اسلام اور دہشت گردی

دہشت گردی ایک ایسا فعل یا عمل ہے جس سے معاشرہ میں دہشت و بد امنی کا راج ہو اور لوگ خوف زدہ ہوں،وہ دہشت گردی کہلاتی ہے۔ دہشت گردی کو قرآن کریم کی زبان میں فساد فی الارض کہتے ہیں۔ دہشت گردی لوگ چھوٹے اور بڑے مقا صد کےلئے کرتے ہیں۔ اسے کوئی فرد واحد بھی انجام دے سکتا ہے اور کوئی گروہ اور تنظیم بھی۔

یہ حقیقت ا ظہر من الشمس ہے کہ دہشت گردی اور اسلام دو متضاد چیزیں ہیں۔ جس طرح رات اور دن ایک نہیں ہو سکتے، اسی طرح دہشت گردی اور اسلام کا ایک جگہ اور ایک ہونا، نا ممکنات میں سے ہے۔ لھذا جہاں دہشت گردی ہو گی وہاں اسلام نہیں ہو گا اور جہاں اسلام ہو گا وہاں دہشت گردی نہیں ہو گی۔

اسلام کے معنی ہیں سلامتی کے۔ چونکہ ہم مسلمان ہیں اور امن اور سلامتی کی بات کرتے ہیں۔ ‘ ہمارا دین ہمیں امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے‘ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو امن اور سلامتی نصیب ہو اور امن اور چین کی بنسری بجے۔ آ نحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں رحمت العالمین بن کر آ ئے۔

یہ امر شک اور شبہے سے بالا ہے کہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور پاکستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستان عرصہ سے دہشت گردوں کا شکار بنا ہوا ہے‘ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے بہت سارے مالی و جانی نقصانات ہوئے ہیں‘ اور ترقی کے میدان میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق دہشت گردی کے عمل کو کسی بھی مذہب یا قوم کے ساتھ منسلک کرنا درست نہیں ہے۔

اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اور اس حد تک سلامتی کا داعی ہے کہ اپنے ماننے والے کو تو امن دیتا ہی ہے نہ ماننے والے کے لیے بھی ایسے حق حقوق رکھے ہیں کہ جن کے ساتھ اس کی جان ،مال اور عزت محفوظ رہتی ہے۔طالبان اور القائدہ دہشت گردوں کا ایک گروہ ہے جو اسلام کے نفاز کے نام پر اور شریعتِ محمدی کے نام پر، لوگوں کی املاک جلا رہا ہے اورقتل و غارت کا ارتکاب کر رہا ہے۔

کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ملک میں امن و امان قائم رکھنا اور شہریوں کی جان و املاک کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔دہشت گرد، دہشت گردی کے ذریعے ملک میں امن و امان کی صورتحال پیدا کر کے اور شہریوں کے جان و مال کو نقصان پہنچا کر خوف و ہراس کی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں تاکہ حکو مت کو دباؤ میں لا کر حکومت سےاپنے مطالبات منوا لیں۔

اسلام خود کشی کو حرام قرار دیتا ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔ یہ گمراہ گروہ اسلام کے نام پر خود کش حملہ آور کی فوج تیار کر رہا ہے۔اسلام دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم دیتا ہے یہ دوسروں کا مال لوٹنے اور بے گناہوں کی جان سے کھیلنے کو ثواب کا نام دیتے ہیں۔اسلام خواتین کا احترام سکھاتا ہے یہ دہشت گرد ،عورتوں کو بھیڑ بکریوں سے بھی برا سمجھتے ہیں۔ بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں۔

کسی بھی انسا ن کی نا حق جان لینا اسلام میں حرام ہے۔ دہشت گردی قابل مذمت ہے، اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں یہ بھی مسلم ہے۔ اور نہ ہی کوئی مذہب اس کی اجازت دے سکتا ہے۔

