قدیم دکنی زبان اور موجودہ اُردو زبان میں اظہار و ابلاغ کے اسالیب

 ڈاکٹر غلام شبیر رانا
اظہار و ابلاغ کی وادی میں قدم رکھنے والے تخلیق کار قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کے مناظر دکھانے کی سعی کرتے ہیں۔قدیم دکنی زبان اور موجودہ اُردو زبان کے افعال کا تقابلی مطالعہ کرتے وقت تخلیق ِ ادب کا جودھنک رنگ منظر نامہ سامنے آتاہے اُس کے پس پردہ کار فرما محرکات کے بارے میں سوچتے وقت قاری کے دِل میں یہ خیال آتا ہے کہ جس طرح گلزارِ ہستی میں پیہم عنبر فشانی میں مصروف گلِ تر اپنی عطر بیزی کے منابع سے ،ثمر ِ نورس اپنی حلاوت کے ذخیرے سے،بُور لدے چھتنار اپنی گھنی چھاؤں کی اداؤ ں سے،دریا اپنی طغیانی سے ،حسنِ بے پروا اپنی حشر سامانی سے ،اُٹھتی جوانی اپنی طبع کی جولانی سے،سمندر اپنی گہرائی سے ،کلام ِ نرم و نازک اپنی ہمہ گیر گرفت و گیرائی سے ، شعلہ اپنی تمازت سے ،گفتار اور رفتار اپنے معیار اور نزاکت سے ،کردار اپنے وقار سے ،جذبات و احساسات مستقبل کے خدشات اور اپنی بے کراں قوت و ہیبت سے ، نو خیز کونپلیں اپنی روئیدگی سے ، سمے کا سم کے اپنے ثمر سے ،قوتِ عشق اپنی نمو سے ، سادگی اپنے در پئے پندار حیلہ جُو سے، گنبد نیلو فری کے نیچے طیور کی اُڑان گھات میں بیٹھے صیاد کی مچان سے ،خلوص و دردمندی اپنی خُو سے ،حریت ِ ضمیر اپنے خمیر سے ،موثر تدبیر سوچنے والے نوشتۂ تقدیر سے،ایثار و عجز و انکسار کی راہ اپنانے والے جذبۂ بے اختیار کی پیکار سے ، حسن و رومان کی داستان جی کے زیاں سے ،جبر کی ہیبت صبر کی قوت سے ،ظالم کی واہ مظلوم کی آہ سے ،چام کے دام چلانے والے مظلومو ں کے ضمیر کی للکار سے اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے فراعنہ جاہ و حشمت کے طومار سے وابستہ حقائق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح ایک تخلیق کار کے قلزم ِ خیال کا پانی اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس کی غواصی کرنے کے باوجود تخلیقی عمل کے پس پردہ کا فرما محرکات کے تاب دار موتی بر آمد کرنے سے قاصر ہے ۔صبر و استقامت وہ مقام ہے جہاں تک رسائی جان جوکھوں کا مرحلہ ہے ۔
ایک حسینہ درماندہ سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
جیون کی پگڈنڈی یوں ہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے چُھو سکتا ہے راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
راہ کے پیچ و خم میں کوئی راہی اُلجھا دیکھ رہی ہے ( اختر الایمان)
مرگِ ناگہانی اور مرگِ نوجوانی کے مسموم اثرات سے دائمی مفارقت دے جانے والے عزیزوں کے پس ماندگان پر قیامت گزر جاتی ہے۔ اس نوعیت کے جان لیوا سانحہ سے دو چار ہونے والاتخلیق کار جب اپنے ہاتھ میں قلم لے کر پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو دبے پاؤں آنے والی موت کی آہٹ کوسننے کے بعد اس کا اظہار لا شعوری انداز میں اپنی تحریروں میں بھی کرتا ہے۔ادبیاتِ عالم کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جو تخلیق کار عالمِ شباب میں دائمی مفارقت دے گئے ان کی تخلیقات میں موت کے دبے پاؤں چلے آنے کی آہٹ صاف سنائی دیتی ہے جس سے یہ گُمان گزرتا ہے کہ ان عظیم ادیبوں کو اپنے نہ ہونے کی ہونی کا شدت سے احساس تھا۔رام ریاض ، عاشق حسین فائق ، بشیر سیفی ،اطہر ناسک،میراجی،قابل اجمیری،پروین شاکر، کوثر پروین ، اقتدارواجد،آنس معین،شکیب جلالی، ظفر سعید، سجاد بخاری ،بائرن،کیٹس،سجاد حسین، اورشیلے کی تحریریں پڑھنے کے بعد اس احساس کوتقویت ملتی ہے کہ ایک داخلی کرب نے ان سب ادیبوں کے تخلیقی عمل کو اپنی گرفت میں لیے رکھا ۔ زندگی کے بارے میں غیر یقینی حالات میں جب سب دعائیں بے اثر ،کلیاں شر ر،آہیں بے اثراور زندگیاں پُر خطر ہو جائیں،سب بلائیں جب تمام ہو جاتی ہیں تومرگِ ناگہانی کے اندیشے بڑھنے لگتے ہیں اور اس کے بعد زندگی کے لمحات مختصر ہو جاتے ہیں۔ اُفقِ ادب سے جب یہ چودہویں کے چاند ہمیشہ کے لیے غروب ہو جاتے ہیں تو سفاک ظلمتوں میں ہمارا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے ۔ہجومِ یاس میں جب دل گھبراتا ہے توہم آہیں بھرتے اور احساسِ زیاں سے نڈھال کفِ افسوس ملتے ہیں کہ اپنی دل کش ،حسین ا ور طویل عرصہ تک یادرکھی جانے والی تخلیقات سے علم و ادب کا دامن معمور کر دینے والی یہ نایاب ہستیاں کس قدرجلد پیمانہ ٔ عمر بھر گئیں۔موت کے بارے میں یہی کہاجاتا ہے کہ یہ ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے۔ان با کمال ہستیوں نے اپنی موت کی آہٹ سُن کر بھی زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جانے والے ان زیرک تخلیق کاروں نے خونِ دِل دے کے گلشنِ ادب کو اس طرح سیراب کیا کہ اس کے معجز نما اثر سے گلشن ادب میں گل ہائے رنگ رنگ سے سماں بندھ گیا اور ان کی عطر بیزی سے قریہء جاں معطر ہو گیا ۔دکنی زبان اور اُردو زبان کے قدیم تخلیق کار اس تلخ حقیقت سے آگاہ تھے کہ مشعلِ زیست کے گُل ہونے کے خطرات کو کسی طور بھی ٹالا نہیں جا سکتا لیکن خوف اوراندیشوں کے سم کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی ممکن ہے۔ اﷲ کریم نے اُنھیں مستحکم شخصیت سے نوازا تھا اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے سفرمیں جب بھی کوئی موہوم ڈر یا اضطراب سد راہ بنتا تو وہ اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے اسے دُور کر دیتے اور کبھی دِل میں ملال نہ آنے دیتے۔اُنھوں نے موت کو کبھی دل دہلا دینے والا لرزہ خیز سانحہ نہیں سمجھابل کہ وہ جانتے تھے کہ رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے،انسان کا نہ توہاتھ اس کی باگ پر ہے اور نہ ہی پاؤں رکاب میں ہیں۔ کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر اس کی روانی تھم سکتی ہے۔اُن کی شاعری کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ واضح کر نا چاہتے تھے کہ ماحول کی سفاکی کے باعث جب آہیں اور دعائیں اپنی تاثیر سے محروم ہوجائیں جائیں تو زندگیاں بھی مختصر ہو جاتی ہیں۔گلزارِ ہست و بُودمیں سمے کے سم کے ثمر سے ایسی فضا پیدا ہو جاتی ہے کہ نرگس کی حسرت کی صدائے باز گشت کرگس کی کریہہ صورت میں دکھائی دیتی ہے اور بقا کی تمنا اپنی ہر اداسے فنا کے سیکڑوں مناظر سے آشنا کرتی ہے ۔خزاں کے اس نوعیت کے بے شمار تکلیف دہ مناظر کو دیکھنے کے بعد طلوعِ صبحِ بہارا ں کی اُمید وہم و گُماں اور سراب سی لگتی ہے۔اردو اوردکنی زبان کی قدیم شاعری میں افعال ،تراکیب اور مرکبات کی نُدرت ،تنوع اور جدت پر مبنی خیال آفرینی قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔کورانہ تقلید سے اس عہد کے تخلیق کاروں کو سخت نفرت تھی اس لیے خضر کا سودا چھوڑ کر انھوں نے اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کیں اس لیے ان ادیبوں کی تحریریں کلیشے کی آلودگی سے پاک ہیں۔ان کے دل کش ،حسین اور منفرد اسلوب میں ہرلحظہ نیا طُور نئی برق ِتجلی کی کیفیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ تخلیق ِفن میں اُن کا مرحلہء شوق پیہم نئی منازل کی جانب روا ں دواں رہتا تھا ۔ مثال کے طوراُنھوں نے نئی تراکیب اور الفاظ کے بر محل استعمال سے اپنی شاعری کو گنجینہ ء معانی کا طلسم بنا دیا۔ بھنورکے بھید ،خیال کی جوت ،جھرنے کا ساز،کوئل کی کوک ،گیت کی لے ،وقت کی نے اور خوابوں کے سرابوں پر نظر رکھنے والے اِس حقیقت سے آ گا ہیں کہ الفاظ میں زندگی کی کم ما ئیگی کا احساس قاری پر کارِ جہاں کے ہیچ ہونے کا راز واضح کر دیتاہے ۔دکنی اور اردو کے قدیم تخلیق کاریہ با ت اچھی طرح طرح جانتے تھے کہ موت کی دیمک ہر فانی انسان کے تن کو چاٹ لیتی ہے۔اُنھوں نے چشمِ تصور سے زندگی کی راہوں میں ناچتی ،مسکراتی اور ہنستی گاتی موت کی اعصاب شکن صدا سُن کر دِ ل ِ برداشتہ ہونے کے بجائے نہایت جرأت کے ساتھ اپنی شاعری کو تزکیہء نفس کا وسیلہ بنایا۔ حرفِ صداقت سے لبریزاس قدیم شاعری میں تخلیق کاروں کے داخلی کرب اور سچے جذبات کا کرشمہ قاری کو مسحورکر دیتاہے ۔موت کی دستک سُن کر بھی انھوں نے موت کے بارے میں جن چشم کشا صداقتوں کا اظہار کیاہے وہ زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے میں بے حد معاون ہیں۔اردو اور دکنی کے ان قدیم شعرا کی شاعری کے مطالعہ کے بعدقاری کے لیے اپنے آنسو ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے۔قدیم زمانے کے اِن حساس تخلیق کاروں کی دلی کیفیات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جو موت کی دستک زنی کے دوران بھی اپنے قلبی احساسات کوپیرایہ ٔ اظہار عطا کرنے میں پیہم مصروف رہے ۔اس قسم کی صورت حال کے بارے میں دانیا ل طریر نے سچ کہاتھا:
