ابتدائے آفرینش سے انسان کا جرم و سزا کے ساتھ گہرا تعلق
رہا ہے۔نیکی کا اجر اپنی جگہ پر انتہائی اہم ہے جو صالحین کیلئے کسی انمول
تحفہ سے کم نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود برائی کی کشش انسانوں کو جرم و سزا
پر ابھارتی رہتی ہے جس سے معاشرہ انتشار اور بد نہادی کی روش پر گامزن ہو
جاتا ہے۔ دولت کی بے جا ہوس ہی وہ جذبہ محرکہ ہے جو جرم وسزا کی اصل بنیاد
ہے اور جس کا شکار کم ظرف انسان بنتے ہیں جبکہ اوصافِ حمیدہ سے مزین لوگ
صبرو قناعت کی دولت سے دامن کش نہیں ہوتے اور یوں معاشرے میں منارہِ ِ نور
بن کرابگعرت ہیں اور یوں ان کے اعلی کردار کی مثالیں بنی نوعِ انسان کے لئے
رہنمائی کا فرضہ سر انجام دیتی ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ انسان ہر اس شہ کو جو اس
کے دائرہ اختیار سے باہر ہو جائز و ناجائز طریقے سے سلب کرلینے کے لئے بے
تاب رہتا ہے ۔اس کی یہ بے تابیاں جرم و سزا کو نہ صرف جنم دیتی ہیں بلکہ
معاشرے میں بگاڑ کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔یہ ضروری نہیں کہ سارے انسان ہی
ایساسوچتے ہوں اور دوسروں کی املاک اور دولت پر نظر رکھتے ہوں لیکن یہ بھی
سچ ہے کہ موجودہ دور میں انسا نوں کی ایک بڑی تعداد اسی انداز میں سوچتی ہے
جس سے جرم و سزا کی دنیا کا دائرہ کار ہر روز وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا
ہے۔
انبیاء ورسل اور پیغمبر معاشرتی بگاڑ کو مٹانے کے لئے وقفہ وقفہ سے معبوث
ہو تے رہے تا کہ معاشرتی نا انصافیوں سے جنم لینے والے جرم و سزا کا دائرہ
محدود کر سکیں ۔انبیاء کا کام محض اتنا تھا کہ وہ خدائے واحد پر ایمان لانے
کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف پر زور دیتے تھے،قانون کی حکمرانی کا تصور پیش
کرتے تھے اور ادنی و اعلی کو ایک ہی ترازو میں تولنے کا عہد کرتے تھے ۔ان
کی نظر میں دولت کی بنیاد پر نہ کوئی بڑا ہوتا تھا اور نہ ہی غربت کی بنیاد
پر کوئی چھوٹاہوتاتھا۔ان کی نظر میں سب انسان برابر تھے کیونکہ وہ سب آدم
کی اولادتھے اور آدم مٹی سے بنائے گے تھے ۔اسی تناظر میں جرائم پر بند
باندھنے کے لئے سخت قسم کی تعزیرات متعارف ہوئیں تا کہ معاشرے کے امن کی
خاطر سارے انسان اپنی حدود میں رہیں۔خدائی تعزیرات کی موجودگی میں ارتکابِ
جرم کا کسے یارا ہو سکتا تھا ۔یہ تعزایرات جرائم پسند لوگوں کے لئے ایک
وارننگ ہوتی تھیں جس میں کسی مجرم کے لئے چشم پوشی کی کوئی گنجائش نہیں
ہوتی تھی ۔نیکو کاروں،اور صالحین کی کوششیں بار آور ثابت ہو تی رہیں اور
جرائم میں تحفیف کا باعث بنتی رہیں لیکن ایک معین مدت کے بعد جرم و سزا کی
دنیا پھر اپنی قدیم روش پر سفر پیرا ہوتی رہی جس سے حق نا ھق میں بدلتا رہا
اور نا ھق حق قرار پاتا رہا کیونکہ حکمراں مصلحت پسندی کا شکار ہو جاتے
تھے۔قانون جب خود جھکنے کی جانب مائل ہو جاتا ہے تو جرم کا دروازہ کھل جاتا
ہے لیکن جب یہ جرائم پیشہ انسانوں کو جھکا لیتا ہے تو پھر معاشرہ امن وسکون
کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جرم اس وقت ظہور پذیر ہوتا ہے جب قانون پر
عملداری کا عنصر کمزور ہو جاتا ہے ۔جس وقت قانون پسندو نا پسند کے خانوں
میں تقسیم ہو جاتا ہے اس وقت جرم و سزا کی دنیا وسیع ہو جا تی ہے۔ جب اپنوں
اور غیروں میں تمیز کابیج بو دیا جاتا ہے تو جرم کے جرثومہ طاقتور ہونا
شروع ہو جاتے ہیں۔اس کرہِ ارض پر ایسا وقت بھی تو آیا تھا جب جرم و سزا کا
تصور گہنا گیا تھا۔قانون کی حکمرانی اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ
افروز تھی۔غریب کو یقین تھا کہ وہ طاقتور ہے کیونکہ کوئی اس کا حق سلب نہیں
کر سکتاتھا، کوئی اسے زیر نہیں کر سکتا،کوئی اسے نا ھق دبا نہیں سکتا،کوئی
بہ زور اس سے کچھ چھین نہیں سکتا تھا۔جو سچا ہے وہ سچا تصور ہو گا اور جو
جھوٹا ہے وہ جھوٹا قرارپائیگا ۔ اس وقت جھوٹ اور سچ کی آمیزش کا کہیں نام و