اس وقت دنیا کو سب سے بڑا درپیش چیلنج دہشت گردی ہے اس پر سب متفق ہیں۔ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہے اور یہ قابل مذمت ہے۔ اسلام میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں اور طالبان اور القاعدہ دہشت گرد تنظیمیں ہولناک جرائم کے ذریعہ اسلام کے چہرے کو مسخ کررہی ہیں۔ برصغیرسمیت پُوری دنیا میں اسلام طاقت سے نہیں،بلکہ تبلیغ اور نیک سیرتی سے پھیلا جبکہ دہشت گرد طاقت کے ذریعے اسلام کا چہرہ مسخ کررہے ہیں۔

ایک مُسلم معاشرے اور مُلک میں ایک مُسلمان دوسرے مُسلمان کی جان کا دُشمن ۔مُسلمانیت تو درکنار انسا نیت بھی اسکی متحمل نہیں ہو سکتی کہ کسی بھی بے گناہ کا خون کیا جائے۔

چند برسوں سے وطن عزیز پاکستان مسلسل خود کش حملوں کی زد میں ہے۔ بے گناہ لوگوں کا قتل اور املاک کی بے دریغ تباہی ہو رہی ہے۔دہشت گردی کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو ۶۸ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اللہ کے فرامین کو پس پشت ڈال دیا جائے اور احکام قرانی کا اتباع نہ کیا جائےتو ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں، یہ عذاب الہی کی ایک شکل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘) المائدة، 5 : 32(

کہو، وہ (اللہ) اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔(سورۃ الانعام ۶۵)

وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اُسکے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔(سورۃ النساء۔۹۳)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا۔

تم (مسلمانوں) کے خون، اموال اور عزتیں ایکدوسرے پر حرام ہیں، اِس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجۃ) اور اس شہر(مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچا دی؟ صحابہ نے کہا ”جی ہاں۔
”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔”
مسلمان کو قتل کر دینا جہنم میں داخلے کا سبب ہے لیکن اس کا مصمم ارادہ بھی آگ میں داخل کر سکتا ہے۔
” جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔” صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے (اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیا قصور؟ فرمایا ” اس لیے کہ اس نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔”

مندرجہ آیت اور احادیث کی روشنی میں کسی پاکستانی اور مسلمان کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں مسلمانوں اور بے گناہ لوگوں پر خود کش حملے کرنے والے گمراہ لوگ ہیں جن کا دین اسلام کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ ان کی یہ حرکت دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کے لیے خوشیاں لے کر آئی ہے۔ پاکستان اور اسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ یہاں کا امن تباہ کر دیا جائے اور بدامنی کی آگ بڑھکا کر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ یہ لوگ پوری انسانیت کے قاتل ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔(المائدۃ۔۳۲)

طالبان پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے داعی ہیں مگر اس مقصد کے حصول کے لئے وہ تمام کام برملا کر رہے ہیں جو قران و حدیث ،سنت نبوی اور اسلامی شرعیہ کے خلاف ہیں، لہذا ان کا اسلامی نظام نافذ کرنے کا دعوی انتہائی مشکوک اور ناقابل اعتبار ہے۔

ہمارے دشمن کو ہماری ہی صفوں سے حمایت اور تقویت مل رہی ہے‘ جس کا وہ خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔ مذہبی جماعتوں ،سیاست اور میڈیا میں جو لوگ دانستہ یا نادانستہ دہشت گردوں کی حمایت کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی طاقت میں اضافہ ہوتا رہا‘ تو وہ خود بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ ہماری سلامتی ‘ ہماری مسلح افواج کے ساتھ ہے۔ ہماری بقا کا انحصار ایک دوسرے پر ہے۔ ہماری صفوں میں انتشار دہشت گردوں کے حوصلے اور طاقت میں اضافہ کرتا ہے۔

