کی آغوش میں
نہیں لیا تھا۔ بیسویں صدی کے اختتام پر سائنس نے انسان کو ایک خطرناک دور
پر لا کھڑا کیا ہے اور اب فزکس کے ماہر میٹا فزکس کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر نذیر احمد کی اس کتاب سے وابستگی ان کی شخصیت کے اس پہلو کو اجاگر
کرتی ہے کہ وہ سائنس کے استاد ہوتے ہوئے صوفی رستے پر گامزن ہوئے۔ ان کی
طبیعت کی افتاد نے انہیں جس مقام پر پہنچایا وہ نقطہ ایسا تھا جہاں
ریٹائرمنٹ کے بعد وہ نہایت اعلیٰ کام کی طرف راغب ہوئے۔ انہوں نے بلھے شاہ‘
شاہ حسین‘ سلطان باہو اور بابا فرید کے کلام کی چھان بین کے بعد پیکجز
لمیٹڈ کی وساطت سے نہایت خوبصورت اور مستند ایڈیشن شائع کئے۔ ڈاکٹر نذیر
احمد کا یہ کارنامہ بے مثال ہے۔ پیکجز لمیٹڈ نے انہیں آنے جانے کے لئے ایک
کار بھی دی مگر ڈاکٹر نذیر نے یہ پیش کش قبول نہ کی اور اپنی سائیکل پر ہی
گھومتے پھرتے رہے۔ یہ بہت بڑی عادت ہے کہ جس شہر کی سڑکوں پر اس مرد درویش
نے پیدل اور سائیکل پرگشت کی وہاں اگر وہ کبھی بس پر سوار ہو جاتا تو بس کا
کنڈیکٹر انہیں پہچان کر کرایہ لینے سے انکار کر دیتا۔ اس لئے کہ ڈاکٹر نذیر
احمد نے اپنے کردار سے دلوں کو مسخر کر لیا تھا۔ فلوبیر نے کہا کہ ساری
خرابی ذہنی رعونت کی وجہ سے ہے۔ ڈاکٹر نذیر احمد علم اور عہدے کی بلندیوں
پر فائز ہونے کے باوجود ذہنی رعونت سے دامن بچانے میں کامیاب ہو گئے اور یہ
کامیابی بہت بڑی کامیابی ہے۔ باپ کا سایہڈاکٹر نذیر احمد کے بچپن سے ہی سر
سے اٹھ گیا تھا۔ ان کے اندر ایک ابدی بچپن تھا جسے عاجزی اور انکساری سے
لئے پھرتے تھے۔ وہ اپنے عالمانہ مقام سے نیچے اتر کر ایک عامی کی سطح پر
بات کرنے پر قادر تھے۔ وہ بابا فرید کی شاعری پر زندگی کے آخری دنوں تک کام
کرتے رہے اور بابا فرید کے شعر کی ہی تصویر بنے رہے
مت ہوندے ہوئے ایانا‘ تان ہندے ہوئے نتاناں
ان ہندے آپ ونڈائے‘ کوئی ایسا بھگت سدائے
ڈاکٹر نذیر احمد کی مطبوعات میں دفتری اصطلاحات‘ محاورات کی لغت‘ پنجاب کے
صوفی شعرأ‘ حضرت بابا بلھے شاہؒ‘ حضرت شاہ حسین (المعروف مادھو لعل حسینؒ)‘
حضرت سلطان باہوؒ کے کلیات‘ شرح کلیات غالب‘ انٹرمیڈیٹ زولوجی‘ زمانہ قدیم
کے جانور اور سائنس آف لائف شامل ہیں۔ سپین کی پروفیسر وکٹر کزین کے ساتھ
مل کر ممتاز شاعر فیض احمد فیض کی نظموں کا ترجمہ کیا۔ بخاری آڈیٹوریم‘
بخاری اکیڈمی بلاک‘ بخاری لائبریری اور کالج مسجد کی تعمیر میں آپ کی
غیرمعمولی دلچسپی شامل ہے۔
ڈاکٹر سید نذیر احمد شاہ کہ ان کا پورا نام یہی تھا۔ (Zoology) زوآلوجی کے
پی ایچ ڈی تھے یعنی ماہر حیوانیات‘ طالب علمی کے زمانے میں انہوں نے اس
مضمون میں امتیاز سے اعلیٰ درجہ کی ڈگریاں حاصل کیں اور اسی کی تعلیم
وتدریس ان کا پیشہ قرار پایا مگر ان کی تمام تر دلچسپیوں کا مرکز ہمیشہ
حیوان ناطق ہی رہا۔ اس کے نطق ولب‘ خیال و فکر اور دست وبازو کے کارناموں
کو وہ سراہتے رہے اور اسی سے خلوص ومحبت کے رشتے قائم کرتے رہے۔ ان کو جو
لگاؤ فنون لطیفہ‘ کرکٹ‘ ہاکی اور دوسرے کھیلوں اور سیر وسیاحت سے تھا وہ
اپنے درسی مضمون سے نہیں تھا‘ ان کی گہری دوستیاں بھی ادیبوں اور فن کاروں
سے تھیں نہ کہ سائنس دانوں سے۔ اگرچہ ان سے بھی میل ملاقات رکھتے تھے۔
ڈاکٹر نذیر احمد کا بچپن اور لڑکپن لاہور کے محلہ بارود خانہ‘ تاثیرؔ صاحب
کی ہمسائیگی میں گزرا تھا۔ تاثیر صاحب نے جس خاندان کے زیرسایہ پرورش پائی
تھی اس خاندان سے ڈاکٹر صاحب کے خاندان کے قریبی تعلقات تھے۔ عمر میں تو وہ
تاثیر صاحب سے کوئی تین چار سال چھوٹے تھے مگر شروع ہی سے ان کے ہم جولی
رہے تھے اور آخر وقت تک ان سے بے تکلف دوستی قائم رہی۔ تاثیر صاحب کے بچپن
اور لڑکپن پر انہوں نے ایک بے مثل مضمون اسلامیہ کالج کے میگزین ’’کریسنٹ‘‘
کے تاثیر نمبر کے لئے لکھا تھا جو تاثیر صاحب کی وفات کے بعد شائع ہوا۔
ڈاکٹر صاحب اسلامیہ کالج کے پرانے طالب علم تھے جہاں وہ چودھری محمد علی
صاحب کے ہم جماعت بھی تھے جو بہت سے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے کے بعد
