ڈاکٹر غلام شبیر رانا
کس نے پہلا پتھر کاٹا پتھر کی بنیاد ر کھی
عظمت کے سارے افسانے میناروں کے ساتھ رہے ( رام ریاض )
ادب کی عمرانیا ت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب اور فنون لطیفہ سے
وابستہ تخلیق کاروں نے ہر دور میں معاشرتی زندگی کو صحیح سمت میں روا ں
دواں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ محبت ،تمنائیں ،آرزوئیں ،اُمنگیں
،حسرتیں اور یاس و ہراس کے جان لیوا وا رسب مِل کر سوچ کے زاویے متعین کرتے
ہیں ۔ تصورات و تخیلات اور فعالیتوں و مصروفیتوں کا سماجی وتاریخی تناظر
میں مطالعہ اقتضائے وقت کے عین مطابق ہے ۔سائنس اور ادب کی عمرانیات کے
باہمی انحصاراور اس کے پس پردہ کار فرما عوامل پر غور کر کے ایسی دل کش
انجمنِ خیال آراستہ کرنا جوحسن و خوبی اور رعنائی میں اپنی مثال آ پ ہو ہر
تخلیق کار کا مطمح نظر ہوتاہے ۔ فکر ِ انسانی جب حقیقت ِ مطلق کے اسرار و
رموز سے آ گا ہ ہوتی ہے توخود آگاہی کی منزل سہل ہو جاتی ہے ۔ہر لحظہ نیا
طُور نئی برقِ تجلی کی کیفیت تخلیق کار کو جہانِ تازہ کی نوید سناتی ہے
۔اردو زبان اور دکنی زبان کے ادیبوں نے اپنی تخلیقی فعالیت میں حریت ِ فکر
اورا نفرادیت کا خاص خیال رکھا ہے۔ ان زبانوں کے قدیم ادب کا مطالعہ کرتے
وقت یہ حقیقت کُھل کر سامنے آتی ہے کہ اس عہد کے تخلیق کاروں کی فکر ی اپج
اور ذہنی ساخت حریت ضمیر سے جینے کی تمنا کی آ ئینہ دار تھی ۔ انھوں نے
آزادی ،مساوات اورانسانیت کی عزت و تکریم کو بنیادی اقدار سے تعبیر کیاہے
۔ان اقدار کا زیریں متوسط طبقے اور متوسط طبقے کی زندگی کے معمولات سے گہر
ا تعلق ہے ۔ ان اقدار کا معیشت اور اس سے وابستہ معاملات کے ساتھ جو تعلق
ہے وہ چشم بینا سے پوشیدہ نہیں ۔اگر افراد کے معاشی مسائل کا حل تلاش کر
لیا جائے تو ان اقدار کی نمو کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔اپنی تخلیقی
تحریروں میں اردو اور دکنی زبان کے قدیم ادیبوں نے جذبۂ انسانیت نوازی کو
بہت اہمیت دی اور ان مشاہیر کی تخلیقات کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد قاری
فکر و خیال کی بلند پرواز ی پر فخر محسوس کرتاہے ۔اردو اور دکنی زبان کے
قدیم تخلیق کاروں نے گو مگو اور تذبذب کی کیفیت کو لائق استرداد ٹھہرایا
اور ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا۔بادشاہت کے دور میں بھی حریت ِ
فکر و عمل اور جرأت ِ اظہارکو شعار بنانا لائق صد رشک و تحسین کارنامہ ہے
۔دکنی اور اردو زبان کے قدیم ادیبوں نے جمود اور بے عملی پر مبنی مفروضوں
اور شکوک و شبہات سے بچتے ہوئے حقیقت پسندانہ موقف اپنایااور نئے لسانی و
تخلیقی تجربات کے اعجاز سے فکر و خیال کایا پلٹ دی۔ انھوں نے کسی مصلحت کے
تحت حریت ِ فکر اور شہنشاہیت کے روایتی تصورات میں مفاہمت کی کوئی قابلِ
عمل صورت تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی ۔واقعہ یہ ہے کہ قدیم ادیب اس حقیقت سے
آگاہ تھے کہ معاشرتی ،سماجی اور تہذیبی و ثقافتی شعبوں کو لاحق خطرات
اورزندگی کی شبِ تاریک کو سحر کرنے کے لیے اس متصادم کیفیت سے بچنا وقت کا
اہم ترین تقاضا ہے ۔یہی فطرت کا تقاضا اور یہی نوشتۂ تقدیر ہے کہ اخوت کی
جہاں گیری اور محبت کی فراوانی کو یقینی بنایا جائے ۔
کسی بھی خطے میں ثقافت کی نمو اور اس کے ارتقا پر نظر رکھنے والے یہ بات
اچھی طرح جانتے ہیں کہ تاریخ ایک پیہم رواں عمل کا نام ہے ۔ اقوام و ملل کی
تقدیر افراد سے وابستہ ہے اور افراد ہی وہ قوت ہیں جن کی فعالیت سے تہذیبی
اور ثقافتی عوامل کو تحریک ملتی ہے ۔ زندگی کے نشیب و فرا ز، معمولات ،
افعال اور اعمال بھی عجیب ہیں مثال کے طور پر ایک بُھوکی بلی اپنے سامنے
ایک فربہ چوہا دیکھ لیتی ہے جو دیوار کے سائے میں اپنے بِل سے دُور ہے
۔بُھوکی بلی کا مسئلہ چوہے کو دبوچ کر اپنی بُھوک مٹانا ہے اور چوہے کا
مسئلہ تیزی سے بھاگ کر اپنے محفوظ بِل میں گھس کر اپنی جان بچانا ہے ۔یہ
حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ اِس دہرِ بے وفا میں انسانی
زندگی عملاًبلی اور چوہے کے اسی نوعیت کے کھیل کا نمونہ پیش کرتی ہے ۔زندگی
کے بارے میں یہی شعور در اصل جذبات کی ترسیل کا محور ہے ۔ زندگی کی لرزہ
خیز ،اعصاب شکن اور خوف ناک ترین صداقت یہ ہے کہ ہستی کا تعین اسی سے
وابستہ ہے ۔زندگی ایک متاع بے بہا ہے جو کسی جان دار کو صرف ایک بار نصیب
ہوتی ہے ۔اس کی کم مائیگی کا شکوہ نہ کیا جائے بل کہ اس امر پر توجہ مرکوز
رکھی جائے کہ زندگی کا سفر صحیح سمت میں جاری رہے ۔اگر اس میں کامیابی حاصل
ہو جائے تو فرصت ،زندگی کم نہیں بل کہ جودید نصیب ہو وہی مغتنم ہے ۔ فطرت
نے تو زندگی کو پر کشش، سادہ اور عام فہم صورت میں تخلیق کیا مگر یہ انسان
ہی ہیں جو زندگی کو جوئے شیر ،تیشہ و سنگِ گراں بنانے پرتُل جاتے ہیں ۔اگر
افراد اپنے موجودہ حالات میں بہتری لانے میں کامیاب ہوجائیں تو وہ اپنے
مستقبل کو یقیناً روشن بنا سکتے ہیں۔ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں سے زندگی
اور تہذیب و ثقافت کو جو خطرات لاحق ہیں وہ افراد کے لیے بالعموم عدم
اطمینان کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس کائنات میں ماضی اور حال میں انسانی زندگی
کے نشیب و فراز اور افرا دکے مستقبل کے موضوع پر اردو اور دکنی زبان کے