نشان نہیں تھا۔قانون کا مکمل راج تھا جس کے سامنے حکمرانوں نے سب سے پہلے
سرِ تسلیم خم کیا ہوتا تھا۔بیٹے کو قانون کی قربان گاہ میں قربان کرنے والے
سے کیا یہ توقع رکھی جا سکتی تھی کہ وہ کسی دوسرے کے ساتھ نرمی اور رعائیت
برتے گا؟ اپنے جسم پر حق کے تمغے سجانے والے حق و صداقت کے ابدی تیروں کو
کبھی روکا نہیں کرتے۔وہ حق کے تیروں سے سب کا شکار کرتے ہیں کیونکہ یہی
رضائے الہی ہوتی ہے ۔ وہ مٹ تو سکتے ہیں لیکن رضائے الہی سے ہٹ نہیں پاتے
تھے ۔جن کے مزاج میں رضائے الہی کا حصول زندگی پہلی ترجیح ہو وہی حق صداقت
میں رچا بسا معاشرہ قائم کرتے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قانون ایک
طاقت ہے اور یہ اس وقت روبہ عمل ہوتی ہے جب ریاست کو اس بات کا ادراک ہو تا
ہے کہ وہ سب کی محافظ ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب حکمران قانون کے
سامنے خود بھی سر نگوں ہوجائیں ۔ہر وہ حکمران جو قانون کے سامنے جھک جاتا
ہے اس کے دور میں نا انصافی کا شائبہ نہیں ہوتا ۔
دنیا کی پوری تاریخ کمزور اور طاقتور کے درمیان ایک غیر محسوس جنگ ہے۔کارل
مارکس اسے امیر اور غریب کے درمیان جنگ قرار دیتا تھا ۔ کوئی اسے کفرو ا
لحاد کے درمیان جنگ سے تعبیر کرتا ہے،کوئی اسے حق و باطل کا معرکہ قرار
دیتا ہے اور کوئی اسے حاکم و محکوم کے درمیان معرکہ سے تشبیہ دیتا ہے۔ہم
اسے کوئی بھی نام دے لیں لیکن اس حققت سے انکار ممکن نہیں کہ طاقتور قانون
کو ہمیشہ اپنے حق میں مرورڑتا آیا ہے۔
قدیم معاشروں میں ،امراء،سردار اور حکمران محروموں ،مسکینوں ،مجبوروں،لاچاروں
اور غرباء کا استحصال کرتے تھے اور بزورِ قوت ان پر اپنے فیصلے مسلط کرتے
تھے کیونکہ ان کی قوت کے سامنے کشکول اٹھانے والوں کی آواز بالکل نحیف ہوتی
تھی لہذا امراء کا ظلم و جبر ان کی زندگی کا جزوِ لا ینفک ہوتا تھا ۔یہ دور
تاریخ کا سب سے زیادہ سفاک دور تھا جس میں معصوم عوام کے پاؤں میں زنجیریں
ڈال دی جاتی تھیں ۔ ان کی زبانیں کاٹ دی جاتی تھیں ،انھیں ہاتھیوں کے پاؤں
تلے روندا جاتا تھا،ان کے سروں کے مینار بنائے جاتے تھے اور انھیں نیزوں کی
انیوں پر اٹھالیا جاتا تھا۔انسان آخر انسان تھا یہ کب تک برداشت کرتا؟وہ
صدیوں خود سے جنگ کرتا رہا تا آنکہ جمہوریت کا وہ عظیم الشان معجزہ ظہور
پذیر ہوا جس میں انتخاب کا اختیار عوام کے ہاتھوں میں دے دیا گیا۔انسان کی
زنجیریں کٹ چکی تھیں،اس کے لب آزاد تھے،اس کی آواز پر کوئی قدغن نہیں تھی ،
اس کے ہاتھوں میں کشکول نہیں تھا،اسے کسی کا خوف نہیں تھا، وہ کسی کا محکوم
نہیں تھا، اسے برا بر ی کا حق تفویض ہو چکا تھا اور اسے تکریم و منزلت کی
اس مسند سے سرفراز کر دیا گیا تھا جو پیغمبروں کی تعلیمات کا نچوڑ تھا۔یہ
لمحہ بڑاقیمتی تھا اور اس لمحہ کا حصول بڑی قربانیوں کے بعد ممکن ہوا
تھا۔ابنِ آدم خوش تھا کہ دنیا بدل چکی ہے ، وہ نازاں تھا کہ اسے ایک قابلِ
احترام فردکی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا ہے۔سائنس کی حیرت انگیز ترقی اور
میڈیا کی بے انتہا سر پرستی نے اسے جس مقام سے سرفراز کر دیا تھا وہ خود کو
بڑاخوش نصیب تصور کر رہا تھا۔اسے یقین تھا کہ اب اس کے ساتھ کوئی ظلم نہیں
ہو گا،اب اس کے ساتھ کوئی جبر نہیں ہو گا،اب اس کے ساتھ کوئی کھلواڑ نہیں
ہو گا،اب کوئی اسے سرِ راہ ذلیل و خوار نہیں کر پائے گا۔اب کوئی اس کی عصمت
سے نہیں کھیل پائے گا ،اب کوئی اس کے دامن پر داغ نہیں لگا سکے گا،اب کوئی
اس کی آبرو پر ہاتھ نہیں ڈال سکے گا ،اب کوئی اس کو رسوا نہیں کر سکے گا
لیکن اتنی بے شمار خوش فہمیوں کے درمیان ٹیلیویژن پر خبر نشر ہوتی ہے کہ
مملکتِ خداد اور اسلام کے ناقابلَ تسخیر قلعے میں ایک عورت کی عصمت و آبرو
کو اس کے بچوں کے سامنے تار تار کیا گیا ۔ میری زبان گنگ ہے،میرے ہونٹ سلے
ہوئے ہیں م لیکن میرا دل رحم ،رحم اور رحم کی دہائی دے رہا ہے ۔،۔
|