منفی سے مثبت تک کا سفر

اسکرپٹ رائٹنگ

منفی سے مثبت تک کا سفر

از قلم گلشن اقبال
آفیشل رائٹر زاد راہ ڈائجسٹ ناول محل

آنکھوں پہ موٹے شیشے والا چشمہ لگائے گلے میں سٹوڈنٹ کارڈ ڈالے ڈھیلی ڈھالی پیٹ شرٹ جو کے روزانہ دھلنے اور استری ہونے کے باوجود احمد کے گھریلو حالات کا پتہ دے رہی ہے۔۔۔ہاتھوں میں چار پانچ کتابیں پکڑے یورنیورسٹی کیفے کے سامنے کھڑا کسی سنسان جگہ کی تلاش میں اپنی نظریں گھما رہا ہے تاکہ وہ اپنے نوٹس مکمل کر سکے۔۔۔۔
لیکن اسے کہیں کوئی خالی جگہ نظر نہیں آرہی۔۔۔۔
احمد بہت ذہین اور لائق اسٹوڈنٹ ہے اور ہر سمسٹر میں فل جی۔پی۔اے حاصل کرتا ہے ہر کوئی اس کے نوٹس استعمال کرتا ہے لیکن اس کے فیملی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے کوئی اسے دوست نہیں بناتا کیوں کہ وہ ایک بہت غریب فیملی سے ہے اس کی امی لوگوں کے گھروں میں کام کر کر کے احمد کی پڑھائی کا خرچ برداشت کر رہی ہیں کچھ احمد اپنی ذہانت کی وجہ سے ہر مہینے وظیفہ لیتا ہے اور اپنا گزارا کر رہا ہے۔۔۔۔
احمد تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے اور تینوں بہنوں سے چھوٹا ہے اس لیے اس کی امی اور بہنوں کی خواہش ہے کہ احمد اپنی تعلیم مکمل کر کے اچھی نوکری پہ لگ جائے۔۔۔احمد بچپن سے ہی بہت لائق تھا اور اس کے ابو(اکرام) کی اکلوتی اولاد نرینہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی احمد کو بہت پڑھانا لکھانا چاہتے تھے لیکن ان کی زندگی نے اتنی مہلت نہ دی کہ وہ اپنے بیٹے کو کچھ بنتا دیکھ سکیں جب احمد نے میٹرک میں ٹاپ کیا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے اور جلدی سے مٹھائی لینے گئے جب وہ دروازے سے نکلے تو اپنی ہی سوچوں میں گم احمد کو ایک اچھی جگہ شاندار نوکری کے ساتھ اور اپنی غربت ختم ہوتا دیکھ رہے تھے لیکن غریب کو تو خوشی بھی راس نہیں آتی۔۔۔۔۔
اپنی ہی سوچوں میں گم جب سڑک پار کرنے لگے تو دنیا جہاں سے بے خبر، بےنیاز چلتے جا رہے تھے انہیں نہ تو کسی کی آواز کانوں میں پڑ رہی تھی نہ ہی سڑک پہ دوڑتی گاڑیوں کے ہارن سنائی دے رہے تھے۔۔۔وہ سڑک پار کرنے لگے جب تیز سپیڈ گاڑی آئی اور ایک دم تیز ہرن کے ساتھ ٹائروں کے چڑچڑانے کی آواز آئی۔
جب اکرام صاحب کو ہوش آیا گاڑی بلکل ان کے عین سامنے تھی اور وہ گر چکے تھے اور سر عین ٹائر کے نیچے آرہا تھا۔۔۔ایسا گرے کہ پھر اٹھ نہ سکے بس اتنی سی دیر میں وہ خوشی وہ خواب وہ سب امیدیں،خواہشیں سب ایک ایک کر کے سامنے آرہی تھیں اور آہستہ آہستہ اکرام صاحب کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں جو دوبارہ کبھی نہ کھلیں۔۔۔۔
اس طرح احمد اور تین بیٹیوں کی ذمہ داری اکیلی ماں(سکینہ) پہ آگئی۔
