کلرک بادشاہ

 اس دنیائے فانی میں مختلف قسم کی مخلوق پائی جاتی ہے،پھر بہ رضائے الہی ہر مخلوق بھی کئی قسموں میں بٹی ہو ئی ہے۔ جیسے انسان جیسی اشرف المخلوقات میں بھی مختلف المزاج اور مختلف الطبیعت کے لوگ پائے جاتے ہیں البتہ اس میں ایک مخلوق ایسی بھی ہے جس کے ساتھ ہر انسان کا واسطہ سکول میں داخل ہونے سے لے کر قبر میں داخل ہونے تک پڑتا رہتاہے۔ بھلا ایسی مخلوق کون سی ہو سکتی ہے ؟ زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ،وہ مخلوق یقینا صرف کلرک صاحبان ہیں۔ انگریزوں کے ہم پر اور بھی بے شمار احسانات ہیں مگر ایک بڑا احسان یہ بھی ہے کہ انہوں نے کلرک بنائے اور بڑی عزت و تکریم بھی عطا کی۔ کسی گاؤں ،تحصیل یا ضلع میں کلرک کو ہمیشہ بابو صاحب سے پکارا جاتا تھا بلکہ ابھی بھی بابو صاحب ہی کہا جاتاہے ۔ ہم نے ہمیشہ ان کی بڑی عزت کی ہے کیونکہ کسی بھی محکمہ میں اگر ہمارا کوئی کام پڑا تو سب سے پہلے ہمارا سامنا بابو صاحب سے ہی ہوتا تھا ۔ہم بابوصاحب کے سامنے مسکین صورت بنا کر کھڑے ہوتے کیونکہ ضرورت مند جو ہو تے تھے اور ضرورت مند شخص کسی پر رعب تو نہیں جما سکتا ،سو ہم بھی ملتجی نظروں سے اپنی درخواست ہاتھ میں لئے ان کے سامنے دست بدستہ کھڑے ہو جاتے، پھر ان کی مرضی کہ وہ اپنا سر مبارک دس سیکنڈ کے بعد اٹھائے یا دس منٹ کے بعد، بحر حال ہم ان کے اختیار و اقتدار کے معترف ضرور ہو تے۔

پہلے پہلے تو ہم سچ مچ یہ سمجھنے لگے تھے کہ یہ مخلوق یعنی کلرک صاحبان بہت ہی خوش قسمت مخلوق ہے لیکن آہستہ آہستہ ہم پر ان کے زندگی کے راز کھلنے لگے۔ اور بالآخر ہمیں یہ پتہ چلا کہ یہ تو بہت ہی قابلِ رحم مخلوق ہے ،ان کے خوش قسمتی کا تو ویسے ڈھول پیٹا جاتا ہے ورنہ یہ تو ڈھول کی طرح اندر سے بالکل خالی ہیں۔ ان کے سر پر ایک اور مخلوق ہر وقت سوار ہوتی ہے ، جسے افسر کہا جاتا ہے، جو دن میں کم از کم تین مرتبہ ان کی بے عزّتی کرنا اپنے شان کے عین مطابق سمجھتا ہے ۔کلرک بیچارا کرے تو کیا کرے ان کا اے سی آر اور ترقی آخر افسر کے قلم کی محتاج ہوتی ہے،روٹی روزی کا سوال ہوتا ہے لہذا کلرک بیچارے کو اپنی بے عزتی برداشت کرنی پڑتی ہے اور افسر کے سامنے سے ہٹ کر اپنے کپڑے جھاڑ کر بے عزتی کے داغ کو دھو نا پڑتاہے ۔ کئی دفعہ اس بے عزتی کو وہ کسی درخواست گزار کی طرف پھینک دیتا ہے۔ اور سوچتا ہے کہ ’’ زندگی جبر ہے اور جبر کے آثا ر نہیں ۔۔۔ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں ‘‘ ایک اور مشکل،جس کا مقابلہ وہ ساری عمر اپنے جسمِ ناتواں کے زریعے کرتا رہتا ہے ،وہ معاشی مشکلات ہیں۔ حکومت نے ان کی تنخواہیں اتنی مقرر کر رکھی ہیں کہ وہ مرتے ہیں نہ جیتے ہیں ۔ بیچارے ہر ماہ کی یکم تاریخ کا بڑے بے چینی کے ساتھ انتظار کرتے ہیں ، گویا یکم تاریخ ان کی عید ہوتی ہے مگر تنخواہ لینے کے بعد جب وہ گھر کا کرایہ، بجلی اور گیس کا بِل ادا کرتے ہیں تو ان کا سر چکرا جاتا ہے کیونکہ ان کے ہاتھ میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا ،بیچارے دو وقت کی روٹی کے لئے فکر مند ہو جاتے ہیں ۔ دفتر میں افسرانِ بالا سے پریشانی تو ہوتی ہی ہے مگر اب گھر میں گھر والی سے ڈانٹ ڈپٹ شروع ہو جاتی ہے ۔ وہ کہتی ہے، بچوں کے لئے کپڑے لینے ہیں ، فلاں کے تو جوتے بھی پھٹے ہوئے ہیں اور فلاں کے پچھلے تین مہینوں سے اسکول کی فیس بھی جمع نہیں کرائی !!! کلرک بیچارہ سر پکڑ کر رہ جاتا ہے ،سوچتا ہے ،،

’’ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔۔ ۔مقدو ر ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں ‘‘
یوں ان کے زندگی میں کبھی بہار نہیں آتی ۔البتہ ساون کا مہینہ آتا ہے مگر اس میں بھی ان کے کانوں میں اپنی بیگم کی یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ ’’ تیرے دو ٹکے کی نوکری میرا لاکھوں ساون جائے، ہائے ہائے یہ موسم اور مجبوری پل پل تڑپائے ‘‘

اب بیگم کو کیا پتہ کہ دفتر کے فائلوں نے ان کے سر تاج کے سر سے رومانٹک)Romantic)جذبات تو اس طرح غائب کر رکھے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں ۔ بے چارہ ساری عمر گھٹ گھٹ کر گزارتا ہے اور پھر نوکری کے آخری حصہ میں پنشن کی جمع تفریق میں لگا رہتا ہے کہ پنشن کتنی ملے گی ؟ ملے گی ؟ تواس پر پانچ مرلہ مکان بھی بن سکے گا یا نہیں ؟ یہی پریشانی اس کو عموما ٹینشن کا مریض بنا دیتا ہے جس کا کوئی علاج بھی نہیں ہوتا۔ بناء بر ایں عوام سے میری یہی گزارش ہے کہ کلرک بے چارے کو کلرک بادشاہ نہ سمجھیں بلکہ قابلِ رحم سمجھیں اور حکومت سے التجا ہے کہ ان کی تنخواہوں اور مراعات میں خاطر خوا اضافہ کریں ۔ کیونکہ یہی لوگ حکومت کی مشینری کو رواں دواں رکھتے ہیں ۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 316033 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More