وزیراعظم پاکستان بھی ہوئے۔ چودھری صاحب سے ڈاکٹر صاحب کی ملاقات تو تھی
مگر دوستی نہیں تھی۔ 1930ء کی دہائی کے وسط میں ڈاکٹر صاحب انگلستان گئے۔
وہ لندن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے اور تاثیر صاحب کیمبرج میں۔
کہا کرتے تھے کہ انگلستان کے بہت سے علاقے میں نے اپنی ریسرچ کے سلسلے میں
سائیکل پر گھوم پھر کے دیکھے ہیں۔ سائیکل سواری کی یہ عادت آخر دم تک ان کے
ساتھ رہی۔ یہ بھی ان کی سادہ طبیعت کی ایک نشانی تھی‘ جب گھر والوں کے
اصرار پر انہوں نے ایک پرانی موٹر خرید لی تو وہ اکثر وبیشتر گھر والوں کے
استعمال میں رہی۔ ڈاکٹر صاحب پھر بھی سائیکل ہی پر سوار نظر آئے۔
سادگی ان کے رہن سہن کے طور طریقے اور لباس میں بھی نمایاں تھا‘ میں نے
انہیں کبھی سوٹ بوٹ پہنے نہیں دیکھا۔ گرمیوں میں کھدر یا لٹھے کا سفید کرتا
اور شلوار۔ ضرورت کے وقت ایک صدری بھی ساتھ رکھ لیتے تھے۔ پاؤں میں ملتانی
کھسا یا پشاوری چپل۔ سردیوں میں اس لباس کے ساتھ شیروانی یا ٹویڈ جیکٹ اور
پتلون اور ایک ڈھیلی ڈھالی پرانی ٹائی۔ پاؤں میں جرابوں کے ساتھ وہی پشاوری
چپل البتہ کرکٹ کھیلتے ہوئے سفید قمیض پتلون کے ساتھ فلیٹ شوز پہن لیتے
تھے۔
انگلستان سے واپسی پر وہ کسی سرکاری محکمے کے اہل کار ہونے کی حیثیت سے
سندھ کے ریگستانوں اور بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں میں بقول ان کے کیڑوں
مکوڑوں پر ریسرچ کرتے رہے لیکن آخر انہوں نے تعلیم و تدریس کا پرسکون پیشہ
اختیار کیا۔ میں جب گورنمنٹ کالج لاہور میں زیرتعلیم تھا ڈاکٹر صاحب وہاں
لیکچرار تھے۔ صوفی غلام تبسم کی وساطت سے میرا ان سے تعارف ہوا‘ پھر مجلس
اقبال کے جلسوں میں ان سے ملاقاتیں ہونے لگیں اور میں کبھی کبھی شعبہ
حیوانیات میں ان کے پاس جانے لگا۔ وہاں ان کا دستور نرالا تھا۔ لیبارٹری سے
ملحقہ ان کے کمرے میں میز کے ساتھ کرسی کی بجائے ایک اونچا سٹول رکھا رہتا
تھا۔ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ اس پر بیٹھتے‘ کمرے کے ایک طرف دیوان تھا جس پر وہ
دوپہر کے وقت آرام کرتے تھے‘ میز کے سامنے والی دیوار پر جو بلیک بورڈ تھا
وہ گویا ڈاکٹر صاحب کی ڈائری کا کام دیتا تھا‘ اس پر یاد رکھنے والی
تفصیلات مثلاً ملاقاتوں کے اوقات‘ اپنے شعبے‘ کالج اور گھر کی مصروفیات
وغیرہ کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کے اپنے رنگ میں وضع کئے ہوئے اشارات لکھے
رہتے تھے اور ہاں کبھی کبھی کوئی تازہ سنا ہوا شعر بھی جو انہیں پسند آ گیا
ہو‘ دوپہر کا کھانا اپنے شعبے کے ساتھیوں کے ساتھ اس کمرے میں کھاتے۔ کبھی
کبھی مجھے بھی اس میں شریک کر لیتے۔ یہ کھانا عموماً آج کل کی اصطلاح میں
فاسٹ فوڈ (Fast Food) قسم کی چیزوں پر مشتمل ہوتا جو نیلے گنبد کے ایک خاص
کھوکھے سے لائی جاتی تھیں۔ کھانے اور دوپہر کے آرام کے بعد ڈاکٹر صاحب اس
کمرے میں بیٹھے رہتے اور پھر وہاں سے پیدل چل کر ماڈل ٹاؤن کے بس اڈے پر
پہنچتے کہ اس زمانے میں وہ ماڈل ٹاؤن میں رہا کرتے تھے۔ حفیظ جالندھری بھی
وہیں رہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے ان کی ملاقات تاثیر صاحب کے ذریعہ ہوئی تھی۔
بہرحال وہ حفیظ کے گیتوں اور غزلوں کے بہت قائل تھے اور اس زمانے میں کہ جب
حفیظ اور نیاز مندانِ لاہور کے حلقہ احباب میں وہ اگلا سا ربط ضبط باقی نہ
رہا تھا جس کے متعلق میں نے صوفی تبسم صاحب پر اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے مراسم حفیظ جالندھری سے مسلسل قائم رہے۔ اس کی ایک وجہ یہ
بھی تھی کہ دونوں ماڈل ٹاؤن میں ایک دوسرے کے بہت قریب رہتے تھے۔ڈاکٹر نذیر
احمد اور تاثیر صاحب کے ایک مشترکہ انگریز دوست وکٹر کیرنن تھے جن سے ان
دونوں کی ملاقات ان کے قیام انگلستان کی یادگار تھی۔ کیرنن نے کیمبرج سے
ڈگری تو تاریخ کے مضمون پر لی تھی مگر ان کو شعر وادب سے بھی بڑی دلچسپی
تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران وہ لاہور آ گئے اور ایچیسن کالج میں انگریزی
پڑھانے لگے۔ یہاں ان کی تاثیر صاحب اور ڈاکٹر صاحب کے حلقہ احباب خصوصاً
