غُلامی تو کرنی ہی پڑے گی

پہلا منظر

تمثیل
محمود بادشاہ مِحل کے باغ میں چہل قدمی کررہا تھا ساتھ میں ایک وفادار غُلام بھی کسی ممکنہ خِدمت کیلئے پیش پیش تھا
اچانک محمود بادشاہ نے غُلام سے دریافت کیا۔ مِحل کی خُفیہ رپورٹ کیا ہیں؟

غُلام عرض کرنے لگا حالات کُچھ ذیادہ بہتر نہیں ہیں ۔اگر جان کی اَمان پاوٗں تو کُچھ عرض کروں

مِحمود غلام کی بات سُن کر متکفر لہجے میں کہنے لگا۔ اَمان ہے۔ کہو کیا بات ہے۔ کیا مِحل میں کوئی سازش رچائی جارہی ہے۔ غُلام کی مبہم گُفتگو نے محمود کو تشویش میں مُبتلا کردیا تھا۔

غلام ۔ حضورِ والا بات تو بُہت چھوٹی سی ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ محلوں میں پنپنے والی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی نظر انداز کرنے کی صورت میں ایک طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

محمود۔ تُم سچ کہتے ہُو ۔مگر میں یہ تمام باتیں جانتا ہُوں تُم مجھے اصل بات بتاوٗ۔

غُلام۔ حضور والا آپکی ایاز پر بڑھتی ہوئی عنایات کے سبب وزیر اور مُشیر رقابت کی آگ میں خُود کو جلائے جارہے ہیں اُنکا خیال ہے کہ ایاز کی رائے آپکے نذدیک وزراء اور مشیروں کے رائے سے بھی ذیادہ اہم ہے اور آپ ایاز کی رائے کو ذیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

محمود۔ اچھا تُو یہ بات ہے۔ وہ نادان لوگ اعلٰی منصب پانے کے باوجود بھی ایاز سے خُود کا موازنہ کررہے ہیں۔ جب کہ ایاز کا تو یہ حال ہے کہ اُسے میری چاہت کے سِوا کسی منصب کی خُواہش ہی نہیں۔

دوسرے دِن بادشاہ محمود نے اپنے دربار میں خطاب کرتے ہُوئے کہا؛ مجھے معلوم ہُوا کہ کے دربار کے چند معزز ارکان کو مجھ سے شِکایت ہے کہ میری نظر عنایات ایاز کی جانب ذیادہ ہیں۔ حالانکہ میں نے کبھی ایاز کا موازنہ دربار کے کسی بھی معزز وزیر کیساتھ نہیں کیا لیکن ایاز کو مجھ سے جو مُحبت ہے وہ بھی مجھ سے ،مخفی نہیں اور مجھے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں ہے کہ میں واقعی ایاز کی دانشمندی اور فرمانبرادی کا دِل سےقائل ہُوں۔ لیکن میں چاہتا ہُوں کہ آج اس دربار میں اِس بات کا فیصلہ ہوجانا چاہیئے ۔ آج میں دربار کے تمام لوگوں کا بشمول ایاز امتحان لینا چاہوں گا جس کے بعد یہ ثابت ہوجائے گا کہ ۔ میرا انتخاب بہتر ہے ۔یا آپ لوگوں کی سوچ ٹھیک ہے۔

اتنا کہنے کے بعد محمود بادشاہ نے دربار میں ایاز کو بھی طلب کرلیا۔

جب ایاز دربار میں حاضر ہُوچُکا تب بادشاہ محمود نے اپنے سر سے تاج اُتار کر اُس میں لگے دُنیا کے بیش قیمت بڑے سے ہیرے کو نُوچ لیا اور پھر اُس تاج کو جو ابھی کُچھ دیر پہلے ہیرے کی رونق کی وجہ سے جگمگا رہا تھا اور اب ایسا سُونا سُونا لگ رہا تھا مانو جیسے کوئی نوبیاہتا دُلہن بیوہ ہُوگئی ہُو اُس تاج کو دوبارہ اپنے سر پر رکھ لیا۔

محمود نے ہیرے کو اپنے داہنے ہاتھ کی تین انگلیوں کے درمیان تھامتے ہُوئے دربار کے ارکان سے خِطاب کرتے ہُوئے کہا۔۔ کیا آپ لوگ جانتے ہیں یہ دُنیا کا سب سے قیمتی ہیرا ہے اور یہ بُہت نایاب ہیرا ہے جسکی وجہ سے میں نے اِسے اپنے تاج کی زینت بنایا تھا لیکن آج میری خُواہش ہے کہ کوئی اِس ہیرے کو کرچی کرچی کردے۔