جو اپنے مر گئے تھے ،جی اُٹھے ہیں سو چتا ہوں
حقیقت سے تو بہتر واہمے ہیں سو چتا ہوں
فلک پر رنگ و روغن ہو رہا ہے میری خاطر
فرشتے مجھ کو لینے آ رہے ہیں سوچتا ہوں
اِک بار جاکے قبر میں بھی دیکھوں تو طریرؔ
کیسی دکھائی دیتی ہے باہر سے زندگی
ایک مستعد تخلیق کار جب پرورش لوح و قلم پر توجہ مرکوز کرتاہے تو وہ الفاظ ہی کی اساس پر اپنے افکار کاقصر عالی شان تعمیر کرتاہے۔یہ علم صرف ہی ہے جو اُسے اس فقید المثال صلاحیت سے متمتع کرتاہے ۔اجزائے کلام کی موزوں ترکیب کو ملحوظ رکھنے کا قرینہ نحو کی عطا ہے ۔تخلیق ادب میں صرف و نحو کا مطالعہ ہمیشہ خضر ِ راہ ثابت ہوتاہے ۔
اردو زبان اور دکنی زبان کے ارتقا پر نظر ڈالتے وقت سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے و الے ماہر لسانیات سوسئیر ( 1857-1913: Ferdinand de Saussure )کے لسانی خیالات سے استفادہ کرنا ضروری ہے ۔ سوسئیر کا ایک اہم کام یہ ہے کہ اس نے لسانی امور کی تفہیم کے لیے دو اہم اصطلاحیں متعارف کرائیں ۔ان دو اصطلاحو ں کے ذریعے وہ اپنے تصورات کی توضیح کرتا ہے۔پہلی اصطلاح کو وہ لانگ (Langue)ٌکا نام دیتا ہے ۔لانگ سے مراد زبان کا تجریدی نظام (Abstract System)ہے۔اس سے وہ ایسی زبان مراد لیتا ہے جو ابلاغ ،بول چال اور مکالمات کے ذریعے اپنی تفہیم کی یقینی صورت پیدا کر سکے ۔دوسری اصطلاح پارول (Parole)ہے ۔سوسئیر پارول سے ایسی زبان مراد لیتا ہے جو بولنے والے کی کامل دسترس میں ہوتی ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ بات اس طرح بیان کی جا سکتی ہے کہ لانگ(Langue)اپنی نوعیت کے لحاظ سے قواعد کے ایک غیر شخصی ذہنی تصور اورفعالیت کا ایک روپ ہے ۔جہاں تک پارول (Parole)کا تعلق ہے اسے سوسئیر ایک کے خیال کے مطابق ایک طریق کار سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔اس کے معجز نما اثر سے گنجینہ ء معانی کے طلسم کی گرہ کشائی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔سوسئیر نے کہا تھا :
''In linguistic system ,there are only differences : meaning is not mysteriously immanent in a sign but is functional ,the
result of its difference from other sign " (1)
سوسیئر نے واضح کردیا کہ زبان کو ایک کلی نظام میسر ہے جو کہ ہر لمحہ مکمل حالت میں موجود رہتا ہے ۔ جس طرح یہ کائنات نا تمام ہونے کے باوجود ہر لمحہ مکمل صورت میں سامنے آتی ہے اسی طرح زبان کا کلی نظام بھی ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت کامظہر ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک لمحہ قبل وقو ع پذیر ہونے والے تغیرات بھی زبان کے اس کلی نظام کی دسترس میں ہوتے ہیں :
یہ کا ئنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدا ئے کن فیکون
اس وسیع و عر یض کائنات کا بنظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ عالم آب و گل محض اشیا کا رہین منت نہیں ہے بلکہ یہ تو اس کا ئنات کے حقائق ہیں جو ایک جا مع صورت میں سامنے آکر صورت حال کو پیش کر تے ہیں ۔ ساختیات کا اس بات پر اصرار ہے کہ اس کائنات کا وجود اشیا کے آزادانہ وجود سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ ساختیات نے واضح کردیا کہ زبان کو اشیا کے نام دینے والے نظام سے تعبیر کرنا غلط ہے ۔ اسی لیے وہ زبان کو اسمیانے( Nomentclatrue )والا نظام نہیں سمجھتے ۔ دراصل یہ ساخت ہی ہے جو نام دینے کی صلاحیت سے متمتع ہے ۔ ساخت کو انسانی ذہن و ذکاوت اور فہم و ادراک میں کلیدی مقام حاصل ہے ۔ اگر اشیا اور تصورات کو ان اہم اور وقیع نشانات ( جو کہ انھیں ایک دوسرے سے ممیز کر تے ہیں ) سے باہر رہتے ہوئے بھی قابل فہم بنایا جاسکے تو اس طرح ایک زبان سے دوسری زبان کی اصطلاحات کا بالکل صحیح مترادف میسر آسکتا ہے ۔ یہاں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے چونکہ تراجم بالعموم تخمینے یا قریب قریب مفہوم کے بیان پر مبنی ہو تے ہیں اس لیے مفاہیم و مطالب کا انحصار فرق پر ہونا چاہیے نہ کہ چیزوں کے حوالے یا تصورات پر ۔ممتاز نقاد ٹیری ایگلٹن (Terry Eagleton)نے سوسئیر کے لسانی نظریات کے حوالے سے لکھا ہے :
" Saussure believed that linguistics would get into a hopeless mess if it concerned itself with actual speech ,or parole as he called it .He was not interested in investigating what people actually said ;he was concerned with the objective structure of signs which made their speech possible in the first place ,and this he called langue.Neither was Saussure concerned with the real objects which people spoke about:in order to study language effectively ,the referents of signs ,the things they actually denoted ,had to be placed in brackets. (2)
سوسئیر نے لسانیات کے پس پردہ کارفرما عوامل کے بارے میں جو تصورات پیش کیے ان کی وجہ سے لسانیات کے ٹھہرے پانی کی جامد و ساکت کیفیت میں ایک مد و جزر پیدا ہوا ۔اس کی یہ دلی تمنا تھی کہ کسی بھی زبان کے ارتقائی مدارج اور لسانی اثاثے کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت اس عہد کے حالات اور زمانے کے تغیر پذیر حالات ،واقعات اور مروجہ صورت (Synchronic Form )پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے ۔سوسئیر نے زبان کے قائم بالذات (Substantive)چیز ہونے کے تصور پر گرفت کی اور اس قسم کے خیالات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔اس نے اپنے نظریات میں اس بات پر اصرار کیا کہ زبان کسی طرح بھی کسی مثبت یا ٹھوس عنصر پر انحصار نہیں کرتی بلکہ زبان کی اساس تو نظام افتراقات ہے ۔زبان کی کلیت کی تفہیم اس بات کی متقاضی ہے کہ زبان کا مطالعہ صحیح تناظر میں کیا جائے ۔گروہ انسانی کو تو اپنے روزمرہ کاموں اور ابلاغ کے لیے زبان کی احتیاج ہے مگر اپنی اصلیت کے اعتبار سے زبان کو اس قسم کی بیساکھیوں کی ہرگز ضرورت نہیں ۔جس طرح فطرت خود بہ خود لالے کی حنا بندی کا فریضہ انجام دیتی ہے اسی طرح زبانیں بھی فطری انداز میں نشو و ارتقا کے مدارج طے کرتی ہوئی اوج کمال تک پہنچتی ہیں ۔زبان کو دراصل ایک سماجی ادارے کی حیثیت حاصل ہے ۔تاہم یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس کی
نوعیت دوسرے سماجی اداروں سے یکسر مختلف ہے ۔اس کو تمام سماجی اداروں میں محوری حیثیت حاصل ہے ۔جس طرح ملا اور مجاہد کی اذاں میں فرق ہوتا ہے اسی طرح ہر سماجی ادارے کی ضروریات لسانی حوالے سے جداگانہ خیال کی جاتی ہیں۔سوسئیر نے زبان کے نظام اور اس کے اشارات کے بارے میں اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :
"A language is a system of signs expressing ideas,and hence comparable to writing ,the deaf -and -dumb alphabet,,symbolic rites ,forms of politeness,military signals,and so on .It is simply the most importsant of such systems .It is therefore possible to conceive of a science which studies the role of signs as part of social life .It would form part of social psychology ,and hence of general psychology .We shall call it semiology." (3)