لیکن سکینہ نے بہت محنت سے اپنے بچوں کو پالا۔ بہت سے ایسے دن بھی ایسے بھی آئے جب سکینہ نے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے خود بھوک نہ ہونے کا جھوٹ بولا۔۔۔۔۔
سکینہ کی محنت اور خود احمد کی ہمت و حوصلہ کی وجہ سے آج احمد یورنیوسٹی میں بی۔بی۔اے کے پانچویں سمسٹر میں ہے اور ہر سمسٹر میں وہ اپنی محنت سے پوری کلاس میں ٹاپ کرتا ہے۔
کیفے میں ہر طرف لڑکیاں اور لڑکے گروپ بنا کر بیٹھے ہیں ہر کوئی اپنی موج مستی میں تھا لیکن جیسے ہی احمد کیفے میں داخل ہوتا ہے تو دائیں جانب اسی کی کلاس کے کچھ لڑکیاں لڑکے بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہیں جبکہ بائیں جانب باقی جونیئرز بیٹھے تھے۔۔۔۔دروازے کے عین سامنے ارسل کا گروپ تھا جو کہ چار لوگوں پہ مشتمل ہے جن میں مہمل، زہرا، اسد اور خود ارسل ہیں جو کہ بہت امیر خاندان سے اور بہت ہی عیاش طبیعیت رکھتے ہیں اور ہر انسان کا مذاق بنانا ان کی عادت میں شامل ہے جیسے ہی احمد کیفے میں داخل ہوا ارسل ایک دم بول اٹھا اوئے بیٹری ادھر آ۔۔۔۔آج کس سبجیکٹ کے نوٹس بنائے ذرا ہمیں بھی دیا کر تاکہ ہم تمہاری طرح ٹاپ نہیں تو اچھے نمبر لےکر پاس ہوگیا کریں۔۔۔۔۔ویسے تو ہمارے لیے اچھے نمبر لینا کوئی مشکل بات نہیں کیوں اسد۔۔۔۔وہ ایک آنکھ دبا کے اسد کو اشارہ کرتا اور پھر چاروں ایک دم سے قہقہے لگاتے جس سے پورا کیفے گونج اٹھا۔۔۔۔۔
ارسل اور اس کے ساتھی ایک امیر خاندان سے ہیں اور ان کے سامنے ہر چیز کی قیمت ہے اور وہ قیمت ادا کر کے سب کچھ حاصل کرنے کے قائل ہیں اس لیے وہ یورنیورسٹی میں پڑھائی کم اور انجوائے زیادہ کرنے آتے ہیں۔۔۔۔۔
شروع میں تو کوئی احمد کو منہ نہ لگاتا اور اس کا صرف مذاق بنایا جاتا اور بیٹری بیٹری اور گتابی کیڑا کہہ کر ستاتے تھے لیکن اس کی محنت اور اچھی پوزیشن کے باعث ارسل اب کچھ بات چیت کر لیتا۔۔۔۔
ارسل اور اس کا گروپ مل کر احمد کا مذاق بناتے کیوں کہ وہ بہت پڑھاکو ہے اور ہر وقت اپنی کتابوں میں سر دیے رہتا ہے۔۔۔۔اتنے میں کلاس کا ٹائم ہوتا اور سب اٹھ کے چلے جاتے لیکن احمد ہمیشہ کی طرح صرف اپنی بے بسی پہ خاموشی سے کڑھ کر رہ جاتا۔۔۔۔سب جا رہے ہیں اور ارسل ایک دم سے احمد کے پاس آیا اور اونچی آواز میں بولا کیوں کیڑے تم آج کلاس میں نہیں جاؤ گے کیا۔۔۔۔۔آج سورج کدھر سے چڑھا کہ تم ابھی تک کلاس میں نہیں گئے لیکن احمد جواب نہیں دیتا اور چپ کر کے چیزیں سمیٹ کر کلاس کی راہ لیتا۔۔۔۔۔۔
ایک ہوا دار کھلا روشن کمرہ جس میں کرسیاں لگی ہوئی ہیں اور سب جا کر اپنی اپنی جگہ پہ بیٹھ گئے سر عمر جو کہ اکاؤٹنس پڑھاتے ہیں وہ بھی کلاس میں آچکے تھے اور سامنے ڈائس پہ کھڑے سب کو لیکچر دینے کو تیار تھے۔۔۔۔جب احمد کلاس میں داخل ہوتا ہے تو سب