افغان طالبان نے القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کے قتل کے انتقام کے لئے اب تک نہ کوئی دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی عملی مظاہرہ ہوا ہے۔ بن لادن افغان طالبان کا مہمان اور ساتھی تھا جس کی خاطر افغان طالبان نے بہت سی قربانیاں دیں لیکن اس کے برعکس پاکستان کے طالبان نجانے کیوں معصوم شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اسامہ بن لادن کے قتل کا بدلہ لے رہے ہیں۔ یہ جہاد بالکل نہ ہے کیونکہ جہاد تو اللہ کی راہ مین کی جاتی ہے ،بدلہ لینا اسلامی شریعہ کے مطابق جہاد نہ ہے۔

جہاد وقتال فتنہ ختم کرنے کیلئے ہے ناکہ مسلمانوں میں فتنہ پیدا کرنے کیلئے۔طالبان قرآن کی زبان میں مسلسل فساد فی الارض کے مرتکب ہو رہے ہیں۔معصوم شہری ، بے گناہ اور جنگ میں ملوث نہ ہونے والے تمام افراد ، نیز عورتیں اور بچوں کے خلاف حملہ "دہشت گردی ہے جہاد نہیں"۔۔۔۔۔ایسا کرنے والاجہنمی ہے اور ان کے اس عمل کو جہاد کا نام نہیں‌دیا جاسکتا ۔

طالبان نے ملا عمر کی بیعت کی ہوئی ہے،ملا عمر پاکستان پر حملوں کو برا سمجھتے ہیں مگر پاکستانی طالبان ملا عمر کی بیعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

رسول کریم نے فرمایا کہ جنگ کی حالت مین بھی غیر فوجی عناصر کو قتل نہ کیا جاوے۔ ویسے طالبان کا جہاد ،پاکستان کے اور مسلمانوں کے خلاف مشکوک اور غیر شرعی ہے۔ مزید بران یہ کیسا جہاد ہے کہ خون مسلم ارزان ہو گیا ہے۔

اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان، دہشتستان بن گیا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہماری جنگ ہے کسی اور کی نہیں؟۔ دہشت گردوں نے ہمارے ملک کو جہنم بنا دیا۔ ۳۵ ہزار سے زیادہ لوگ مرگئے ۔ سرمایہ اور ذہانتیں ہمارے ملک سے ہجرت کر گئیں۔ کاروبار اجڑ گئے۔ بازاروں اور شہروں کی رونقیں ہم سے جدا ہوگئیں۔ عام پاکستانی کا دن کا چین اور رات کا سکون غارت ہوا اور ہم سب حیرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری صفر سے نیچے چلی گئی، ملازمتیں ختم ہوئیں ،بیروزگاری میں اضافہ ہوا، دنیا میں ہم اور ہمارا ملک رسوا ہوگئے ۔نفرتوں اور تعصبات نے ہمارے معاشرے تار و پود کو تباہ کرکے رکھ دیا اور ہمارا معاشرتی ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ گیا۔ ہماری مسجد، پگڑی اور داڑھی کا تقدس پامال ہوگیا اور تو اور داڑھی اور پگڑی والے بھی محفوظ نہ ہیں ۔

لہذا تمام اہل دانش اور علمائے کرام کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام اور جہاد کے صحیح اسلامی عقیدے سے آگاہ کریں اور انہیں طالبان اور القائدہ کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے بچائیں جو نہ کسی حرمت کا لحاظ کر رہے ہیں نہ قرآن و حدیث کے واضح فرامین کا پاس رکھتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کی ان نصوص پر غور کر کے ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔ دُشمنوں کے ہاتھوں کھلونا بننے والوں کو بھی، اور جوش انتقام میں اندھا ہو جانے والوں کو بھی۔

ہمیں روم کے نیرو کی طرح، بنسری بجاتے ہوئے اپنے ملک کو جلتا اور تباہ ہوتا نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ آ گے بڑہ کر مردانہ وار اسلام اور ملک کے دشمنوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
Iqbal Jehangir
About the Author: Iqbal Jehangir Read More Articles by Iqbal Jehangir: 28 Articles with 39941 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.

Islam Aur Dehshat Gardi - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Islam Aur Dehshat Gardi and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Islam Aur Dehshat Gardi.