قدیم ادیبوں کی تخلیقات روح اور قلب کی اتھا ہ گہرائیوں میں اُتر جاتی ہیں۔
اپنی افتاد طبع کو رو بہ عمل لاتے ہوئے ان قدیم تخلیق کاروں نے جن فکر پرور
اور خیال افروز مباحث کاآغاز کیا،آنے و الی نسلوں نے اُن سے گہرے اثرات
قبول کیے ۔بادی النظر میں دکن اور دہلی میں پایا جانے والا وہ مشترک پہلو
جس نے ادبی تخلیق کاروں کی توجہ حاصل کی وہ افراد کی ہمہ گیر فعالیت ہے ۔اس
حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ افراد ہی ہیں جو زندگی کے ہر شعبہ
میں اپنے وجود اور فعالیتوں کا اثبات کرتے ہیں۔جہاں تک حریتِ فکر کا تعلق
ہے اس کی رُو سے سماجی زندگی کو بو قلمونیوں اور متنوع کیفیات کوثقافت کے
وسیع تر تناظر میں دیکھا جاتا ہے ۔حریت فکر کے مجاہد وں کے مطابق جبر کے
ماحول میں محکوم افراد کو معاشرے کے خود مختار ،فعال اور جری نمائندہ کی
حیثیت سے نہیں دیکھا جاتا۔افراد کی سماجی کیفیت جن کی عکاسی ان کے روّیے سے
ہوتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ تاثر ملتا ہے کہ افراد ایام کے مرکب بن چکے
ہیں ۔دکنی زبان اور اُرد زبان کے قدیم تخلیق کاروں نے الفاظ و معانی کی
تفہیم کو بہت اہمیت دی ۔اس کا خیال تھا کہ اگر کہیں تکلم کا سلسلہ ٹُوٹنے
لگے تو پھر بھی معانی کی جستجو کا سلسل نہ ٹُوٹنے دیا جائے ۔ایسے مواقع پر
اُس تکلم کی اُس ثنویت پر توجہ مرکوز رکھی جائے جو فعالیت اور غیر فعالیت
میں پنہاں ہے ۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک کٹھن مر حلہ ہے جہاں متعدد
لسانی پیچیدگیاں سائنسی طریق کار کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں ۔لفظ سُوجھتے
ہیں تو معانی کی بغاوت اظہار و ابلاغ کی راہ میں سدِ سکندری بن جاتی ہے ۔
سماجی اور معاشرتی زندگی میں افرادجن مراحل سے گزرتے ہیں ،اُن کے آثار اُن
کی لوح ِ جبیں پر ثبت ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ دکنی اور اُردو زبان کے قدیم
تخلیق کاروں نے واضح کیا کہ افراد کے اعمال اور تکلم کے سب سلسلوں کا
معنیاتی نظام سے انسلاک ہے ۔اردو اور دکنی زبان کی ساختیاتی مماثلتیں ہر
عہد میں محققین کی توجہ کر محور رہی ہیں ۔ لسانیات، سماجی مساوات ،آزادیٔ
اظہار اورمعاشرتی زندگی کی لفظی مرقع نگاری میں تخلیق کار کی ذات سے منسوب
خود منظم کردہ اختراعی اسلوب کو تاریخ ادب میں ہمیشہ اہم سمجھا گیا ہے ۔
اپنی نوعیت کے لحاظ سے قدیم زمانے کے زیرک تخلیق کاروں کے اِس اہم اور
منفرد کام نے انسانیت نوازی ،تاریخ ،لسانیات اور اظہار و ابلاغ کو نیا آ
ہنگ عطا کیا ۔ ان جری تخلیق کارو ں نے عہد سلاطین کے کلچر سے اختلاف کرتے
ہوئے اپنا موقف نہایت جرأت مندانہ انداز میں پیش کیا ۔ خوب سے خوب تر کی
جستجو انسانی فطرت ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئے زمانے اور نئی صبح و شام
پیدا کرنے کی تمنا انسان کو نئے آفاق کی جستجو پر مائل کرتی ہے ۔دکنی اور
اردو زبان کے قدیم تخلیق کاروں نے روشنی کا سفر جس مقام پر ختم کیا تھا
وہاں سے نئی منزلوں کی جستجو کا غیر مختتم سلسلہ جاری رہے گا۔آسودگان ِ خاک
یہ مت سمجھیں کہ نئی نسل نے انھیں فراموش کر دیاہے ۔
اس وسیع و عریض کائنات میں خالق کون و مکاں نے زندگی کی نمو کے ساتھ ہی
متعدد عوامل کا انسلاک بھی کر دیا ۔انسان کی تابِ گویائی کو قدر ت ِکاملہ
کا ایسا بیش بہا عطیہ سمجھا جاتاہے جس کے معجز نما اثر کو نہ صرف دنیا کے
کسی بھی خطے میں لسانی ارتقا کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے بل کہ اس کی ثمر
بار کامرانیوں سے تہذیبی و ثقافتی ارتقا کے متعددنئے در وا ہوتے چلے جاتے
ہیں۔لسانی ارتقا کو انسانی شعور کی پہچان قرار دیا جاتا
ہے اور لسانی ارتقا ہی معاشرتی زندگی میں انسان جذبات و احساسات اور تجربات
و مشاہدات کی مقیاس بھی ہے۔آٹھویں صدی عیسوی میں بنو امیہ کے دور میں
مسلمان فاتحین کی آمد کو بر صغیر میں لسانی ارتقا کے نقطہ ٔ ا ٓ غاز سے
تعبیر کیا جاتا ہے ۔ فارسی اور عربی بولنے والے مسلمان فاتح جب ہندوستان
پہنچے تو اپنے ساتھ اپنے ملک کی تہذیب و ثقافت ،ادب ،فنون لطیفہ اور وہاں
بولی جانے والی زبان بھی لائے۔ تاریخ اور علم بشریات کے ماہرین کا خیال ہے
کہ بر صغیر صدیوں تک آریا اقوام کی بالادستی کا اسیر رہا ۔اس عرصے میں آریا
اقوام نے بر صغیر کے مقامی باشندوں کی تحقیر ، توہین ،تذلیل اور بے توقیری
میں کوئی کسر اُٹھا نہ ر کھی اورہمیشہ یہی کوشش کی کہ مقامی باشندوں کی
تہذیب و ثقافت ،شعر وادب ،لسانیات اور معاشرت کو خود اُن کی نظروں میں بے
وقعت بنا دیا جائے ۔ ان حالات میں جب لسانی تصادم کی صورت پیدا ہوئی تو
آریائی زبان نے مقامی زبان کو پچھاڑ دیا اور خود بلا شرکت غیرے معاشرتی
زندگی کے تمام معمولات پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اس کے بعد رفتہ رفتہ صدیوں
سے مروّج مقامی زبان کا وجود ہی عنقا ہو گیا ۔محاذِ جنگ کے مانند لسانیات
کے شعبے میں بھی فاتح اور مفتوح کی کیفیت جلوہ گر دکھائی دیتی ہے ۔ بر صغیر
میں مسلمان فاتحین کی آمد تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی جس سے معاشرتی
زندگی میں پائے جانے والے بے عملی کے مظہر تباہ کن جمود کا خاتمہ ہوا ۔ بر
صغیر میں اسلامی مملکت کا قیام تاریخ کاایک اہم واقعہ ہے ۔مسلمان فاتحین
پوری شان و شوکت کے ساتھ بر صغیر کے طول و عرض میں پھیل گئے اور ہر جگہ
