مجھے یاد ہے وہ دن جب میں نے پہلی بارکسی سیاسی شخصیت کا
انٹرویو تفصیل سےٹی وی پر دیکھا تھا۔ میں اس وقت با مشکل ۱۴ سال کی تھی اور
کسی بھی روایتی پاکستانی بچے کی طرح حکومت وقت سے سخت ناراض اوراپوزیشن کو
قوم کا نجات داہندہ سمجھتی تھی۔انٹرویو بھی پاکستان کی سیاست کے جانی مانی
شخصیت کا تھا جو اس وقت اپوزیشن میں موجود تھے اورکسی بھی اپوزیشن ارکان کی
طرح اپنے مستقبل کے حوالے سے انتہائی پرجوش اور حکومت سےخوب نالاں تھے ساتھ
ساتھ ان کی حاضر جوابی بھی قابل تعریف تھی اس وقت انکے پاس ہر سوال کا بہتر
سے بہترین جواب موجود تھا مگر پھر ایک سوال ایسا بھی آیا کہ وہ بوکھلا کر
رہ گئے اور ان کی بوکھلاہٹ میرے معصوم ذہن میں کئی سوال چھوڑ گئی۔۔
پوچھا گیا کیا آپ طا لبان اور القاہدہ کو پاکستان کا کھلا دشمن مانگتے ہیں
اور انکے خلاف ہر فوجی اور حکومتی ایکشن کے حق میں ہیں؟ بحثیت ایک چودہ
سالہ بچی میرے لئے یہ سوال انتہائی ٖغیر ضروری تھا ، ملک اس وقت شدید دہشت
گردی کی لپیٹ میں تھا، مساجد، چرچ، تفریح گاہیں یہاں تک کے ائیر پورٹز بھی
دہشت گردوں کی تباکاریوں سے محفوظ بھی تھے، سوات میں فوجی آپریشن جاری تھا
اور وزیر ستان میں آئے دن امریکی ڈراون گرائے جارہے تھے۔ یہ ایک شیشے کی
سی واضح صورتحال تھی مگر پھر بھی ـ’وہ ‘واضح جوب دینے سے کترا رہے تھے۔
انٹرویور بار بار پوچھتا رہا اور پھر بلا آخر ان معصوف نے جواب دیا
’دیکھیے ہمیں ماننا پڑھے گا کہ امریکہ سے بدتر پاکستان کا کوئی دشمن
نہیں‘۔اس وقت میرے معصوم ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ بات تو پا کستان کو
طالبان سے لاحق خطرے کی ہورہی تھی پھر یہ امریکہ کہاں سے درمیان میں آگیا
جبکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ملکی قیادت کو بار بار قوم کو واضح کرنا پڑھتا تھا
کہ طالبان سے ٹرائی خود ہماری اپنی جنگ ہے۔
خیر وقت گزرتا رہا ،ملک جلتا رہا اور دہشت گردی ہمیں بھسم کرتی رہی اور پھر
ایک دن اے پی ایس کا سانحہ پیش آگیا اور کچھ دیر بعد ہی اسکول میں مارے
جانے والے سات دہشت گردوں کی تصاویرمیڈیا میں پھیل گئیں، ایک ایسی ہی تصویر
پر میری والدہ کی نظر پرپڑگئی اور بے اختیار ہی انکے منہ سے نکلا لیکن یہ
تو امریکہ کے دشمن ہیں بھلا یہ ہمارے بچوں کو نقصان کیسے پہنچا سکتے ہیں؟بس
یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے اس دن انٹرویو دیتی شخصیتکے جواب کا مطلب اچھے
سےسمجھ آگیا۔ یہ صرف جواب نہیں تھا بلکہ ایک سوچ تھی ایک ایسی سوچ جس نے
ایوانوں سے لے کر ہمارے گھروں تک پہنچ کر ہمیں جکڑ رکھا ہےایک ایسی سوچ جو
کئی دائیوں سے ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو کھل کرظالموں کی مخالفت نہیں
کرنے دیتی۔مانیں یا نہ مانیں ہم بچھلے تہتر سالوں سے پوری طرح معاشی اور
کسی حد تک سیاسی طور پر’ ظالم کا دشمن ہمارا دوست ‘کی سوچ پر عمل پیرا ہیں
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ہمارا دوست ہی ظالم نکل آئے تو ہم کیا کریں ؟
تو جواب پھر ہم بحثیت غیرت مند قوم اسے معاف کر دیتے ہیں یقین نا آئے
تواویغور مسلمانوں کی حالت زار اور اس پر ہماری خاموشی ہی دیکھ لیجیے۔
پچھلے دنوں سانحہ موٹر وے نے ملکی سنجیدہ اور انتہائی غیر سنجیدہ مگر
طاقتور حلقے (یعنی سوشل میڈیا)کوہلا کر رکھ دیا۔ایک تو عوام کی غم ،غصہ سے
روح کانپ رہی تھی اوپر سے جناب سی سی پی او عمر شیخ کے بیان نے جلتی پر تیل
کا کام دیا لیکن میری زاتی رائے میں عمر صاحب نہایت صاف دل اور سادے انسان
ہیں کیونکہ جو بات میری قوم کے ہر تیسرے شخص کے دل میں تھی وہ بات شیخ صاحب
زبان پر لے آئے اور دنیا کو اپنا مخالف بنا لیاورنہ ملک کے باقی طاقتور
ترین طبقے نے بھی توخود کو منظر عام سےغائب کرنے میں عافیت جانی تھی عمر
بھائی بھی ایسا ہی کر لیتے۔ مگر آپ نے سوچا ہے کہ عمر شیخ کے بیان اور
باقی’’ کچھ‘‘ کی خاموشی کے پیچھے کیا وجہ تھی؟؟ نہیں ہم اتنے بھی بے رحم
نہیں کہ ملزمان نے کسی طرح کی ہمدردی رکھتے لیکن کیا کریں اپنی کم بخت نظر
کا جو بار بار’ ظالم کے دشمن ‘کی طرف اٹھ رہی تھی اور وہ تھی ایک کالی رات
میں کالی سڑک پر بنا محرم کے گاڑی چلاتی ایک عورت ۔۔جس نےبقول عمر جی راستہ
بھی غلط لیا تھا اب آخر کار ہم کھل کر ظالم کے دشمن کا ساتھ دیں بھی تو
کیسے دیں خیر سے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باضمیر شہری جو ٹہرے۔بس اس
کش مکش میں آج اس حادثے کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور ہم
بلو ںاور قراردادوں سے آگے نہیں نکل پائے۔بہرحال بہت سے ماہرین کہتے ہیں
پاکستان کی خارجی سیاست تہتر سالوں سے دشمن کا دشمن ہمارا دوست کے گردگھوم
رہی ہےجبکہ ہمارے مطابق وطن عزیز کی داخلی ،معاشرتی سیاست’ ظالم کا دشمن
ہمارا دوست ‘کے گردگھوم رہی ہے۔۔۔
|