ہلکی ہنسی کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں جو سر عمر کو متوجہ کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے سر کو سمجھ آجاتی ہے کہ وہ کیوں ہنس رہے ہیں تو سر گلا گھنگھار کے سب کو متوجہ کرتے ہیں اور احمد کو اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں اور سب کو سمجھانے والے انداز میں کہتے ہیں کہ ہم سب ایک ہی خدا کی مخلوق ہیں۔۔۔۔امیر یا غریب گھر میں پیدا ہونا ہمارا قصور نہیں ہوتا بلکہ یہ خدا کی طرف سے ہمارے لیے ایک امتحان ہوتا۔۔۔۔
کچھ لوگ غریب گھر میں پیدا ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے ان پہ کرم ہوتا ہے اور اپنی قابلیت کی بنا پہ انہیں اتنا رزق عطا ہوتا ہے کہ وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن ایسے ہی دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں لیکن جب وہ جوان ہوتے ہیں تو ان کی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے ان کی ساری دولت ضائع ہو جاتی ہے۔۔۔۔
اس لیے ہمیں کبھی بھی کسی کو کم تر نہیں سمجھنا چائیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلاس ختم ہونے کے بعد جب سب اپنے اپنے گھروں کر جا رہے ہوتے ہیں تو احمد بھی اپنا سامان سمیٹ کے گھر کو نکلتا۔۔۔۔ارسل لوگ ہمیشہ چھٹی کے بعد کبھی لانگ ڈرائیو تو کبھی لنچ کرنے نکل جاتے لیکن آج ارسل کو سر کی باتوں پہ کچھ عجیب سا محسوس ہوا کہ وہ جب پارکنگ میں آیا تو سب کو خدا حافظ کہے بنا ہی نکل کھڑا ہوا اور فضول سڑکوں پہ گاڑی گھماتا رہا ادھر۔۔۔۔
احمد جب گھر آیا تو اس کی امی کھانا بنا رہی تھیں جبکہ بہنیں بھی گھر کے ہی کام کاج لگی ہوئی تھیں لیکن احمد آج گھر میں داخل ہوا تو نہ سلام۔کیا نہ ہی امی کا پوچھا جس پہ بہنوں اور امی کو سمجھ لگ گئی کہ آج پھر یونی میں کچھ ایسا ہوا ہے جس نے احمد کو اداس کیا ہے۔۔۔۔
احمد خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا لیکن امی نے جان بوجھ کر اس کا خیال بٹانے کے لیے اسے مارکیٹ سے کچھ سوالات لانے بھیجا۔۔۔احمد اپنے ہی خیالوں میں جب مارکیٹ جا رہا تھا تو اسے راستے میں لوگوں کا ہجوم نظر آیا لیکن وہ اپنے خیالوں میں اتنا محو تھا کہ کچھ نظر نہ آیا۔۔۔