اپنی کامرانیوں کے جھنڈے گاڑ دئیے ۔جہاں تک زبان کا تعلق ہے مسلمان فاتحین
کی زبان اور مقامی زبان کی آمیزش سے ایک نئی زبان کا ملغوبہ تیار ہونے لگا۔
مر کزی حکومت کے ساتھ یہ نئی زبان دہلی پہنچی او اس زبان کو خلجی خاندان نے
اپنے عہد حکومت ( 1290-1320)میں دکن اور گجرات کے وسیع علاقے میں متعارف
کرایا ۔ محمد بن تغلق ( B:1290,D:1351) کی دکن کی جانب یلغار سے جب دہلی کے
کوچہ و بازار ویران ہو گئے۔ محمد بن تغلق نے سال 1327ء میں دہلی کے بجائے
دولت آباد کودار الحکومت کا درجہ دیا ،اس کے بعد بڑے پیمانے پر لوگوں کی
دہلی سے دولت آباد کی جانب نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہو گیادولت آباد میں جو
زبان پہنچی وہ اردو ہی کی ابتدائی شکل تھی۔اورنگ آبادسے پندرہ کلو میٹر
شمال مغرب کی جانب واقع دولت آباد شہر علم وادب اور تہذیب و ثقافت کا مرکز
بن گیا ۔ اس زبان کو تاریخ کے مختلف ادوار میں دکنی بھی کہا جاتا رہاہے
۔مثال کے طور پر شاہ ملک بیجا پوری نے اپنے رسالہ ’ احکام الصلوٰۃ ( تالیف
: 1077 ہجری ) کی اختتامی سطور میں لکھاہے :
یو مسئلیاں کوں دکنی کیا اِس سبب
فہم کر کر کے دِل میں کریں یاد سب
پروفیسر حافظ محمود خان شیرانی( 1880-1946) نے مسلمان فاتحین کی بر صغیر
میں آمد ، کے لسانی اثرات اور بر صغیر کے مختلف علاقوں میں اس زبان کے
ناموں کے بارے میں لکھا ہے :
’’ ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ جب اہالی دکن نے اُردو کانام دکنی رکھا،اہالی
گجرات نے اِس کانام گجراتی یا گوجری رکھ دیا۔لطف یہ ہے کہ خود اِن ممالک کے
باشندے اِس کو اِن ناموں سے پُکارتے رہے ۔ شیخ محمد خوب نے مثنوی ’ خوب
ترنگ ‘ ۹۸۶ ھ میں لکھی ہے ۔اِس تصنیف کی زبان گجراتی کے مقابلے میں زیادہ
تر اُردو کے ذیل میں داخل ہے ۔‘ ‘(1)
شیخ محمد خوب نے اپنی مثنوی ’’ خوب ترنگ ‘‘ ( تخلیق 986 ہجری ) کی زبان کو
گجراتی قرار دیا ہے ۔ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ اس مثنوی میں اردو کے
الفاظ کی کثرت ہے اس کے باوجود اس کی زبان کو گجراتی بول کہنا جنم بھومی کی
مٹی کی محبت کی دلیل ہے۔ :
جیوں دِل عرب عجم کی بات
سُن بولی ، بولی گجرات
تاریخی تناظر میں دیکھیں تو دکن کے شاعر محمد امین جو سلطان ابوالحسن تانا
شاہ کے دربار سے وابستہ تھا۔ا س نے شاہ کو خوش کرنے کی خاطر یہ مثنوی لکھی
۔امین کی ایک اور مثنوی ’’ قصہ ابو شحمہ ‘‘ ( 1090ہجری ) بھی اس زمانے میں
بہت مقبول ہوئی ۔ مثنوی کے اس مخطوطے کے بارے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ
یہ اس عہد کے شاعر ’ اولیا ‘ کی تخلیق ہے ۔ اپنی مثنوی ’’ یوسف زلیخا ‘‘جو
مغل بادشاہ اورنگ زیب کے عہدِ اقتدار ( 1658-1707) میں سال 1109ہجری کی
تخلیق ہے،اس مثنوی کی زبان کو گوجری بتایا ہے :
سنو مطلب اہے اب یو امین کا
لکھی گوجری منے یوسف زلیخا
ہر یک جا گے ہے قصہ فارسی میں
امیں اس کوں اُتاری گوجری میں
کہ بوجھے ہر کدام اُس کی حقیقت
بڑی ہے گوجری جگ بیچ نعمت
بر صغیر میں لسانی سطح پر بھی اس کے دُور رس اثرات مرتب ہوئے اوروقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ بر صغیر کے اکثر مفتو حہ علاقوں میں فارسی کو سرکاری زبان کا
درجہ حاصل ہو گیا۔ بر صغیر کے جنوب میں واقع دکن کی سیاسی تاریخ کے درج
ِذیل ادوار اِس خطے میں ا دب اور فنون لطیفہ کے اِرتقا کے حوالے سے بہت اہم
ہیں ۔علاؤالدین بہمن شاہ نے محمد بن تغلق سے الگ ہو کر سال 1347ء میں بہمنی
سلطنت کی بنیارکھی ۔سیلِ زماں کے تھپیڑے اٹھائیس سال کے عرصے میں (
1490-1518) میں صولت ِ بہمنی کو بہا لے گئے اور یہ سلطنت بیجاپور ،احمد
انگر ،گولکنڈہ ،بیرا ر اور بیدر میں بٹ گئی ۔
ا۔بہمنی دور : ( 1347-1518 )
خطاب
ذاتی نام
( عرصہ ٔ اقتدار
E شاہ ،علا ء الدین حسن بہمن شاہ
A علا ء الدین بہمن شاہ ،حسن گنگو
(3۔اگست1347تا11۔فروری1358
شاہ
"محمد شاہ I بہمنی
/11۔فروری 1358 تا21۔اپریل 1375
Cشاہ شاہ علا ء الدین مجاہد شاہ
مجاہد شاہ
+21۔اپریل 1375تا16۔اپریل1378
شاہ
!داؤد شاہ بہمنی
316۔اپریل 1378تا 21۔مئی1378
شاہ
$ محمود شاہ II بہمنی
)21مئی1378تا20۔اپریل1397
شاہ
-غیا ث الدین شاہ بہمنی
-20۔اپریل 1397تا14۔جون1397
شاہ
)شمس الدین شاہ بہمنی
,14۔جون1397 تا 15۔نومبر1397
/شاہ تاج الدین فیروزشاہ
فیروز شاہ
"24 November 1397 – 1 October 1422
شاہ
' احمدشاہ ولی بہمنی
'1 October 1422 – 17 April 1436
1شاہ علاء الدین احمد شاہ
9 علاء الدین احمد شاہ بہمنی
#17 April 1436 – 6 May 1458
7شاہ علا ء الدین ہمایوں شاہ
-ہمایوں شاہ ظالم بہمنی
$7 May 1458 – 4 September 1461
شاہ
نظام شاہ بہمنی
4 September 1461 – 30 July 1463
'شاہ محمد شاہ لشکری
"محمد شاہ بہمنی III
!30 July 1463 – 26 March 1482
ویرا شاہ
!محمود شاہ بہمنیII
'26 March 1482 – 27 December 1518
شاہ
احمد شاہ بہمنیII
&27 December 1518 – 15 December 1520
'شاہ علا ء الدین شاہ
/علا ء الدین شاہ بہمنی II
$28 December 1520 – 5 March 1523
شاہ
) ولی اﷲ شاہ بہمنی
5 March 1522 – 1526
شاہ
+ کلیم اﷲ شاہ بہمنی
1525–1527
1 دکن میں بہمن شاہی دور میں مسلمان حکمرانوں نے ادب اور فنو ن لطیفہ کے
فروغ کے لیے تمام دستیاب وسائل استعمال کیے ۔محمد شاہ اول نے اپنے عہد
حکومت میں وجیا نگرمیں علم و ادب کی سر پرستی کی ۔اس خاندان کے دوسرے
