پاکستان، فرعون اور انگریزی

زبان مواصلات کا ایک منظم نظام ہےزبان کے سائنسی مطالعہ کو لسانیات کہا جاتا ہے۔ ، الفاظ تجربے کی نمائندگی کرتے ہیں روسو جیسے مفکرین کا استدلال ہے کہ زبان جذبات سے نکلی ہے جبکہ کانٹ جیسے دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی ابتدا عقلی اور منطقی فکر سے ہوئی ہے۔

مادری زبان ، یا ماں / والد / والدین کی زبان جسے آرٹیریل زبان بھی کہا جاتا ہے یا ، وہ زبان ہے جس کو کسی شخص نے پیدائش کے کچھ عرصہ بعد ہی سیکھ لیا ہوتا ہے۔

اردو پاکستان کی سرکاری قومی زبان ہے ،جدید معیاری اردو جو بولنے لکھنے اور سمجھنے میں بھی نہائت آسان ہے

ہمیں مٹانے کے لئے کیسی کیسی سازشیں ہوتی ہیں اور کس کس طرح سے ہماری بربادی کے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور کون کون ان منصوبوں کو بروئے کار لانے کے لئے سرگرم ہے، ہمیں پتا چل جائے تو معلوم نہیں ہم کیا کر گزریں، کس کس کا گریبان ہمارے ہاتھوں میں ہو اور کس کس کی رنگیں عبا ہمارے ہاتھوں تار تار ہو جائے۔

پاکستان میں ذہانتوں کو کچلنے کا، ہماری نسلوں کو بنجر کر دینے کا اور ہمارے بچوں کو تباہ و برباد کرنے کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے پوری روئے ارض پر اور پوری تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

ذرا غور کریں، لوگوں سے پوچھیں دنیا میں ادھر ادھر آنے جانے والوں سے معلوم کریں، دنیا بھر میں اپنے دوستوں سے رابطہ کریں اور پوچھیں

جاپان، چین، روس،کوریا، فلپائن اور ایران میں رہنے والوں سے پوچھیں کہ جب آپ کا بچہ 3 یا 4 سال کا ہوتا ہے اور آپ اسے سکول بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ کتنی زبانوں میں تعلیم حاصل کرنا شروع کرتا ہے؟

کیا ایسا ہی ہوتا ہے کہ ایک تو اپنی زبان اور ایک کسی عالمی طاقت کی زبان، تاکہ وہ ترقی کر سکے، آگے بڑھ سکے، اگر آپ کو جواب نہ ملے یا پتھر پڑیں تو انہیں بتائیں کہ دنیا میں ایک ایسا ملک ہے جہاں یہ تماشا پچھلے 73 سالوں سے ہو رہا ہے، اور ساتھ یہ بھی بتائیں کہ اس ملک میں ایک ایسا زور آور طبقہ بھی ہے جو چاہتا ہے کہ اب اس ملک کی زبان بدل کر اس میں ایک عالمی طاقت کی زبان کو نافذ کر دیا جائے۔

میں بات دہرا بھی دوں اور واضح بھی کر دوں کہ پاکستانیوں کا آئی کیو بھی خطرناک حد تک گر چکا ہے اور انہیں سامنے کی بات سمجھانے کے لئے بھی بہت مغز ماری کرنی پڑتی ہے۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر ایک 3، 4 سال کے بچے کو دو زبانوں میں تعلیم دینے کا آغاز کیا جاتا ہے اور یہ عمل پوری دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ یا معقول ملک میں نہیں ہوتا۔ اس سے کیا ہوتا ہے، اگر آپ کو نہیں پتا تو میں بتاتا ہوں۔

ایک زبان دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہےاور دوسری زبان بائیں سے دائیں لکھی جاتی ہے۔

دونوں زبانوں کا رسم الخط ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے اور دونوں میں کسی قسم کا کوئی ربط یا تعلق نہیں

بچہ گھر میں ایک زبان سیکھتا ہے اس کو بولتا ہے اور جونہی وہ سکول میں پہنچتا ہے ایک دوسری زبان میں تعلیم حاصل کرنا شروع کر دیتا ہے، جس سے عملی طور پر علم حاصل کرنے کو وہ ایک مشکل اور پیچیدہ عمل سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔

الفاظ حروف پر مشتمل ہوتے ہیں، اور ہر حرف کی ایک شکل ہوتی ہے، شروع کے سالوں میں جب بچے کو پڑھایا جاتا ہے تو وہ ہر لفظ کی ایک شکل ذہن میں بناتا ہے، جب دو زبانوں میں اس کو تعلیم دی جاتی ہے تو اس کے ذہن میں یہ شکل گڈ مڈ ہونا شروع ہو جاتی ہے نتیجتا"وہ لکھنے پڑھنے میں مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے کیا آپ نے کبھی اپنے بچوں کو الجھتے، سٹپٹاتے اور بیزاری سے کتابوں کو ادھر ادھر پھینکتے دیکھا ہے، اگر ایسا ہوا ہے تو اس کا سبب یہی دوغلا نظام تعلیم ہے۔

