|
|
خطاطی کی بات کریں تو یہ صدیوں پرانا ہنر ہے۔ اسلامی
خطاطی میں عربک کیلی گرافی کے علاوہ عثمانی دور کی کیلی گرافی بھی مشہور ہے
۔ عثمانی خلیفہ کے دور میں ایک خاص قسم کا خطاطی اسٹائل کا دستخط مشہور تھا
۔ خطاطی کو تغرہ، دستخط، عبارت اور خط لکھنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا
تھا ۔ |
|
خطاطی کے قلم: |
خطاط اپنے قلم کو خود ہی اپنی مرضی کے مطابق تراشتے ہیں
، وہ لکڑی یا بانس کے چھوٹے ٹکڑوں کو مہارت سے کاٹ کر نوک بناتے اور اس پر
پالش کرتے ہیں ۔ خطاطی کے کئی انداز کے قلم ماہرین نے اپنی مرضی سے تیار
کئے ہیں ، ان میں سے کچھ انداز کے مشہور قلم مندرجہ ذیل ہیں۔ |
|
خامش قلم: |
خطاطی کو کرنے کیلئے ایک خاص قسم کا لکڑی کا قلم
استعمال کیا جاتا ہے ، تاہم کچھ عربک، فارسی اور ترک خطاط مخصوص قسم کے
”خامش قلم (Khamish Pen) استعمال کرتے تھے ، اس قلم کو تیار کرنے میں بہت
وقت لگتا تھا ۔ یہ قلم 500 سال تک استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ |
|
|
|
بانس کی لکڑی کا قلم: |
خطاطی کیلئے ”بانس کی لکڑی کا قلم“ بھی صدیوں سے استعمال
کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ اس کی نوک اتنی اچھی ہوتی تھی کہ وہ خطاط کی مرضی کے
مطابق بہ آسانی الفاظ کو تحریر کردیتی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس قلم کو خطاط
کی پسندیدگی حاصل رہی ۔ |
|
جاوا قلم: |
چھوٹے اور باریک الفاظ پر مشتمل خطاطی کو لکھنے کیلئے
جاوا قلم کا استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ اس کی نوک باریک ہوتی ہے اور یہ
کم جگہ میں زیادہ الفاظ کو خطاطی کے انداز میں تحریر کردیتی ہے ۔ شاعری،
خطوط اور کتابیں وغیرہ لکھنے کیلئے اس قلم کا استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ |
|
ہندم قلم: |
ہندم قلم(Handam pen) بھی جاوا قلم کی طرح ہی باریک نوک پر مشتمل ہوتا ہے
اور یہ چھوٹے چھوٹے الفاظ تحریر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ |
|
|
|
سیلی قلم: |
یہ عربک کیلی گرافی کے بڑے الفاظ کو تحریر کرنے کیلئے
استعمال کیا جاتا ہے۔ اس قلم کو لکڑی سے تیار کیا جاتا ہے اور اسے کاٹ کر
قلم کے انداز میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ |
|
خطاطی کے انداز: |
خطاطی مختلف رسم الخط میں کی جاتی ہے ۔ عربی خطاطی میں
کیوفک (kufic) اور نسخ (Naskh) رسم الخط زیادہ استعمال ہوتا ہے ۔ اس کے
علاوہ دیگر مشہور رسم الخط میں نستعلیق، دیوانی ودیگر شامل ہیں ۔ آج بھی
کئی مشہور مقامات خطاطی کا استعمال کیا جاتا ہے جیسے دنیا کی مشہور ائیر