حکمران بھی ادب ،فنون لطیفہ اور تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے کوشاں رہے ۔
۲۔عادل شاہی دور : (1490-1686 )
عادل شاہی دور میں اس خطے میں با لعموم فارسی زبان کی ترویج و اشاعت کو
زیادہ اہمیت حاصل رہی ۔اس کا سبب یہ ہے کہ فارسی اس خطے کی قدیم ترین
مستعمل زبان رہی ۔عادی شاہی دور کے درج ذیل حکمرانوں نے اس خطے میں ادب اور
فنون لطیفہ کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
یوسف عادل شاہ ( 1490-1510)،اسماعیل عادل شاہ ( 1510-1534)،مالوعادل شاہ (
1534)،ابراہیم عادل شاہ ( 1534-1558)،علی عادل شاہ ( 1558-1579)،ابراہیم
عادل شاہ ( 1580-1627)،محمد عادل شاہ ( 1627)،علی عادل شاہ
II(1656-1672)،سکندر عادل شاہ ( 1672-1686)
۳۔قطب شاہی دور : (1518-1687 )
اس خطے میں قطب شاہی دور میں فارسی ،دکنی ،اردو اور تلگو بولی جاتی تھیں ۔
اس عہد میں فن تعمیرات ،مقامی تہذیب و ثقافت ،فارسی ادب،تلگو اور دکنی زبان
کی ترقی کے لیے گراں قدر خامات انجا م دی گئیں ۔ سال 1591 ء میں حیدر آباد
میں ہندوستان و اسلامی طرز تعمیرکے مطابق بننے والے ایک سو ساٹھ فٹ بلند
چار مینار اور مسجدمحمد قلی قطب شاہ کے ذوق کے مظہر یادگار ہیں ۔ممتا ز
ماہر تعمیرات میر مومن استروادی نے اس عظیم عمارت کا نقشہ پیش کیا۔قطب شاہی
دور کے سلاطین کے نام درج ذیل ہیں :
سلطان قلی قطب الملک ( 15181543)،جمشید قلی قطب شاہ (1543-1550)،سبحان قلی
قطب شاہ (1550)،ابراہیم قلی قطب شاہ (1550-1580)،محمد قلی قطب
شاہ(1580-1612)،سلطان محمد قطب شاہ (1612-1625)،عبداﷲ قطب شاہ
(1625-1672)،ابوالحسن تانا شاہ ( 1672-1687)
۴۔ نظام الملک آصف جاہی دور : (1686-1708 )
۵۔ نواب والا جاہی دور : (1708-1857 )
پوری دنیا دنیا میں آفتاب اسلام کی ضیاپاشیوں کے ساتھ ہی بر صغیر میں بھی
اسلام کی ابد آشنا آفاقی تعلیمات اور ارفع تہذیب و ثقافت کے فروغ کا سلسلہ
شروع ہو گیا۔تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا
ہے کہ مسلمانوں کے فاتح فوجی دستو ں نے جب سر زمینِ دکن پرقدم رکھا تو یہاں
تہذیبی و ثقافتی انقلاب برپاہو گیا ۔ دکن اور اس کے مضافاتی علاقوں میں ہر
شعبۂ زندگی پر مسلمان فاتحین کی آمد کے اثرات مرتب ہوئے ۔ مذہب ،تہذیب و
ثقافت اور علم وادب کی روشنی کے اس نئے سفر میں تمدن و معاشرت ،مقامی
لسانیات ، ادب او رفنون لطیفہ بھی دلوں کو ولوۂ تازہ عطاکرنے والی تبدیلی
کی اس لہر سے بے نیاز نہ رہ سکے ۔مسلمان فاتحین کی آمد سے صدیوں سے سوچ
پرمتعصب اکثریتی آبادی کے مسلط کردہ تار عنکبوت ہٹنے لگے ، اعصاب پہ پہرے
ختم ہوئے اوربے عملی کے مظہر فکری جمود کا خاتمہ ہوا ۔ مسلمان فاتحین اور
مقامی باشندوں کے باہم میل جول سے اظہار وابلاغ اور تکلم کے سلسلے بھی غیر
معمولی تغیر و تبدل کی زد میں آ گئے۔ جنوبی ہندوستان پر ہزاروں سال سے
متعصب ہندو ذہنیت کے غلبے کا جو عفریت منڈلا رہاتھا ،اس سے گلو خلاصی کے
واضح امکانات پیدا ہونے لگے۔ہندوستان کی مقامی زبانوں ،ادب اور ثقافت میں
نیا رنگ سامنے آیا۔ متعدد ادبی مورخین نے لسانیات میں دکنی زبان کی نمو
انہی تہذیبی و ثقافتی میلانات کا ثمر قرار دیاہے۔ماہرین لسانیات کا قیاس ہے
کہ دکن میں مختلف بو لیاں مروّج و مقبول رہی ہیں جن میں مراٹھی،تامل اور
تلگو وغیرہ شامل ہیں مگر دکن میں مقیم مسلمانوں کی جدت پسندی نے ان زبانوں
اور فاتحین کی زبانوں کے امتزاج سے ایک منفرد لسانی تجربے کاآغاز کیا۔اس
طرح جن منفرد نوعیت کے تہذیبی تغیرات کے مظہر لسانی تجربات کاآغاز ہوااُن
کے گہرے اثر سے فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی ۔یہیں سے اُن مسحور کن لسانی
تغیرات کاآغاز ہواجن کی ہمہ گیر اثر آفرینی نے پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا
لوہا منوا لیا ۔ بر صغیر میں دکنی زبان کے سوتے انہی تہذیبی و ثقافتی
میلانات سے پھوٹتے ہیں ۔ بر صغیر میں لسانی ارتقا کو تاریخی تناظر میں
دیکھنے سے حقائق کا جو منظر نما سامنے آتا ہے اس کا کرشمہ فکر و خیا ل کے
جو متعدد نئے زاویے سامنے لاتا ہے اس کی تفصیل قابل غور ہے ۔
محمود غزنوی (971-1030)اور اس کی اولاد نے تقریباًدو سو برس تک سندھ ،ملتان
،پنجاب اوردہلی کے بیش تر علاقوں میں اپنی حکومت قائم کی ۔غزنوی خاندان کے
زیرِنگیں علاقوں میں لسانی اِرتقا کا سلسلہ جاری رہا ۔علاؤ الدین خلجی
(1250-1316)کی گجرات اور دکن کی تسخیر کے بعدایک سو برس تک یہ علاقہ دہلی
کی عمل داری میں شامل رہا ۔علاء الدین خلجی کے حکم پر شمالی ہند کے باشندوں
نے بہت بڑی تعداد میں دکن، گجرات اور مالوہ کی طرف ہجرت کی ۔جب محمد تغلق
(1290-1351)نے سلطنت دہلی کا انتظام سنبھالا تو اس نے دولت آباد (مہاراشٹر)
کو اپنا دارالحکومت کا درجہ دیا ۔سال 1327میں قصر شاہی سے افواج ،اہل کاروں
،عمائدین اورسرکاری عملہ کو دولت آباد پہنچنے کا حکم صادر ہوا ۔اس شاہی
فرمان کے نتیجے میں جو وسیع پیمانے پر نقل مکانی ہوئی اُس سے تہذیبی و
ثقافتی میلانات کے علاوہ لسانی ارتقا کا سلسلہ تیز تر ہوتا چلا گیا ۔امیران
ِصدہ نے محمد تغلق کی مطلق العنان حکومت کے خلاف بغاوت کر دی اور بلا شرکت
غیرے سارے دکن کے حاکم بن بیٹھے۔ کامیاب بغاوت کے نتیجے میں رونماہونے والے
انقلاب کے بعد فوجی سالاروں نے باہم مشاورت سے اپنے ایک معتمد امیر علاؤ