فیض صاحب سے بھی دوستی ہو گئی۔ میری طالب علمی ہی کے زمانے میں ڈاکٹر صاحب
نے مجھے بھی کیرنن سے ملوایا بلکہ ایک دو بار اپنے ساتھ ان کے ہاں لے بھی
گئے۔ وہ ایچیسن کالج کے ملحقہ بنگلوں میں سے ایک میں رہتے تھے۔ کیرنن کو
انگریزی شعر وادب کا ذوق تو تھا ہی ڈاکٹر صاحب کی دوستی میں انہیں اردو
پڑھنے کا شوق ہوا۔ اس میں انہوں نے کافی استعداد پیدا کر لی اور آخر ڈاکٹر
صاحب کی مدد سے انہوں نے اقبال کی نظموں کا انگریزی میں نہایت اعلیٰ ترجمہ
کیا جو انگلستان میں شائع ہوا۔ اس کے بعد کیرنن نے ڈاکٹر صاحب ہی کی مدد سے
فیض کی غزلوں اور نظموں کا بھی انگریزی میں منظوم ترجمہ کا کام شروع کر
دیا۔ کیرنن جنگ کے خاتمہ پر واپس انگلستان چلے گئے اور کچھ عرصہ کے بعد
ایڈنبرا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہو گئے۔ میں ان سے 1955ء میں اپنے
دوران قیام لندن میں بھی ملا۔ 1965ء کی گرمیوں میں وہ پھر لاہور آئے اور
ڈاکٹر صاحب کے ہاں جو اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل تھے لاج میں
مہینوں کا قیام کیا۔ اس دوران کئی بار میرا بھی ان سے ملنا ہوا۔ اس زمانے
میں انہوں نے فیض کے ترجموں پر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مل کر نظرثانی کی۔ کراچی
جا کر فیض سے بھی مشورے کئے اور آخر یہ ترجمے جو میری نظر میں آج بھی اپنی
مثال آپ ہیں کتابی شکل میں یونیسکو کے زیراہتمام ایک انگریز پبلشر نے اردو
نظموں کے ساتھ انتہائی حسن وخوبی سے شائع کئے۔ اس کتاب میں کیرنن کا ایک
طویل دیباچہ فیض کی زندگی اور شاعری پر بھی شامل ہے جس میں انہوں نے ڈاکٹر
نذیر احمد کا انتہائی خلوص ومحبت سے ذکر کرتے ہوئے ترجمے میں ان کی بیش
قیمت اعانت کا اعتراف کیا ہے۔ اسی قسم کا اعتراف انہوں نے اقبال کے ترجموں
والی کتاب کے دیباچے میں بھی کیا تھا۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ پطرس بخاری صاحب پاکستان بننے سے چند مہینے قبل ہی
آل انڈیا ریڈیو سے رخصت ہو کر گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کی حیثیت سے
واپس آ گئے تھے۔ تقسیم کے ہنگاموں اور گرمیوں کی تعطیلات کے بعد جب کالج
دوبارہ کھلا تو بخاری صاحب کا دور شروع ہوا۔ انہوں نے کالج کی مختلف
انجمنوں کے سربراہوں میں جو تبدیلیاں کیں ان کے نتیجے میں ڈاکٹر صاحب کو
شعر وادب سے ان کے شغف کی بناء پر مجلس اقبال کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اس پر
سٹاف کے ممبروں میں کچھ چہ مگوئیاں بھی ہوئیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب سائنس کے
شعبے سے تعلق رکھتے تھے مگر واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے بڑی محنت اور خوبی سے
اس ذمہ داری کو نبھایا۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر لکھنے پڑھنے والے لڑکوں کی حوصلہ
افزائی کیا کرتے تھے اور انہیں مجلس میں اپنے مضامین اور افسانے پڑھنے کی
ترغیب دیتے تھے۔ اشفاق احمد جو بعد میں ہمارے چوٹی کے افسانہ نگار‘ ڈرامہ
نگار شمار ہونے لگے کالج میں ڈاکٹر صاحب کی دریافت تھے۔ انہوں نے ہی ان سے
بخاری صاحب کی موجودگی میں مجلس میں ان سے ان کا پہلا افسانہ پڑھوایا تھا۔
ڈاکٹر صاحب جب تک ماڈل ٹاؤن میں رہے تو شہر کی زندگی سے الگ تھلگ رہے مگر
جب چند برسوں کے بعد پروفیسر سراج الدین پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے اور
لاج میں منتقل ہو گئے تو ڈاکٹر صاحب کو کالج سے ملحقہ کوٹھیوں میں سے سراج
صاحب والی کوٹھی الاٹ ہو گئی اور وہ ماڈل ٹاؤن کا گھر چھوڑ کر یہاں آ گئے۔
سراج صاحب کے زمانے میں تو یہ کوٹھی ان کے ساز وسامان سے بھری ہوئی تھی۔
ڈاکٹر صاحب کے رہن سہن کا انداز دوسرا تھا۔ بہرحال انہوں نے اپنے سادہ
طریقے سے اسے آراستہ کر لیا۔ اب ان کے دوست احباب ان کے ہاں آنے جانے لگے
اور باہر سے آنے والے قیام بھی کرنے لگے۔ اس زمانے کے مشہور سارنگی نواز
پونچھ والے جن کے فن کے ڈاکٹر صاحب گرویدہ تھے جب لاہور آتے تو ڈاکٹر صاحب
ہی کے ہاں ٹھہرتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک شام ڈاکٹر صاحب نے مجھے بھی دعوت دی