اِتنا کہنے کے بعد بادشاہ محمود نے تمام دربار پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی۔ تمام لوگوں کے چہروں پر بادشاہ کی خُواہش کی وجہ سے مُردنی چھائی ہُوئی تھی۔

ایک وزیر نے دوسرے وزیر کے کان میں سرگوشی کرتے ہُوئے کہا۔ سُنا ہے کہ جب بادشاہ درباریوں کا امتحان لیتا ہے تو بڑے بڑے لوگ دربدر ہوجاتے ہیں نجانے آج کون بدنصیب راندہ درگاہ ہونے کو ہے؟

محمود بادشاہ نے حُکم دیا کہ ایک ہتھوڑی پیش کی جائے۔ ہتھوڑی کی دستیابی کے بعد بادشاہ محمود نے قریب کھڑے ہوئے وزیر اعظم کو طلب کیا اور ہیرا تھماتے ہوئے اُسےحُکم دیا کہ وہ ہتھوڑی کی مدد سے اُس نایاب ہیرے کو توڑ ڈالے۔

وزیر اعظم نے بادشاہ محمود کے حُکم کو سننے کے بعد عرض کیا۔ عالیجاہ میری خُدا سے ہمیشہ یہی دُعا رہتی ہے کہ وہ آپکا اقبال ہمیشہ بلند رکھے اور آپکا دبدبہ کُفار پر ہمیشہ قائم رکھے ۔ حضور والا یہ ہیرا آپکے تاج کا حِصہ ہے اور اسکی وجہ سے آپکی شوکت میں اضافہ ہوتا ہے اب یہ کیسے ممکن ہے کہ جو چیز میرے شاہ کی عزت کو بڑھاتی ہو میں اُس شئے کو تُوڑ ڈالوں۔

بادشاہ محمود نے جلد ہی ایک دوسرے وزیر پر نگاہِ انتخاب ڈالتے ہوئے اُسے ہیرا توڑنے کی دعوت دے ڈالی۔
اُس وزیر نے عرض کیا حضور والا اِس ہیرے کی قیمت ایک ریاست کی سالانہ آمدنی سے بھی ذیادہ ہے میں آپکا نمک خُوار ہُوں میں آپکا اتنا بڑا نقصان نہ خُود کرسکتا ہُوں اور نہ ہی کسی اور کو یہ نْقصان کرتے دیکھ سکتا ہُوں۔

محمود بادشاہ یکے بعد دیگرے وہ ہِیرا ہر ایک وزیر کو توڑنے کیلئے دیتا رہا اور ہر ایک وزیر دانائی بھرے جوابات کیساتھ اُس ہیرے کو نہ تُوڑنے کا عُذر پیش کرتا رہا جس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ وہ بادشاہ کے حقیقی خیر خُواہ ہیں
یہاں تک کہ تمام وزراء کے عُذر سننے کے بعد بادشاہ نے ایاز کو اپنے قریب آنے کی دعوت دی
۔
۔
۔
محمود بادشاہ نے ہیرا تھماتے ہوئے ایاز سے بھی یہی فرمائیش کی وہ ہیرے کو توڑ ڈالے ایاز نے حُکم سنتے ہی ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی بادشاہ کے ہاتھ سے ہیرا لے کر زمین پر رکھا اور ہتھوڑی کی ایک ہی ضرب سے ہیرے کی کرچیاں بکھیر ڈالیں۔
۔
۔
۔
تمام دربار کے لوگ ایاز کی اس گُستاخانہ حرکت پر حیرت زدہ تھے اُنہیں یقین تھا کہ محمود بادشاہ اس گُستاخی کے بعد ایک لمحے کیلئے بھی ایاز کے وجود کو زمین پر سلامت دیکھنا پسند نہیں کرے گا ہر ایک شخص کی نِگاہ بادشاہ کے چہرے پر تھی لیکن یہ کیا بادشاہ کے چہرے پر جلال اور غُصے کے بجائے اطمینان اور سکون کی لہریں موجزن تھیں۔
۔
۔
۔

تمام دربار میں چہ میگوئیاں ہورہی تھیں جو بادشاہ کی گونجدار آواز پر سکوت میں تبدئل ہو گئیں

محمود نے ایاز کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا ایاز تُم نے یہ جانتے ہُوئے بھی کہ وہ ہیرا دُنیا کا نایاب ترین ہیرا تھا اور جسکی قیمت کوئی بادشاہ ہی ادا کرسکتا ہے تُم نے اُس ہیرے کو تُوڑ ڈالا ؟