الدین بہمن شاہ کو سال 1347میں بادشاہ بنا دیا ۔ اس طرح مسلح بغاوت اور
انقلاب کے نتیجے میں دکن میں بہمنی سلطنت (1347-1518) کا قیام عمل میں
آیا۔اس کے ساتھ ہی جنوبی ہند میں عسکری ،تہذیبی و ثقافتی اور معاشرتی زندگی
میں تبدیلی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں ادب اور فنون
لطیفہ میں نئے رجحانات کو پروان چڑھانے کی راہ ہموار ہو گئی ۔ شمال سے آنے
والے ان ترکوں نے اپنے دکنی ہونے کو لائق صد افتخار قرار دیا اور اس علاقے
میں مروّج مقامی ہندوی زبان کی ترویج میں گہری دلچسپی لی ۔ اس سلطنت کا دار
الحکومت (1347-1425) احسن آ باد ( موجودہ گلبرگہ ) تھا ،اس کے بعد دار
الحکومت کرناٹک کے شمال مشرق میں فرازِ کوہ پر واقع شہر محمد آباد ( موجودہ
بیدار ) منتقل ہو گیا ۔خواجہ محمود گیلانی (محمود گوان ) کے عہدِ وزارت
(1466-1481)میں بہمنی سلطنت جاہ و حشمت،سطوت و صولت کے اعتبار سے بامِ عروج
تک پہنچ گئی ۔اس عرصے میں معیشت، ادب اورفنون لطیفہ کے شعبوں میں قابلِ قدر
ترقی ہوئی ۔سال 1397 ء میں بر صغیر پر ترک منگول مہم جُو امیر تیمور
(1336-1405)کے حملے کی خبر سن کر مقامی حکمرانوں یاس و ہراس کا شکار ہو گئے
اور ان سب کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے ۔تغلق بادشا ہ ناصر الدین محمود(عرصہ
اقتدار :1246-1266) اپنے ساتھیوں سمیت دہلی چھوڑ کرگجرات پہنچا اور یہا ں
سے ہزیمت اُٹھانے کے بعد مالدہ جا پہنچا۔امیرتیمور کے مسلح فوجی دستوں کی
زبردست یلغار کے بعدسلطنت دہلی کا انتظامی ڈھانچہ مکمل طور زمین بوس ہو گیا
،شہر سنسان اور ہنستے بستے گھر بے چراغ ہوگئے ۔ اس آفت ِ ناگہانی نے سماجی
اور معاشرتی نظام کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں ۔سال 1398میں امیر تیمور نے
دریائے سندھ کو عبور کیا اور پیش قدمی کرتا ہوا ملتان پہنچا۔اُسی سال امیر
تیمور نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور دریائے جمنا عبور کر کے دہلی پر دھاوا
بول دیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ شہر کے پریشاں حال مکینوں پر جو
کوہِ غم ٹوٹا اُس سے اُن کی روح زخم زخم اور دِل کرچی کرچی ہو گیا۔اُن کے
دِل کے مقتل میں جو آرزوئیں مات کھا کر رہ گئیں اور جو حسرتیں خون ہوئیں
اُن کا شمار بعید از قیاس تھا۔ بے گناہ انسانوں پر سب بلا ئیں تمام ہو گئیں
اب وہ سانس گن گن کر زندگی کے دِن پورے کرر ہے تھے اورمرگِ نا گہانی کے
منتظر تھے ۔ اس عرصے میں گجرات کے طاقت ور اور با رسوخ حاکم مظفر خان نے
اپنی خود مختار بادشاہت کا اعلان کر دیا ۔
اردو زبان کے ابتدائی دھندلے نقوش جو امیر خسرو (1253-1325)کے زمانے میں
دکھائی دیتے ہیں ،وہ شاہانِ بیجا پوراور گولکنڈہ کے حکمرانوں کے دور میں
نمایاں ہو گئے۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سر زمین دکن ہی تھی
جہاں سے اردو زبان کے ابتدائی نقوش نمو پانے لگے ۔مسلمان فاتحین ایک طویل
عرصے سے دکن کے وسیع علاقوں میں مقیم تھے۔اس خطے میں مسلمان فاتحین نے ہر
شعبۂ زندگی میں مقامی باشندوں کے ساتھ مِل کر کام کیا۔ اپنے اشہبِ قلم کی
جولانیاں دکھاتے وقت خرد کی گتھیاں سلجھانے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں
کہ باہمی میل جول اور روابط کے نتیجے میں وادیٔ خیال میں اس لسانی کِشت کے
نتیجے میں دکنی کی صورت میں ایک بالکل نئی زبان کے شگوفے پُھوٹنے لگے ۔
سندھ اور پنجاب میں بھی لسانی ارتقا کا سلسلہ جاری رہامگر کسی بھی ایک خطے
کو اردو زبان کی جنم بھومی قرار دینے کے سلسلے میں ماہرین لسانیات کے
تحفظات ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ جہا ں تک پنجابی کا تعلق ہے اسے اردو
زبان کی ماں کے بجائے اردو زبان کی ہم شیر کہنا قابل فہم ہے ۔ ماہرین
لسانیات کا گمان ہے کہ اردو کے سوتے اس پراکرت زبان سے پھوٹے جس نے برج اور
پنجابی دونوں کو جنم دیا۔ شاید یہی وہ پراکرت زبان ہے جو مسلمان فاتحین کی
بر صغیر میں آمد کے وقت خیبر سے اُتر پردیش کے شہر الہ آباد تک اظہار و
ابلاغ کا سب سے موثر وسیلہ تھی۔ دکن میں نمو پانے والی زبان کو ہندی یا
دکھنی دونوں ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ اپنی تصنیف’’ شمائل الاتقیا ‘‘ میں
میراں یعقوب نے دکن کی سر زمیں میں پروان چڑھنے والی نئی زبان کو ہندی زبان
کے نام سے لکھا ہے ۔
’’ اپنی حیات کے وقت منجے ارشاد کیے تھے جو شمائل الاتقیاکتاب کون ہندی
زبان میں لیاوے تا ہر کس کے تئیں سمجھا جاوے ۔‘‘
( بہ حوالہ نصیر الدین ہاشمی : دکن میں اردو ،مکتبہ ابراہیمیہ ،حیدر
آباددکن ،1936،صفحہ23 )
دکن میں مقیم ہندی یا دکھنی زبان کے ایک نثر نگار قاضی بدر الدولہ ( سال
وفات : 1280ہجری ) نے اپنی تصنیف ’ فوائد بدریہ ‘ میں لکھاہے :
’’ لیکن دیکھا کہ بازار علم کا بہت کاسد ہو گیا اور علم کے جاننے و الے
دنیا سے گزر گئے ۔۔۔۔۔تب زبان ہندی میں یہ کتاب لکھنا شروع کیا۔‘‘
بہ حوالہ نصیر الدین ہاشمی : دکن میں اردو ،مکتبہ ابراہیمیہ ،حیدر آباددکن
،1936،صفحہ23
جس زمانے میں دکن میں ہندی یا دکھنی زبان نمو پارہی تھی اُس زمانے میں اِس
خطے سے قطب شاہی دور میں درج ذیل بادشاہوں نے دکھنی زبان میں تخلیق ہونے
والے شعر و ادب کی سر پرستی کی :
محمد قلی قطب شاہ (عرصہ اقتدار : 1580-1611)
سلطان محمد قطب شاہ (عرصہ اقتدار: 1611-1626)
عبداﷲ قطب شاہ (عرصہ اقتدار :1626-1672 )
