برصغیر میں لسانی ارتقا کی کہانی

 ڈاکٹر غلام شبیر رانا
دکن میں بہمنی حکومت کے عرصے میں تہذیبی ،ثقافتی ،معاشرتی اور علمی و ادبی شعبوں میں بہت کام ہوا۔بہمنی بادشاہوں نے ان میں سے ہر شعبۂ زندگی کونئی سمت اور منفرد جہت عطاکی۔ برصغیر کے مختلف علاقوں میں لسانی ارتقا کی کہانی خاصی پرانی ہے جس پر بہت کم توجہ دی گئی ہے ۔وادی ٔ خیال میں مستانہ وار گھومنے والے اپنے تخیل کی جولانیوں اورجذبات و احساسات یا جسمانی حرکات کوجب کسی دوسرے شخص کو متوجہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تووہ زیادہ ترا ظہار و ابلاغ کے وسیلے یعنی زبان کاسہار ا لیتے ہیں۔ اس وسیع و عریض کائنات میں خالقِ ارض و سما نے مظاہر ِ حیات کی نمو کے ساتھ ہی متعدد ایسے عوامل کی فراہمی کا اہتمام بھی کر دیا جن کے اعجاز سے انسان اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز ہوتا ہے ۔انسان کی قوت ناطقہ کو قدر ت ِکاملہ کا ایسا گراں قدر عطیہ سمجھا جاتاہے جس کے حیران کن اثر سے نہ صرف کسی خطے میں لسانی ارتقا کے سلسلے کا آغاز ہوتاہے بل کہ اس کی افادیت سے لبریز فعالیتوں سے تہذیبی و تمدن اور ثقافت و معاشرت کے نئے آفاق تک رسائی کے متعددنئے امکانات سامنے آتے ہیں۔ کسی بھی خطے میں مقامی لہجے اور بولیوں کا ارتقا انسانی شعور کی مقیاس ہے۔ لفظوں کے گھروندوں میں زندگی بسر کرنے والے ماہرین لسانیات نے زبان کی ماہیت ،ساخت اور ارتقا کے سلسلے میں اپنے خیال افروز اور فکر پرور مباحث سے اُردو اور دکنی زبان کے بارے میں تمام متعلقہ حقائق سے پردہ اُٹھایاہے۔ ارد و زبان اور دکنی زبان کاتجزیاتی مطالعہ،ان دونوں زبانوں کے آغاز و ارتقا کی تاریخ ،ان زبانوں میں پائی جانے والی مماثلت ،صرفی و نحوی حقائق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ اسی کے وسیلے سے تکلم کے سلسلوں اور سماجی ومعاشرتی زندگی میں بنی نوع انسان کے قلبی و روحانی جذبات و احساسات اور تجربات و مشاہدات کی حقیقی کیفیات کے اسرار و رموز کی گرہ کشائی ممکن ہے ۔ بر عظیم کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس خطے میں مسلمان فاتحین کی آمد کے ساتھ ہی یہاں لسانی ارتقا کی داغ بیل پڑ گئی ۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ دو مختلف نوعیت کی تہذیبوں کے ادغام کی ایک منفرد صورت تھی ۔ ترکی زبان،فارسی زبان اور عربی زبان بولنے والی فاتح مسلمان افواج نے جب سر زمین ہند پر قدم رکھا تو تبدیلی کا آغاز ہو گیا۔ فاتح مسلمان افواج اپنے آبائی علاقوں اور مختلف ممالک کی تہذیب و ثقافت ، تمدن و معاشرت، ادب ،فنون لطیفہ اور وہاں کی مروّج ومقبول زبان بھی اپنے ساتھ لائے۔ ازمنہ قدیم کی تاریخ،فلسفہ اور علم بشریات کے ماہرین کا خیال ہے کہ تاریخ ایک پیہم رواں عمل کا نام ہے ۔جہاں تک برعظیم کے سیاسی نشیب و فراز کا تعلق ہے یہ بات واضح ہے کہ یہ خطہ صدیوں تک آریا اقوام کی جابرانہ حاکمیت کے زیرِ نگیں رہا۔ روس اور قازقستان سے آنے والی مہم جُو آریا اقوام نے آلام ِ روزگار کے ستم سہنے والے بر عظیم کے مقامی لوگوں کی توہین،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری میں کوئی کسر اُٹھا نہ ر کھی۔ اس خطے میں بولی جانے والی انڈو آرین زبان اسی عہد کی یاد دلاتی ہے اِن طالع آزما دراندازوں نے ہمیشہ یہی کوشش کی کہ بر عظیم کے مقامی باشندوں کی تہذیب و ثقافت ، فنون لطیفہ ،شعر وادب ،لسانیات اور معاشرت کو فرسودہ ،ناقابل عمل اور حقیر قرار دے کر اُسے نیست و نابود کر دیا جائے ۔ تاریخ کے اس کٹھن دور میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں قلزم ہستی میں جب لسانی مدو جزر کی پریشان کن صورت پیدا ہوئی تو غالب آنے والی آریائی اقوام کی زبان نے مقامی باشندوں کی صدیوں سے مروّج زبان کو پسِ پشت ڈال دیا۔جغرافیائی غلبہ حاصل کرنے کے بعد آریاؤں نے تہذیبی غلبہ حاصل کرنے کی ٹھان لی۔ آریا اقوام کی یہ دلی تمنا تھی کہ وہ خود بلا شرکت غیرے تنہا سماجی اور معاشرتی زندگی کے تمام معمولات پر اپنی گرفت مضبوط کر کے اقتصادیات کو اپنے قبضے میں لے لیں ۔ہوس ِ ملک گیری اور تہذیبی و ثقافتی اکھاڑپچھاڑ کے نتیجے میں گزشتہ کئی صدیوں سے مروّج مقامی بولیوں کو ناقابل اندمال صدمات کا سامناکرنا پڑا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ متعدد مقامی زبانوں کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا ۔ سالہا سال تک آریا بالادستی کے مہیب پاٹوں میں پِسنے والے اس خطے کے باشندے کسی لطیفۂ غیبی کے منتظر تھے ۔ دو حملہ آور طاقتیں جب محاذِ جنگ پر بر سرِ پیکار ہوتی ہیں تو کم زور کو طاقت ور کے ہاتھوں منھ کی کھانا پڑتی ہے ۔اسی طرح لسانیات کے شعبے میں بھی طاقت ور فاتح قوم کی زبان کو برتری حاصل ہوتی ہے اور کم زور مفتوح کی زبان رفتہ رفتہ پس منظر میں چلی جاتی ہے اور پھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ فاتح قوم کی زبان کے سامنے سپر انداز ہونے والی زبان کا احوال تاریخ کے طوماروں میں دب جاتاہے ۔ محمد بن قاسم کی آمد ( 712ء ) کے بعد بارہویں صدی عیسوی میں بر صغیر میں مسلمان فاتحین کی آمد طلوع صبح بہاراں کی نوید ثابت ہوئی ۔ تاریخی اعتبار سے حیران کن بات یہ ہے کہ سلطان محمود غزنوی(971-1030) کی آمدسے قبل بر عظیم میں لسانی ارتقا کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ غزنویوں اور غوریوں کی آمد کے بعد سفاک ظلمتوں ،مہیب سناٹوں ،یاس و ہراس،لرزہ خیز جمود و سکوت، ظالمانہ نسلی امتیاز اور تباہ کن بے عملی کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنے کی راہ ہموار ہو گئی ۔ معز الدین محمد غوری ( 1149-1206) نے بر عظیم میں پہلی مسلم حکومت کی بنیاد رکھی ۔ اپنے طویل عرصۂ اقتدار ( 1173-1202 )میں علم و ادب کی سر پرستی کی ۔ عالمی شہرت کے حامل ممتاز لسانی محقق ،نقاداور مورخ پروفیسر حافظ محمود خان شیرانی( 1880-1946 )نے اپنی تحقیقی کتاب ’’ پنجاب میں اُردو ‘‘ میں بر عظیم میں مسلمان فاتحین کی آمد اورمقامی زبانوں پر مرتب ہونے والے دُور رس اثرات کے متعلق لکھا ہے :
