موٹر وے خاتون زیادتی کیس میں مجرموں سے زیادہ لوگ سی
سی پی او عمر شیخ کے اس فرمان پر کہ ’’خاتون رات کی تاریکی میں اکیلی موٹر
وے پر کیوں آئی ۔۔؟‘‘پر انہیں لعن طعن کر رہے ہیں ۔بلاشبہ موصوف کا بیان
قابل مذمت ہے کیونکہ یہ وقت اس بات کا نہیں تھا ۔یہ وہ سوال ہے کہ جو ہر ذی
روح کے ذہن میں ابھرتا ہے اور اس کا جواب تو بہر حال متاثرہ خاتون اور اس
کے لواحقین ہی دے سکتے ہیں ۔واقعہ سراسر ظلم ہے ۔سردار شہزاد اورجنیدنامی
اشخاص اس ظلم کی کہانی کے بنیادی کردار نظر آتے ہیں اور ان دونوں سے’’
پاکستانی طریقہ ء تفتیش‘‘ کے ذریعے سب کچھ اگلوایاجا سکتا ہے ۔
اسلام نے مغرب کے بعد نوجوانوں کیلئے گھر سے باہر نکلنے کی پابندی لگا رکھی
ہے ،چہ جائے کہ عورت لیٹ نائٹ سڑک پر آ نکلے ۔۔لیکن ہم کہاں اسلامی تعلیمات
پر عمل کرتے ہیں ۔ہم لوگ راتوں کو انجوائے کرتے ہیں تو دن میں خواب خرگوش
کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔اس بارے کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ پاکستان
بھر میں عورت کا اکیلے سفر کرنا یقینا خطرے سے خالی نہیں ۔یہاں تو خواتین
حجاب یا ’’پشاوری ٹوپی والے‘‘ برقعے میں بھی باہر نکلیں تو لوگوں کی نظریں
کسی Scannerکی طرح اس کا پوسٹ مارٹم کرتی نظر آتی ہیں ۔ہم لوگوں کی بہو
بیٹوں کو ’’گھورنے ‘‘ اور اذیت دینے میں اپناکوئی ثانی نہیں رکھتے اور نہ
ہی انہیں بے راہروی کی راہ پرڈالنے میں ذرا برابر شرم محسوس نہیں کرتے
۔تھانے یا کچہری جانے والی خاتون کو انصاف تو نہیں ملتا ۔البتہ یہاں موجود
بیشتر لوگ عورت کو عزت دینے اور انصاف میں اس کی مدد کرنے کی بجائے اسے
مزید اپنے جال میں پھانسنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں ۔جس کا
انجام یہ ہوتا ہے کہ لڑکی تنگ آکر کیس سے دست بردار ہو جاتی ہے یاخود کشی
کر لیتی ہے ۔ دوسروں کی عزت پر ہاتھ ڈالتے وقت ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں
لیکن جب اس طرح کی آگ ہمارے آنگن میں لگتی ہے ۔۔جب ہماری اپنی عزت کا جنازہ
نکلتا ہے تو ہماری غیرت جاگ جاتی ہے ۔سانحہ موٹر وے میں متاثرہ خاتون کے
بارے میں یہ کہاجا رہا ہے کہ موصوفہ ایک ماڈرن روشن خیال خاتون تھیں ۔اس کا
لباس گویا ’’ننگ انسانیت کا نمونہ ‘‘تھا ۔لیکن اگر ایسا بھی تھا تو اس کا
لباس اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ اس کا ریپ کردیا جائے ۔۔نہتی عورت کو
’’کھلونا سمجھنا‘‘مردوں کا شیوہ نہیں ۔وہ مرد ہی کیا جو کسی نہتی عورت کو
اکیلا پا کر درندگی پر اتر آئے ۔یہ بھی مکافات عمل ہے ۔۔آج جن لوگوں نے ایک
خاتون کی عزت تارتار کی ۔آنے والے کل کو ان لوگوں کی عزتوں کا جنازہ بھی
نکلے گا کیونکہ بندوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو سزا دنیا میں ہی ملنی
ہے ۔اور ایسے لوگوں کی معافی روز محشر بھی نہیں ہے ۔
ایک لمحہ موٹروے سانحے کا جائزہ لیں تو بہت سے سوال جنم لیتے ہیں ۔موٹر وے
دونوں اطراف سے خار دار تاروں کے حصار میں ہے ،موٹر وے کے داخلی اور خارجی
راستوں پر ٹوکن لئے اور پیسے دئیے بناء کوئی موٹر وے کی حدود میں داخل
ہوسکتااور نہ نکل سکتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔گاڑی میں پیٹرول کم ہونے
کی صورت میں ’’اطلاعی سسٹم‘‘میٹر موجود ہوتا ہے ،جو بہت پہلے بتا دیتا ہے
کہ ’’فیول ‘‘کم ہے ۔اور اس لیول پر بھی گاڑی کسی نہ کسی پیٹرول پمپ تک
پہنچائی جا سکتی ہے۔کہا جارہا ہے گجرپورہ کے علاقے میں واقع رنگ روڈ پر
خاتون کی گاڑی بند ہوئی ،یہ روڈ موٹر وے کا حصہ نہیں ہے ۔۔۔؟ایسے میں خاتون
نے اس ویران سڑک کا راستہ کیوں اختیار کیا ۔جبکہ موبائل پر موجود ایپ
راستوں کی نشاندہی بھی کرتی ہے ۔ اگر رنگ روڈ غیر محفوظ ہے تو وہاں کسی