ابو الحسن قطب شاہ (عرصہ اقتدار :1672-1686)
محمد قلی قطب شاہ نے مقامی رسوم و رواج ،تہواروں اور اس علاقے کی تہذیب و
ثقافت کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔اس کی شاعری میں عشق و محبت کا
جذبہ ٔ بے اختیار قاری کو تخلیق کار کے ایک منفرد تجربے سے روشناس کراتا ہے
۔ محبت کے جذبات کی یہ بے خودی ،سرمستی ،جذبِ دروں اوروجدانی کیفیت قاری کو
مسحور کر دیتی ہے ۔قلی قطب شاہ نے علم و ادب کی سرپرستی میں کوئی کسر اُٹھا
نہ رکھی۔اس نے اپنے عہد کے مقبول تخلیق کاراور صوفی شیخ احمد شریف گجراتی
کو اپنے دربار میں طلب کیا ۔ محمد قلی قطب شاہ کی دعوت پر صوفی شیخ احمد
شریف گجراتی محمد قلی قطب شاہ کے دربار میں پہنچا۔ حاکم کے خاص مہمان کی
حیثیت سے اپنے حیدر آباد کے قیام کے دوران شیخ احمد شریف گجراتی نے اُس دور
کی مشہور و مقبول رومانوی داستان ’’قصہ یوسف زلیخا ‘‘ (عرصہ ٔتخلیق :
1580-1585)کو صنف مثنوی کے کے قالب میں ڈھالا۔قصہ یوسف زلیخا کو قارئین کی
طرف سے بہت پزیرائی ملی ۔علم وادب سے وابستہ اور ذوق سلیم سے متتمع افراد
نے اس تخلیق کوقدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ محمد قلی قطب شاہ کی سر پرستی میں
کام کرنے والے دبستان گول کنڈہ کی اس پہلی طویل رومانوی مثنوی کے عرصۂ
تخلیق ( 1580-1585)کے دوران میں قلی قطب شاہ نے ذہین تخلیق کار شیخ احمد
شریف گجراتی کو خلعت اور نقد انعام عطا کیا ۔ شیخ احمد شریف گجراتی دکنی
زبان کا ایک مستعد ،فعال ، ذہین اور قادر الکلام شاعر تھا اس کی مثنوی ’
لیلیٰ مجنوں ‘ بھی اپس دور میں بہت مقبول ہوئی ۔ دکن کی اہم شخصیت شیخ فخر
الدین کافرزند،مشہور شاعر اور مشہور مثنوی ’پھول بن ‘ کا( سال تخلیق 1066
ہجری ) خالق ا بن نشاطی( شیخ محمد مظہر الدین ) بھی اس رجحان ساز تخلیق کار
کے کمال فن کا معترف تھا ۔ مرثیہ، رباعی،مثنوی اور غزل میں شاعر نے متعدد
ایسے الفاظ استعما ل کیے ہیں جو اب متروک ہی ہو چکے ہیں مثلا ً اُپجے بہ
معنی پیدا ہوئے وغیرہ ۔دکنی زبان کے قدیم شاعر شیخ احمد شریف گجراتی کے
اسلوب کو سمجھنے کے لیے اس کے چند اشعار پیش ہیں :
ع: سر پر تو سانجھ پڑ گئی اور پاؤ
بنا احمد ؔ سو کیا اُن کو سرائے
بہو دھاتوں خدا اُن کو سرائے
احمد ؔ دکن کے خوباں ہو تیاں ہیں پُر ملاحت
تو توں دکھن کو اپنا گجرات کر کے سمجھیا
سو منگتا تھا جو شہ کے ناؤ ں سیتی
کتاباں رس کروں بہ چاؤں سیتی
میر ی خاک میں تھے جو اُپجے نہال
وفا کے لگے پھول پھل ڈال ڈال
عادل شاہ ثانی کی مثنوی ـ’’ نورس ‘‘ سال 1597ء کی تخلیق ہے جب کہ دکنی شاعر
حسن منجو خلجی ہنس ؔ کی مثنوی’’ پیم نیم‘ ‘ (پریم رسم ) کاعرصۂ تخلیق
(1590-1591 ) ہے ۔چار ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل مثنوی ’’ پیم نیم ‘‘ کا
مخطوطہ برٹش لائبریر ی میں محفوظ ہے ۔ اِسے ہندوستانی صوفی شاعر ملک محمد
جائسی ( 1477-1542) کی تخلیق پدماوت میں بیان کردہ رانی پدمنی کے حسن و
جمال کی داستان کا تسلسل سمجھنا غلط ہے ۔ دہلی میں علا الدین خلجی عرصہ ٔ
حیات ( 1266-1316) نے اپنے عہد حکومت (1296-1316) میں چتوڑ کو مسخر
کیا۔چتوڑ کی تسخیر( 1303ء ) اور حسین و جمیل رانی پدماوتی کی داستان سے
مثنوی ’’ پیم نیم ‘‘ کا کوئی تعلق نہیں۔ حسن منجو خلجی ہنس ؔ کی مثنوی ’’
پیم نیم ‘‘ کے مرکزی کرداروں میں شہ جی ( کل دیپ کا شہزادہ ) اور مہ جی (
کل دیپ کی شہزادی ) شامل ہیں ۔ حسن منجو خلجی ہنسؔ نے اپنی مثنوی میں عادل
شاہ ثانی کے بہت ہی پیارے ہاتھی’’ آتش خان‘‘ اُس کی جان سے پیاری ہتھنی ’’
چنچل‘‘ کی تعریف میں اشہبِ قلم کی خوب جولانیاں دکھائی ہیں ۔ کچھوا اس
داستان ِ محبت میں قاصد کا کردار ادا کرتاہے ۔ظاہر ہے کچھوے کی سست روی کے
نتیجے میں پیغامات کی ترسیل میں ہونے والی تاخیر سے دِل کے ارماں دلِ پر
خوں سے آ نسو بن کر بہہ نکلتے ہیں۔ بھارتی ریاست گجرات میں گیارہویں صدی
میں بسنے والے شہر ا حمد آباد سے تعلق رکھنے والے شاعرمیاں خوب محمد چشتی (
946-1023ہجری ) کی مثنوی ’’ خوب ترنگ‘‘ ( سال تخلیق 986 ہجری ) کوقدیم دکنی
اُردو کی اہم تخلیقات میں ممتاز مقام حاصل ہے ۔ذیل میں اس کی شاعری کا
نمونہ پیش کیا جاتاہے :
حکایت صفائی ِ دِل
چین نہیں چتاری جان
چتریں مور سو اڈ تے آن
گگن پھرے دہر یہ من کھانت
ہر رت رنگے سیکھے اور بھانت
اُردو کی اوّلین نثری اور تمثیلی داستان’’ سب رس‘‘ کا خالق ملا وجہی( اسداﷲ
) بھی اسی عہد کا تخلیق کار تھا اس نے قلی قطب شاہ اور اُس کی محبوبہ مشتری
کی داستان ِ محبت کو اشعار کے قالب میں ڈھالا اورایک دلچسپ مثنوی ’’قطب
مشتری ‘‘ پیش کی ۔ گولکنڈہ کی یہ پہلی مثنوی ملا وجہی نے محض بارہ دِنوں
میں مکمل کی ۔دکنی نثر میں وجہی کی کتاب ’’سب رس ‘‘ کو دکنی ادب کے اِرتقا
میں سنگ ِمِیل کی حیثیت حاصل ہے ۔قدیم دکنی زبان کو ہندوستانی زبان کی ایک
ایسی نرم و نازک کو نپل سے تعبیر کیا جاتا ہے جس نے سر زمین د کن میں نمو
پائی ۔دکن میں مقیم مسلمان باشندوں نے اس زبان کو پروان چڑھانے میں گہری
دلچسپی لی ۔اردو زبان کے ماننددکنی زبان نے تحریر کے لیے فارسی نستعلیق رسم
الخط کا انتخاب کیا ۔تاریخ ادب کے مطالعہ سے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ
یہی وہ خطہ ہے جہاں سے قدیم دکنی شاعر ولی محمد ولیؔ دکنی (1667-1707) نے
ریختہ کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنا کر ایسا رنگ و آ ہنگ عطا کیا کہ ادب