اور ہم رات گئے تک سارنگی پر ان سے مختلف راگ سنتے رہے۔ میرے سوا ایک دو
حضرات ہی اور تھے کیوں کہ ڈاکٹر صاحب محفل آرائی کے نہ قائل تھے اور نہ ان
کو اس کاشوق تھا۔ موسیقی سے اپنے ذوق وشوق کی تسکین ریڈیو اور ریکارڈوں سے
کیا کرتے تھے۔ صرف اپنی موسیقی ہی کے نہیں مغربی موسیقی کے بہت سے ریکارڈ
بھی ان کے پاس موجود تھے خصوصاً بیتھو ون اور موتزارٹ کے۔ ان کے فن میں
خاصا ادرک بھی رکھتے تھے۔
موسیقی کے ساتھ ساتھ انہیں مصوری سے بھی لگاؤ تھا۔ انگلستان جاتے تو چیدہ
چیدہ مصوروں کے پرنٹ خرید لاتے۔ ایک دفعہ میرے لئے بھی گوگاں کے دو پرنٹ
لائے تھے۔ پاکستانی مصور عبدالرحمن چغتائی سے تو ان کے خاص تعلقات تھے۔
چغتائی صاحب سے میرا تعارف تو تاثیر صاحب کے ذریعے ہوا تھا وہ ایک دفعہ
مجھے اپنے ساتھ ان کے گھر بھی لے گئے تھے۔ اس کے بعد مجید ملک صاحب کے ساتھ
بھی میں کئی بار ان کے ہاں گیا مگر چغتائی صاحب کے ساتھ میرا زیادہ ملنا
جلنا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہی ہوا۔ گورنمنٹ کالج میں میری لیکچراری کے زمانے
میں ڈاکٹر صاحب کا اور میرا ایک پروگرام طے پا گیا تھا جس پر بعد میں بھی
میرے قیام لاہور کے دوران عمل ہوتا رہا۔ موسم سرما کے دوران مہینے میں ایک
دو بار چھٹی کے دن ہم دس گیارہ بجے کے قریب سائیکلوں پر راوی کے کنارے پہنچ
جاتے۔ سائیکل گورنمنٹ کالج کی کشتیوں کے اڈے پر چھوڑتے اور پیدل دریا کے
اوپر کی طرف درختوں کے اس جنگل میں نکل جاتے جو اس زمانے میں ذخیرہ کہلاتا
تھا۔ وہاں ہم سوکھے پتوں کو روندتے‘ پرندوں کی چہکاریں سنتے دور تک نکل
جاتے۔ پھر دریا کے کنارے بیٹھ کے دوپہر کا کھانا کھاتے جو ہم نیلے گنبد کے
اسی مخصوص کھوکھے سے ساتھ لے جاتے تھے۔ اتنے میں کشتی والا اس کنارے پر
کشتی لے آتا۔ ہم کشتی میں بیٹھ کر واپس اڈے پر آتے‘ اس کے بعد اپنی
سائیکلوں پر سوار جب ہم راوی روڈ سے گزرتے تو اکثر چغتائی صاحب کے ہاں پڑاؤ
کرتے۔
چغتائی صاحب کے ہاں دستور یہ تھا کہ گھنٹی سننے پر اوپر کھڑکی سے ان کے
بھائی عبدالرحیم جھانکتے‘ دیکھتے کہ کون ہے کیونکہ باریابی کا شرف بہت کم
لوگوں کو حاصل تھا۔ خوش قسمتی سے ہم ان میں شامل تھے۔ وہاں چائے اور سموسوں
سے ہماری تواضع ہوتی۔ سٹوڈیو میں بھی لے جاتے جس کی کھڑکیوں سے اندرون شہر
کے مکانوں کی چھتوں اور منڈیروں‘ شاہی مسجد کے گنبدوں اور میناروں کے منظر
دکھائی دیتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ چغتائی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو
اپنے مخصوص انداز میں مخاطب کیا اور اپنی ایک تصویر کی ڈرائنگ دکھائی۔
ڈاکٹر صاحب نے غور سے دیکھی اور خاموش رہے۔ چغتائی صاحب نے ذرا جھنجھلا کے
پوچھا‘ کچھ بولتے کیوں نہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے کچھ جھجکتے ہوئے بعض خطوط کی
طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ چغتائی صاحب نے بورڈ سے
ڈرائنگ اٹھائی اور پھاڑ دی۔ کہنے لگے مجھے تمہاری آنکھ پر اعتبار ہے‘ تمہیں
ٹھیک نہیں لگی تو پھر بے کار ہے۔
ڈاکٹر صاحب طبعاً بڑے صاف گو اور کھرے انسان تھے۔ انہیں ہر وہ بات کرنے سے
عار تھی, جسے وہ غلط سمجھتے ہوں۔ چغتائی صاحب کا ان کو بڑا احترام تھا مگر
جیسا کہ میں نے بیان کیا‘ ان کی ڈرائنگ کے متعلق وہ اپنی بات کہنے سے نہیں
چوکے۔ اسی طرح صوفی تبسم صاحب کی شرح غزلیات غالب (فارسی) جب پیکجز کی طرف
سے شائع ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے پیکجز کے اشاعتی پروگرام کے ایڈیٹر کی حیثیت
سے اس کا ’’تعارف‘‘ لکھا اور اس میں تعریف وتوصیف کے ساتھ یہ جملے بھی
اضافہ کر دیئے:
’’مسود ہ دیکھتے ہوئے بعض جگہ ایسا احساس ہوتا ہے کہ ان (صوفی صاحب) کی
تشریح ایک اوسط درجے کے طالب علم کے لئے کافی نہ ہو گی اور اسے تشنہ رکھے
گی۔ بعض دوسری جگہوں پر نظر آتا ہے کہ شارح شعر کے اصل خیال کو چھوڑ کر صرف
ونحو کے کسی ضمنی مسئلے کی طرف نکل گیا ہے اور کئی جگہ تشریح کی بجائے صرف