ایاز نے عرض کیا بادشاہ سلامت میری نظر میں اُس ہیرے کی قیمت اِس وجہ سے نہیں تھی کہ وہ دُنیا میں نایاب تھا بلکہ میری نظر میں اُسکی قیمت صرف اِس وجہ سے تھی کہ اُسے آپکی پیشانی پر سجنے کا شرف حاصل تھا اور میں نے ہیرے کو اِس وجہ سے توڑ ڈالا کہ میری نظر میں آپکے حُکم آپکے قول اور آپکی خواہش سے ذیادہ کوئی چیز قیمتی نہیں اب چاہے وہ چیز کوئی چمکتا ہُوا کانچ یا میری جان ہی کیوں نہ ہُو
محمود کی آنکھیں ایاز کے جواب سے ڈُبڈبا گئیں اور بادشاہ محمود نے یہ کہتے ہُوئے ایاز کو اپنے سینے سے لگالیا ،، بَخُدا ہمیں اپنے انتخاب پر ناز ہے،،


دوسرا منظر
محترم قارئین کرام میں جانتا ہوں کہ آپکو میری تحریروں کا بے صبری سے انتظار رہتا ہےاور میری اپنی بھی یہی خُواہش رہتی کے کہ آپکے ساتھ میرا تعلق ذیادہ تاخیر کا متحمل نہ ہُو لیکن یقین جانئے کہ یہ آپ لوگوں کی مُحبت ہی ہوتی ہے جو مجھے چند دِنوں تک آپکے کسی دوسرے کام میں مشغول کردیتی ہے

دُنیا میں تین قسم کے انسان پائے جاتے

نمبر ایک ۔جو خُدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتے (یہ لوگ دہریہ کہلاتے ہیں اور دُنیا کی سب سی چھوٹی اقلیت ہیں)

نمبر دو۔ جو خُدا کو تو مانتے ہیں لیکن خُدا کی نہیں مانتے ( ان میں سب سے اول شیطان ہے اور پھر اُسکی ذریت ہے)

اور نمبر تین۔وہ لوگ ہیں جو نہ صرف خُدا کو مانتے ہیں بلکہ خُدائے عزوجل کے ہر ایک حُکم پر بلا دلیل اپنی گردن جھکا دیتے ہیں اور یہی کامیاب ترین لوگ ہیں۔

میں نے کُچھ عرصہ قبل ہماری ویب پر ایک صاحب جو عموماً دوسرے لوگوں کے لکھے کالمز کاپی پیسٹ کی صورت میں اپنے نام سے شائع کرتے رہتے ہیں اصل نام اور مقام معلوم نہیں بس (ایم این کے) کا لوگو استعمال کرتے ہیں کو قران مجید کی ایک آیت پیش کی جسکے جواب سے مجھے معلوم ہُوا کہ موصوف نمبر دو کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اسلئے اللہ کریم کو تو مانتے ہیں لیکن اللہ کریم کی صرف اُنہی باتوں کو مانتے ہیں جو انکا دِل قبول کرتا ہے۔ اور جسکی تصدیق انکا ذہن کردیتا ہے ۔

میں آپکو اُس مباحثے کا ایک حصہ ضرور پڑھوانا پسند کرونگا۔جو کُچھ یُوں ہے،

عشرت اقبال وارثی آپ نے لکھا ہے کہ ،، منکر ین حدیث کے لئے قرانِ مجید کی صرف ایک آیت ہی کافی ہے جسکا جواب منکرین حدیث قیامت تک نہیں دے سکتے اور وہ آیت ہے

قُل اِن کُنتم تُحبونَ اللہ فاتبعونی یحببکمُ اللہ
(سورہ آلِ عمران۔31)۔

ترجمہ ،، آپ فرمادیجئے اگر تُم اللہ تعالی سے مُحبت رکھتے ہُو تو میری اتباع کرو اللہ تعالی تُم سے مُحبت کرے گا

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی کا واحد ذریعہ ہے کُتب احادیث اور کُتب سیرت جسکے ذریعہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات، اور آپکی سُنت کو جانا جاسکتا ہے

جسکے جواب میں (ایم این خالد منکر حدیث ) اتباع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غُلامی سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں
کس کی غُلامی اللہ کی یا انسانوں کی؟

ہر دو غُلامی کا ایک ہی نتیجہ ہے انسان میں تبدیلی

معاذ اللہ ثُم معاذ اللہ کسقدر کُھلا کُفر ہے اس ایک جملے میں کہ یعنی غُلامی چاہے اللہ عزوجل کی ہُو یا کسی مخلوق کی انسان کو بدل دیتی ہے۔
اسکے بعد لکھتے ہیں کہ