اُردو زبان اور دکنی زبان کے بعض محققین کا خیا ل ہے کہ ہندی کھڑی بولی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے ۔اُن کی رائے ہے کہ جہاں تک دکنی کا تعلق ہے اس کے بھی کھڑی بولی سے گہرے لسانی روابط دکھائی دیتے ہیں ۔ تاریخی تناظرمیں بر صغیر میں مروّج مختلف زبانوں کے لسانی ارتقا کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس خطے میں کھڑی بولی کی صورت میں ایک ایسی ہندوستانی زبان وجود میں آ گئی تھی جو جغرافیائی اورلسانی حصار سے نکل کرصوبہ جاتی زبانوں کو کسی قسم کاگزند پہنچائے بغیر مشتر ک قومی زبان کے طور پر اظہار و ابلاغ کا موثر وسیلہ ثابت ہوئی ۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی سب کے سامنے ہے کہ ہندوستانی زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب پر فارسی زبان کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔بر صغیر میں بولی جانے والی مقامی زبانوں اور فارسی زبان کے ملاپ کے اعجاز سے کھڑی بولی ہندی کو ایسے انداز میں پروان چڑھنے کا موقع ملا جس پر فارسی ،عربی اور ترکی زبان کے الفاظ کا غلبہ تھا ۔ سولہویں صدی عیسوی کے وسط میں بیجا پور اور گول کنڈہ کے ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقی فعالیت اسی زبان زیادہ تر اسی زبان کے مدار میں سرگرم عمل رہی۔اس طرح ایک صدی کے لسانی عمل کے نتیجے میں اسی زبان کے تخلیق کاروں کو پرورش لوح و قلم کے لیے ایک منفرد وسیلۂ اظہاردستیاب ہو گیا۔ماہرین لسانیات نے دکنی زبان اور جدید دور میں مستعمل اردو زبان میں پائے جانے والے فرق کی صراحت کر دی ہے ۔ان کا خیال ہے کہ گرامر اور صرف و نحو میں کچھ فرق موجود ہے ۔ چندر دھر شرما گلیری کا خیال ہے کہ کھڑی بولی یا پکی بولی یا ریختہ یا موجودہ ہندی کے ابتدائی دور کی نثر اور نظم کو دیکھ کر یہی جان پڑتا ہے کہ اردو زبان سے عربی اور فارسی زبان کے اسما و افعال کے بجائے سنسکرت کو جگہ دے کر ہندی کو وضع کیا گیا۔ماہرین لسانیات کی تحقیق بھی عجیب کشمکش کی مظہر ہے جس وقت سوز و ساز رومی کو مد نظر رکھیں تو زبان کا حصار پورے شمالی ہند کی زبانوں تک پھیلا کر مسرت وشادمانی کا اظہار کرتے ہیں اور جب پیچ و تا ب رازی کے زیر اثر ہوں تو لسانیات کے دریا کو سمیٹ کر مغربی ہندی یا کھڑی بولی کے کوزے میں بند کر کے لسانیات کے طالب علموں کوحیران کر دیتے ہیں۔اکثر ماہرین لسانیات کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دکنی ارد وجسے دہلی میں پزیرائی ملی اس کے سوتے کھڑی بولی ہی سے پھوٹتے ہیں۔ اس کے باوجود کئی حقائق ایسے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کی معیاری زبان نے محض کسی ایک زبان پر انحصار نہیں کیا بل کہ متعدد زبانوں سے خوشہ چینی کی ۔ تاریخ کا ایک وسیع، ہمہ گیر اور پیہم رواں عمل ہوتا ہے جو محض انسانی فکر و خیا ل اورفعالیتوں تک محدود نہیں رہتابل کہ اس کائنات کے جملہ مظاہر اور ان کے پس پردہ کارفرما عوامل کی گرہ کشائی بھی اسی کا کرشمہ ہے ۔تاریخ کے اسی مسلسل عمل کو سامنے رکھتے ہوئے شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر اور لسانی محقق کولین پی ماسیکا (Colin P Masica ) نے کھڑی بولی کی ساخت کے بارے میں لکھا ہے :
,,,Thus along with,Kausrvi , Hariyanvi,Punjabi,Rajasthani,
(Mewati),Braj and other influences have gone into making Khari
Boli-the last especially during the century (1566-1658)when the
imperial apital move dto Agra,in the heart of the Braj country.,, (4)
بر صغیر میں اٹھارہویں صدی عیسویں کے آ غاز میں یورپی اقوام کی آمد کے بعد اس خطے میں کھڑی بولی ہی کو اپنایا گیا ۔برطانوی استعمار کے بعد بھی انتظامیہ نے کھڑی بولی کو رابطے کی زبان کا درجہ دیا۔ دکن کی سر زمین سے ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ کی جن مساعی کا آغاز ہوا وہ رنگ لائیں اور شمالی ہند میں بھی ان کی باز گشت سنائی دی ۔قدیم زمانے کے دکنی تخلیق کار اپنی ذات سے ایک انجمن تھے انھو ں نے حُسنِ فطرت کو اپنے اسلوب میں نمایاں جگہ دی۔حُسن ِ فطرت کی لفظی مرقع نگاری نے اُن کے اسلوب میں سحر نگری پیدا کی ہے ۔ خود غرضی ،ہوس اوراجنبیت کے بڑھتے ہوئے رجحان میں ان تخلیق کاروں نے خلوص اور درد مندی کا زمزم روا ں دواں رکھنے کی سعی کی۔ سنیتی کمار چیٹر جی کا خیال ہے کہ یہ دکن ہی تھا جہاں سے تخلیق ادب کو نئے آفاق تک رسائی کا موقع ملا اور شمالی ہند کے لیے ایک لائق تقلید مثال پیش کی۔بر صغیر میں ادبیات کی تاریخ کے طالب علموں کے لیے یہ امر حیران کن ہے کہ دکنی ادبیات اور دکنی مصنفین کے بارے میں تحقیق کی صورت حال اب تک بالعموم غیر امید افزا رہی ہے ۔دکنی زبان کے ارتقا اوراس قدیم زبان کے ادب کے فروغ میں دلچسپی رکھنے والے سرابوں کی صعوبتیں برداشت کرکے راستے سے بھٹک کر سفاک ظلمتوں میں ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے ہیں ۔ بر صغیر کے نو آموزمحققین نے کاتا اور لے دوڑا کی روش اپنا رکھی ہے۔ دکنی ادب پر عاجلانہ تحقیق کی غیر محتاط روش اور تہی دامنی جو عجب گُل کِھلا رہی ہے اس کی ایک مثال پیش کی جا رہی ہے تا کہ ثبوت اور تنقید کی روشنی میں تاریخ ادب سے وابستہ حقائق تک رسائی کی کوئی صورت پیدا ہو سکے ۔ اردوزبان کے ممتا زمحقق نصیر الدین ہاشمی(1895-1964) کی اہم کتاب ’ دکن میں اردو ‘ میں درج ذیل غزل کو نصرتی ؔ کی تخلیق بتایا گیا ہے۔ اس غزل کے مطلع اور مقطع سے شعری تخلیق کے بارے میں تمام صورت حال واضح ہے۔ ادبی تخلیقات کے اجتماعی مواد اور انفرادی اسلوب میں دلچسپی رکھنے والے ادب کے سنجیدہ قارئین کے لیے یہ تقابلی مطالعہ اِحتساب ِ ذات کے نئے امکانات سامنے لا سکتاہے :
پیا بِن پیالہ پیا جائے نا
پیا باج یک تِل جیا جائے نا
غواصیؔ نہ دے توں دیوانے کو ں پند
دیوانے کوں پند دیا جائے نا (5)