ترجمے پر اکتفا کیا گیاہے حالانکہ وہاں تشریح کی ضرورت تھی۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کے ان جملوں سے اختلاف کرنا تو مشکل ہے پھر بھی برسبیل تذکرہ جب
میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے جو محسوس کیا لکھ دیا۔ میں
نے اس کے جواب میں صرف یہی کہا کہ ’’تعارف‘‘ کا تبصرہ ہونا تو ضروری نہیں
ہوتا۔ دراصل یہاں بھی ڈاکٹر صاحب نے اسی صاف گوئی سے کام لیا تھا جو ان کی
طبیعت کا خاصہ تھی۔
ڈاکٹر صاحب کو بے ضرر سی فقرہ بازی کا بھی شوق تھا۔ اس کا کچھ اندازہ میرے
نام ان کے خطوط سے بھی ہو سکتا ہے ۔ وہ بڑے مزے کے خطوط اور رقعے لکھا کرتے
تھے مگر افسوس کہ ان میں سے اکثر ضائع ہو گئے۔ کبھی کبھی وہ تاثیر صاحب سے
بھی اس قسم کی فقرہ بازی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ
وہ تاثیر صاحب کے ہاں آئے تو وہاں مجلس گرم تھی۔ تاثیر صاحب اپنے خاص رنگ
میں باتوں میں مشغول تھے اور بتا رہے تھے کہ ایک دن پہلے ممتاز دولتانہ
صاحب ان سے ملنے آئے تھے۔ یہ پنجاب میں 1950ء کے انتخاب کے دن تھے جن کے
نتیجے میں دولتانہ صاحب وزیراعلیٰ ہوئے۔ تاثیر صاحب نے دولتانہ صاحب کی
تعریف کرتے ہوئے اپنی اس رائے کا اظہار کیا کہ وہ پنجاب کی سیاست پر حاوی
نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب آئے‘ کچھ دیر بیٹھے مگر ان کو اس گفتگو سے کوئی
دلچسپی نہ تھی لہٰذا وہ جانے کے لئے اٹھے تو تاثیر صاحب نے کہا ’’کہاں جا
رہے ہو، ابھی تو آپ آئے ہو۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بے ساختہ یہ شعر پڑھا:
مجلس وعظ تو تادیر رہے گی قائم
یہ ہے مے خانہ ابھی پی کے چلے آتے ہیں
حاضرین مجلس بے اختیار ہنس پڑے۔ تاثیر صاحب کچھ خفیف سے ہوئے اور ڈاکٹر
صاحب مسکراتے ہوئے رخصت ہو گئے۔
جب ڈاکٹر صاحب کی ترقی ہوئی تو وہ گورنمنٹ کالج جھنگ کے پرنسپل بنا دیئے
گئے۔ یہ شاید 1952ء کا واقعہ ہے کہ مجھے ڈاکٹر صاحب نے جھنگ آنے کی دعوت
دی۔ اس زمانے میں قدرت اﷲ شہاب وہاں کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ ان سے ڈاکٹر صاحب
کا خاصا ربط ضبط رہتا تھا جس شام میں پہنچا، اسی شام ڈاکٹر صاحب نے شہاب
صاحب کو کھانے پر بلایا۔ شروع سردیوں کے دن تھے‘ ہم لوگ کھانے کے بعد ڈاکٹر
صاحب کے مطالعہ کے کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں دور سے کسی
کے گانے کی آواز آئی جو رفتہ رفتہ قریب اور زیادہ سے زیادہ بلند ہوتی گئی۔
رات کی خاموش فضا میں یہ آواز ایک عجیب کیفیت پیدا کر رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب
اس آواز سے آشنا تھے اور میں بھی‘ چنانچہ انہوں نے میری طرف دیکھا اور میں
نے ان کی طرف۔ مگر ہم دونوں خاموش رہے۔ آخر وہ آواز کوٹھی کے اندر سے آنے
لگی اور پھر اچانک بند ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی ایک لمبا تڑنگا پکے رنگ
اور کالی داڑھی والا شخص لمبے گیروے کرُتے میں ملبوس گلے میں منکوں کی
مالائیں ڈالے ڈاکٹر صاحب کے ملازم کے ساتھ آداب سلام بجا لاتاہوا کمرے میں
داخل ہوا۔ شہاب صاحب تخت پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز تھے۔ اس شخص کو
دیکھتے ہی وہ اس طرح اٹھے کہ جیسے وہ اس کے گٹھنے چھو لیں گے۔ عین اس وقت
ڈاکٹر صاحب نے رسان سے یہ کہہ کر اس ساری طلسماتی فضا کا خاتمہ کر دیا کہ
شہاب صاحب تشریف رکھئے‘ یہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔ یہ کہنے کے بعد وہ اس شخص
سے مخاطب ہوئے: موسی شاہ‘ تم نے کھانا کھایا ہے؟ اور اس کے ساتھ ہی ملازم
سے کہا موتی شاہ کو کھانا کھلاؤ اور اس کے ٹھہرنے کا بندوبست کرو۔ دراصل
شہاب صاحب اپنے رجحان طبیعت کی بناء پر یہ سمجھتے تھے کہ کمرے میں شاید کسی
روحانی بزرگ کا ورود ہوا ہے۔ موتی شاہ ملازم کے ساتھ کمرے سے رخصت ہوئے تو
شہاب صاحب نے کسی قدر خفت کے ساتھ اطمینان کا سانس لیا۔
موتی شاہ ڈاکٹر صاحب کے ملنگ بھائی تھے اور ان سے عمر میں کوئی چھ برس
چھوٹے۔ اتفاق کی بات ہے کہ میری ان سے ملاقات پہلے ہوئی اور ڈاکٹر صاحب سے
بعد میں۔ وہ اس طرح کہ میرے دوستوں میں مرحوم حمید شیخ بھی شامل تھے۔ آخری
