سال کے آغاز ہی پہ کرونا جیسی وبا نسلِ انسانی پہ آفتِ
ناگہانی کی صورت ٹوٹ پڑی۔ کچھ وقت کے لئے کاروبار زندگی مکمل طور پر جیسے
تھم سا گیا ہو، الحمدللہ صورتحال اب کچھ معمول پر آتی جا رہی ہے، مگر اس
دوران میں اصل نقصان ہمارے بچوں کا ہوا ہے۔
یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا بھر میں کووِڈ 19 کو پھیلنے سے
روکنے کے لیے اقدامات کے نتیجے میں ایک ارب 60 کروڑ طلبا پر درس گاہوں کے
دروازے بند ہو گئے، یہ تعداد دنیا بھر میں طلبا کی مجموعی تعداد کا 90 فی
صد ہے۔
“سیو دا چلڈرن” نے ایک نئی رپورٹ میں کہا، “انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا
ہوا ہے کہ عالمی سطح پر طلبا کی ایک پوری نسل کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا ہوئی
ہے۔”
چھے ماہ کے ایک طویل دوران میں اگر چہ تعلیمی اداروں کی طرف آن لائن تعلیم
کا سلسلہ مقدور بھر جاری رہا اور اس طریقہء تعلیم کے مضمرات اپنی جگہ، میرا
مدعا اس طویل عرصہ میں بچوں پر پڑنے والے ذہنی اور نفسیاتی اثرات ہیں۔
چھے مہینے کی طویل چھٹیوں میں بچے بڑے ہو گئے ہیں اور ان کے رویوں اور
نفسیات میں کئی تبدیلیاں آئی ہیں۔ بحیثیت ایک ماں مجھے لگتا ہے کہ اسکول
آنے والے طلبا اب اساتذہ کے لیے چیلنج ہوں گے۔ یہ چھٹیاں معمول سے مختلف
تھیں، اس دوران میں ہوم ٹیوشن تو جیسے تیسے جاری رہیں مگر پرائیویٹ کوچنگ
سنٹر بند رہے، نظم و ضبط کا فقدان رہا۔ بچوں کی اکثریت نے یہ وقت اپنی
پسندیدہ سرگرمیوں میں گزارا اور جس کے اب اس طویل عرصہ میں وہ عادی ہو چکے
ہیں۔ تعلیمی ادارے کھلنے کے بعد انہیں پرانی ڈگر پر واپس لانا صبر آزما اور
محنت طلب مرحلہ ہے۔
دوسری طرف معاشی سرگرمیوں میں کمی آنے کی وجہ سے کم آمدنی والے افراد شدید
دباؤ کا شکار رہے اور ان کو واپس پرانی حالت میں آنے کے لئے وقت درکار ہے۔
معاشی دباؤ کی وجہ سے ممکن ہے کہ طلبا کی ایک بڑی تعداد تعلیم کا سلسلہ
جاری نہ رکھ سکے، اس خدشے کا اظہار یونیسکو بھی اپنی رپورٹ میں کر چکا ہے
اور ایک محتاط اندازے کے مطابق عالمی سطح پر “نو سے گیارہ کروڑ” بچوں کی
تعلیم مستقل طور پہ متاثر ہو سکتی ہے۔
ہمیں اپنے بچوں کے تعلیمی مستقبل کو بچانے کے لئے سنجیدہ چیلنجوں کا سامنا
ہے۔ اس سے نپٹنے کے لئے اساتذہ اور والدین کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔
والدین اور اساتذہ کو اپنے رویے اور اسکولوں کو اپنے نظام میں تبدیلی کرنا
ہو گی۔ ماحول کو دوستانہ اور خوش گوار بنانا ہو گا، ایسا نہ کرنے کی صورت
میں بچے فرسٹریشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ نتیجتاً اُن کا روایتی تعلیم سے
متنفر ہو کر منفی سرگرمیوں کی طرف جانے کا امکان ہو سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں طبقات کی تقسیم کی وجہ سے بچوں کی مثبت انداز میں تربیت
کا شدید فقدان ہے، اس نازک موقِع پر اگر بچوں کی تعلیم اور تربیت کی طرف سے
چشم پوشی کی گئی تو اِس کے منفی نتائج دور رس ہوں گے۔
والدین اور اساتذہ کو ان نکات پر نظر رکھتے ہوئے تعلیمی ماحول کو خوش گوار
رکھنے کی طرف سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی اور مثبت رجحانات کو فروغ دینا ہو
گا۔ ہمیں خیال رکھنا ہے کہ مستقبل کے یہ ننھے معمار اگر بھٹک گئے تو اس کا
ازالہ تا دیر ممکن نہیں ہو سکے گا۔ |