ذہن کی قید سے آزادی

ایک اچھے اور بہتر معاشرے کی تشکیل اسی صورت ممکن ہوتی ہے جب اس معاشرے میں رہنے والے لوگ اپنے ذہن کو آزاد رکھتے ہیں ۔ یہاں ذہن کو آزاد رکھنے سے مراد ان باتوں کو ماننے سے اور ان چیزوں کو کرنے سے انکار کرنا ہے جو ہمارے معاشرے پر حاوی ہیں اور جن کو ایک طرح سے مائنڈ سیٹ بنا دیا گیا ہے کہ اس کو پورا کرنا لازم و ملزوم ہے پھر چاہے اس بات یا اس چیز کا کوئی لاجک ہو یا نہ ہو ۔

مثال کے طور پر ہم شادی کی بات کرتے ہیں ۔ ہمارے یہاں شادی کے موقع پر جہیز دینے اور لینے کا رواج عام پایا جاتا ہے ۔ ماں باپ اپنی بیٹی کے سسرال والوں اور اس ظالم معاشرے کے دباؤ اور ڈر کی وجہ سے جہیز دینے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ بعض اوقات سسرال والے خود بھی جہیز کی ڈیمانڈ کرتے ہیں ۔ اس فضول رواج کی انتہا تو دیکھیں اکثر والدین اپنی بیٹی کو جہیز میں وہ چیزیں بھی دیتے ہیں جو خود ان کے اپنے گھر میں موجود نہیں ہوتیں۔ یہاں اس معاملے میں ضرورت پیش آتی ہے اپنے ذہنوں کو آزاد کرنے کی ۔ سسرال والوں اور بلخصوص لڑکے کو چاہیے کہ وہ اس سماجی برائی کو ختم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرے۔

اب بات کرتے ہیں سسرال والوں کے رویوں کی ۔ہمارے معاشرے میں بہو پر ظلم کرنا بھی عام پایا جاتا ہے ۔لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بہو کو شادی کر کے نہیں بلکہ خرید کر لائے ہیں تو وہ جو دل میں آتا ہے ویسا سلوک کرتے ہیں ۔یہاں پر سسرال والوں کو اپنے ذہن کو آزاد کرنے کی ضرورت ہے ۔جس طرح وہ اپنی بیٹی کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں اور جس طرح اس کے لئے آسانیاں چاہتے ہیں اسی طرح اگلے کی بیٹی کو بھی خوش رکھیں۔ اس ضمن میں شوہر کو بھی اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری کے ساتھ ادا کرنی چاہیے اور اپنی بیوی کو وہ تمام حقوق دینے اور دلانے چاہیے جس کی وہ حقدار ہے ۔

عورتوں کے حقوق کی بات کریں تو اس کی پامالی کا سلسلہ تو ازل سے ہی چلتا آ رہا ہے ۔ہمارے معاشرے کو مردوں کا معاشرہ کہیں تو اس میں کوئی عجیب بات نہ ہوگی ۔یہاں مرد کی غلطی تو غلطی ہے لیکن عورت کی غلطی کو گناہ تسلیم کیا جائے گا ۔مرد کو معاف کردیا جاتا ہے لیکن عورت کو معافی کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا ۔انہی چیزوں کی وجہ سے آج ہمارا معاشرہ زوال کا شکار ہے ۔ہمیں چاہیے کہ اپنے ذہنوں کو ان دقیانوسی سوچ سے آزاد کریں اور ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا حصہ ادا کریں ۔
 

AMNA KHAN
About the Author: AMNA KHAN Read More Articles by AMNA KHAN: 5 Articles with 3678 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.