عمر میں پاکستان ٹائمز میں ایچ ایس کے نام سے کالم لکھا کرتے تھے مگر اس
زمانے میں کہ جس کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ ایم اے کے طالب علم تھے اور
کلاسیکی موسیقی سے بھی شوق رکھتے تھے۔ ان کے ساتھ ہم سب دوست یعنی امجد
حسین اور صفدر میر (زینو) دو ایک بار شاہی محلے کی ایک
(6)
بیٹھک میں گانے کی محفل میں بھی گئے تھے۔ وہاں بڑے غلام علی خان‘ چھوٹے
غلام علی اور برکت علی خاں وغیرہ کا اجتماع ہوتا تھا۔ موتی شاہ کو میں نے
پہلی بار وہیں دیکھا تھا۔ آواز انہوں نے ایسی پاٹ دار اور ساحرانہ پائی تھی
کہ باید وشاید۔ وہیں ہم نے یہ سنا کہ بڑے غلام علی خاں ان کو کلاسیکی
موسیقی کی باقاعدہ تعلیم دینا چاہتے تھے کہ وہ بطور شاگرد ان کا نام روشن
کریں گے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کوشش بھی کی مگر موتی شاہ تو پیدائشی طور
پر کمزور ذہن رکھتے تھے‘ ان میں کچھ سیکھنے اور لکھنے پڑھنے کی صلاحیت ہی
نہ تھی‘ بس غزلیں اور پنجابی گیت سادہ سروں میں گا لیا کرتے تھے اور آواز
کے سہارے گانے میں جادو جگا دیتے تھے۔ حمید شیخ کے گھر کے قریب ہی ایک
صاحب، غلام فاروق رہتے تھے جو موسیقی کے ماہر تھے۔ بعد میں انہوں نے لاہور
میں ایک میوزک سوسائٹی بھی قائم کی تھی۔ انہی کی صحبت میں حمید شیخ کو بھی
موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوا تھا۔ موتی شاہ فاروق صاحب کے ہاں بھی آتے جاتے تھے
اور عموماً رات کے وقت راستے میں ہمارے گھر کی سڑک سے گزرتے تو اکثر گاتے
ہوئے گزرتے۔ ان کو رات کے وقت شاہراہوں پر گانے کی عادت تھی۔ جہاں جاتے
وہاں اپنی آمد کا اعلان بھی اسی انداز سے کرتے۔ مختصر یہ کہ میں موتی شاہ
سے آشنا تھا اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ ان کے ایک بھائی پروفیسر ہیں۔
پھر جب ڈاکٹر نذیر صاحب سے میری ملاقات ہوئی تو میں ان کے ہاں بھی موتی شاہ
سے کئی بار ملا۔
میرے جھنگ کے قیام کے دوسرے دن ڈاکٹر صاحب نے مجھے اپنا کالج دکھایا۔ کچھ
اساتذہ اور لڑکوں سے ملوایا۔ سہ پہر کو ڈاکٹر صاحب نے لڑکوں کے ساتھ کرکٹ
کھیلی۔ ڈاکٹر صاحب کے طور طریقوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ بڑے دوستانہ
ماحول میں کالج چلا رہے ہیں حالانکہ جھنگ کالج کا پورا ماحول ان کے لئے نیا
تھا مگر انہوں نے اسے اپنے لئے بڑا سازگار بنا لیا تھا۔ شام کو ڈاکٹر صاحب
نے ایک لڑکے کو مجھ سے ملوانے کے لئے گھر بلایا اور اس نے مجھے حیران کر
دیا۔ وہ لڑکا اس کالج میں ایف اے کا طالب علم تھا اور عمر میں کسی قدر
زیادہ کیوں کہ اس نے کالج سے پہلے کسی مدرسے کی تعلیم میں وقت گزارا تھا۔
اس کی فارسی دانی کا یہ عالم تھا کہ سعدی وحافظ کی غزلوں کے علاوہ خاقانی
اور عرفی کے قصیدے بھی اسے ازبر تھے اور ان کے بارے میں خاصی سمجھ بوجھ بھی
رکھتا تھا۔ جھنگ میں شاعر جعفر طاہر کے علاوہ یہ لڑکا بھی ڈاکٹر صاحب کی
دریافت تھا۔
ڈاکٹر صاحب گورنمنٹ کالج لاہور کے بھی پرنسپل ہوئے مگر میں اس زمانے میں
لاہور سے رخصت ہو چکا تھا۔ لاہور سے کراچی گیا اور وہاں سے کوئی تین سال
بعد امریکہ جا پہنچا۔ گورنمنٹ کالج کے یوم تاسیس کی صدسالہ تقریبات 1964ء
میں ہوئیں تو ڈاکٹر صاحب نے ازراہِ شفقت مجھے ان کا دعوت نامہ واشنگٹن میں
بھجوایا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے یہاں بھی بطور پرنسپل ڈاکٹر صاحب نے سٹاف
ممبروں سے دوستانہ اور طلبہ سے مشفقانہ سلوک برقرار رکھا۔ اس زمانے میں
پہلے تو جنرل ایوب خان کا 1962ء کا دستور آیا جس کے بارے میں مشہور عوامی
شاعر حبیب جالبؔ کی نظم کا ملک بھر میں بہت چرچا تھا خصوصاً اس شعر کا:
ایسے دستور کو‘ صبح بے نور کو
میں نہیں جانتا‘ میں نہیں مانتا
پھر اس کے بعد جنرل ایوب خان کا فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی انتخاب ہوا۔
دونوں موقعوں پر طلبہ کی سیاسی تنظیموں نے ہنگامے کئے۔ گورنمنٹ کالج میں
طارق علی اور سلمان تاثیر جیسے طالب علم لیڈر موجود تھے۔ طارق علی کے والد