پولیس اہلکار کی ڈیوٹی کیوں نہیں لگائی گئی کہ وہ اس راستے پر جانے والوں
کی رہنمائی کرے ۔اگر قریبی آبادیوں کے لوگ اس علاقے میں راہزنی یا ڈکیتی کی
وارداتیں کرتے ہیں تو اس کی روک تھام کیلئے کیوں اقدامات نہیں اٹھائے گئے ،
اگرلوگوں نے خاردار تار کاٹ کر راستے بنا لئے ہیں (جو ممکن نہیں ہے)تو اس
کا ذمہ دار کون ہے ۔۔؟ کوئی بتا سکتا ہے کہ خاتون کو ریپ کیلئے لے جانے
کیلئے خاردار تار کاٹنے کیلئے آلات کہاں سے آئے ،اور خاتون کو’’ریپ‘‘ کیلئے
جنگل یا جھاڑیوں میں کیسے لے جایا گیا ۔ ۔۔؟اس سارے واقعے میں تین گھنٹے
لگے ،اس دوران بچوں کی کیفیت کیا تھی ۔؟پولیس کتنی دیر میں جائے وقوعہ پر
پہنچی ۔۔؟ خاتون کا کزن یا خیر خواہ جنید نامی شخص اطلاع ملنے کے بعد کتنی
دیر میں پہنچا ۔؟۔ سردار شہزاد نامی شخص کا کردار کیا ہے ۔؟یہ دونوں پرچہ
درج کروانے کے بعد غائب ہو گئے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنے
کوائف بھی غلط درج کروائے ہیں ۔اس تمام عرصے میں خاتون کا کن کن لوگوں سے
رابطہ رہا ۔۔؟خاتون نے اپنوں کی بجائے کسی غیر سے کیوں مدد مانگی ۔۔؟جدید
ٹیکنالوجی کے تحت اس علاقے میں موجود افراد اور زیر استعمال موبائل فونز کو
ٹریس کرنے کا جدید نظام موجود ہے ۔۔ایسے میں پولیس لوگوں کو کہانیاں کیوں
سنا رہی ہے ۔۔؟گاڑی کے شیشے توڑتے وقت ملزمان کا خون بھی شیشوں کے ساتھ لگا
تھا ۔کیا اس خون سے ملزموں کو پکڑانہیں جا سکتا ۔۔؟پولیس نے عابد نامی ایک
کر یمینل نوجوان کو اس کیس کا اہم کردار بظاہر کیا ہے لیکن وہ بھی ابھی
پکڑانہیں کیا ۔خاتون کے دو ہمدرد جنید اور شہزاد بھی غائب ہیں ۔اس کے علاوہ
خاتون کے شوہر سمیت اس کا کوئی اور روارث بھی سامنے نہیں آیا ۔حکومت پنجاب
نے مجرموں کو گرفتار کروانے میں مدد دینے والوں کیلئے 25لاکھ روپے کا انعام
دینے کا اعلان بھی کیا ہے ۔واقعے کی حقیقت تو تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی
سامنے آسکے گی ۔لیکن ریٹنگ کے چکر میں چینلز اور سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ
یو ٹیوب پر عام لوگوں کے چلنے والے چینلز پر جو طرح طرح کی کہانیاں گردش کر
رہی ہیں ۔اس کیفیت نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے ۔ابھی کورونا
کا خوف ختم نہیں ہوا کہ ایک نیا سانحہ زبان زد عام ہے ۔من گھڑت کہانیاں اور
قیاس آرائیاں عروج پر ہیں ۔عزت کے نام پر خاتون تو پس پردہ چلی گئیں بچے
بھی لوگوں کی نظروں سے اوجھل کر دئیے گئے ہیں ۔پولیس کو اس بات کا بھی کھوج
لگانا چاہئے کہ خاتون اپنے بچوں کے ساتھ اکیلی ہی تھی یا اس کے ساتھ کوئی
اور اس کا واقف کار بھی ہم سفر تھا ۔۔؟حقیقت کو جھوٹ کے پردوں میں چھپانا
اتنا آسان نہیں ۔یہ سانحے ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے ۔اس خدشے کا اظہار بھی
کیاجا رہا ہے کہ کسی بے گناہ کو پولیس مقابلے میں ’’پار‘‘ کرکے اس واقعے کو
دفن ہی نہ کر دیا جائے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سانحے کے حقائق کا
پتہ چلایا جائے اور قوم کو سب کچھ بتا یا جائے ۔مجرموں کوبیچ چوہرائے
’’نشان عبرت‘‘ بناکر انصاف کا بول بالا کیا جائے ۔بعض لوگ اسے خاص مقاصد کے
تحت ’’پری پلان ‘‘قراردے رہے ہیں اگر ایسا ہوتویہ اور زیادہ افسوسناک ہے
۔اس کیس میں تاخیر کی بجائے فوری انصاف کی مثال قائم کرنا ہو گی ۔ حکومت
عالمی طاقتوں کے دباؤ میں کسی مجرم کوالٹا لٹکانے پر تیار نہیں لیکن مجرموں
کو کم از کم ایک دو دن کیلئے الٹالٹکا کر مجرمانہ ذہنیت کے حامل ان افراد
کو یہ پیغام دینا ناگزیر ہو چکا ۔کہ آئندہ کوئی ظالم بچ نہیں سکے گا ۔اگر
عمرانی حکومت یہ کام کر جائے تو یہ ظالموں کے لئے ایک بڑا پیغام ہوگا۔اس کے
بغیرقوم کی بیٹیوں اور بچوں کو درندوں سے بچانے کا کوئی اور طریقہ نہیں۔ |