تحریر: ام محمد عبداﷲ ، اسلام آباد
شہریار بستر پر اداس گم صم بیٹھا ہوا تھا۔ ’’کیا ہوا شہریار بیٹے!‘‘ امی
جان نے پیار سے شہریار کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ شہریار اپنی امی کے ساتھ اپنی
خالا جان کے گھر آیا ہوا ہوا تھا۔ دن کے کھانے کے بعد اب انہیں قیلولہ کرنا
تھا مگر وہ اپنی امی سے باتیں کرنے لگا۔
’’ امی جان! کیا آپ نے دیکھا صبح کھیلتے ہوئے نبیل جب غصے میں تھا تو کیسا
لگ رہا تھا؟‘‘
کیسا؟ امی نے اس کی جانب دیکھا۔ ’’بدصورت‘‘۔ اس نے جواب دیتے ہوئے سر
جھکایا۔’’چیختے ہوئے اس کی آواز کانوں کو بہت ناگوار لگ رہی تھی۔ اس نے
آہستہ آواز میں کہا۔ ’’ امی جان! کیا جب میں گھر میں زوار پر غصہ ہوتا ہوں۔
چیزیں ادھر ادھر پھینکتا ہوں۔ چیختا ہوں۔ میں بھی اتنا ہی بدصورت لگتا ہوں۔‘‘
شہریار کو چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ ہونے کی عادت تھی۔ چھوٹے بھائی زوار پر
چیخنا چلانا تو معمول تھا۔ آج جب اپنے خالا زاد بھائی کو چھوٹی بہن پر غصہ
ہوتے دیکھا تو اس کے آئینے میں اسے اپنا چہرہ دکھ گیا۔
’’جی بیٹے صرف تم اور نبیل ہی نہیں ہر غصہ کرنے والا شخص بدصورت بھی دکھتا
ہے اور غصہ کر کے اپنی بزدلی کا اظہار بھی کرتا ہے کہ وہ اتنا بہادر نہیں
کہ کسی کو معاف کر سکے یا کسی بھی غلط کو درست کر سکے۔اسی لیے تو پیارے نبی
خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے فرمایا غصہ نہ کرو۔‘‘
’’پیاری امی! میں اپنے پیارے نبی ﷺ کی بات مانوں گا اور آئندہ غصہ نہیں
کروں گا، ان شاء اﷲ‘‘۔ امی نے اسے شاباش دی اور وہ قیلولہ کرنے کے لیے لیٹ
گئے۔
|