الموت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حصہ دوم

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا

اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾
سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا
القران:

وَرَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسْرَآءِیۡلَ ۬ۙ اَنِّیۡ قَدْ جِئْتُکُمۡ بِاٰیَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمْ ۙ اَنِّیۡۤ اَخْلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡئَۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذْنِ اللہِ ۚ وَاُبْرِیُٔ الۡاَکْمَہَ وَالۡاَبْرَصَ وَاُحۡیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللہِ ۚ وَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمْ ۙ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿ۚ۴۹﴾
اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں(ف۹۹) تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے (ف۱۰۰) اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو (ف۱۰۱) اور میں مُردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے(ف۱۰۲) اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کررکھتے ہو (ف۱۰۳) بے شک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو
پارہ ۳ سورۃ آل عمران آیت ۴۹
تفسیر اور تشریح:
(ف99)
جو میرے دعوائے نبوّت کے صدق کی دلیل ہے۔
(ف100)
جب حضرت عیسٰی علیہ ا لصلٰوۃوالسلام نے نبوت کا دعوٰی کیا اور معجزات دکھائے تو لوگوں نے درخواست کی کہ آپ ایک چمگادڑ پیدا کریں آپ نے مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی چمگادڑ کی خصوصیّت یہ ہے کہ وہ اڑنے والے جانوروں میں بہت اکمل اور عجیب تر ہے اور قدرت پر دلالت کرنے میں اوروں سے ابلغ کیونکہ وہ بغیر پروں کے تو اُڑتی ہے اور دانت رکھتی ہے اور ہنستی ہے اور اس کی مادہ کے چھاتی ہوتی ہے اور بچہ جنتی ہے باوجودیکہ اُڑنے والے جانوروں میں یہ باتیں نہیں ہیں
(ف101)
جس کا برص عام ہوگیا ہو اور اطبا اس کے علاج سے عاجز ہوں چونکہ حضرت عیسٰی علیہ ا لصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں طب انتہائے عروج پر تھی اور اس کے ماہرین امر علاج میں یدطولٰے رکھتے تھے اس لئے ان کو اسی قسم کے معجزے دکھائے گئے تاکہ معلوم ہو کہ طب کے طریقہ سے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اس کو تندرست کردینا یقیناً معجزہ اور نبی کے صدق نبوّت کی دلیل ہے وہب کا قول ہے کہ اکثر حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پاس ایک ایک دن میں پچاس پچاس ہزار مریضوں کا اجتماع ہوجاتا تھا ان میں جو چل سکتا تھا وہ حاضر خدمت ہوتا تھا اور جسے چلنے کی طاقت نہ ہوتی اس کے پاس خود حضرت تشریف لے جاتے اور دعا فرما کر اس کو تندرست کرتے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی شرط کرلیتے۔
(ف102)
حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضرت عیسٰی علیہ ا لصلٰوۃ والسلام نے چار شخصوں کو زندہ کیا ایک عازر جس کو آپ کے ساتھ اخلاص تھا جب اس کی حالت نازک ہوئی تو اس کی بہن نے آپ کو اطلاع دی مگر وہ آپ سے تین روز کی مسافت کے فاصلہ پر تھا جب آپ تین روز میں وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کے انتقال کو تین روز ہوچکے آپ نے اس کی بہن سے فرمایا ہمیں اس کی قبر پر لے چل وہ لے گئی آپ نے اللہ تعالٰے سے دعا فرمائی عاز ر باذن الہٰی زندہ ہو کر قبر سے باہر آیا اور مدّت تک زندہ رہا اور اس کے اولاد ہوئی ایک بڑھیا کا لڑکا جس کا جنازہ حضرت کے سامنے جارہا تھا آپ نے اس کے لئے دعا فرمائی وہ زندہ ہو کر نعش برداروں کے کندھوں سے اتر پڑا کپڑے پہنے گھر آیا زندہ رہا اولاد ہوئی ایک عاشر کی لڑکی شام کو مری اللہ تعالٰی نے حضرت عیسٰی علیہ ا لصلٰوۃ والسلام کی دعا سے اس کو زندہ کیا ایک سام بن نوح جن کی وفات کو ہزاروں برس گزر چکے تھے لوگوں نے خواہش کی کہ آپ ان کو زندہ کریں آپ ان کی نشاندہی سے قبر پر پہنچے اور اللہ تعالٰی سے دعا کی سام نے سنا کوئی کہنے والا کہتا ہے اَجِبْ رُوْحَ اللّٰہ یہ سنتے ہی وہ مرعوب اور خوف زدہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمان ہوا کہ قیامت قائم ہوگئی اس ہول سے ان کا نصف سر سفید ہوگیا، پھر وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام پر ایمان لائے اور انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ ا لصلٰوۃ والسلام سے درخواست کی کہ دوبارہ انہیں سکرات موت کی تکلیف نہ ہو بغیر اس کے واپس کیا جائے چنانچہ اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا اور باذنِ اللّٰہ فرمانے میں رد ہے نصارٰی کا جو حضرت مسیح کی الوہیت کے قائل تھے
(ف103)
جب حضرت عیسٰی علیہ الصلوۃ والتسلیمات نے بیماروں کو اچھا کیا اور مردوں کو زندہ کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور کوئی معجزہ دکھائیے تو آپ نے فرمایا کہ جو تم کھاتے ہو اور جو جمع کر رکھتے ہو میں اس کی تمہیں خبر دیتا ہوں اسی سے ثابت ہوا کہ غیب کے علوم انبیاء کا معجزہ ہیں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے دستِ مبارک پر یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا آپ آدمی کو بتادیتے تھے جو وہ کل کھاچکا اور آج کھائے گا اور جو اگلے وقت کے لئے تیار کررکھاہے۔ آپ کے پاس بچے بہت سے جمع ہوجاتے تھے آپ انہیں بتاتے تھے کہ تمہارے گھر فلاں چیز تیار ہوئی ہے تمہارے گھر والوں نے فلاں فلاں چیز کھائی ہے فلاں چیز تمہارے لئے اٹھا رکھی ہے بچے گھر جاتے روتے گھر والوں سے وہ چیز مانگتے گھر والے وہ چیز دیتے۔ اور ان سے کہتے کہ تمہیں کس نے بتایا بچے کہتے حضرت عیسٰی علیہ السلام نے تو لوگوں نے اپنے بچوں کو آپ کے پاس آنے سے روکا اور کہا وہ جادو گر ہیں ان کے پاس نہ بیٹھو اور ایک مکان میں سب بچوں کو جمع کردیا حضرت عیسٰی علیہ السلام بچوں کو تلاش کرتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا وہ یہاں نہیں ہیں آپ نے فرمایا کہ پھر اس مکان میں کون ہے انہوں نے کہا سور ہیں فرمایا ایسا ہی ہوگا اب جو دروازہ کھولتے ہیں تو سب سور ہی سور تھے۔ الحاصل غیب کی خبریں دینا انبیاء کا معجزہ ہے اور بے وساطت انبیاء کوئی بشر امور غیب پر مطلع نہیں ہوسکتا۔