میں تخلیقی فعالیت کومقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا ۔
لسانیات کے ان ہمہ گیر تجربات نے پورے شمالی ہندوستان کو اپنی گرفت میں لے
لیا ۔رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ دہلی میں بھی شعر و سخن سے وابستہ
تخلیق کاروں کی محفلوں میں ولی دکنی کی تخلیقی کامرانیوں کی بازگشت سنائی
دینے لگی۔جب ولیؔ دکنی کی شاعری کی ہر سُو دھوم مچ گئی تو اس کے اسلوب کی
تقلید پر توجہ دی گئی ۔قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی زبانوں کے
باہم امتزاج اور اس کے نتیجے میں رو نما ہونے والے تغیر و تبدل کا وسیع
سلسلہ پیہم جاری رہا اور اس عہد میں بر صغیر کی ہر زبان میں دکنی زبان کے
آثار دیکھے جا سکتے ہیں ۔اسی بنا پر یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے
کہ ہندوستان کی تمام ادبی زبانیں ان لسانی تجربات سے مستفید ہوئیں اور دکنی
زبان سے خوشہ چینی کرتی رہیں ۔ہندوستانی زبانوں کے ادب کا مطالعہ کرنے سے
معلوم ہوتا ہے کہ ان سب زبانوں کے علم و ادب کا قصر عالی شان دکنی زبان سے
مستعار لیے گئے ذخیرۂ الفاظ کی اساس پر استوارہے ۔فکری اور فنی اعتبار سے
ہندوستانی زبانیں دکنی زبان کی باج گزار ہیں اور دکن کے مشاہیرِ علم و ادب
کے بار ِ احسان سے بر صغیر کے باشندوں کی گردنیں ہمیشہ خم رہیں گی۔بر صغیر
کی زبانوں بالخصوص دکنی زبان پر ممتاز مستشرق گریرسن(George Abraham
Grierson) نے جو دادِ تحقیق دی ہے اُسے پوری دنیا میں سرا ہا گیا ۔ دکنی
زبان کی لسانی اہمیت کے بارے میں گریرسن (1851-1941)نے لکھا ہے :
,,The Musalman armies carried vernacular Hindostani to the
southbefore it had been standardised,and it then contained
many idioms which are now excluded from literary prose.
Some of these have survived in Deccan.,, ( 2)
آریائی زبانوں سے میل جول اوراشتراک سے جنوبی ہند میں دکنی زبان نے نمو
پائی۔دکنی زبان کاامتیازی وصف یہ ہے کہ اس زبان میں فارسی الفاظ کی فراوانی
نہیں ہے ۔ مغربی ہندی زبان کی شاخوں کے بر عکس اسم یا ضمیر کے بعد اور فعل
ماضی سے پہلے حرف (نے ) کا استعمال نہیں ہوتا۔دکنی زبان میں ’’مجھ کو ‘‘ کے
بجائے ’’میرے کو ‘‘ مستعمل ہے ۔دکنی زبان کے مولد کے بارے میں کہا جا سکتا
ہے کہ یہی وہ علاقہ ہے جہاں تلگو نے پانچ سو برس تک رنگ جمایا اس عرصے میں
مقامی زبانوں میں لسانی تجربات ،تغیرات اور ارتقا کا سلسلہ جاری رہا اور
دکنی زبان نے بھی اس سے گہرے اثرات قبول کیے ۔اس کا اندازہ دکنی زبان میں
رونما ہونے والے نحوی تغیر و تبدل سے لگایا جا سکتا ہے۔لسانی عمل کے عمیق
مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ارادی ،غیر ارادی ،مرضی یا غیر مرضی سے وقوع
پذیر ہونے والے تغیرات اس خطے میں صدیوں سے مسلط جبر کی فضا سے انحراف کی
ایک صور ت بن رہے تھے۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر نظر رکھنے والے محققین
اور مورخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دکن میں بہمنی دور میں حکمرانوں کی سر
پرستی کے نتیجے میں دکنی زبان کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ جاری رہا ۔عوام کی
دلچسپی اور حکمرانوں کی حوصلہ افزائی نے یہاں کے باشندوں کے فکر و نظر کو
مہمیز کیا اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں دکنی زبان نئے آفاق تک رسائی
حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔دکنی زبان پر عربی اور فارسی زبان کے اثرات
نمایاں ہیں لیکن اس کے باوجود دکنی زبان کی شکل و صورت ہندوستانی زبان سے
قدرے مختلف ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ دکنی زبان پر حیدر آباد ،بنگلور ،اورنگ
آباد ،کرنول،نیلور اور بنگلور میں مقیم مراٹھی ،تلگو اورکاندا جیسی مقامی
بولیاں بولنے والے باشندوں کے گہرے اثرات ہیں۔اس قسم کی علاقائی زبانیں
مہاراشٹر ،تلنگانہ ،آندھرا پردیش،کرناٹکااورتامل ناڈو میں طویل عرصے سے
مستعمل ہیں۔ اُردو زبان کی قدیم ترین شکلوں میں گوجری ،ہندوی اور دکھنی
قابل ذکر ہیں ۔ ان زبانوں کے مشرقی پنجابی اور ہر یانی کے ساتھ کھڑی بولی
کی نسبت زیادہ گہرا تعلق ہے ۔دکن ہی وہ خطہ ہے جہاں سے تخلیق کاروں نے
افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب روشنی کے سفر کا آغاز کیا
تھا ۔ ادبیات ،فنون لطیفہ اور لسانیات سے دلچسپی رکھنے والے ذوق سلیم سے
متمتع قارئین ادب کا خیال ہے کہ جدید دور کی معیاری ارد وکے سوتے بھی سر
زمینِ دکن ہی سے پھوٹے تھے ۔ جنوب مغربی ہندوستان کے علاقے اور دریائے نر
مدا کے جنوب میں دکن میں ایک نئی زبان کے ارتقا کے حوالے سے ممتاز ماہر
لسانیات پروفیسر ڈاکٹر اماریش دتا (Amaresh Datta)نے انسا ئیکلو پیڈیا
ہندوستانی لسانیات میں لکھا ہے:
,,The fusion of the spoken language of the North (imposed
upon the south by its Muslim conquerers )and the southern
languages resulted gradually in the evolution of a somewhat
peculiar form which can be known as Dakkani Urdu.The Bahmani
Kingdom,the first independent Muslim State in the South( 1347- 1526)
despite its long rule did not contribute much to Dakkani literature as