سید احتشام حسین رضوی (1912-1972) کی کتاب ’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ ‘کے مطابق محولہ بالا غزل قلی قطب شاہ کی تخلیق ہے۔ذیل میں اس غزل کے مطلع اور مقطع سے حقیقت واضح ہو جائے گی اور زمانہ ماضی کے ذہن اور شعور کو حقیقی تناظر میں دیکھنے کی صورت پیدا ہو گی۔
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج اِک تِل جیا جائے نا
قطب شہ نہ دے مجھ دوانے کو پند
دوانے کو کچھ پند دیا جائے نا (6)
ڈاکٹر جمیل جالبی ( 1929-2019) کی تصنیف ’’تاریخ ادب اردو ‘‘ کی جلد اول میں درج ذیل شعر قلی قطب شاہ کی تخلیق قرار دیا گیا ہے :
پیا باج پیالا پیا جائے نا
پیا باج ایک پل جیا جائے نا (7)
اس صورت حال کو دیکھ کر خامہ انگشت بہ دنداں ہے کہ اس موضوع پر اپنے تاثرات کیسے زیب قرطاس کیے جائیں اور ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس نوعیت کی مبہم آراکے بارے میں گل افشانی ٔ گفتار کااندازکیاہو گا؟
دکنی زبان اور ادب اس خطے کی تاریخ اور تہذیب کی پہچان ہے ۔دکنی زبان اور اُردو زبان کا قدیم ادب اپنی اصلیت کے اعتبار سے اجتماعی سوچ کا آئینہ دار ہے لیکن جہاں تک اسالیب کا تعلق ہے اِن میں تخلیق کاروں کی انفرادی سوچ کاکرشمہ دامنِ دِل کھینچتاہے۔سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کی زد میں آکر اقوام کی قوت و ہیبت ،جاہ و حشمت اور سطوت کے سفینے تو غرقاب ہو سکتے ہیں مگر تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت اندیشۂ زوال سے نا آ شنا ہے ۔ تاریخ کا مطالعہ ذہن و ذکاوت کو صیقل کر کے فکر و خیال کو مہمیز کرتا ہے ۔کلاسیکی ادب کے مطالعہ سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ہر عہد کے ادیبوں نے تخلیق ِ فن کے لمحوں میں اجتماعی شعور اور اپنے انفرادی عزم و خیال کو زادِ راہ بنانے کی سعی کی ہے ۔تاریخی حقائق کی تحقیق او رتجزیے سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوتا ہے ۔مطالعہ ادب میں بھی تاریخی حقائق کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔قارئین کے ذہن و شعور کو فہم و ادراک سے متمتع کرنے میں تاریخ اور اس کا پیہم رواں عمل کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔
لسانیات کے ارتقا کو سمجھنے کے لیے تخلیق ادب اورتخیل میں جو گہر ا تعلق ہے اُسے سمجھنا نہایت ضروری ہے ۔اسی تعلق کے اعجاز سے تخلیقی فعالیت تصوراتی مواد سے متمتع ہوتی ہے ۔عملی زندگی کے تجربات ،مشاہدات اور تخیلات کے ادب اور فنون لطیفہ پر دُوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔فکر و خیال کی دنیا کے انداز بھی نرالے ہوتے ہیں جہاں ہر لحظہ نیا طُور نئی برق تجلی کی کیفیت تخلیقی عمل کو مہمیز کرتی ہے ۔اس کے معجز نما اثرسے تکلم کے سلسلے اور اسالیب بیان میں جدت اور تنوع کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ مستشرقین نے بر صغیر میں بولی جانے والی زبانوں کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے دی ہے ۔اُن کی فکر پروراور بصیرت افروز تحریروں میں مسائل ِ زیست ،معاشرتی اور سماجی زندگی کے نشیب وفراز ، تعلیم و تربیت ،ادیان عالم،تاریخ اورتخلیق ادب کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا گیاہے وہ اُن کی وسیع النظری کی دلیل ہے ۔اُنھوں نے ادب کو زندگی کی تنقید کے حوالے سے دیکھااور اس کے دائرہ کار کووسعت دی۔ مثال کے طورپر میتھیو آ رنلڈ نے فرانسیسی زبان کے ادب کوکلاسیک کی روح کے قریب قرار دیا۔ فرانسیسی تنقید کو نیا آ ہنگ عطا کرنے والے نقاد بولو Nicolas Boileau-Despréaux (Nicolas Boileau : 1636-1711))نے اپنی تحریروں میں جس مثالی کلاسیکیت کا ذکر کیا ہے اس میں فرد کو غیر معمولی اہمیت کاحامل قراردیاگیاہے مگر میتھیو آ ر نلڈ کی کلاسیکیت اس سے مختلف نوعیت کی ہے ۔ میتھیو آ رنلڈ نے رومانی آزادی کو تو بہ نظر تحسین دیکھا مگر اس کے ساتھ ہی اس نے یونانی مفکرین کے زیر اثر رہتے ہوئے رومانی آزادی میں توازن کو بر قرارکھنے پر اصرارکیاہے ۔ اردو اور دکنی زبان کے کلاسیکی ادب کا استحسان کرتے وقت میتھیو آ رنلڈ کے تنقیدی خیالات کامطالعہ کریں تو جو اہم امور سامنے آتے ہیں ان کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتاہے کہ معاشرتی زندگی میں اصلاح کو پیش نظر رکھتے ہوئے میتھیو آ رنلڈ کا خیال ہے کہ ادب اور فنون لطیفہ کی اہمیت و افادیت سائنس و ٹیکنالوجی سے وابستہ علوم سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ میتھیو آ رنلڈنے علم و ادب کی جولاں گاہ کو لامحدود قرار دیا۔اس کا خیا ل تھا کہ ادب کو جغرافیائی حدود کے حصار میں بند کر ناکسی صورت میں ممکن ہی نہیں ۔ادب کی فضائیں زندگی سے تہی نہیں بل کہ اس کے سامنے سیکڑوں اور آ سمان بھی ہیں ۔ادب کو رنگ ،نسل ،زبان اور کسی خاص خطے سے وابستہ کرنا اس کی حقیقی قدر و قیمت کو کم کر دیتاہے ۔فکر انسانی کو میتھیو آ رنلڈ بحرِ بے کراں سمجھتاہے اسے کسی جزیرے کے مانند سمجھنا ایام کا مرکب بن کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہنے کے مترادف ہے ۔ میتھیو آ ر نلڈ نے ادب میں جمود ،بے عملی اور بے حسی کے خاتمے کی غرض سے جرأت اظہارکی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ادب کی آفاقی اور کائناتی اہمیت کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں رفتگاں کی یاد اور ان کی تخلیقات کی خوشہ چینی کرتے ہوئے ممتازجرمن شاعر گوئٹے ( :1749-1832 Johann Wolfgang von Goethe)کی طرح میتھیو آ رنلڈ کی مساعی کو ہر عہد میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ میتھیو آ ر نلڈکی گوئٹے سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کا سبب یہ ہے کہ اس جرمن شاعر نے قدیم ثقافت اورازمنہ قدیم کے شعرا کی تقلید کو ہمیشہ اپنا نصب العین بنایا ۔ ہر قسم کے امتیازات اور تعصبات کو پس پشت ڈال کر وسیع النظر ی کا ثبوت دیتے ہوئے اس عالمِ آب و گِل کے مظاہر اوریہاں کی اشیاکی حقیقت اور ان کی ماہئیت کی تہہ تک پہنچنے اوراس کی لفظی مرقع نگاری کرنے کا جو انداز گوئٹے نے اپنا یا وہ میتھیو آ ر نلڈکو بہت پسند تھا ۔انسان کامل کو جو تصور میتھیو آ ر نلڈنے پیش کیا اس سے یہ تاثر ملتاہے کہ وہ قدیم مفکرین کے افکار سے متاثر ہے ۔اردو اور دکنی کے قدیم تخلیق کاروں نے انسان کو مجموعی اور کلی حیثیت سے دیکھنے کی سعی کی جب کہ نئے دور میں انسان کی شخصیت کا صرف جزوی مطالعہ کیا جاتاہے ۔ مرزااسداﷲ خان غالبؔ نے سچ کہا تھا:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
دکنی ادب کا مطالعہ کرتے وقت عالمی کلاسیک کے مسلمہ معائر سے آگاہی نا گزیر ہے ۔تنقیدی مباحث کے حوالے سے میتھیو آ ر نلڈ نے نقاد کی ذہانت ،دیانت ،ہرقسم کی عصبیت سے پاک انصاف پسندی ، لچک ،وسعت نظر ،حریت ِ فکر اور جرأت ِ اظہار کو صحت مند تنقید کے لیے ناگزیر قراردیتاہے ۔ انسان شناسی میں ادب کے کردار کو زیر بحث لاتے ہوئے میتھیو آ ر نلڈنے اس امر کی جانب متوجہ کیاہے کہ ادب انسان کی شخصیت اور کردارکی تعمیر و تشکیل کا فریضہ انجام دیتاہے ۔یہ ادب ہی ہے جو تعلیم و تربیت ،انسان کامل کی تشکیل ،عرفان ذات کی صلاحیت ،خود آ گاہی کے اوصاف ،تجربات و مشاہدات کے بعد سوچ بچار ،مسائل زیست کی تفہیم اور آثار ِ مصیبت کے احساس سے متمتع کرتاہے ۔تخلیق ادب میں مواد اور ہئیت کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔میتھیو آ ر نلڈنے ادب پارے میں مواد اور ہئیت کاتوازن اور اعتدال پر زور دیا۔اس کاخیا ل تھاکہ اگر تخلیق فن کے لمحوں میں ایک تخلیق کار ارتکازِ توجہ سے مواد اور ہئیت کی وحدت کو یقینی بناتاہے تو ادب پارہ روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثرآفرینی کے اعجاز سے پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کالوہا منو ا لیتاہے ۔جب تخلیق کار اس طرح ید بیضا کا معجزہ دکھاتاہے تو ایسا ابد آ شنا ادب پارہ تخلیق ہوتاہے جو لوحِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیتاہے ۔تاریخ کے مسلسل عمل پر نظر رکھتے ہوئے میتھیو آ ر نلڈنے قدیم ادب کے استحسان پر بھی توجہ د ی۔اس کا خیال ہے کہ ہمارے اسلاف نے اس کائنات کے تمام مظاہر اور اشیا کی حقیقی تفہیم میں اپنے ذہن و ذکاوت کو استعمال کرتے ہوئے جس دیانت اور بے باک صداقت کوشعاربنایا وہ ان کی منصف مزاجی کا ثبوت ہے ۔اپنی تخلیقی فعالیت کے ذریعے ایک زیرک شاعر امر واقعہ کے بجائے بالعموم اپنے تخیل کی جولانیوں سے زندگی کی تنقید اور تعبیر پرتوجہ دیتاہے ۔ دکنی زبان کے قدیم شعرا کے اسلوب کا مطالعہ کرتے وقت تنقید کے مسلمہ اصولوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔کسی بھی زبان کے شاعر کے اسلوب کے بارے میں میتھیو آرنلڈ نے لکھا ہے :
"Poets who can not work in the grand style instinctively seek a style in which their comparative inferiority may feel itself at ease,a manner which may be ,so to speak,indulgent to their inequalities." (8)