وَکَیۡفَ تَکْفُرُوۡنَ وَاَنۡتُمْ تُتْلٰی عَلَیۡکُمْ اٰیٰتُ اللہِ وَفِیۡکُمْ رَسُوۡلُہٗ ؕ وَمَنۡ یَّعْتَصِمۡ بِاللہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیۡمٍ ﴿۱۰۱﴾٪
اور تم کیوں کر کفر کرو گے تم پرتو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول تشریف فرماہے اور جس نے اللہ کا سہارا لیا تو ضرور وہ سیدھی راہ دکھایا گیا

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ مُّسْلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اُس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان

وَاعْتَصِمُوۡا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَاذْکُرُوۡا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیۡکُمْ اِذْ کُنۡتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمۡ بِنِعْمَتِہٖۤ اِخْوَانًا ۚ وَکُنۡتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنْہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۰۳﴾
اور اللہ کی رسّی مضبوط تھام لو (ف۱۸۶) سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (ف۱۸۷)اور اللّٰہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے (ف۱۸۸) اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے (ف۱۸۹) تو اس نے تمہیں اس سے بچادیا (ف۱۹۰) اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم ہدایت پاؤ
پارہ ۴آیت ۱۰۱ سورۃ آلِ عمران۔
تفسیرو تشریح:
(ف185)
شانِ نزول:اَوۡس و خَزْرَج کے قبیلوںمیں پہلے بڑی عداوت تھی اور مدتوں ان کے درمیان جنگ جاری رہی سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ میں ان قبیلوں کے لوگ اسلام لا کر باہم شیرو شکر ہوئے ایک روز وہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے اُنس ومحبت کی باتیں کررہے تھے شاس بن قیس یہودی جو بڑا دشمن اسلام تھااس طرف سے گزرااور ان کے باہمی روابط دیکھ کر جل گیا اور کہنے لگاکہ جب یہ لوگ آپس میں مل گئے تو ہمارا کیا ٹھکانا ہے ایک جوان کو مقرر کیاکہ انکی مجلس میں بیٹھ کر ان کی پچھلی لڑائیوں کاذکر چھیڑے اور اس زمانہ میں ہر ایک قبیلہ جو اپنی مدح اور دوسروں کی حقارت کے اشعار لکھتا تھا پڑھے چنانچہ اس یہودی نے ایسا ہی کیااور اس کی شرر انگیزی سے دونوں قبیلوں کے لوگ طیش میں آگئے اور ہتھیار اٹھالئے قریب تھاکہ خونریزی ہوجائے سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خبر پاکر مہاجرین کے ساتھ تشریف لائے اور فرمایاکہ اے جماعت اہل اسلام یہ کیا جاہلیت کے حرکات ہیں میں تمہارے درمیان ہوں اللہ تعالٰی نے تم کو اسلام کی عزت دی جاہلیت کی بلاسے نجات دی تمہارے درمیان الفت و محبت ڈالی تم پھر زمانۂ کفر کی حالت کی طرف لوٹتے ہوحضور کے ارشاد نے ان کے دلوں پر اثر کیااور انہوںنے سمجھاکہ یہ شیطان کا فریب اور دشمن کامَکۡر تھاانہوں نے ہاتھوں سے ہتھیار پھینک دیئے اور روتے ہوئے ایک دوسرے سے لپٹ گئے اورحضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ فرمانبردارانہ چلے آئے ا ن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔(ف186)
'' حَبْلِ اللہ ِ'' کی تفسیر میں مفسرین کے چند قول ہیں بعض کہتے ہیں اس سے قرآن مراد ہے مُسلِم کی حدیث شریف میں وارد ہوا کہ قرآن پاک حبل اللہ ہے جس نے اس کا اتباع کیا وہ ہدایت پر ہے جس نے اُس کو چھوڑا وہ گمراہی پر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حبل اللہ سے جماعت مراد ہے اور فرمایا کہ تم جماعت کو لازم کرلو کہ وہ حبل اللہ ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیاہے۔
(ف187)
جیسے کہ یہود و نصارٰی متفرق ہوگئے اس آیت میں اُن افعال و حرکات کی ممانعت کی گئی جو مسلمانوں کے درمیان تفرق کا سبب ہوں طریقہ مسلمین مذہب اہل سنت ہے اس کے سوا کوئی راہ اختیار کرنا دین میں تفریق اور ممنوع ہے۔
(ف188)
اور اسلام کی بدولت عداوت دور ہو کر آپس میں دینی محبت پیدا ہوئی حتٰی کہ اَوۡس اور خَزْرَجۡ کی وہ مشہور لڑائی جو ایک سو بیس سال سے جاری تھی اور اس کے سبب رات دن قتل و غارت کی گرم بازاری رہتی تھی سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ذریعہ اللّٰہ تعالیٰ نے مٹادی اور جنگ کی آگ ٹھنڈی کردی اور جنگ جو قبیلوں میں الفت و محبت کے جذبات پیدا کردیئے۔
(ف189)
یعنی حالتِ کفر میں کہ اگر اسی حال پر مرجاتے تو دوزخ میں پہنچتے۔
(ف190)
دولت ایمان عطا کرکے۔