پھر یہ بھی ہے کہ ایک بچہ ایک زبان میں جب علم حاصل کرتا ہے تو اس کا ذہن یکسو ہوتا ہے، اب اس کا ذہن انتشار کا شکار ہو جاتا ہے اور وہ دہرے بوجھ تلے دب جاتا ہے، نتیجہ وہی ہوتا ہے جو کہ ہے کہ اٹھارہ کروڑ کا ملک اور اس میں ایک بھی عالمی معیار کا سائنس دان، انجینئر، ماہر معاشیات، ڈاکٹر، سکالر، یا ماہر تعلیم نہیں بن سکا۔

یہ ہمارے حکمرانوں کے اندر کا خوف ہے کہ ان سے ان کا راج سنگھاسن چھن نہ جائے، وہ طبقاتی تقسیم اور ایک طبقے کی دوسرے طبقے پر بالا دستی کو رکھنے کی جدو جہد میں مصروف ہیں، جب وہ کہتے ہیں کہ ہم دانش سکول اس لئے قائم کر رہے ہیں کہ غریب کا بچہ بھی اسی معیار کی تعلیم حاصل کرے جو کہ ایک امیر کا بچہ حاصل کر رہا ہے تو ان کے ذہن میں غریبوں کو تعلیم سے محروم کرنے اور ان کو کچل دینے کے سوا کوئی مقصد نہیں ہوتا، سیدھی سی بات ہے اگر وہ واقعی غریبوں کے بچوں اور امیروں کے بچوں کو ایک جیسی تعلیم دینا چاہتے ہیں تو پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کریں، پورے ملک میں ایک زبان میں تعلیم دی جائے جو اردو ہو، اگر چین اور روس جیسے بڑی آبادی اور وسیع رقبے والے ملک اپنے ہاں ایک زبان نافذ کر کے ترقی کی سیڑھیاں چڑھ سکتے ہیں تو پاکستان پر ایسا کیا عذاب ہے کہ اس میں ایک زبان نافذ نہیں ہو سکتی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک غیر ملکی زبان کو مسلط کیا جا رہا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ جو فرعون نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا تھا وہی پاکستانی قوم کے ساتھ کیا جا رہا تھا، وہ بھی بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کروا رہا تھا یہاں بھی یہی ہو رہا ہے صرف طریقہ جدا ہے مگر مقصد اور ہدف ایک ہی ہے، میں کسی دوسری تحریر میں یہ بھی بتاؤں گا کہ پاکستان میں لڑکوں کو کس طرح قتل کیا جا رہا ہے، مگر آج کی تحریر میں میں اسی بات پر اکتفا کروں گا کہ پاکستانی بچوں کی ذہانتوں کو کس طرح کچلا جا رہا ہے ان کو کس طرح ذہنی انتشار کا شکار کیا جا رہا ہے اور کس طرح ان کے جوہر کو برباد کیا جارہا ہے۔

آخری بات پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں زبان کو علم کا درجہ دے کر بچوں کو ہمیشہ کے لئے اس کی گتھیوں کو سلجھانے پر لگا دیا جاتا ہے وہ 14 سال تک اس زبان کی گتھیاں سلجھانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں گرتے ہیں، فیل ہوتے ہیں اٹھتے ہیں پھر گرتے ہیں، فیل ہوتے ہیں اور آخر کار تعلیم کو خیرباد کہہ جاتے ہیں۔ علم کیا ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کیا ہے، معیشت اور معاشرت کیا ہے اس تک تو ان کو پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا۔

موجودہ حکومت نے جو یکساں نظام تعلیم کا نظام بنایا ہے اور وہ اس نطام کو مارچ ۲۰۲۱ تک رائج کرنا چاہتے ہیں اس پر سب کو ساتھ دینا چاہیے تھا اس میں جو سقم ہیں انکو باہمی مشاورت سے دور کرنا چاہیے تھا نا کہ مخالفت شروع کردی جاتی اس تعلیمی نظام کو ایک بڑا طبقہ اپنی موت سمجھتا ہے انکی بدمعاشی اور شہنشایت کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں
خان صاحب ڈٹ جانا ایک انچ پیچھے نا ہٹنا

آئیے مل کر اس جال کو اس پھندے کو توڑنے کی کوشش کریں ورنہ ماتم کرنا اور پیٹنا تو ہمیں آتا ہی ہے۔
آؤ پچھلے 73 سالوں کا ماتم کریں، جو نسلیں بے فیض مر گئیں ان کا ماتم کریں اور جس غلامی اور بیچارگی کی طرف ہمیں دھکیلا جا رہا ہے اس کا ماتم کریں، اپنی آنے والی نسلوں کا ماتم کریں۔ اپنی بربادی اور تباہی کا ماتم کریں۔
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو انگریزی کی نہ سوجھی

Syed Mujtaba Daoodi
About the Author: Syed Mujtaba Daoodi Read More Articles by Syed Mujtaba Daoodi: 41 Articles with 56285 views "I write to discover what I know.".. View More