such ,but its adoption of this new languageas its court,s languagein
preference to Persian ,helpedthe process of the gradual growth and
development as the dominanat linguistic force of the areaand contained
to draw strength and sustenance from cultures of both the North and
the South. (3)
فارسی بولنے والے مسلمان فاتحین اور ان کے لشکر میں شامل فوجی اپنی زبان
دکن لے کر پہنچے ۔ جنوبی ہند میں جس زبان کو دکھنی کہا جاتا تھا شمالی ہند
میں اس نئی زبان کے لیے کوئی موزوں نام تجویز نہیں ہوا تھا۔انسانی معاشرے
میں زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے ابنائے جنس کے ساتھ باہمی معاونت اور تقابل
کے نتیجے میں دکن میں نمو پانے والی یہ نئی زبان شمالی ہند میں شمالی ہند
میں ریختہ ،اُردو ،اُردوئے معلّیٰ کے نام سے مقبول ہوئی۔ تاریخ ِ ادب کے
مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دکن کے تخلیق کاروں نے سب سے پہلے نثری تراجم
کوپرورشِ لو ح و قلم کا وسیلہ بنایا ۔اس طرح تخلیقی فعا لیت میں بھی نثر کو
اوّلیت کا اعزاز حاصل ہو ا اور دکن میں نظم کی تخلیق نثر کے بعد ہوئی
۔ماہرین لسانیات کا گمان یہ ہے عروض کی پابندی اور قافیہ بندی کی نسبت
دوسری زبان سے ترجمہ کرنا قدرے آسان ہے اس لیے دکن کے تخلیق کاروں نے سب سے
پہلے نثری تراجم ہی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔یہ خواجہ بندہ نواز سید محمد
حسینی گیسو دراز شہبازؔ تھے جنھیں دکنی کا پہلا شاعر قرار دیا جاتا ہے ۔ اس
عہد کے مقبول ،فعال اور مستعد تخلیق کاروں کے فن پاروں کا مطالعہ کرنے سے
معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی ہند میں اِس زبان کو بالعمو م دکنی اور ہندی ہی
کہاجاتا تھا ۔ ولی ؔ اورنگ آبادی نے دکھنی زبان کے لیے سب سے پہلے ریختہ کا
نام استعمال کیا ۔
یہ ریختہ ولیؔ کا جا کر اُسے سُنا دے
رکھتا ہے فکر روشن جو انوری کے مانند (ولی ؔ اورنگ آبادی )
یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ شروع میں دکن میں مستعمل زبان کا نام دکھنی رکھا
گیا تھا جو بعد میں شمالی ہند میں ریختہ کے نام سے موسوم ہوئی ۔اِس زبان
میں تخلیق ادب کے حوالے سے ولیؔ کو اوّلیت کا اعزاز حاصل ہے جس نے اپنے سفر
دہلی کے بعد لفظ ریختہ کو مروج و مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تخلیق
ِادب کے اعجاز سے دکنی زبان کے علمی مخزن قابل قدر حدتک بڑھنے لگے۔نئے
افکار اور نئے ادبی معائر کی وجہ سے دکنی زبان کو رشک کی نگاہ سے دیکھا
جانے لگا۔جہاں تک موضوعات ،مواد اور فکرو خیال کا تعلق ہے دکنی زبان کے
ادیبوں نے نئے تجربات سے اِس زبان کو دھنک رنگ منظر نامہ عطا کر دیا۔ قدیم
زمانے کے ادیبوں کی دکنی زبان سے محبت کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
دکھن میں جو ں دکھنی مٹھی بات کا
ادا نیں کیا کوئی اِس دھات کا (وجہیؔ : قطب مشتری )
اسے ہر کس کتیں سمجھا کوں توں بول
دکھنی کے باتاں ساریاں کُوں کھول (ابن نشاطیؔ : پھول بن )
کیا ترجمہ دکھنی ہور دِل پذیر
بولیا معجزہ یو کمال خان دبیر (رستمیؔ : خاور نامہ )
صفائی کی صورت کی ہے آرسی
دکھنی کا کیا شعر ہوں فارسی (نصرتیؔ : گلشنِ عشق )
ولے بعض یاروں کاایما ہوا
سو ہندی زباں یہ رسالہ ہوا (آگاہؔ)
ہے دکھنی میں مجکوں مہارت یتی
کہ النصر منکم کہے نصرتیؔ ( نصرتی)
دکنی زبان کے ادیبوں نے معاشرتی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اپنی شاعری کا
موضوع بنایا۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی ک یخاطر قلم بہ کف مجاہد کا
کردار اد ا کیا ۔قدیم زمانے کے دکنی ادیبوں کے اسلوب اور شخصیت کا مطالعہ
وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ تاریخ ادب کے عمیق مطالعہ سے یہ حقیقت روزِ
روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ سر زمین دکن کے قدیم مکینوں کے علاوہ شمالی
ہند کے تخلیق کاروں نے بھی اپنی تخلیقی تحریروں میں لفظ ’ ریختہ ‘ کا بلا
تامل استعمال کیا مثلاً:
قائم ؔمیں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
ایک بات لچر سی بہ زبان دکھنی تھی (قائمؔ)
ریختہ نے یہ تب شرف پایا
جب کہ حضرت نے اس کو فرمایا (اثر ؔ )
خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا ( میر تقی میر ؔ )
دکنی زبان کے تخلیق کارو ں نے ہر صورت میں حریت ِ فکر و عمل کا علم بلند
رکھا اور یہ ثابت کر دیا کہ لفظ کی حرمت کا شعور اورفکر و خیا ل کے تحفظ کے
ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ دکھنی زبان میں نثر لکھنے کا آغاز حضرت خواجہ بندہ
نواز گیسو دراز سید محمد حسینی ( وفات: 825ہجری )کی تصانیف’’ معراج
العاشقین‘‘ اور ’’ ہدایت نامہ ‘‘ سے ہوا۔ دکھنی میں نثر پہلے لکھی گئی اس
کے بعدتخلیق کار نظم کی جانب مائل ہوئے ۔ تاریخ کے اُس دور میں دکنی ادیبوں
کی تخلیقی فعالیت تاریخ کے پیہم رواں عمل کے تناظر میں ایک ہمہ گیر آفاقی
فعالیت کا نقیب ثابت ہوا۔
مآ خذ
(1 ) حافظ محمود شیرانی : پنجاب میں اُردو ، سلسلہ انجمن ترقی اردو اسلامیہ
کالج،لاہور ،سال اشاعت درج نہیں ،صفحہ 22۔
2.G.A Grierson: Linguistic Survey Of India,Vol.IX
,Calcutta,1916,page,55.
3.Amresh Datta(chief Editor) :Encyclopedia of Indian Literature,Volume I
,Sahitya Akademi , Delhi ,2003, Page 836 .
|