لیکن ایک دم اس کے دماغ میں کچھ آیا تو اس نے ادھر ادھر دیکھا تو اس نے لوگوں کا ہجوم دیکھا وہاں کوئی جانا پہچانا چہرہ تھا جب وہ پاس گیا تو ایک دم اس کی آنکھیں کھل گئیں کہ سامنے تو ارسل خون میں لت پت پڑا ہے احمد فورا سے ایمولس کو کال کرتا ہے اور ارسل کو ہسپتال لے جاتا ہے اور اس کے گھر بھی اطلاح دے دیتا ہے ۔۔۔جب ہسپتال پہنچے تو ارسل کو ایمرجنسی میں لے گئے اور وہ باہر راہ داری میں انتظار کرنے لگا اتنے میں اس کے والدین آئے سوٹڈ بوٹڈ ویل ڈریس ارسل کی امی ہلکا ہلکا میک اپ کیے جیولری پہنے ہاتھوں میں مہنگا موبائل پکڑے لیکن چہرے پہ پریشانی صاف عیاں تھی آئی اور سامنے احمد کو دیکھ کر منہ بنا لیا جیسے اس سے بات کرنا اپنی توہین سمجھتی ہو۔۔۔۔لیکن ارسل کے ابو نے احمد سے اچھے لہجے میں بات کی اور ساری صورت حال پوچھی اور ڈاکٹر کا انتظار کرنے لگے اتنے میں ڈاکٹر واپس آتے تو اس کے ابو جلدی سے ڈاکٹر سے ارسل کا حال پوچھتا ڈاکٹر کہتا کہ آپ احمد کا شکریہ ادا کریں جو وقت پہ ارسل کو ہسپتال لایا اور زیادہ خون بہنے سے بچ گیا ارسل کے ابو شکر گزار نظروں سے احمد کو دیکھنے لگے۔۔۔۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر ارسل سے ملنے کی اجازت دے دیتا ہے تو ارسل کے والدین روم میں ملنے جاتے ہیں اور اسے احمد کا بتاتے ہیں تو اسے یاد آتا ہے کہ آج یورنیورسٹی میں اس نے سب کے ساتھ مل کے احمد کا کتنا مذاق بنایا تھا یہ سوچ کر ہی اس کی نظریں شرم سے جھک جاتی ہیں اور وہ احمد سے ملنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔۔۔۔احمد اندر آتا ہے تو ارسل اس سے معافی مانگتا ہے اور دوستی کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے۔۔۔۔۔
6 ماہ بعد۔۔۔۔
احمد اور ارسل دونوں ایک ہی برینڈ اور ایک جیسے کپڑے جو کہ ارسل احمد کو تحفے میں دیتا ہے پہنے یونی داخل ہوتے ہیں کیوں کہ آج رزلٹ کا دن تھا ان کے ساتویں سمسٹر کا نتیجہ نکلنے جا رہا تھا ارسل اور احمد کو جب نتیجے کا علم ہوا تو دونوں بہت خوش ہوئے کیوں کہ ارسل نے اس دفعہ اپنی محنت سے جو کہ احمد کی وجہ سے کی دونوں کا جی۔پی۔اے برابر تھا۔
دونوں ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہوئے گلے لگا لیتے ہیں اور باقی سب دوست تالیوں سے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔۔۔۔
ارسل معافی کے بعد دوستی کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے جو کہ احمد قبول کر لیتا ہے اس طرح احمد ارسل کی پڑھائی میں بھی مدد کرتا اور اور احمد کے خود دار ہے اس لیے وہ ارسل کے تحفے قبول نہیں کرتا اس وجہ سے ارسل اس کی مدد اپنے ابو کے آفس میں نوکری لگوا کے کر دیتا ہے اس طرح اس کی خود داری بھی بحال رہتی ہے اور مدد بھی ہو جاتی ہے۔

سچ ہے کہ کوئی بھی رشتہ خلوص دل سے بنایا جائے تو اس میں کبھی بھی دھوکے کا ڈر نہیں ھوتا۔اور وہ ہمیشہ انسان کی منفی سوچ کو مثبت میں بدل دیتاہے۔
 

Gulshan Iqbal
About the Author: Gulshan Iqbal Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.