شاعری کی تخلیق کے حوالے سے میتھیو آ رنلڈ نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا ہے کہ شاعر تخلیق فن کے لمحوں میں اشہب قلم کی جولانیاں دکھاتے وقت خیالات کو زادِ راہ بناتاہے ۔یہ اس کے ارفع خیالات ہی ہیں جن کی اساس پر وہ اپنے افکار کا قصر عالی شان تعمیر کرتا ہے ۔ یہ شاعری ہی ہے جو سائنسی علوم کے فروغ اور تکمیل میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے ۔شاعری کی افادیت سے لبریز ہمہ گیر اثر آفرینی اور افادیت کو دیکھتے ہوئے مذہب اور فلسفہ بھی شاعری کی کسوٹی سے بے نیاز نہیں رہ سکا۔ اس صورت حال میں مذہب اور فلسفہ کا مطالعہ اور تنقید خضر ِ راہ کا فریضہ انجا م دیتی ہے اور منضبط انداز میں خیالات کو اظہار و ابلاغ کے مواقع سے آ شنا کرتی ہے ۔شاعر پامال راہوں سے بچتے ہوئے غیر مانوس ،ناقابل فہم ،دقیانوسی اور ناقابل عمل خیالات کو بارہ پتھر کرکے افکارِ تازہ کی مشعل فروزاں کر کے سفاک ظلمتو ں کوکافور کر کے جہانِ تازہ کی جانب روشنی کے سفر کا آغاز کرتاہے ۔ روح اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر جانے والے زندگی آموز اور زندگی آ میز خیالات اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔شاعر کی دلی تمنا ہوتی
ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ خون بن کے رگِ سنگ میں اُتر جائے ۔ زندگی کی حرکت و حرارت کی مظہر ایسی شاعری دلوں کو ایک ولوۂ تازہ عطا کر کے فکر و نظر کو مہمیز کرتی ہے۔ایسی شاعری سنگلاخ چٹانوں ،جامد و ساکت پتھروں اور بتوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔میتھیوآ ر نلڈ نے ایسی شاعری کے بارے میں لکھا ہے :
" The future of poetry is immense,because in poetry ,where it is worthy of its high destinies,our race,as time goes on,will find an ever surer and surer stay.There is not a creed which is not shaken,not an accredited dogma which is not shown to be questionable,not a received tradition which does not threaten to dissolve.Our religion has materialized
itself in in the fact,in supposed fact; it has attached its emotion to the fact ,and now the factis failing it.But for poetry the idea is everything ; the rest is a world illusion,of divine illusion .Poetry attaches its emotion to the idea ; the idea is the fact.The strongest part of our religion to-day is its unconcious poetry.(9)
شاعری کا جائزہ لینے کے لیے میتھیو آ ر نلڈ نے جن تین معائر کی نشان دہی کی ہے ان میں تاریخی جائزہ ،ذاتی جائزہ اور حقیقی جائزہ شامل ہیں۔ اُس کا خیال ہے کہ ازمنہ قدیم کے کلاسیکی شعرا کے اسالیب کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیتے وقت ان کی قدامت کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے ۔ رفتگاں کی یاد ، قدامت کی قدر اور عقیدت کی رو میں محاکمہ بالعموم صحیح سمت برقرارنہیں رکھ سکتا۔جہاں تک ذاتی جائزے کاتعلق ہے اس میں بھی نقادکی ذاتی پسند و نا پسند اور کسی تخلیق کے بارے میں ذاتی ترجیحات کی مظہر غیر محتاط رائے حقائق کی تمسیخ اور صداقتوں کی تکذیب پر منتج ہو سکتی ہے ۔ میتھیو آ ر نلڈ نے تاریخی جائزے اور ذاتی جائزہ کو کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا بل کہ حقیقی جائزے کو مفید اور مستحسن قرار دیا۔اس نے واضح کیا کہ ادب پاروں کا حقیقی جائزہ ہی وہ مقیاس ہے جو دنیا کی کسی زبان کی ادبی تخلیق کے حسن و قبح کو سامنے لانے کا موثر ترین وسیلہ ہے ۔ادب اور فنون لطیفہ کے استحسان کے سلسلے میں حقیقی جائزہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتاہے ۔اسی کے وسیلے سے ذوق سلیم سے متمتع قاری کسی تخلیق میں موجود رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے جملہ استعاروں سے آ گہی حاصل کر کے ان سے حظ اُٹھا سکتاہے ۔تخلیق ادب میں شرافت کے مظہر خلوص کی جلوہ گری کے لیے میتھیوآ رنلڈ نے سخت نوعیت کا کوئی خاص اصول وضع کرنے سے بالعموم گریزکیا۔اس کا خیا ل تھا بیرونی مداخت سے مسلط کیے گئے اس قسم کے ناقابل عمل اصو ل اور سخت قواعد و ضوابط سے تخلیق ادب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتاہے ۔ادب میں عظمت فکر ،شرافت ،وضع داری اور اثر آفرینی کا تعلق تو تخلیق کار کی خود شناسی ، خود اعتمادی ،خود احتسابی اور وسعت نظر سے ہے ۔اگرتخلیق کار کذب و افترا اور ریاکاری سے اپنا دامن آ لودہ نہ ہونے دے تو ستاروں پہ کمند ڈال سکتاہے اور تخلیقِ ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر سکتاہے ۔تخلیق ِ ادب میں تنقید اور ثقافتی اقدار کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے میتھیو آ رنلڈ نے ا س جانب اشارہ کیا ہے کہ تنقید اور ثقافت کو ان سب عوامل کی گرہ کشائی کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے جن سے ماضی اور حال کے خیالات نے نمو پائی۔اس کے علاوہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ سب امور جو اپنی اکملیت کی وجہ سے لوحِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کر چکے ہیں ان کی کامیابی کا راز کیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی ثقافت اور تنقید کو عصبیت و تشدد سے دامن بچاتے ہوئے ان عوامل کا کھوج لگانا چاہیے جن کے باعث سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے ماضی کی متعدد روایات کو خس و خاشاک کے مانند بہالے گئے ۔اس کا خیال ہے کہ تنقید اس وقت مبہم اور ناقابل عمل صور ت اختیار کر لیتی ہے جب اسے اثر پذیری کی تمنا میں چاپلوسی سے آ لودہ کر دیا جائے اور پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت قارئین کو ادب
پارے کے مطلوبہ مفاہیم تک رسائی اوران پر قانع رہنے کے مالکانہ حقوق تھما دئیے جائیں ۔
شرافت ،دیانت اور محنت سے مزین عظیم الشان اسلوب کے بارے میں میتھیوآ رنلڈ نے یہ بات بر ملا کہی ہے کہ ایسے ابد آ شنا اسلوب تک رسائی حاصل کرنابہت کٹھن مر حلہ ہے ۔ستاروں پر کمند ڈالنے والوں کی سانس راہ ہی میں اُکھڑ جاتی ہے ۔ عظیم الشان اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے میتھیو آ ر نلڈ نے لکھا ہے :
The grand style is the last matter for verbal definition to deal with adequately.One may say of it as is said of faith:,one must feel it in order to know what it is,.But as of faith ,so too one may say of nobleness ,of grand style:,Woe to those who know it not, ! Yet this expression ,though indefinable ,has a charm ; one is better for considering it; bonnum est, nos hic esse;nay,loves to try to explain it,though one knows that one must speak imperfectly .(10)
دکنی زبان کے قدیم ادب کا جائزہ لیتے وقت میتھیوآرنلڈکے خیالات قاری کوسوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایک جری نقاد کی حیثیت سے میتھیو آ ر نلڈنے زندگی بھر جو تنقیدی معائر پیش نظر رکھے وہ اس کی ذہانت اور بے باک صداقت کے مظہر ہیں ۔اس نے تنقید کو جو بُلند آ ہنگ عطا کیا اس کے معیار کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں ۔ یہ امر حیران کن ہے کہ اپنے تنقیدی معائر پر عمل پیرا رہتے ہوئے بھی بعض اوقات وہ انتہا پسندانہ ذاتی رائے پر مبنی بے اعتدالی کا شکار ہو جاتاہے ۔میتھیوآ رنلڈ نے معاشرتی زندگی کے تضادات پر گرفت کی اور معاصر تنقید کی خامیوں کی جانب توجہ دلائی ۔میتھیو آرنلڈ کی تنقید پر جرمن ادیب گوئٹے( : 1749-1832 Johann Wolfgang von Goethe )،رینان اور سانت بیو کے اثرات کا پتا چلتاہے ۔ادب میں جمالیاتی عنصر کو دبانے کی خاطر اس نے اخلاقی عنصر کی اہمیت و افادیت کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیا ۔ انگریزی زبان کی تنقید میں اخلاقیات کی تدریس کا جو ارفع معیار فلپ سڈنی (1554-1586 : Philip Sidney )کی تحریروں میں پایا جاتاہے وہ میتھیو آ رنلڈ کی تحریروں سے زیادہ موثر ہے ۔ میتھیو آ ر نلڈزندگی بھر نہایت تحمل اور سنجیدگی سے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہا۔کوئی ادبی مہم جُو جب بھی بہتان طراز ی اور الزام تراشی کی غرض سے اس کی طرف یلغار کرتاتو وہ اسے بالعموم نظر انداز کر دیتا۔ اس کا خیال تھاکہ نقاد کو اپنے خلاف سادیت پسندی پر مبنی ایسے بغض و عناد،بے معنی حرف گیری اور بے وقعت الزام تراشی کو کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے ۔ اس نے واضح کیا کہ شاعری کے نقادکو بے باک صداقت کو شعار بنانے والا بہترین مدبر ، لچک دار سوچ سے متمتع بہترین اعتدال پسند ،قابل فہم اور متنوع تصورات کوپروان چڑھانے والادانش ور ،تناقضات کو ختم کرنے والا مصلح اور منصف مزاج مورخ ہونا چاہیے ۔ایک جری نقاد کا تبحر علمی واضح طور پر غلط سمت میں لے جانے والے فرسودہ خیالات پر مبنی جہالت اور جعل سازی کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتاہے ۔ عظیم ترین اسلوب کے فروغ کے لیے کام کرنے والے اس نقاد نے ذوق ِسلیم کی نمو کے لیے جو بے مثال جد جہد کی اس کی بنا پر تاریخ ہردور میں اس کے نام کی تعظیم کر ے گی۔ مادی دور کی لعنتوں سے آلودہ ہو جانے والی معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ چور محل میں جنم لینے والے مارِ آ ستین چور دروازے سے گھس کر جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ہیں ۔یہ بونے
مختلف سیڑھیاں استعمال کر کے پنے تئیں باون گزے ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں اوررواقیت کے داعی بن کر لاف زنی شروع کر دیتے ہیں ۔ان کے بے سروپا سلسلہ ٔتکلم کے بارے میں یہی کہا جا سکتاہے کہ ان کی جہالت نے ان کی مانگے کی علمیت اور جعلی ڈگریوں پر سوالیہ نشان لگا دیاہے ۔ جس بے حس معاشرے میں جاہل کو اس کی جہالت کاانعام ملنے لگے وہاں وقت کے اس قسم کے سانحات کو کس نام سے تعبیر کیا جائے ۔عقیدت کی اداکاری کرنے والے طوطاچشم بروٹس کو دیکھ کر کف افسوس ملنے والے وقت کے ہر سیزر کے بارے میں یہی کہا جا سکتاہے کہ قدر نا شناس کے ساتھ گزارا جانے والا وقت ہر صورت میں رائیگاں ہی جاتاہے ۔ چربہ ساز ،سارق ،جعل ساز ،کفن دُزد اور لفاظ حشرات ِ ادب کی کینہ پروری پر مبنی الزام تراشی کے جواب میں برطانوی شاعر اور نقاد میتھیو آرنلڈ) 1822-1888 (نے جو بات کہی تھی وہ صداقتوں کی تکذیب اور حقائق کی تمسیخ کرنے و الے ہر کینہ پرور حاسد، پیمان شکن درندے ، دغا باز محسن کش اور برادرانِ یوسف کے لیے نوشتۂ دیوار کے مانندہے :

