یہاں تو بچوں کے بال بھی حکومت کی مرضی اور انداز سے کٹوائے جاتے ہیں، شمالی کوریا کے اسکولز کے چند ایسے قوانین جو سب کو حیران کر دیں

image
 
دنیا بھر کے تعلیمی اداروں کو ان کی نئی نسل کی تعمیر کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا جاتا ہے اور ہر ملک کا اس بات پر یقین ہے کہ جس طرح وہ اپنی نئی نسل کی آبیاری کریں گے ویسا ہی ان کا مستقبل ہو گا- مگر دنیا کا ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں کے بچوں کو عام بچوں کی طرح تعلیم دینے کے بجائے اسکولوں کو ذہن سازی کے ادارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے- شمالی کوریا کے بارے میں دنیا کے بہت سارے لوگوں کو ان کی سخت مزاجی اور تنہائی پسندی کے باعث زیادہ معلومات نہیں ہوتی یہ ملک شمالی کوریا اور امریکہ کی مخالفت کے سبب اکثر خبروں کی زینت بنتا رہتا ہے- مگر اس ملک کے اسکولز کے اندر کچھ ایسے عجیب و غریب قوانین مروج ہیں جو کہ باقی دنیا کے لیے بہت حیران کن ہیں آج ہم آپ کو ایسے ہی کچھ قوانین کے بارے میں بتائيں گے-
 
1: نصاب
اس ملک کے تعلیمی اداروں میں خصوصی طور پر حکومتی اداروں سے منظور شدہ نصاب پڑھایا جاتا ہے جس کا ایک بڑا حصہ اس ملک کے حکمران کم چونگ ان کی تعریفوں اور ان کے کارناموں پر مشتمل ہوتا ہے- اور ہر طالب علم کو اپنے اسکول کی تعلیم کے دوران کم از کم ایک سو ستر گھنٹوں تک صرف کم چونگ ان کے کارناموں کے بارے میں پڑھنا پڑتا ہے جو کہ حقیقت کے بجائے محیر العقول واقعات پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف نئی نسل کے سامنے کم چونگ ان کو ایک ہیرو کی صورت میں پیش کرنا ہوتا ہے-
image
 
2: بالوں کا انداز
جنوبی کوریا میں بچوں کو صرف ذہنی طور پر کم چونگ ان کی طرح بننے کی تربیت نہیں دی جاتی بلکہ ظاہری طور پر بھی اس اسکول کے بچے اور خصوصاً لڑکوں پر یہ پابندی ہوتی ہے کہ وہ کم چونگ ان کے بالوں کے انداز کے علاوہ کسی اور انداز سے بال نہیں ترشوا سکتے ہیں اور ان کو ظاہری طور پر اپنے حکمران کی طرح کی مشابہت لازمی طور پر اختیار کرنی پڑتی ہے- تاہم لڑکیوں کے لیے پندرہ محتلف بالوں کے انداز میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی آزادی حاصل ہے-
image
 
3: غیر نصابی سرگرمیاں
جنوبی کوریا کے قانون کے مطابق ہر شہری کو اپنی زندگی کا کچھ حصہ لازمی طور پر اس کی آرمی میں کام کرنے کے لیے وقف کرنا لازمی ہوتا ہے- جس کی تیاری اسکول ہی سے شروع کر دی جاتی ہے اور غیر نصابی سرگرمیوں کی مد مین ان کو انتہائی ابتدائی عمر ہی سے فوجی ٹریننگ دی جاتی ہے یہاں تک کہ ہائی اسکول پہنچنے تک یہ بچے بھاری اسلحہ چلانے میں مہارت حاصل کرچکے ہوتے ہیں-
image
 
4: نصاب کی سرکاری زبان
اگرچہ اس ملک کے ہر فرد کے اندرامریکہ سے شدید ترین نفرت پائي جاتی ہے مگر اس ملک کا نصاب بنیادی طور پر انگریزی پر مشتمل ہے- اس کے ساتھ ساتھ بچے روسی زبان بھی سیکھتے ہیں دوران تعلیم بچوں کے پاس اپنے مضامین اور زبان کے چناؤ کا اختیار موجود نہیں ہوتا ہے اور ان کے یہ سارے فیصلے سرکار کی جانب سے ہوتے ہیں-
image
 
