بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی تعلیم وتربیت اور
معاشرے کا بہترین فرد بننے تک ماں باپ اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ بچے کی
قدم قدم پر رہنمائی کرتے ہیں، اسے زمانے کے ہر سردوگرم سے بچاتے ہیں، بولنا
، چلنا دوڑنا اور سنبھلنا سکھاتے ہیں۔ بچے کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں اور اس
بیماری میں ٹوٹ کر رہ جاتے ہیں۔ بچے کے سائبان بننے کی خاطر خود سارا سارا
دن کڑی دھوپ میں جلتے ہیں ، مشقتیں اٹھاتے ہیں۔ گویا اس کے لیے اپنی
زندگیوں کو وقف کردیتے ہیں، لیکن صد افسوس کہ جب وہی بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو
والدین کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں ۔ حالانکہ اس وقت ان کو اولاد کی زیادہ
ضرورت ہوتی ہے ، اس وقت وہ خدمت اور سکون کے محتاج ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے
کی بے حسی کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایک بار ہمارے ملک کی
عظیم ہستی عبدالستارایدھی (مرحوم) سے پوچھا گیا، آپ نے ہزاروں لاوارث لاشیں
دفن کی ہیں کیا کبھی کسی لاش کی بگڑی حالت یااس پرتشدد دیکھ
کرروناآیاتوانہوں نے آنکھیں بندکرکے گہری سوچ میں غوطہ زن ہوتے کہا منفرد
انکشاف کیا کہ ’’ تشدد یالاش کی بگڑی حالت تونہیں ، ہاں البتہ ایک مرتبہ
میرے رضاکارایک صاف ستھری لاش لے کرآئے جوتازہ انتقال کئے بوڑھے شخص مگرکسی
پڑھے لکھے اورکھاتے پیتے گھرانے کی لگ رہی تھی۔ اس کے سفیدچاندی جیسے بالوں
میں تیل لگاہواتھااورسلیقے سے کنگھی کی ہوئی تھی دھوبی کے دھلے ہوئے
سفیداجلے کلف لگے سوٹ میں اس کی شخصیت بڑی باوقارلگ رہی تھی مگرتھی وہ اب
صرف ایک لاش۔ ایدھی صاحب پھرکچھ سوچتے ہوئے گویاہوئے، ہمارے پاس روزانہ
سینکڑوں لاشیں بھی لائی جاتیں، مگرایسی لاش جو اپنے نقش چھوڑجائے کم ہی آتی
ہیں اس لاش کومیں غورسے دیکھ رہاتھاکہ میرے رضاکارنے جیسے بم پھوڑدیا، اس
نے کراچی کے ایک پوش ایریا کانام لے کرکہاکہ یہ لاش اس کے بنگلے کے باہرپڑی
تھی ہم جونہی بنگلے کے سامنے پہنچے توایک ٹیکسی میں سوارفیملی جوہماراہی
انتظارکرہی تھی اس میں سے ایک نوجوان برآمدہوااورجلدبازی کامظاہرہ کرتے
ہوئے ایک لفافہ ہمیں تھماتے ہوئے بولایہ تدفین کے اخراجات ہیں پھروہ خودہی
بڑ بڑایا یہ میرے والدہیں انکاخیال رکھنااچھی طرح غسل دے کرتدفین
کردینا۔اتنے میں ٹیکسی سے آوازآئی تمہاری تقریرمیں فلائٹ نکل جائے گی
جانوپلیز۔۔۔! یہ سنتے ہی نوجواں پلٹااورمزیدکوئی بات کئے، ٹیکسی میں
سوارہوگیااورٹیکسی فراٹے بھرتی ہوئی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔ ایدھی صاحب
بولے اس لاش کے متعلق جان کرمجھے بہت دکھ ہوااورمیں ایک بارپھراس بدقسمت
شخص کی جانب دیکھنے لگاتومجھے ایسے لگاجیسے وہ بازو واکئے مجھ سے درخواست
کررہاہوکہ ایدھی صاحب ساری لاوارث لاشوں کے وارث آپ ہوتے ہیں مجھ بدقسمت کے
وارث بھی آپ بن جائیں۔ میں نے فورن فیصلہ کیاکہ اس لاش کوغسل بھی میں خود
دونگااورتدفین بھی خود کرونگاپھرجونہی غسل دینے لگاتواس اجلے جسم کودیکھ
کرمیں سوچ میں پڑگیاجوشخص اپنی زندگی میں اس قدرمعتبراورحساس ہوگا کہ اس نے
اپنی اولادکی پرورش میں کیا کیا نازونعم نہ اٹھائے ہونگے مگربیٹے کے پاس
تدفین کاوقت بھی نہ تھااسے باپ کوقبرمیں اتارنے سے زیادہ فلائٹ نکل جانے کی
فکرتھی۔ اوریوں اس لاش کوغسل دیتے ہوئے میرے آنسوچھلک پڑے پھروہ اپنے کندھے
پررکھے کپڑے سے آنسوپونچھتے ہوئے بولے اس دن ایدھی انسانیت کی ڈوبتی اقدار
پر ، اور بڑھتی معاشرتی بے حسی پر روپڑا تھا‘‘۔ آج کے معاشرے میں دیکھا گیا
ہے کہ بہت سی جگہوں پر اولاد والدین کے معاملہ میں بڑا سخت رویہ رکھتی ہے ،
ماں باپ اگر نصیحت کریں تو قطعاً نہیں مانا جاتا۔ ایسے نافرمانوں کو اپنی
پیدائش کے مراحل کو یاد کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ والدین نے کس طرح اسے
چلنا سکھایا، بولنا سکھایا، اس کی پرورش کی اور والدین کی عظیم خدمات کی
بدولت آج اسے یہ مقام و مرتبہ ملا ہے ۔انسان کے لیے سب زیادہ مخلص اس کے
والدین ہوتے ہیں جو کہ خود سارے دکھ اور پریشانیاں جھیلتے ہوئے نہ صرف
اولاد کی پرورش کرتے ہیں بلکہ اسے ترقی کی اعلیٰ منازل پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
آج ہمیں اپنی ٹھاٹھ کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت اور انجام کو بھی یاد رکھنا
چاہیے ، بلاشبہ آج جو ہم بوئیں گے کل وہی کاٹنا ہے، وہ نفرتیں ہوں یا
محبتیں، احساس ہو یا بے حسی ……! |