ہمیں اپنی قسمت کو برا بھلا کہنے کی بجائے اس کو سنوارنا ہے کیونکہ ہم اس کے مالک ہیں۔
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
عقلمند لوگ بچپن سے ہی بڑی گہری باتیں کرنے لگتے ہیں جیسے اسکول کے ٹوائلٹ کے اندر دیواروں پر لکھا ہوتا تھا “ابے سوچتا کیا ہے، تیری قسمت تیرے ہاتھ میں تو ہے” یا “اوپر کیا دیکھتا ہے، داہنی جانب دیکھ، بائیں جانب دیکھ، نیچے دیکھ، سامنے تو دیکھ۔ اور سامنے والی دیوار پر لکھا ہوتا “ادھر ادھر کیا دیکھتا ہے، اپنا کام کر اور جاکے اپنی قسمت بنا” |
|
|
ہمیں اپنی قسمت کو برا بھلا کہنے کی بجائے اس کو سنوارنا ہے کیونکہ ہم اس کے مالک ہیں۔ عقلمند لوگ بچپن سے ہی بڑی گہری باتیں کرنے لگتے ہیں جیسے اسکول کے ٹوائلٹ کے اندر دیواروں پر لکھا ہوتا تھا “ابے سوچتا کیا ہے، تیری قسمت تیرے ہاتھ میں تو ہے” یا “اوپر کیا دیکھتا ہے، داہنی جانب دیکھ، بائیں جانب دیکھ، نیچے دیکھ، سامنے تو دیکھ۔ اور سامنے والی دیوار پر لکھا ہوتا “ادھر ادھر کیا دیکھتا ہے، اپنا کام کر اور جاکے اپنی قسمت بنا” اسکول میں ہی نہیں، کالج میں بھی، پی آئی اے میں اور پاکستان میں ہی نہیں، پوری دنیا کے کاسموپولیٹن شہروں ٹوکیو، ہانگ کانگ، منیلا، سنگا پور، بالی، منیلا، کابل، استنبول، روم، پیرس، لندن، نیویارک، شکاگو، فینکس، لانگ بیچ کیلیفورنیا اور لاس اینجلس، گویا تمام دنیا میں انسانی ذہن بنیادی طور پر یکساں طور سے سوچتا ہے۔ مثبت اور تعمیری سوچ رکھنے والے ذہنوں نے مختلف سائنسی ایجادات کیں لیکن منفی اور تخریبی سوچ رکھنے والوں نے دنیا کو برباد کرنے میں کوئ کسر نہ چھوڑی۔ یوں تو ہزاروں سال پہلے بھی مختلف ترقی یافتہ تہذیبیں تاریخ کا حصہ ہیں لیکن گزشتہ سات دہائیوں میں ٹیکنالوجی جو انقلاب بپا کیا ہے وہ آنے والی دہائی میں قیامت بپا کرے گا لیکن افسوس اس ٹیکنالوجی سے نہ تو ہمارے مذہبی رہنماؤں نے راہ نما کا کردار ادا کیا اور نہ ہی دیگر نام نہاد سیاسی لیڈروں نے۔ سائنسدان تو اس صدی میں ایک ہی سنا، اس کو بھی دینی مجرم کہہ کر ملک سے نکال دیا۔ البتّیٰ کاپی کیٹس کی کوئ کمی نہیں۔ ہمارے ملک کا میڈیا جو خبریں سناتا ہے، جو ڈرامے دکھاتا ہے یا جو انٹرٹینمنٹ کے نام پر بے حیائی پھیلاتا ہے، ان سب عناصر نے پوری قوم کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ شام سے ہی ٹاک شوز کے نام پر سیاسی دنگل شروع ہو جاتے ہیں اور یا پھر ساس، بہو اور نند کے کرداروں میں مزید فسادی نکھار لانے کی جدوجہد شروع ہو جاتی ہے۔ اگلے دن تو کورونا کے باعث صبح شام کو لگ بھگ چار بجے ہوتی ہے اور ہر گھر میں ہر فرد اپنے آپ کو برسراقتدار لیڈر سمجھتا ہے یا اپوزیشن کا سب سے مضبوط ستون۔ باپ بیٹے اور بھائی بھائی رات دوبارہ سیاسی دنگل شروع ہونے تک اپنا لہو گرماتے ہیں اور اسی طرح ساس کی چیخ و پکار سے نئی نویلی دلھن گھبرا کر یہ کہتی ہوئی اٹھتی ہے کہ میں میکے جارہی ہوں۔ شوہر کہتا ہے کہ مجھے تھوڑا سا تو آن لائن کاروبار یا نوکری کرنے دو تو روٹی پانی کا بندوبست ہو پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔ حقیقت کا سامنا کرنے کی ہمّت ہی ناپید ہو چکی ہے، سچ بولنے سے پہلے ہی ہر شخص کہتا ہے “ لوگ کیا کہیں گے” میں بھی عرصہ دراز سے نفسیاتی مریض ہوں، میرا بیٹا بھی شدید مبتلائے مرض۔ اس کے لئے کل شام انجیکشن لینے گیا تو جاننے والے کیمسٹ نے کہا “انکل یہ دو رہ گئے ہیں، دونوں لے لیں، پھر نہ معلوم کب ملیں، لوگ بیس بیس، تیس تیس لے گئے۔ میں عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ خدا کے واسطے یہ ٹاک شوز اور ڈرامے دیکھنا بند کرکے ڈاکومینٹریز دیکھیں تاکہ معلوم ہو کہ دنیا گزشتہ صدی میں ہی ہمارے خوابوں سے آگے جا چکی۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔ |