ایک نظر پیار کی قسط نمبر: 7

ان دیکھے, انجانے ہزاروں وسوسے دل میں لیے وہ غزوان کی محبت پر بھروسہ کرکے رخصت ہوکر رقیہ کے گھر آ گئ تھی۔ آگے کا سفر اسکے لئے یقینا بارات اور ولیمے کا اسٹیج نہیں تھا جہاں ہر کوئ اسکی خوبصورتی کا مداح ہو رہا تھا۔ بارات میں وہ شہزین سے زیادہ اور ولیمے میں امبرین سے کہیں زیادہ دلکش نظر آرہی تھی۔ ایک لمحے کےلئے احزم نے اسے نظر بھر کر دیکھا ضرور تھا ایک انجانی کسک تھی اس کے دل میں شاید اسے یقین نہیں تھا کے مہرش کو بھی ایسا ہمسفر مل سکتا ہے ۔
غزوان نے جتنے وعدے کئے تھے اس سے بڑھ کر نبھائے۔ جب تک وہ گھر میں رہا اسے گھر کے ایک ایک کونے تک کا راستہ سمجھا دیا۔ پھپھو کا کمرہ امبرین اور فیضان کا کمرہ ڈرائنگ روم ٹیرس کچن اور کچن میں رکھی ہوئی ہر چیز سے اسکی واقفیت کرائی۔ حالانکہ وہ پہلے بھی پھوپھو کے گھر آتی رہی تھی لیکن مہمان بن کر آنے اور مستقل رہنے میں فرق تھا۔ رقیہ نے جان بوجھ کر اسے اوپر کا اور امبرین کو نیچے والا کمرہ دیا تھا۔ اپنے گھر میں تو وہ آرام سے سیڑھیاں چڑھتی اور اترتی تھی لیکن یہاں سیٹ ہونے کے لئے اسے وقت چاہیے تھا۔ اسی بات کو لیکر غزوان اور رقیہ کے درمیان اختلافات ہوتے رہتے تھے۔
امی کل سے مجھے آفس جانا ہے آپ پلیز ثوبیہ سے کہیں وہ مہرش کو کچن میں دیکھ لیا کرے۔اسے ابھی چیزوں کا ٹھیک طرح اندازہ نہیں ہے۔ وہ رات کو رقیہ کے کمرے میں آیا تھا۔
کیا مطلب دیکھ لیا کرے ایک کام بولا ہے تمہاری بیوی سے وہ کرنے میں بھی اسے اعتراض ہے۔ رقیہ نے حسب عادت جواب دیا۔
اعتراض نہیں ہے امی لیکن ابھی اسے اندازہ نہیں ہے چیزوں کا۔
واہ بھئی اور کتنا ٹائم چاہیے اندازہ کرنے کے لیے۔ ویسے تو بھابھی بیگم بڑے گن گاتی تھیں کے میری بیٹی بڑی سگھڑ ہے جس گھر میں جائے گی چار چاند لگادے گی اور یہاں اسکے بہانے ہی نہیں ختم ہو رہے۔ اوپر سے اتنا بد مزہ کھانا بناتی ہے کبھی نمک کم ہو جاتا ہے کبھی مرچیں تیز۔
یہی تو سمجھانا چاہ رہا ہوں امی اپنے گھر میں اسے ہر چیز کا اندازہ تھا کتنے سالن میں کتنا نمک مرچ ڈالنا ہے۔ اب یہاں آپ یا ثوبیہ اسے گائیڈ کردیںگی تو وہ سمجھ جائے گی۔
اسی دن کے لئے منع کیا تھا تمہیں اس نابینا سے شادی مت کرو۔ اب امبرین کو دیکھو کتنی جلدی ایڈجسٹ کر لیا اس نے۔ اور کتنا لذیز کھانا بناتی ہے دیکھ کر ہی دل خوش ہوجاتا ہے۔اچھا ہوا جو میں نے اسکی شادی فیضان سے کردی کم از کم ایک بہو تو سلیقہ مند آئی۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح شکوہ دہرایا۔
مجھے سمجھ نہیں آتا امی جب مہرش سے ہمدردی دکھانی ہوتی ہے یہ سوچنا ہوتا ہے کے وہ نابینا ہے باقی سب کی طرح نہیں ہے تب آپ لوگ اسے سب کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔ اور جب یہ سمجھنا ہوتا ہے کے وہ بھی امبرین اور ثوبیہ کی طرح ایک جیتی جاگتی احساس رکھنے والی لڑکی ہے تب آپ اسکا موازنہ شروع کر دیتے ہیں۔ غزوان اٹھ کر چلا گیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کے اب اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ چاہے نہ چاہے اسکے گھر والے مہرش اور امبرین کو ترازو کے پلڑوں میں تولتے رہیں گے جس میں توازن لانا نہ آسکے بس میں تھا نہ مہرش کے۔
امبرین نے اٹالین چائنیز کونٹینینٹل بیکنگ اور نہ جانے کوکنگ کے کون کون سے کورسس کئے ہوئے تھے۔ وہ کھانے کے ذائقے سے ذیادہ اسکی ڈیکوریشن پر توجہ دیتی۔ البتہ نہاری کڑی اور پائے جیسے دیسی کھانے بنانے نہیں آتے تھے اسے۔
گھر کی صفائی ستھرائی اور سجاوٹ میں بھی خاص دلچسپی نہیں تھی اسے۔ برتن دھونے سے اسکے نیلز خراب ہو جاتے۔ ثوبیہ اپنی اسٹڈیز میں بزی رہتی تھی۔آہستہ آہستہ گھر کی زمہ داریاں اسی پر آتی جارہی تھیں کچھ عادت سے مجبور ہوکر اور کچھ سب کا دل جیتنے کے لئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہزین کو اپنے سسرال میں ایڈجسٹ کرنے کے لئے ذیادہ جتن کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ تابندہ اطیب اور احزم نے اسے پلکوں پر بٹھایا تھا۔ شروع شروع کے دن اس نے گھومنے پھرنے میں گزار دیئے۔ جب گھر کی زمہ داری اٹھانے کا وقت آیا تو بڑے سلیقے سے اسنے تابندہ کو یہ کہہ کر ٹال دیا کے اسے کچھ نہیں آتا۔ گھر کے باقی کام تو ماسی ہی کرتی تھی لیکن کھانا پکانا ابھی تک تابندہ کی ہی زمہ داری تھی۔ اوپر سے شہزین کی اسٹڈی اسٹارٹ ہوگئ تھی۔ صبح وہ یونیورسٹی چلی جاتی۔ واپس آکر سوجاتی۔ احزم کے آنے سے پہلے ہی وہ اٹھ کر آتی تھی۔
اپنی بیوی سے کہو کم از کم شام کی چائے ہی بنا کر دے دیا کرے تمہیں۔ تابندہ نے چائے دیتے ہوئے شکوہ کیا۔
وہ تو کہتی ہے امی لیکن آپ کو پتا ہے اسکے ہاتھ کی چائے پسند نہیں ہے مجھے۔ پورا دن آفس سے تھک کر آتا ہوں گھر آکر آپکے ہاتھ کی چائے پیتا ہوں تو فریش ہوجاتا ہوں۔
ہاں لیکن اسے بھی تو سکھانا ہے نا۔ وہ اپنے موقف پر قائم تھیں۔
سیکھ جائے گی ابھی پڑھائی میں بھی بزی ہے۔ اتنی جلدی کیا ہے۔ اس نے شہزین کو صاف بچایا۔
سیکھنا چاہےگی تو سیکھے گی نہ۔ تابندہ کو یقین نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رخشندہ کو یقین تھا شہزین کی طرح مہرش بھی اپنے سسرال والوں کا دل اپنی مٹھی میں کرلے گی۔ وہ حیران تھیں تو بس یہ سوچ کر کے جس بیٹی کے رنگ ڈھنگ سے وہ عاجز تھیں وہ اپنے سسرال میں عیش وعشرت کے ساتھ رہ رہی تھی۔ اور جس بیٹی کے سلیقے اور قرینے کے وہ گن گاتی تھیں اس بیٹی کو سسرال والوں کا دل جیتنے کے لئے اتنے جتن کرنے پڑ رہے تھے یہ نصیب تھا یا لوگوں کی سوچ۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں نے مہرش کے ساتھ بڑی نا انصافی کردی۔ وہ جنید سے شکوہ کئے بغیر نہ رہ سکیں۔
کیسی نا انصافی؟ وہ حیران تھے۔
آپ دیکھیں نا اسکی فطری کمزوری اسے دوسری لڑکیوں سے الگ نہ کردے یہ سوچ کر میں نے اسے ہر طرح سے گھر داری میں ماہر کردیا یہ سوچے بغیر کے میری بیٹی کسی کے گھر ماسی یا ملازمہ بن کر نہیں جائےگی۔انکی آنکھوں میں نمی تھی۔
کیسی باتیں کر رہی ہو رخشی تم نے جو کیا وہ ٹھیک تھا ہر عورت کو گھر کی ذمے داری اٹھانی پڑتی ہے گھر کے کام کرنا صرف ماسی یا ملازمہ کی ذمے داری نہیں ہوتی ہر عورت کو گھر سنبھالنا پڑتا ہے۔
ہاں لیکن شہزین بھی تو خوش کے نا اپنے گھر میں عیش کر رہی ہے۔ اور وہ مہرش کی دیورانی امبرین وہ تو بس ایک وقت کا کھانا بناتی ہے اور سب اسکی واہ واہ کرتے ہیں۔ ساری زمہ داری تو ہماری مہرش پر ہے نا۔
ذمے داری اسی پر ڈالی جاتی ہے جو زمہ داری اٹھانے کے قابل ہو۔ آج نہیں تو کل رقیہ کو یہ بات سمجھ آجاۓ گی۔ جنید نے بات ختم کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی آئندہ

 

Sana Waheed
About the Author: Sana Waheed Read More Articles by Sana Waheed: 25 Articles with 35357 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.