خدا نے انسان کو فطرت پر خلق کیا ہے
انسان پیدا ہونے سے موت تک ہر وقت کسی نہ کسی چیز کی ضرورت محسوس کرتا ہے
اور زندگی کے تین مراحل ہیں بچپن جوانی اور بڑھاپا-
انسان جب پیدا ہوتا تو اسکی ہر ضرورت کا اسکے والدین خیال۔رکھتے ہیں
اور۔کوشش کرتے ہیں ہیں اسکی ہر ضرورت کی شے گھر میں موجود ہو جیسے ہی وہ اس
کی خواہش کرے اس کو دے دی جاے جیسے ہی بچہ چار سال کا ہوتا اسکے سکول کیلیے
انتظام کیا جاتا بچے کو کیھلنے کے لیئے بھی اس کی کھیلنے کی چیزیں مہیاکی
جاتے اس طرح جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا اس کی ضروریات بھی تبدیل ہو جاتی-
12سال تک بچےکی ضرورت کے مطابق ہر چیز فراہم کرتے ہیں اس کے بعد جب جوانی
میں داخل ہوتا ہے اس کی خواہش بھی بہت تبدیل ہوجاتی ہیں-
جس طرح والدین بچوں کی تمام تر خواہش کو پورا کرتے ہیں ان کو چاہیئے کی
جیسے ہی بچہ جوان ہو ان جوانی کی خواہش کو پورا کریں جوانی میں نفسانی
خواہشات عروج پر ہوتی ہیں یہ۔وہ خواہش ہے جس کا اظہار انسان اپنے والدین سے
نہیں کرسکتا لیکن ولادین جانتے ہیں کے اس کو جس طرح بھوک لگتی ہے تو کھانا
دیا جاتا ہے اور کھانے کا لطف بھی تب ہی اتا ہے جب بھوک عروج پر ہو
اسی طرح نفسانی خواہشات بھی جوانی میں عروج پر ہوتی ہیں اور اسی خواہش کو
پوار کرنے کیلیے الله نے شادی جیسا عظیم رشتہ بنایا ہے
اور والدین کا فرض ہے کہ جس طرح بچپن میں تمام ضرورتوں کا خیال رکھا جاتا
ہے جوانی میں بھی ان خواہشات کو پورا کرنا چاہئے تاکہ زنا جیسی لعنت
کومعاشرے سے پاک کیا جاسکے
علماء سے گزارش ہے کے جوانی میں شادی کی اہمیت کے بارے میں عوام کو اگاہ
کریں اور حکومت کو شادی کی عمر مقرر کرنے کیلئے قانون سازی کرنی چاہیے
|