’’ اسلامی سلطنت چونکہ دہلی پہنچ کر بہت جلد مرکزی حیثیت اختیار کر لیتی ہے ،اس لیے یہ زبان اسلامی لشکروں ،مہاجروں اور نو آبادکاروں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے ہر گوشے میں پہنچ جاتی ہے۔خلجی اس کوگجرات اور دکن پہنچاتے ہیں ۔محمدتغلق جب آ ٹھویں صدی ہجری میں دہلی کو اُجا ڑ کردولت آباد کو آ باد کرتا ہے تو یہ زبان دکن میں مسلمان نوآبادکاروں کی زبان بن جاتی ہے۔ گجرات اوردکن میں دسویں صدی ہجری میں اس میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ گویا دکن و گجرات میں اُردو کے علیحدہ علیحدہ مرکز قائم ہو جاتے ہیں ۔اہل ِ گجرات اِس کو نویں صدی ہجری میں ’’ زبان دہلوی ‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن آنے والی صدی میں ’ ’ گجری ‘‘ یا ’’ گوجری ‘‘ کہنے لگتے ہیں ۔اِسی طرح دکن میں پہلے پہل یہ زبان ’’ زبانِ ہندوستان ‘‘ کہلائی ۔بعد کو ’’ دکنی ‘‘ کہنے لگے ۔اہلِ دہلی بارہویں صدی کے آخر سے اِس کو ’’ ریختہ ‘‘ کہنے لگے، جو در اصل موسیقی کی اصطلاح تھی۔ ( 1)

شاہی سر پرستی کے اعجاز سے لسانی سطح پر بھی اس کے دُور رس اثرات مرتب ہوئے اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بر صغیر کے مفتو حہ علاقوں میں فارسی کے علاوہ مقامی بولیوں کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا۔فاتح مسلمانوں اور مقامی باشندوں کے باہم میل جول اور قریبی روابط سے اُن کی زبان میں انجذاب و اشتراک کی نئی صورتیں سامنے آ ئیں اور اظہار و ابلاغ کے نئے انداز پروان چڑھنے لگے ۔یہاں تک کہ شاہانِ گجرات بالعموم اردو میں گفتگو کرتے تھے۔ گجرات کے سلطان محمود شاہ ہیگڑہ کی گل افشانیٔ گفتار کا ایک عالم معترف تھا۔ معاشرتی زندگی کے تلخ حقائق کا مظہر اس کا یہ جملہ تو تاریخ ادب میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو چکا ہے :
’’ نیچی بیری سب کوئی جھوڑے ۔‘‘
بر عظیم کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر ( 1483-1530)نے بھی کئی مقامات پر اردو زبان میں اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے مثلاً:
’’ مُج کا نہ ہوا کُجھ ہو س مانک و موتی ۔‘‘

بر طانوی مورخ اور مابعد الطبیعات کے ماہر آر جی کولنگ وڈ ( R. G. Collingwood : 1889-1943 )نے اپنی مشہور کتاب تاریخ کا تصور ( The Idea Of History ) میں یہ بات واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فطرت خود بہ خود خو لالے کی حنا بندی میں مصروف رہتی ہے ۔ فطت کے سر بستہ رازوں کی تفہیم کا بھاری پتھر تو جرمن ماہر فلکیات جان کیپلر (1571-1630 : Johannes Kepler ) اور برطانوی ماہر طبیعات نیوٹن ( Isaac Newton :1643-1727 ) نے بھی چُوم کر رکھ دیاتھا۔سائنسی انداز فکر کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے والے مورخ کولنگ وڈ نے جرمن فلسفی کانٹ ( :1724-1804 Immanuel Kant ) کے خیالات کے حوالے سے لکھا ہے :