لائن امارات کا لوگو بھی عربی کیلی گرافی میں لکھا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی
خطاطی کوایک خاص مقام حاصل رہاہے۔ یہاں بھی یہ ہنر کئی نسلوں کی منتقلی کے
بعد آج کے دور کے لوگوں تک آیا ہے ۔ 1970میں پاکستان میں خطاطی اپنے عروج
پر تھی ، صرف کاغذ ہی نہیں بلکہ کینوس، کپڑے اور لکڑی پر بھی خطاطی کئے
جانے کا عمل جاری رہا ۔ مختلف مٹیریل اور تیکنیکس کو استعمال کرتے ہوئے
مختلف رنگوں میں قلم کو ڈبو کو ماہرین نے ایسے شاہکار تخلیق کئے جو دیکھنے
والوں کو حیران کردینے کیلئے کافی ہوتے تھے ۔ بیرون ممالک میں ان خطاطی
پینٹنگز کو بہت پسند کیا جاتا تھا اور یہ مہنگے داموں خریدی جاتی تھیں ،
تاہم 1980 کے بعد خطاطی کی طرف سے لوگوں کا دھیان ہٹنا شروع ہوا ۔ پہلے پہل
صحافتی اداروں میں خطاط ہیڈنگز ہاتھوں سے لکھتے تھے ، کئی جریدوں جیسے
اخبار جہاں وغیرہ کا لوگو بھی ماہر خطاط کے ہاتھوں کا تخلیق کردہ ہے ۔ تاہم
کمپیوٹر کا دور آنے کے بعد صحافتی اداروں سے خطاط کا کام ختم ہوا اور وہ بے
روزگار ہونا شروع ہوئے۔ اب کئی خطاط مقامی کالجز یا نجی اداروں میں طلبہ کو
اسلامی کلچر اور پاکستانی ویژول آرٹس کے مضامین میں شامل خطاطی کے اسباق کو
پڑھاتے دکھائی دے رہے ہیں ، تاہم ان کی تعداد بہت کم ہے، اسلئے کہا جاسکتا
ہے کہ اب یہ ہنر معدومیت کی جانب گامزن ہو رہا ہے ۔ |
|
|
|
جامعہ کراچی کی ڈگریوں
پر اردو خطاطی: |
جامعہ کراچی کی ڈگریوں پر اردو خطاطی میں خوبصورتی سے
لکھے جانے والے نام اور درجے کو دیکھ کر لوگ یقیناً حیران ہوتے ہوں گے تاہم
آپ کو بتادیں کہ شعبہ امتحانات میں دو اردو ماہر خطاط عامر الیاس اور ریحان
مصطفیٰ ڈگریوں پر خطاطی کے ذریعے نام لکھتے ہیں ۔ یہ فاؤنٹین پین کی نب کو
کٹ کرکے اسے انک میں ڈبو کر نام لکھتے ہیں ۔ عامر نے 1995 میں یونیورسٹی کی
جانب سے ایک اشتہار دیکھاتھا جس میں خطاط کی ضرورت تھی ، انہوں نے اپلائی
کیا اور یوں وہ یہاں آگئے ، انہوں نے خطاطی اپنے بڑے بھائی سے سیکھی تھی ۔
ابتدا میں وہ 30 سے 35 ڈگریوں پر نام وغیرہ تحریر کرتے تھے، اب ایک دن میں
وہ 70 سے 72 ڈگریو ں پر نام لکھتے ہیں ۔ |
|
|
|
ان کے ساتھ کام کرنے والے مصطفی نے 2006 میں جوائن
کیا اور جب سے ہی وہ عامر کے ساتھ ان کا ہاتھ بٹا رہے ہیں ۔ اس وقت جامعہ
کراچی وہ واحد یونیورسٹی ہے جو کہ اردو خطاطی سے نام وغیرہ لکھوانے کا یہ
سلسلہ اب تک جاری رکھے ہوئی ہے ۔ یہاں اب ایک دن میں 400 سے 500 ڈگری کی
درخواستیں موصو ل ہورہی ہے، اس لئے ہوسکتا ہے کہ عنقریب خطاطی سے ڈگری
لکھنے کا سلسلہ جامعہ کراچی سے بھی ختم ہوجائے اورسے بھی کمپیوٹرائزڈ کردیا
جائے۔ |