اور ہاں غُلامی ایک کی ہُوتی ہے ہزاروں کی نہیں ۔

قارئین محترم غور کیجئے کسقدر خطرناک عقیدہ ہے کہ پہلے موصوف نے اتباع کو غُلامی سے تعبیر کیا اور اُسکے بعد صریح طور پر اس غُلامی سے آزادی کا نعرہ بلند کردیا

ذرا غُور کیجئے اگر اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلامی ہے تو ہمیں اس غُلامی پر ناز ہونا چاہیئے تھا کہ یہ غُلامی ہم نے از خُود حاصل نہیں کی بلکہ یہ تو اللہ کریم کا حُکم تھا

جب ہم اللہ کریم کو مان رہے ہیں تو اللہ کریم کی کیوں نہ مانیں۔

اور اگر وہ یہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کے مدنی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی غُلامی کریں تو ہمیں کیوں انکار ہوگا

اسلئے اگر مالک کی رضا ہے کہ ہم اسکے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی غلامی کریں ،، تب غُلامی تو کرنی ہی پڑے گی،، ورنہ انکار کی صورت میں ہمارا بھی وہی حشر ہوسکتا ہے جو ابلیس لعین کا ہُوا تھا اُسے بھی آدم کے سامنے جھکنا غُلامی لگتا تھا جسکی وجہ سے انکار کر بیٹھا کہ میں اللہ کریم کے حُکم کے باوجود بھی کسی اور کی غُلامی نہیں کرونگا اور نتیجہ آپکو معلوم ہی ہے کہ دھتکار دیا گیا اور آج تک دُنیا میں ذلیل پھر رہا ہے ۔

اور آج اُسکی ذریت سے ایک شخص نے پھر برملا حُکم خدواندی کا انکار کرتے ہُوئے اعلان کیا ہے کہ اتباع تو غُلامی ہے اب چاہے اس غُلامی کا حُکم اللہ کریم ہی کیوں نہ دے مجھے یہ غُلامی قبول نہیں۔

ذرا یاد کیجئے شیطان کا وہ مکالمہ جو وہ اللہ کریم سے کر رہا تھا کہ میں اللہ کو واحد مانتا ہُوں لیکن اللہ کریم کا یہ حُکم ماننے سے قاصر ہُوں کہ آدم کو سجدہ کروں۔ میں خُدا کے سِوا کسی کو سجدہ نہیں کرسکتا لیکن اسکا موحد ہونا اسے ذلیل ہونے سے نہیں بچا سکا کیوں کہ وہ یہ تو دیکھ رہا تھا کہ آدم علیہ السلام غیرِ خُدا ہے لیکن یہ بھول رہا تھا کہ آخر سجدہ آدم کا یہ حُکم بھی وہی رب عزوجل دے دہا ہے جسکی حکم عدولی کی سزا سوائے ذلت کے کُچھ بھی نہیں۔

اور فرشتے یہ سُوچ کر سجدہ تعظیم بجا لائے کہ اگرچہ خُدا کے سِوا کسی کو سجدہ جائز نہیں لیکن اِس سجدہ کا حُکم بھی تُو وہی دے رہا ہے جسکی اطاعت کے بِنا چارہ نہیں جس کے حُکم پر عقل کے گھوڑے نہیں دوڑائے جاتے بلکہ چُپ چاپ اطاعت کیلئے سر جھکا دیا جاتا ہے

،، کیوں کہ حُکم ادب پر فوقیت رکھتا ہے،،

اور غلام اپنے مالک سے سوال جواب کا حق نہیں رکھتے اور نہ ہی غُلام مالک سے دلیل طلب کرتے ہیں بلکہ ہر حُکم پر بِلا چُون و چرا سَر کو جھکا دیا کرتے ہیں جو سر کو جھکا لیتے ہیں وہ کامیاب اور کامران ٹہرتے ہیں اور جو سوال جواب میں اُلجھ جاتے ہیں وہ دُنیا میں بھی ذلیل و رُسوا ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی دھتکار دئیے جائیں گے

اللہ کریم کی بارگاہ میں دُعا ہیکہ ہمیں ایسے تمام فتنوں سے محفوظ رکھتے ہوئے اپنے مدنی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے تاکہ ہم کل قیامت میں غُلامان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہُوں ناکے غلامان شیطان کیساتھ
آمین بِجاہِ النبی الامین وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1060437 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More