افسوس ہم زبانی کلامی اہل ایمان ہیں عملی طور پر بس نام
کے مسلمان ہیں ۔ اﷲ پاک نے ہماری رہنمائی و ہدایت کے لئے کم و بیش ایک لاکھ
چوبیس ہزار 124000 انبیاء کرام علیہ السلام بھیجے ہیں ۔سب سے بڑھ کر جب
خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی امت میں اﷲ پاک نے پیدا فرمایا ہے تو یہ اﷲ
پاک کا ہم پر احسانِ عظیم ہے یہ وہ سعادت ہے جو بغیر ’’خوش نصیبی ‘‘ کسی کو
حاصل نہیں ہوتی۔ زبانی کلامی اہل ایمان ہونے کا مطلب ہمارا کردار مسلمانوں
جیسا نہیں ۔ اگر ہم گفتار کی طرح کردارکے بھی پکے مسلمان ہوتے تو آج کسی دن
یا ماہ صفر کو منحوس نہ سمجھتے!
اکثر لوگ ماہ صفر کے پہلے 13دنوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان
دنوں میں جادو گر، جنات اور بد روحیں کھلے عام آفات مچاتی ہیں اور کام
بگاڑتی ہیں۔ایک کہاوت یہ بھی بنائی گئی ہے کہ ان دنوں میں کوئی بیماری ہو
جائے تو وہ مریض مشکل سے بچتا ہے یا اس ماہ میں لگنے والی بیماری مہلک یا
شدید ثابت ہوتی ہے۔من گھڑت افواہیں پھیلادی گئی ہیں، جو کہ محض تو ہمات ،
لغویات اوربدعات ہیں اور دین حنیف میں اضافہ ہیں، شریعت محمدی ؐ میں ان کا
کوئی وجود نہیں!
افسوس صد افسوس ایک بار مجھے ضروری کام کے لئے بازار جانا تھا میں اور میرا
دوست ان کے گھر سے نکلے تو ان کے محلے دار ایک پرہیزگار بزرگ ملے دعا اسلام
کے بعد میں نے موٹر سائیکل روڈ کی جانب کیا تو دوست نے کہا ٹھہرو! میں نے
کہا کیا ہوا؟گھر سے ہوکر آتے ہیں میں سمجھا شاید کوئی لازمی چیز بھول گیا
ہو، دروازے سے اندر ہوکر پھر باہر نکلا تو میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ میرا
دوست کہنے لگا یار یہ جو بزرگ یا انکی فیملی کا کوئی بندہ / بندی منہ لگ
جائے ( یعنی جاتے ہوئے ملے ) تو کام نہیں ہوتا۔ یہ سن کر بہت دکھ ہوا کہ
ہماری پڑھی لکھی نسل کا یہ حال ہے!
اسی طرح میرا ایک اور دوست ہے اس کے ساتھ کسی دفتر خاص کام کے لئے جانا تھا
راستہ میں ان کی نظر بلی پر پڑگئی ۔۔ اﷲ اﷲ پھر انہوں ایک لیکچر دیا اگر
لازمی کام جانا ہو تو سفید بلی رستے میں آئے تو یہ اگر کالی بلی ہو تو یہ
ہوتا ہے!
اﷲ پاک نے اپنی الہامی و مقدس کتاب میں ارشاد فرمایا ہے کہ
’’اور اگر اﷲ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے
والا نہیں اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے
فضل کو ردّ کرنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل
پہنچاتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔(سورۃ یونس، 10: 107)
‘‘ کچھ لوگ منگلوار اور کچھ بدھوار کو اچھا نہیں کہتے ۔حقیقت میں ایام کا
اس معاملے میں کوئی عمل دخل نہیں علامہ محمود آلوسی لکھتے ہیں
:’’ میں کہتاہوں کہ تمام ایام برابر ہیں اور بدھ کا دن نحوست کے لئے خاص
نہیں ہے (یعنی اُن پر عذاب اُن کی سرکشی اوربغاوت کی وجہ سے آیانہ کہ بدھ
کے دن کی وجہ سے)۔اورہر گزرنے والی ساعت کسی شخص کے لئے اچھی اور مبارک
ہوتی ہے اوروہی ساعت دوسرے شخص کے لئے بری اور منحوس ہوتی ہے اور ہر دن کسی
شخص کے لئے خیر اور دوسرے شخص کے لئے شَر ہوتاہے(یعنی ایک ہی دِن کہیں
جنازہ اٹھتاہے اورکہیں شادیانے بج رہے ہوتے ہیں) یعنی نحوست یا ناسازگار
ہونے کاتعلق زمانے سے نہیں ہوتا،بلکہ افراد کے اعتبار سے ہوتاہے۔اور اگر
کسی شخص پر عذاب یا کوئی مصیبت نازل ہونے کی وجہ سے بدھ کا دن منحوس ہے تو
ہردن بلکہ ہرساعت میں کسی نہ کسی شخص پر کوئی نہ کوئی مصیبت اوربلا نازل
ہوتی ہے،تواِس طرح توتمام ساعتیں منحوس قرار پائیں گی،-روح المعانی، جلد
27، ص:86۔‘‘
ٓ
افسوس صد افسوس ! پڑھا لکھا طبقہ بھی احساس کمتری اور زمانہ جہالت کی من
گھڑت قصے کہانیوں پر یقین رکھتا ہے مگر وہ اﷲ جو خالق مالک رازق ہے اس کے
بتائے ہوئے روشن راستے پر چلنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اگر پڑھا لکھا طبقہ اﷲ
تعالیٰ کی رب مانتا جیساماننے کا حق ہے تو پھر آج ہم حسد بغض کی آگ میں نہ
جل رہے ہوتے! ہم نے اپنے آپ کو مطمن کرنے کے لئے من گھڑت فلسفہ بنا یا ہوا
ہے۔ یعنی اگر کسی بہن بھائی کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہم ’’ اﷲ کی پکڑ کا فتویٰ
جاری کرتے ہیں اور اگر وہ تکلیف ہم کو دبوچ لے تو ہم اﷲ تعالیٰ کی آزمائش
کہتے نہیں تھکتے!یہ متضاد معیارہی ہماری تباہی و بربادی کا سبب ہے۔
جب ہم اﷲ پاک کی دی ہوئی روشن کتاب ’’ کتابِ مبین قرآن مجید ‘‘ کی روشنی
اور سردار الانبیاء نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے بتائے ہوئے راستے (
اطاعتِ رسول ؐ) پر سچے اور پکے دل سے عمل نہیں کریں گئے تب تک کبھی منگل
بدھ کبھی بلی کتے اور کبھی ماہ صفر سمیت بندوں کو منحوس سمجھتے رہیں گئے
اور ان کا حقیقت اور اسلام سے دور کا واسطہ بھی نہیں ۔ اس لیے لازم ہے ۔ اﷲ
اور اﷲ پاک کے محبوب ؐ کے بتائے ہوئے اصولوں پر زندگی گزاری جائے ۔ تاکہ
دنیا اور آخرت کی کامیابیاں مل سکیں |