مظہر علی خان ڈاکٹر صاحب کے جاننے والے تھے اور سلمان تاثیر تو گویا ان کے
بھتیجوں کی طرح تھے۔ یہ دونوں احتجاجی جلوس لے کر نکلتے تو ڈاکٹر صاحب ان
کے ساتھ ہو جاتے۔ پولیس جلوس کا محاصرہ کرتی تو ڈاکٹر صاحب طلبہ اور پولیس
میں بیچ بچاؤ کراتے‘ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل حضرات تو بڑے الگ تھلگ اور رعب
داب والے لوگ ہوا کرتے تھے مگر ڈاکٹر نذیر احمد کا زمانہ لوگ اسی لئے یاد
کرتے ہیں کہ وہ بہت غیرمعمولی قسم کے مگر بہت ہی مقبول پرنسپل تھے۔
میں 1965ء کے وسط میں امریکہ سے واپس آیا تو میرا تقرر لاہور میں اس وقت کی
فنانس سروسز اکیڈمی میں ہوا۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ پھر
جاری ہو گیا مگر یہ ڈاکٹر صاحب کا بطور پرنسپل گورنمنٹ کالج آخری زمانہ تھا
پھر بھی ستمبر کی جنگ کے بعد ملک میں ذرا سکون ہوا۔ لاہور کی زندگی اپنی
نہج پر آئی تو ڈاکٹر صاحب ایک اتوار کو گورنمنٹ کالج کے کچھ لڑکوں اور
استادوں کی کرکٹ ٹیم لے کے اکیڈمی کی ٹیم سے میچ کھیلنے آئے۔ اکیڈمی کی ٹیم
میں بھی کچھ لڑکے تو گورنمنٹ کالج ہی کے پرانے طالب علم تھے۔ سردیوں کے دن
تھے۔ بڑے مزے کا میچ ہوا۔ لڑکوں نے ڈاکٹر صاحب کی خاطر تواضع بھی خوب کی
اور عزت افزائی بھی۔ کیوں کہ چند دنوں کے بعد یعنی دسمبر 1965ء میں وہ
پرنسپل کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے تھے۔
میں نے ابتداء میں ڈاکٹر صاحب کی ایک خاص دلچسپی سیر وسیاحت کا بھی ذکر کیا
تھا اور اس کا بھی کہ وہ 1930ء کی دہائی کے وسط میں اعلیٰ تعلیم کے سلسلے
میں انگلستان گئے تھے۔ ان کے ماموں جن کی بیٹی سے ان کی شادی ہوئی تھی
انگلستان میں کاروبار کرتے تھے اور لندن میں رہتے تھے لہٰذا دوسری جنگ عظیم
کے دوران تو نہیں مگر جنگ کے بعد سے ایک عرصے تک کبھی اکیلے اور کبھی بیوی
بچوں سمیت گرمیوں کی چھٹیوں میں انگلستان چلے جاتے تھے اور وہاں سے یورپ کے
مختلف ملکوں کی سیر وسیاحت کے لئے نکل جاتے تھے۔ وہ سادہ آدمی تھے اور سیر
وسیاحت بھی نہایت سادہ طریقے سے ہی کرتے تھے۔ پانی کے جہازوں‘ بسوں‘ ٹرینوں
سے سفر کرتے۔ یوتھ ہوسٹلز یا اسی قسم کی سستی جگہوں پر قیام کرتے اور اکثر
پیدل گھومتے پھرتے۔ کچھ عرصے کے بعد ان کے ماموں نے انگلستان میں اپنا
کاروبار بند کر دیا اور وہ بمبئی آ گئے کہ ان کے کاروبار کا کچھ حصہ وہاں
بھی تھا۔ اب ڈاکٹر صاحب انگلستان کی بجائے بمبئی جانے لگے۔ وہاں ان کا وقت
زیادہ تر ادیبوں اور شاعروں کے درمیان گزرتا۔ راجندر سنگھ بیدی اور کرشن
چندر وغیرہ کو تو وہ لاہور سے جانتے تھے۔ خواجہ احمد عباس‘ علی سردار جعفری
وغیرہ سے ان کی ملاقات وہاں ہو گئی۔ غرض سفر ہو یا حضر ڈاکٹر صاحب اپنے ڈھب
کے لوگوں سے ملتے تھے اور اسی میں خوش رہتے تھے۔ بمبئی جانے میں رکاوٹ ہوتی
تو ڈاکٹر صاحب تعطیلات کاغان‘ سوات اور چترال کی طرف نکل جاتے۔ غرض ان کو
جہاں گردی کا شوق تھا۔
ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی ڈاکٹر صاحب نے لاہور چھاؤنی میں ایک خاصے بڑے قطعہ پر
کہ جس کے پچھواڑے میں اور سامنے سے گزرنے والی سڑک پر قطار اندر قطار درخت
ہی درخت تھے‘ اپنے مکان کی طرہ ڈال دی تھی۔ مکان بھی انہوں نے خاص اپنی
پسند کا بنوایا‘ چاروں طرف پرانی طرز کے دالان اور برآمدے اور بیچ میں ایک
وسیع صحن۔ پیچھے درختوں سے بھرا ہوا باغ۔ ساری عمارت سرخ اینٹوں کی۔ کہیں
پلستر کا نام ونشان نہیں‘ فرش بھی ہشت پہلو سرخ اینٹوں کے۔ غرض وہ اس زمانے
کے مکانوں کی طرح کا مکان نہیں۔ قدیم وضع کا مکان ہے کہ ڈاکٹر صاحب خود بہت
سی باتوں میں قدیم وضع کے پابند تھے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد سید بابر علی نے ڈاکٹر نذیر احمد کو اپنے ادارے پیکجز کے
اشاعتی پروگرام کا مشیر بنا لیا۔ اس حیثیت میں ڈاکٹر صاحب کو شعر وادب سے
اپنے شغف کے اظہار کا موقع ملا۔ یہاں انہوں نے پنجابی زبان کے صوفی شاعروں
بلھے شاہ اور شاہ حسین کے کلام کی بڑی محنت اور جاں فشانی سے تدوین کی۔ اس
سلسلے میں تحقیق وتفتیش کے سلسلے میں انہوں نے مشرقی پنجاب کا سفر کیا اور
وہاں کی یونیورسٹیوں سے پنجابی ادب کے شعبے اور دوسرے اہل علم سے رابطہ
کیا۔
ڈاکٹر صاحب کو پنجابی کے صوفی شاعروں سے ایک خاص ربط وتعلق تھا۔ وہ اپنی
طبیعت کے صوفی تھے اور اہل دل لوگوں میں سے تھے۔ اس کا اظہار انہوں نے میرے
نام ایک خط میں بھی کیا۔ ان کے چھوٹے بھائی موتی شاہ تو عرف عام میں ملنگ
تھے مگر ایک خاص طرح کے ملنگ ڈاکٹر صاحب بھی تھے۔ چنانچہ ان کے ایک
ہندوستانی لندنی دوست اقبال سنگھ ان کو خط لکھتے تو ہمیشہ ’مائی ڈیر ملنگ‘
سے مخطاب کرتے‘ اقبال سنگھ کی تاثیر صاحب سے بھی دوستی تھی۔ انہوں نے تاثیر
صاحب پر ایک نہایت اچھا انگریزی مضمون اسلامیہ کالج کے میگزین ’’کریسنٹ‘‘
کے تاثیر نمبر کے لئے لکھا تھا۔ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب سے ان کے تعلقات آخر
دم تک قائم رہے۔ قیام لندن کے دوران بھی ان سے اکثر ملتا رہا۔ آخری بار ان
سے میری ملاقات لندن ہی میں اکتوبر 1989ء میں ہوئی۔ وہ اس وقت 80 برس کی
عمر سے تجاوز کر چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا تو انتقال ہو چکا تھا‘ ان کو بڑی
محبت سے یاد کرتے رہتے اور ان کے تیار کئے ہوئے پنجابی شاعروں کے ایڈیشنوں
کی تعریف کرتے رہے۔
آخر عمر میں ڈاکٹر صاحب کو گردوں کی خرابی کا مرض ہوا۔ اس کی شدت بڑھی تو
وہ صاحب فراش ہو گئے۔ اس کے باوجود فیض صاحب کی تدفین کے دن ان کے ہاں
پہنچے گاڑی ہی میں بیٹھے رہے۔ وہیں انہوں نے ایلس اور فیض کی بچیوں سے
ملاقات کی اور سخت بے قراری کے عالم میں آنسو بہاتے رہے۔ میں بھی وہاں ان
سے ملا مگر تفصیلی ملاقات کے لئے اس شام ان کے گھر گیا۔ بستر پر لیٹے ہوئے
تھے‘ مجھ سے کہنے لگے کہ گھر والے خوامخواہ میرا علاج کروا رہے ہیں۔ اب وقت
آن پہنچا ہے۔ اس حقیقت کو قبول کرنا چاہئے۔ یہ بھی ان کے صوفی مزاج اور
درویشانہ طبیعت کی دین تھی کہ وہ بالکل راضی برضا نظر آتے تھے۔ یہی میری ان
سے آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
ڈاکٹر نذیر احمد اپنی تربیت اور پیشے کے اعتبار سے سائنس دان تھے مگر وہ
ادیبوں‘ شاعروں‘ مصوروں اور مغنّیوں بلکہ اس زمرے میں ہر نئے جوہرقابل کے
قدردان تھے۔ قدرت نے انہیں ادب دفن کے معاملات میں ’خبر‘ اور ’نظر‘ دونوں
سے نوازا تھا۔ انہوں نے تمام عمر اپنی انہی صلاحیتوں کی پرورش کی اور انہی
کے سہارے کتابوں کی دنیا میں ایسی نشانیاں بھی چھوڑیں جو ان کی یاد کو دلوں
سے محو نہیں ہونے دیں گی۔
************
ڈاکٹر نذیر احمد کا تعارف ڈاکٹر لئیق بابری نے تحریر کیا ہے جو گورنمنٹ
کالج لاہور کے میگزین ’’راوی‘‘ کے خصوصی شمارہ 1989ء اور کالج کی 125ویں
سالگرہ کے موقع پر شائع ہوا تھا۔ یہ تعارف ڈاکٹر لئیق بابری صاحب سے شکریے
کے ساتھ من وعن شائع کیا جا رہا ہے جبکہ ڈاکٹر نذیر احمد کی شخصیت کے تمام
پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہوا ایک الگ مضمون ڈاکٹر آفتاب احمد صاحب کا ہے جو اس
سے پہلے ’’بیاد صحبت نازک خیالاں‘‘ شخصی خاکوں کے مجموعے میں شائع ہو چکا
ہے۔ یہ شہرہ آفاق دونوں تحریریں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی پوسٹ گریجویٹ
لائبریری کے چیف لائبریرین جناب عبدالوحید صاحب نے کمال مہربانی فرماتے
ہوئے بطور خاص مجھے بھجوائیں تاکہ تحقیق کے بعد میں انہیں اپنی کتاب میں
شامل کر سکوں۔ اس کاوش پر جہاں میں جناب عبدالوحید صاحب کا دل کی گہرائیوں
سے مشکور ہوں وہاں ڈاکٹر لئیق بابری اور ڈاکٹر آفتاب احمد کا بھی شکرگزار
ہوں جن کی بہترین تحریریں ڈاکٹر نذیر احمد کے موثر تعارف اور بہترین شناخت
کا باعث بنیں۔ بے شک ڈاکٹر نذیر احمد جیسے لوگ صدیوں کے بعد پیدا ہوتے ہیں
اور صدیوں تک ان کی یادیں ذہن سے محو نہیں ہوتیں ۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالی
ڈاکٹر نذیر صاحب اور ان سے محبت کرنے والے اور ان کے وابستگان تمام اہل علم
، اہل ذوق اور اہل دانش کوجوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔آمین ،اور برادرم
عبدالوحید کو اﷲ تعالی صحت اور ایمان والی لمبی زندگی عطا فرمائے۔آمین۔نیا
زآگیں۔ محمد اسلم لودھی
|