القران:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّن دُوۡنِکُمْ لَا یَاۡ لُوۡنَکُمْ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَاعَنِتُّمْ ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ ۚۖ وَمَا تُخْفِیۡ صُدُوۡرُہُمْ اَکْبَرُ ؕ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْقِلُوۡنَ ﴿۱۱۸﴾
اے ایمان والو غیروں کو اپنا را زدار نہ بناؤ(ف ۲۱۶) وہ تمہاری بُرائی میں گَئَیْ نہیں کرتے اُن کی آرزو ہے جتنی ایذا تمہیں پہنچے بِیران کی باتوں سے جھلک اُٹھا اور وہ (ف۲۱۷) جو سینے میں چھپائے ہیں اور بڑا ہے ہم نے نشانیاں تمہیں کھول کر سنادیں اگر تمہیں عقل ہو (ف۲۱۸)

ہٰۤاَنۡتُمْ اُولَآءِ تُحِبُّوۡنَہُمْ وَ لَا یُحِبُّوۡنَکُمْ وَتُؤْمِنُوۡنَ بِالْکِتٰبِ کُلِّہٖ ۚ وَ اِذَا لَقُوۡکُمْ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚ٭ۖ وَ اِذَا خَلَوْا عَضُّوۡا عَلَیۡکُمُ الۡاَنَامِلَ مِنَ الْغَیۡظِ ؕ قُلْ مُوۡتُوۡا بِغَیۡظِکُمْ ؕ اِنَّ اللہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۱۱۹﴾
سنتے ہو یہ جو تم ہو تم تو انہیں چاہتے ہو (ف۲۱۹) اور وہ تمہیں نہیں چاہتے (ف۲۲۰) اور حال یہ کہ تم سب کتابوں پر ایمان لاتے ہو (ف۲۲۱) اور وہ جب تم سے ملتے ہیں کہتے ہیں ہم ایمان لائے (ف۲۲۲) اور اکیلے ہوں تو تم پر انگلیاں چبائیں غصہ سے تم فرما دو کہ مرجاؤ اپنی گھٹن میں (ف۲۲۳) اللہ خوب جانتا ہے دلوں کی بات
پارہ۴ آیت ۱۱۸سورۃ آلِ عمران
تفسیر و تشریح
(ف216)
ان سے دوستی نہ کرو محبت کے تعلقات نہ رکھو وہ قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔
شان نزول: بعض مسلمان یہود سے قرابت اور دوستی اورپڑوس وغیرہ تعلقات کی بنا پر میل جول رکھتے تھے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی
مسئلہ: کفار سے دوستی و محبت کرنا اور انہیں اپنا راز دار بنانا ناجائز و ممنوع ہے۔
(ف217)
غیظ و عناد
(ف218)
تو اُن سے دوستی نہ کرو۔(ف219)
رشتہ داری اور دوستی وغیرہ تعلقات کی بنا ء پر۔
(ف220)
اور دینی مخالفت کی بنا پر تم سے دشمنی رکھتے ہیں۔
(ف221)
ا ور وہ تمہاری کتاب پر ایمان نہیں رکھتے۔
(ف222)
یہ منافقین کا حال ہے۔
(ف223)
بمیرتا برہی اے حسود کیں رنجیست ٭ کہ از مشقت اوجز بمرگ نتواں رست
Muhammad owais Aslam
About the Author: Muhammad owais Aslam Read More Articles by Muhammad owais Aslam: 97 Articles with 687709 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.