(11) " You shall die in your sins "

ادب میں موضوع ہو یا مواد ،افکار ہوں یا تصورات سب کے سب پیہم ارتقا ئی مدارج طے کرتے ر ہتے ہیں۔معمولاتِ زندگی کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ زندگی کی مثال بھی کواکب جیسی ہے جو اپنی ظاہری شکل و صورت کے بجائے جہاں دیگر کو اپنے دامن میں سموئے ہوتے ہیں ۔ مطالعہ ٔ ادب میں بھی یہی کیفیت جلوہ گر ہے کہیں یہ ادبی تخلیق کی جانب متوجہ کرتاہے تو کہیں تخلیق کار کو مرکزِ نگاہ بنا لیتاہے۔قدیم دکنی زبان اور اُردو زبان کے مر کبات کا مطالعہ قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دیتاہے ۔
مرکب ناقص : کلام ناقص سے مراد تکلم کا ایسا سلسلہ ہے جس سے سامع بھرپور استفادہ نہ کر سکے اور اس کی تشنگی بر قرا ر رہے ۔اس کی دل میں یہ تمنا پیدا ہو کہ کاش اس ادھوری گفتگو میں ناگفتہ رہ جانے والی ضروری باتوں کی وضاحت کی کوئی صورت پیدا ہو سکے۔مثال کے طور پر نوید کا کمپیوٹر ،احسن کا موبائل فون،نیلا کپڑا،دو سو پندرہ،رمزی کا اسلحہ ،تفسو کا قحبہ خانہ ،مصبو کی منگنی ،سموں کا دوسرا بیاہ ،شگن کا رومان اور تنوارا کی ٹھگی وغیرہ یہ ایسے کلمات ہیں جو سامع پر کوئی واضح تاثر نہیں چھوڑتے ۔اس قسم کے کلمات جو مزید وضاحت کے متقاضی ہوں ،اُنھیں مرکب ناقص سے تعبیر کیا جاتاہے ۔اس کے بر عکس جہاں تک کلام تام کا تعلق ہے یہ اپنا بھر پور تاثر چھوڑتا ہے ۔جیسے سلطان اپنے عہد و پیمان کا پکاہے ۔عزیز نے قفسو کو اُس کی اوقات یاد دلا دی۔
مرکب ناقص کی اقسام
اردو زبان او ردکنی زبان میں مستعمل مرکبات ِ ناقص درج ذیل ہیں :
۱۔ مرکب اضافی
دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلّی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ جو شرمندہ ٔ معنی نہ ہوا ( غالبؔ)
فتاح ِ قابض باسط خافِض
رافع مُعِز مُذِل رب
مُنعمِ مانع ضارّ نافع
ہادی بدیع رسید نام
پیمِ نیم سِرِ دَہری سُمَرنی سُتھرے
دانیں ناؤں اِن سب سَن کام ( ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ))
۲۔ مرکب توصیفی
کچھ جو سیدھی بھی بات کہتا ہوں
ٹیڑھیاں وہ مجھے سناتا ہے
کُلدِپ کُلوَنت دھَن تَن دِیپت
راج دھِیاسَت پُونم چَند ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
۳۔مرکب عددی
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دِل کی وہی تنہائی
عمرِ دراز مانگ کر لائے تھے چار دِن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
بال بیس پورا پنڈت نَھا مَن
بَتّیس لَچَّھن کَھیں جگ تِس ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
۴۔مرکب عطفی
خدا کاذکر کرے ذکر مصطفی ﷺ نہ کرے
ہمارے منھ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے
لَک لَک جھمکیں سمیوں کے سر
کے نِس تَروَ جِکنیوں بھرر ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
۵۔ مرکب ظرفی
یہ دور اپنے براہیم ؑ کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہا ں لاالہ الا اﷲ
ڈھونڈوں ہر ٹھار اُس کی اُنہار
چاہوں نار جِس دیکھت چین ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)



۶۔ مرکب امتزاجی
چلا اکبر آباد سے جس گھڑی
در و بام پر نظر حسرت پڑی
۷۔ بدل و بدل منہ
جب دشتِ مصیبت میں علی ؑ کا پسر آیا
گردوں سے فزوں تر اوج زمیں کانظر آیا ( میر ببر علی انیس ؔ)
۸۔ عطف بیان
خصوصیت نہیں کچھ اِس میں اے کلیم تیری
شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں
۹۔ تابع مہمل
دھول دھپااُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دِن
۱۰۔ تابع موضوع
چلتے پِھرتے ہوئے مُردوں سے ملاقاتیں ہیں
زندگی کشف و کرامات نظر آتی ہے
۱۱۔ تاکید و موکد
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
۱۲۔تمیز و ممیّز
بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترکِ الفت پر وہ کیوں کر یاد آتے ہیں
۱۳۔ اسم فاعل ترکیبی
ابو الفضل یاں اُٹھے سراج کتنے ( سراج : زین اور جوتے بنانے والا)
ابوالوقت ہو گزرے حلاج کتنے ( حلاج : دُھنیا )
کو ہ کن کیا پہاڑ توڑے گا
عشق نے زور آزمائی کی ( کوہ کن :پہاڑ توڑنے والا )
۱۴۔اسم مفعول ترکیبی
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار ر اہ میں ہے
۱۵۔اسم صفت ترکیبی
۱۶۔ اسم مکبر
لباس ہے پھٹا ہوا غبار میں اَٹاہوا
یہ کون ذی وقار ہے بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزار قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا


۱۷۔ اسم مبالغہ

اُلجھا ہے پاؤں یار ک ازلفِ دراز میں
لو آ پ اپنے دام میں صیاد آ گیا
۱۸۔اسم تفضیل
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
۱۹۔اسم اشارہ و مشارُ الیہ
اس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تُو کہاں
آ اے شبِ فراق تُجھے گھر ہی لے چلیں ( ناصرکاظمی )
۱۔ مرکب اضافی
جب بھی دو اسم آپس میں ملتے ہیں تو ان میں ایک ایسا تعلق استوار ہوتا ہے جو کسی حد تک تشنگی کا مظہر ہوتا ہے ۔اسما کے اسی نا مکمل ناتے کو اضافت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔جس اسم کا تعلق دوسرے اسم کے ساتھ استوارکیا جائے اُسے مضاف کہتے ہیں اور جس اسم کے ساتھ تعلق ظاہر کرنا مقصود ہو اُسے مضا ف الیہ کا نام دیا جاتا ہے۔الفاظ کے باہمی ربط کا مظہر یہ مجموعہ مرکب اضافی کہلاتاہے ۔
عمر ؓجب نبی ﷺ کے امت میں ہوے
یہودی عرب نے جو تھے سر نوے ( وجہی : سب رس صفحہ 6)
’’ سبحان اﷲ !اس کتاب کا ناؤں ’سب رس ‘ سب کو پڑھنے آوے ہوس،بول بول کوں چڑھے اُمس،یادگار ہو اجھیگا دنیا میں کئی لاکھ برس ۔‘‘
شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں (غالبؔ)
دستِ ستم کو دستِ مسیحا نہیں لکھا
میں نے منافقوں کو فرشتہ نہیں لکھا ( سلطان رشک )
ذیل میں دکنی اور اُردو زبان سے مرکب اضافی کی چند مثالیں پیش کی جا تی ہیں:
مضاف مضاف الیہ
اُمت نبی ﷺ
ناؤں کتاب
ہاتھ شوریدگی
۲۔ مرکب توصیفی
جب دو ایسے اسما کو باہم ملا دیا جائے جن میں سے پہلااسم تو موصوف ہو جب کہ دوسرا اسم صفت ہو تو اسما کا ایسا مجموعہ مرکب توصیفی کہلاتا ہے ۔
عقل ہے باز ولے بازِ بلند پرواز
شکار گاہ ہے اس کا حقیقت ہو ر مجاز ( وجہی : سب رس )
شہ جَل بَل بَل پَل پَل تَل مَل
پِیتم پایا مَن مَنہ اَب (حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
عکس ِ خوشبو ہوں بِکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بِکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی ( پروین شاکر )

بستیاں ہو گئیں بے نام و نشاں راتوں رات
ایسے طوفان بھی آئے ہیں یہاں راتو ں رات (خاطر غزنوی )
مندرجہ بالا اشعار میں ’ بازِبلند پرواز ‘ بے نام و نشاں بستیاں ،عکس خوشبو مرکبات توصیفی ہیں ۔
۳۔ مرکب عددی
مرکب عدد ی کی تشکیل دو دو اعداد کی مدد سے ہوتی ہے ۔ قدیم دکنی اردومیں ایک کی جمع ’ ایکاں ‘ لکھنے کا رواج تھا۔ اردو کے اکثر شعرا نے مرکب عددی کواپنے اسلوب میں جگہ دی ہے :
اِک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اِک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے (غالب ؔ )
ایک ہے تیری نگہ میری آہ
کہیں ایسوں سے رہا جاتا ہے (داغ ؔ )
خبر دلجہ کوں معلوم ہر ایک منزل کا
فقیر تن ہو بچارا مطیع ہے دِل کا ( ملاوجہی )
پَتّی پُستک میں سہسر تک
دُوہِ نو سو نوّ یانو ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
۴۔ مرکب عظمی یا معطوف بہ حرف
جب تنہا کلمہ یاکلام ناقص یعنی مرکب اضافی و توصیفی وغیرہ کا عطف کلمہ واحد یا کلام ناقص پر ہوں تو اسے بھی مرکب ناقص اور کلام تام کا جزو سمجھاجاتاہے ۔جیسے احسن کی کتاب اورنوید کا قلم ۔
ڈھونڈوں ہر ٹھار اُس کی اُنہار
چاہوں نار جِس دیکھت چَین ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
۵۔ مرکب ظرفی
یہ ایسا مرکب ہے جس کی تشکیل مظروف اور ظرف کی مرہونِ منت ہے جیسے قلم دان ،آتش کدہ ،صنم کدہ،رتن کھان( جواہرات کی کان) اورگُن ساگر ( اوصاف کا بحر بے کراں ) وغیرہ۔ دکنی شاعر سید اشرف اشرف ؔ نے پالنا(پنگھوڑا ) کوایک مر ثیہ میں استعمال کیاہے :
بانوؓ گئیں اصغر ؓ نہیں اب میں جُھلاؤں کِس کے تئیں
سُونا ہوا ہے پالنا اب میں سُلاؤں کِس کے تئیں (سیداشرف اشرف ؔ)
بیجا پور کے شاعر سید شاہ ندیم اﷲ حسینی ندیمؔ نے ایک مر ثیے میں ’ پالنا ‘کو مو ضوع بنایا ہے :
ہے ہے اصغر ؓ ابنِ حسینؓ سُو نا تیرا پالنا
رو رو بانو ؓ کرتے ہیں بین سُونا تیرا پالنا ( سید شاہ ندیم اﷲ حسینی ندیم ؔ )
دَہن جس سَن پیم بندھان
مہ جی نِکلنک رُپ گُن مان
نیم اَستُت سہ جی جان
دَھن گُن ساگر رَتن کھان ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
محبت آ گ کا دریا ہے کوہِ قاف ہے پھر بھی
محبت کرنے والے اپنی منزل جان لیتے ہیں (سلطان رشک )
۶۔ مرکب امتزاجی
ایسا اسم جو دو یا دو سے زیادہ اسما کے یک جا ہونے سے متشکل ہو مرکب امتزاجی کہلاتا ہے جیسے نوید احسن ،مظفر گڑھ ،ساہی وال،کالا باغ ،ساجھووال،مکڑوال
دِل دادہ ہوں اِس درجہ شگفتِ لب گُل کا
دے سکتا ہوں جاں گُل کدہ ٔ گُل کے لیے میں (سلطان رشک )

۷۔ بدل و مبدل منہ
کلام کی زینت بننے والے ایسے دو لفظ جن میں سے ایک تو مقصود بالذات ہو مگر دوسرے سے کوئی غرض نہ ہو ۔مقصود بالذات کو بدل جب کہ دوسرے کو مبدل منہ کہا جاتا ہے ۔ سپاہی سلطان کا پوتا نوید احسن لاہور میں پڑھتا ہے ۔یہاں سپاہی سلطان جو مقصود بالذات ہے بدل ہے جب نوید احسن مبدل منہ ہے ۔
گلبرگہ گلبرگہ مہکَت
بند کے حضرت مخدوم ٹھار
سید محمد غنی حسینی
ساچے آچھے سر سہ تاج
۸۔ عطفِ بیان
دو اسما کا اس طرح بیان کہ دوسرا اسم پہلے کی مزید تشریح کرے تو یہ عطف ِ بیان کہلاتاہے جیسے موسیٰ ؑ کلیم اﷲ ،نواب محسن الملک مولوی مہدی علی خان۔یہاں نواب محسن الملک مبیّن ہے اور مولوی مہدی علی خان عطفِ بیان ہے ۔
چڑھتے دِن دِن میراں علادین
اَنند اَلَند بھر گگن مان ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
۹۔ تابع مہمل
جب کسی لفظ کے ساتھ ایک لفظ زائد بولا جائے تو ایسا لفظ تابع مہمل کہلاتا ہے جیسے سچ مچ ،میل کچیل ،سود ا سلف میں مچ ،کچیل اور سلف تابع مہمل ہیں ۔
تُجھ کُچھ گُن گَت کِنچَّک نانہ سَت
نِرگُن جان اَت رہے چُپ چاپ ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
ہماری جان پہ بھاری تھا غم کا افسانہ
سُنی نہ بات کسی نے تو مر گئے چُپ چاپ
۱۰۔ تابع موضوع
کلام میں ایسے با معنی الفاظ کا زائد استعمال جو کچھ معنی نہ دیں جیسے رونا دھونا ،چال ڈھال،کرنا کرانا میں دھونا ،ڈھال اور کرانا تابع موضوع ہیں ۔
جِدھر تِدھر دیکھے ہری بَر
دوئی پَنا نَر بَرِیا جَب (حسن منجو خلجی ہنسؔ)
۱۱۔ تاکید و موکد
اسم یا فعل کی تاکید کے اعجاز سے کلام کی تاثیر کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔یہ اسم کی تاکید اور تکرا رلفظی کی صورت میں کی جاتی ہے جیسے سب ،سبھی،سراسر، چپکے چپکے،دیکھتے دیکھتے ،کم کم ۔
چپکے چپکے رات دِن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے ( سید فضل الحسن حسرت ؔ موہانی )
کِھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اُس کی آ نکھوں کی نیم خوابی سے ( میر تقی میر ؔ)
گھر گھر مسجد لوکن آہ
دین دار پَن گُن یہ ہے ساہ ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
شہ جَل جَل بَل بَل پَل پَل تَل مَل
پِیتم پایا مَن منہ اَب ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
۱۲۔ تمیز و ممیّزاورعد د و معدو !
ایسے الفاظ جو کسی مفعد اسم یا جملے میں پائے جانے والے شک یا ابہام کو رفع کرنے میں معاون ثابت ہوں وہ تمیز یا ممیّز کہلاتے ہیں۔ احسن علم حیوانات میں ارشد سے برتر ہے ۔برتری کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں اس جملے میں علم حیوانات کی صراحت سے ابہام دُور ہو گیا ۔اسی طر ح ’آٹھ من چاول ‘ پر غور کریں ۔اگر محض آ ٹھ من کہا جاتا تو ابہام رہتا اب چاول بتانے کے بعدبات واضح ہو گئی۔نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی ۔اپنی بد اعمالیوں کو جان کر رمزی نو دو گیارہ ہو گیا۔ کورونا وائرس کے باعث تفسو کا قحبہ خانہ بند ہے ۔ لاک ڈاؤن کے باعث مس بی جمالو کا رقص ختم کر دیا گیا۔
جیسے رُپ لَکھ تیسے مَن چَکھ
آکھے ہنس ؔ کب جانو اَب ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
مرکب تام
مرکب تام کو جملہ یا مرکب مفید بھی کہا جاتا ہے۔ جملہ یا مرکب مفید انشائیہ یا خبریہ ہو سکتا ہے۔
جملہ انشائیہ کی اقسام
جملہ انشائیہ کی درج ذیل بارہ اقسام ہیں :
۱ ۔ امر : کسی کام کی تکمیل پر مائل کیاجاتاہے ۔
آؤ اِک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں ․
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں ( ساغر صدیقی )
نِرگُن سُن سَن گُن کَت اَنکن
چَڑھتے لائے چِم کہے ہنسؔداس ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
دیکھو اِس شہر کے شہ میں اَتھے نس ون دو خاصیت
یکے آدابِ اسکندر دِگر ادراک لقمانی ( ابن نشاطی )
۲۔ نہی : کسی بھی فعالیت کی ممانعت کی جاتی ہے ۔
نہ کرو بحث ہار جاؤ گی
حسن اِتنی بڑی دلیل نہیں ( جون ایلیا )
نہ کر فاش آپنا کس دھیرد و راز
غریبی سات غربت کا کریا ساز ( ابن نشاطی )
نیم یہ مندر کر نین ساہ
تِر لوک مَنہ جو ر ناہیں تاہ ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
۳۔ استفہام:کسی فعل یا سرگرمی کے بارے میں استفسار کیا جاتاہے ۔
عشق قاتل سے بھی ،مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کِس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی اِبلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کِس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا
بُھولیں اگرتمھیں توکِدھر جائیں کیا کریں
ہر رہ گزر پہ تیرے گزرنے کاحسن ہے ( فراقؔ گورکھپوری )
ہنسؔ اَب بُدھوں کیتا کام
سُتھرا راکِھیا پیم نیم نام ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
۴۔ تعجب : کسی نوعیت کے افعال کو دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا جاتاہے ۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور ( مرزا اسداﷲ خان غالب ؔ)
میرا سانس اُکھڑتے ہی سب بین کریں گے روئیں گے
یعنی میرے بعد بھی یعنی سانس لیے جاتے ہوں گے ( جون ایلیا)
پَھر پَھر پَھڑ پَھڑ ے تَر پَھت تَت پَھرے
چِت تَھت ہُو کون کَنہ کَنہ گَت ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
عجب نیں گر چڑیاں سب مِل کو آویں
بلیاں کی گود میں انڈوے چُھپاویں
عجب نیں دیکھ تیری شیروانی
کریں بکریاں کی گرگاں پاسبانی ( ابن نشاطی )
۵۔ تحسین :افراد کی شخصیت یا اُن کے افعال کوقدر کی نگاہ سے دیکھنااور اُن کی مقدور بھر پذیرائی کرنا ۔
کیا لوگ تھے جو راہِ جہاں سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقشِ قدم چُومتے چلیں ( مجروح سلطان پوری )
چتر ایسا چتارے تھے چتارے
چتارے چین کے حیراں تھے سارے ( ابن نشاطی )
شجاعت کا دیکھت تجہ مُکھ پو پانی
سٹے سب پہلواناں پہلوانی ( ابن نشاطی )
۶۔ انبساط :معمولاتِ زندگی کی انجام دہی کے دوران میں اظہار مسرت کرنا۔
ہم اتفاق سے کبھی ہنس بھی پڑے مگر
اِس جبر کی ہنسی میں خدائی کے رنج تھے ( سید عبدالحمید عدمؔ )
تِس تِہی کے کہوں کِن کِن کِن
کاب کروں ہنس بِھن بِھن بِھن ( حسن منجو خلجی ہنس ؔ)
۷۔ نِدا:کسی کو پکارنااورکسی کی آواز سن کر اپنے جذبات کااظہار کرنا۔
دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں
تم کو نہ ہو خیال تو ہم کیا جواب دیں ( ساحر لدھیانوی )
کنگوی آرے تلے گر سر نہ دیتی
کہاں زلفاں کوں اُنگلیاں سوں لیتی ( ابن نشاطی )
۸۔تاسف : زندگی کے کسی مرحلے پرکسی کام یا کسی شخص کی یادپر رنج کا اظہار کرنا۔
زندگی جن کے تصور سے جِلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے (ناصر کاظمی)
تُجے جیوں پُوجنا ہے یوں نہ پُوجے
تُجے جیوں بُو جنا ہے یوں نہ بُوجے ( ابن نشاطی )
۹۔ قسم ( حلف ) :کسی کو اپنے موقف کایقین دِلانے کی خاطر قسم کھانا۔
داور ِ حشر مجھے تیری قسم
عمر بھر میں نے عبادت کی ہے
تُو مِراا نامۂ اعما ل تو دیکھ
میں نے انساں سے محبت کی ہے ( احمد ندیم قاسمی )