5: انٹرنیٹ سے محرومی
جنوبی کوریا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر ابلاغ عامہ پر شدید ترین پابندیاں موجود ہیں اس ملک کے زیادہ تر بچوں کو اس حوالے سے کسی قسم کی آگاہی حاصل نہیں ہے کہ انٹرنیٹ کس کو کہتے ہیں- تاہم اعلیٰ طبقے کے کچھ تعلیمی اداروں میں اس کی سہولت بھی موجود ہے تو ان کی پہنچ صرف منتخب 28 ویب سائٹس تک ہے- اس کے علاوہ ان کو کسی قسم کی براؤزنگ کی سہولت موجود نہیں ہے -
image
 
6: حکمران کی عزت و تکریم
کم چونگ ان کی عزت کرنا اس ملک کے ہر فرد پر واجب ہے جس کی تعلیم ان کو تعلیمی اداروں سے ہی دی جاتی ہے- اس کے لیے ہر کلاس روم میں کم چونگ ان کی تصویر اور تعلیمی اداروں میں بڑے بڑے مجسمے نصب ہیں- یہ لوگ اپنے دن کا آغاز کم چونگ ان کی تصویر کے سامنے سر جھکا کر اور خاموشی اختیار کر کے کرتے ہیں اور ایسا نہ کرنے والے کو سخت ترین سزا دی جاتی ہے-
image
 
7: اسکول سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی
جنوبی کوریا کے اسکولوں میں چھٹی نہیں ہوتی ہے بچے اپنے تعلیمی دور میں سارا وقت اسکول ہی میں گزارتے ہیں اور اس دوران ان کے اساتذہ بھی ان کے ساتھ اسکول ہی میں رہتے ہیں- دن کے تین وقت کا کھانا یہ لوگ ایک ساتھ کھاتے ہیں نصابی سرگرمیوں کے بعد ان کی فوجی ٹریننگ ہوتی ہے اس کے علاوہ اسکولوں کے باہر بھاری مقدار میں فوجی تعینات ہوتے ہیں جو ان کو باہر نکلنے سے روکتے ہیں- بچے صرف سونے کے لیے گھر جاتے ہیں اور اگلے دن صبح سویرے اسکول میں موجود ہوتے ہیں اور ان کو صرف ایک ہی صورت میں چھٹی مل سکتی ہے اور وہ صورت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ کم چونگ ان کے کسی مجسمے کے سامنے جاکر اپنا سلام پیش کرنا چاہیں- اس کے علاوہ ان کو اسکول سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے-
image
 
8: وفاداری کی تعلیم
وطن اور کم چونگ ان کے ساتھ وفادار رہنا سب سے پہلا سبق ہے جو اس ملک کے شہریوں کو اسکول ہی سے پڑھا دیا جاتا ہے- کسی قسم کی باغیانہ سوچ رکھنا یا کم چونگ ان کے خلاف بات کرنا شدید ترین جرم تصور کیا جاتا ہے جس کی سزا موت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی ہے-
image
 
9: ذات پات کا نظام
شمالی کوریا کے اسکولوں میں بچوں کو تعلیم ان کی ذات پات کے نظام کے تحت دی جاتی ہے خاص طبقے کے بچوں کے لیے خاص تعلیمی ادارے ہوتے ہیں جہاں پر سے وہ تعلیم حاصل کر کے ملک کے مقتدر حلقوں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں جب کہ غریب اور کمزور طبقے کے افراد کے بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ بیگار میں لیبر کیمپوں میں اپنی خدمات بھی انجام دینی پڑتی ہیں- جس کے سبب وہ تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور ساری زندگی دوسرے درجے کے شہری بننے پر مجبور رہتے ہیں-
image
 
10 : سزائیں
شمالی کوریا میں اور اس کے تعلیمی اداروں میں سخت ترین سزائيں نافذ ہیں بچوں کو غلطی کرنے پر جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ان کو بیگار کی سزا بھی دی جاتی ہے- ان سزاؤں کا سب سے بڑا منفی پہلو یہ ہے کہ یہ سزائیں وقتی نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان سزاؤں کی مدت تاعمر بھی ہو سکتی ہے اور جن بچوں کو یہ سزائیں دی جاتی ہیں ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے-
image
YOU MAY ALSO LIKE: