جُرم، جرم اور مزید جُرم

لاہور سیالکوٹ موٹروے پر ایک خاتون کی گاڑی پر تین ڈاکوؤں نے حملہ کیا گاڑی کے شیشے توڑے، لوٹا اور مزاحمت پر اسے مارا پیٹا اور پھر تین بچوں سمیت اتار کر موٹروے سے نیچے لے گئے اور بچوں کے سامنے اس کے ساتھ بد فعلی کی۔ خاتون کی طرف سے ایف آئی آر درج کرائی گئی اور معاملہ منظر عام پر آیا اور پھر میڈیا اور سوشل میڈیا پر معاملہ آیا اور حکومت اور پولیس کو ہدف تنقید بنایا گیا تو تب جاکر حکومت اور پولیس ہوش میں آئی لیکن ہوش میں آکر بھی گڑ بڑائی ہو ئی پولیس اورحکومت دونوں کی طرف سے انتہائی نا معقول قسم کے بیانات سامنے آئے جن میں سب سے نمایاں لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ کا بیان تھا جنہوں نے بجائے بدفعلی کرنے والوں کے الٹا خاتون کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ایک عورت اتنی رات کو موٹروے پر نکلی کیوں، اس نے لباس کیسا پہنا تھا، وہ پاکستان کو فرانس سمجھ رہی تھیں وغیرہ وغیرہ۔ واقعے کی نوعیت اور نزاکت تو اپنی جکہ ہے ہی لیکن ایک ذمہ دار پولیس افسر کو اس قسم کے بیانات دینے سے پہلے اپنی شخصیت نہ سہی اپنے عہدے کا ہی خیال کر لینا چاہیے تھا اگر پولیس کے ذ مہ دار افسران ہی اس طرح کے بیانات دینے لگیں تو حفاطت کی اُمید کس سے کی جائے پھر تو وہ یہ بھی کہیں کہ چور کا قصور نہیں کیونکہ گھر کو تالا کیوں کمزور قسم کا لگایا گیا یا یہ کہ گھر والوں نے چونکہ اپنی جان بچائی اور چوری ہونے دی تو چور کا تو قصور نہ ہو ا پھر تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی اس لیے ہوئی کہ انتظامات درست نہ تھے لہٰذا جائز ہے اس طرح وہ ہر جُرم کے لیے کوئی نہ کوئی تو جیح پیش کر سکتے ہیں۔ ان سب تو جیہات کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ چونکہ ہر جُرم کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہے اس لیے سی سی پی او صاحب اور پولیس کا کوئی کام نہیں تو پھر ہونا یہ چاہیے کہ پولیس کو بھی ختم کر دیا جائے اور اُس سے پہلے سی سی پی او صاحب کا عہدہ اور نوکری ختم کردی جائے لیکن ان سے یہ ضرور پوچھا جائے کہ کیا وہ بچے جو گھر سے کھیلنے نکلے اور ان درندوں کے ہتھے چڑھ گئے جنہوں نے ان کی معصومیت کی بھی پرواہ نہیں کی تو کیا ان مجرموں کو بھی چھوڑ دیا جائے کیونکہ بچے گھر سے باہر کھیلنے کیوں نکلے تھے۔ عمر شیخ صاحب خدا کے لیے عقل کے ناخن لیں اور ہمارے وزراء بھی واقعے کے لیے توجیہات تلاش نہ کریں بلکہ اس طرح کے واقعات کاتدارک کرنے کے لیے سخت اقدامات اُٹھائے جائیں۔ اس طرح کے واقعات کی دوسری وجہ سزا اور جزاء کا کمزور نظام ہے ہماری عدالتیں جو بات بات پر تو ہین عدالت کے نوٹس تو جاری کرتی ہیں لیکن زیادہ تر فیصلے ہر گز مبنی برانصاف نہیں ہوتے ابھی کچھ ہی ہفتے پہلے راولپنڈی میں ایک واقعہ پیش آیا جس میں کچھ لوگوں نے سرراہ ایک لڑکی کو برہنہ کر دیا تھا اُس کے مجرموں کو ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر پھر بھی چھوڑ دیا گیا حا لانکہ اسے کئی لوگوں نے دیکھا تھا نہ آیا تو عدالت کو نظر نہ آیا۔ جب جُرم کی سزا نہیں دی جائے گی تو جُرم تو ہوگا اور اور بے خوف ہو کر کیا جائے گا۔ ہماری انہیں عدالتوں نے تو دہشت گردی کے ان مجرموں جنہوں نے کھلے عام جرائم کیے اور انہیں تسلیم بھی کیا کو بَری کیا کہ ثبوت ناکافی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان دہشت گردوں نے رہا ہو کر اگلے اقدام کے لیے منصوبہ بندی کی اور پہلے سے بڑی دہشت گردی کی گئی جس کی ایک مثال پریڈ لین دھماکے کا ماسٹر مائنڈ عثمان عرف ڈاکٹر عثمان تھا اور دیگر کئی مثالیں بھی موجود ہیں۔مجرم تو ہماے قانون کی دھجیاں اڑاتا ہی ہے ہمارے ادارے بھی اس کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کرتے اور اسی لیے جُرم کو روکا نہیں جاسکتا اگر تو سخت سزائیں دی جائیں اور ایک خوف اور ڈر پیدا کیا جائے تو کسی کی اتنی ہمت نہ ہو کہ دوبارہ جُرم کرے لیکن ہمارے ہاں تو ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو سخت سزاؤں کے ہی خلاف ہیں اوراسے غیر انسانی قرار دیتے ہیں جس کا نتیجہ جُرم اور جُرم اور مزید جُرم کی صورت میں نکلتاہے اس کی مثال یہ ہے کہ لاہور موٹروے پر ہونے والے شرمناک واقعے کے اگلے ہی دن راولپنڈی میں بارہ سالہ بچی لائبہ کو اس کے ایک محلے دار نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ لہٰذانہ صرف سزا کی ضرورت ہے بلکہ فوری سزاؤں کی ضرورت ہے جس کی مثال ضیاالحق کے زمانے میں ہونے والا پپو بد فعلی اور قتل کیس تھا جس میں ایک بچے پپو کے ساتھ بدفعلی کی گئی اور بعد میں اُسے قتل کیا گیا پکڑے جانے پر مجرموں کو سرعام پھانسی دی گئی اور لاشیں پورا دن چوک پر لٹکتی رہیں اور کہتے ہیں اس کے بعد دس سال تک دوبارہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہوا اور اگر ہم واقعے کے لیے توجیہات تلاش کریں گے تو پھر اگلے دن کسی لائبہ کسی صبا اور حوا کی کسی اور بیٹی کے ساتھ ایسا ہونا ہر گز اچھنبے کی بات نہیں۔ ان واقعات میں اضافے کی وجہ ہی یہی ہے کہ ایسے مجرموں کو سزا نہیں دی جاتی۔قارئین آپ کے ذہن میں کوہاٹ میں عاصمہ ر انی کے قتل کا واقعہ ہوگا جس میں مقتولہ نے مرنے سے پہلے قاتل کا نام بتا دیا تھا لیکن وہاں بھی ثبوت ناکافی ہوئے۔ تو یہ ہے ہمارا عظیم انصاف پسند عدالتی نظام جو عام طور پر سب کے لیے اور خاص کر خواتین کے معاملے میں بے انصافیوں سے بھرا پڑا ہے۔ مگر ہم پھر بھی ریاست مدینہ کے حکمران ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جہاں ایک عورت اکیلے اونٹ پر بیٹھ کر میلوں کا سفر بلا خوف و خطر طے کر لیا کرتی تھی۔حکومت ذرا یہ تو بتائے کہ اب تک اس نے کو نسا کام ریاست مدینہ والا کیا ہے وہاں تو حضرت عمر ؓفرات کے کنارے مرنے والے بھوکے پیاسے کتے کی موت کی جوابدہی سے پریشان ہوتے تھے یہاں عورت کی عزت وحرمت پر ہاتھ ڈالنے والوں کو سزا دینے کی بجائے عورت کے بہت سارے قصور گنوائے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آئے روز اس طرح کے واقعات ہورہے ہیں۔ ہر”عام پاکستانی“ کی طرح میری بھی یہ تجویز ہے کہ جس طرح زینب کیس کے مجرموں کو سزائے موت دی گئی اسی طرح چند اور کیسز میں بھی فوری اور سخت ترین سزا دی جائے جو صرف سزائے موت ہو تو دوسرے بد فطرت لوگ بھی اس سے سبق حاصل کریں گے حکومت کو ایسا کرنا ہوگا چاہے اس کے لیے اسے ماڈل کورٹس بنانے پڑیں یا فوجی عدالتوں سے کام نکالنا پڑے کیونکہ ہمارا معمول کا عدالتی نظام تو اب تک اپنی جان کے خوف سے کوئی قابلِ قدر کارنامہ سرانجام نہیں دے سکا ہے اور وہ ویسے بھی سیاستدانوں اور سیاسی مقدموں میں الجھا ہوا ہے لہٰذا اس کام سے اسے بری الذمہ قرار دیا جائے کیونکہ یہ شاید اس کے بس کی بات نہیں اور اب تو پولیس کو بھی مزید تنگ نہ کیا جائے کیونکہ وہ پہلے ہی اپنے سی سی پی او کے زبانی اپنی معذوری کا اظہار کر چکی ہے اور حکومت سے بھی نہ ہو تو یہ کام عوام کے ذمے لگا دیا جائے کیونکہ اس کے وزراء کے بیانات بھی کچھ حوصلہ افزاء نہیں بلکہ وہ بھی ہتھیار ڈالے ہوئے کھڑے ہیں ان سب سے نا اُمیدی کے بعد بس اب ایک دعا کی امید رہ گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے، آمین۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552133 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.