اَزل کے علم کا عالِم جو ہے وہ
ہے سب ناقص اَپے سالم جو ہے وہ
جو ہے اُستاد صنعت کی نظر کا
ہنر مندی میں قدر ت کے ہنر کا ( ابن نشاطی )

۱۰۔ عرض:عجز و انکسار کا اظہار کرتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرنا۔
دامن میں آ نسوؤ ں کا ذخیرہ نہ کر ابھی
یہ صبر کا مقام ہے گریہ نہ کر ابھی ( ساقی فاروقی )
نہ کر اِبنِ نشاطی خود نمائی
سٹے ہیں یاں ہمایاں سب ہمانی ( ابن نشاطی )
مرتا تیرے ہجر میں اے یار خبر لے
اَب سانس ہے لینا مُجھے دشوار خبر لے ( ابن نشاطی )

۱۱۔ تمنا : اپنی دِلی خواہش کا اظہار کرنا۔
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ
جادۂ رہ کششِ کاف ِ کرم ہے ہم کو ( اسداﷲ خان غالبؔ )
اہے صد حیف جو نِیں سیّد محمود
کِتے پانی کوں پانی دُود کُوں دُود ( ابن نشاطی )
مطول کر تُو میری زندگانی
تو برخوردار کر میری جوانی ( ابن نشاطی )

۱۲۔تنبیہہ:متوقع خطرے سے خبر دار کرنا۔
جنگلوں میں کوئی پیچھے سے بُلائے تو منیرؔ
مُڑ کے رستے میں کبھی اُس کی طرف مت دیکھنا ( منیر نیازی )
اپنا رشتہ زمیں سے ہی رکھو
کچھ نہیں آسمان میں رکھا ( جون ایلیا)
رکھو معذور نا کر دِل کوں بھاری
قلم کے ہاتھ تھی سب اختیاری ( ابن نشاطی )

جملہ خبریہ کی قسمیں
جملہ خبریہ کو جملہ اسمیہ اور جملہ فعلیہ دو اقسام میں زیر بحث لایا جاتا ہے۔سب سے پہلے جملہ اسمیہ کی کیفیت پرغور کیا جائے گا :
جملہ اسمیہ
ا یسا جملہ جس کے اجزا میں میں ایسا تعلق ہو جو کلام کی تکمیل کرے یعنی سامع کو اِس سے فائدہ تام میسر ہو اور کسی مزید بیان کی احتیاج نہ رہے ۔اس قسم کا تعلق اسنا د کہلاتا ہے ۔جس چیز سے تعلق ہوتا ہے اسے مسند اور جس سے تعلق ہو اسے مسند الیہ کہا جاتا ہے ۔ جو جملہ مسند ،مسند الیہ دونوں نیز فعل ناقص پر مشتمل ہو اسے جملہ اسمیہ کہتے ہیں ۔ جیسے رمزی بیمار ہے ۔ تفسو عیار ہے ۔مصبو مخمور ہے ۔عربی میں جملہ اسمیہ کی د و صورتیں ہیں ۔ایک وہ جس میں فعل مطلق نہیں پایا جاتا اور اس میں کم از کم دو اسم موجود ہوتے ہیں ۔دوسرے وہ جس میں فعل تو موجود ہوتا ہے مگر وہ فعل ناقص کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔
کہ دو دھن مجھ سے آزردہ نہ ہوئے
دو نازک پھول پژمردہ نہ ہوئے ( ابن نشاطی )
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پراناچل رہاہے ( راحت اندوری )
جملہ فعلیہ
جملہ فعلیہ کی تشکیل کے لیے کم از کم فعل اور فاعل کی موجودگی نا گزیر ہے ۔ مسند الیہ فاعل کی صورت میں موجود ہوتاہے ۔ مثال کے طور پر تفسو نے دروازہ توڑا ۔
ہنس نام راکھیا ،پیم نیم آ کھیا
پڑھ کے مانگو موکھ ہر دان (حسن منجو خلجی ہنسؔ)
اُٹھایا گاہ اور گاہے بٹھایا
مُجھے بے تابی و بے طاقتی نے ( شیخ محمد ابراہیم ذوق ؔ)

ادب اور فنون لطیفہ وزمان و مکاں کی حدود وقیود سے ماورا سمجھنا چاہیے ۔ زندگی کی یہ برق رفتاریاں اوراسالیب ِبیان کی یہ بو قلمونیاں زبانِ حال سے فریب خیال کو متنبہ کر کے یہ کہتی ہیں کہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے طلوع صبح بہاراں سرابوں کے عذابوں کے سوا کچھ بھی نہیں ابھی تو سیکڑوں دورِ فلک آنے والے ہیں ۔علامہ اقبال نے کہا تھا :
یہ کائنات ابھی نا تما م ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
گولکنڈہ میں سلطان ابو ا لحسن( تانا شاہ) کا دور ( 1672-1686)نقش گرِ حادثات ثابت ہوا۔تاریخ کا یہی تو سبق ہے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں ۔سلطان ابو ا لحسن( تانا شاہ) کے عہد میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب( 1618-1707) نے گول کنڈہ پر دھاوا بو ل دیا ۔گو ل کنڈہ کے قلعہ کا آ ٹھ ماہ تک محاصرہ جاری رہا ۔مغل فوج کے سراغ رساں مخالف فوج کے ایک نمک حرام ،محسن کش ،پیمان شکن او رآستین کے سانپ بروٹس کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔قطب شاہی فوج کا اس غدار سالا ر کانام سر انداز خان تھا۔اس ابن الوقت اور کینہ پرور سالار نے ضمیر فروشی کر تے ہوئے اپنے محسن سلطان ابو ا لحسن( تانا شاہ) کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور مغل افواج کے ساتھ ساز باز کر لی۔ سر انداز خان ،میر جعفر ، رمزی ،تشفی اورمیر صادق جیسے مشکوک نسب کے سفہا اور اجلاف و ارذال ہر دور میں پائے جاتے ہیں ۔ سادیت پسندی کی مظہر اِن کی کینہ پروری ایسی شرم ناک اور تکلیف دہ ذہنی کیفیت ہوتی ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے جس قدر بد تر ہو لذت ایذا حاصل کرنے والے کینہ پرور کے لیے اُسی قدر راحت بخش اور مسرور کُن ثابت ہوتی ہے ۔ اِس مکروہ سازش کے نتیجے میں سلطان ابوالحسن ( تانا شاہ ) کی آٹھ ماہ کے محاصرے کی تھکی ہوئی افواج کو شکست سے دو چار ہونا پڑا اور سال 1687 ء میں مغل افواج نے قلعہ گو ل کنڈہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ بائیس ستمبر 1687 ء کو گول کنڈہ کے سلاطین کا جاہ و جلال اور اُن کی حکومت کا سب کر و فر تاریخ کے طوماروں میں دب گیا اس جنگ میں فتح کے بعد مغل افواج کو جو بیش بہا ہیرے ہاتھ لگے اُن کی تفصیل درج ذیل ہے :
Noor-ul-Ain، Hope Diamond،Wittelsbach-Graff Diamond،Regent Diamond
فاتح مغل شہنشاہ اورنگ زیب( عہد حکومت : 1658-1707) کے حکم پر گو ل کنڈہ کے بادشاہ سلطان ابوا لحسن کو دولت آباد کے قلعہ میں پابند سلاسل کر دیا گیااورگزر اوقات کے لیے معزول اور اسیر بادشاہ کے لیے پنشن مقرر کر دی گئی۔ بارہ سال کی اسیر ی کے دوران میں صعوبتیں اور عقوبتیں سہتے سہتے اور ایامِ گزشتہ کی نوحہ خوانی کرتے کرتے سلطان ابوالحسن زندان ہی میں زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا ۔ سلطان ابو ا لحسن( تانا شاہ) کو اُس کے آبائی قبرستان میں دفن کرنے کے بجائے دولت آباد سے دس میل دُور اورنگ آباد کے شہر خموشاں کے ایک ویران گوشے کی ایک معمولی سی قبر میں سپردِ خاک کر دیاگیا۔ سیاسی کھینچا تانی کے نتیجے میں دکن میں تانا شاہ حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی دکنی زبان کا آفتاب اقبال بھی گہنا گیا۔
مآخذ
1)Terry Eagleton :Literary Theory ,Minnesota Press USA,1996,Page 84-
(2)Terry Eagleton :Literary Theory , Page84-
(3)David Lodge :Modern Criticism and Theory ,Pearson Education ,Singapore,2003,Page ,8-
(4).Colin P.Masica: The Indo -Aryan Languages,Cambridge University Press,London, 1993,Page,28.

( 5) نصیر الدین ہاشمی : دکن میں ارد و، حیدر آباد دکن ،مکتبہ ابراہیمیہ ،سال اشاعت 1936،صفحہ 71۔
(6)سید احتشام حسین :اردو ادب کی تنقیدی تاریخ ، دہلی ،قومی کونسل برائے فروغ ارد و،1999،صفحہ 36۔

(7)جمیل جالبی ڈاکٹر : تاریخ ادب اردو ،جلد اول ، صفحہ 439۔
(8). Matthew Arnold:On Translating Homer,George Routledge & Sons Limited ,London,1862,Page 49


(9).Matthew Arnold: Essays In Criticism,A.L Burt company Publishers,New York,1865, Page 279
Matthew Arnold:On Translating Homer Page,249 (10).
. Matthew Arnold:On Translating Homer Page,249 (11).

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 597499 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.