Even Philosophers,Kant observes,wise though to plan out their own lives and live according to the rules they have made for themselves .Thus ,if there is a general progress in the life of mankind ,that progress is certainly not due to a plan made or his own guidance by man .But once the lessther might be such a plan ,namely a plan of nature,which man fulfils without understanding it .To detect such a plan in human history would be a proper task for new Kepler ,and to explain its necessity would require another Newton. (2)

فیروز شاہ تغلق ( عہد ِ حکومت : 1351-1388،عرصہ ٔ حیات :1309-1388 )کے اقتدار کے خاتمے کے بعداس علاقے میں فارسی زبان کی سر پرستی عملاً ختم ہو گئی۔ اس کے بعد جن بادشاہوں نے اردو زبان کی سر پرستی کی ان میں تغلق ، سیّد ،اور پٹھان شامل ہیں ۔ شیر شاہ سوری ( 1472-1545) اور اس کے بعد آنے والے سوریوں نے فارسی زبان کی ترویج میں کوئی دلچسپی نہ لی بل کہ اردو ہی کو وسیلۂ اظہار بنایا۔بر صغیر میں دریائے نرمدا کے جنوب میں واقع دکن جو تلنگانہ ،آندھرا پردیش،کرناٹکا،کیرالا اور تامل ناڈو پر مشتمل ہے۔دریائے گوداوری ،کرشنااور کاوری سے سیراب ہونے والا یہ خطہ ہر دور میں تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہے ۔ سر زمین دکن کی سیاسی تاریخ کے درج ِذیل ادوار اِس خطے میں تہذیب و ثقافت ،فنون لطیفہ، ا دب اور تمدن و معاشرت کے اِرتقا کے حوالے سے بہت اہم سمجھے جاتے ہیں :
ا۔بہمنی دور : (1347-1527)
۲۔عادل شاہی دور : (1490-1508 )
۳۔قطب شاہی دور : (1508-1686 )
۴۔ نظام الملک آصف جاہی دور : (1686-1708 )
۵۔ نواب والا جاہی دور : (1708-1857 )

تاریخی حقائق اس بات کے شاہد ہیں کہ پوری دنیا میں آفتاب اسلام کی ضیاپاشیوں کے ساتھ ہی بر عظیم میں بھی اسلام کی ابد آشنا تعلیمات کی امین تہذیب و ثقافت کے فروغ کے عظیم الشان سلسلے کا آغاز ہو گیا۔اس عہد کی سیاسی تاریخ کے نشیب و فراز پر تحقیقی نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمان افواج کے فاتح دستو ں نے جب پہلی بار سر زمین دکن پرقدم رکھا تو یہاں ایک تہذیبی و ثقافتی انقلاب کاآ غاز ہو گیا ۔ دکن کی ریاستوں اور اس کے مضافاتی علاقوں میں ہر شعبۂ زندگی پر مسلمان فاتحین کی آمد کے دُوررس اثرات مرتب ہوئے ۔ روشنی کے اس فقید المثال سفر میں اقدار و روایات ،تمدن و معاشرت ،مقامی لسانیات ، تہذیب و ثقافت ،ادب او رفنون لطیفہ بھی متنوع تبدیلی کی اس تیز لہر سے بے تعلق نہ رہ سکے ۔ عالمی شہرت یافتہ مورخ محمدقاسم شاہ فرشتہ ( 1560-1620) اسی خطے کا باشندہ تھا اور فارسی زبان کے یگانۂ روزگار شاعر ظہوری نے اسی سر زمین کو اپنا مسکن بنایا۔ بر عظیم میں بیرونی ممالک سے آنے والی مہم جو اقوام کے بارے میں نصیر الدین ہاشمی نے اپنی کتاب’ ’ دکن میں اُردو ‘‘ میں لکھا ہے :
’’ ہندوستان ہمیشہ غیر اقوام کی آماجگاہ رہاہے ۔آرین قوم نے شمالی ہند پر حملہ کیااور یہاں کے باشندوں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا۔ان لوگوں کی زبان تامل ،اُڑیا ،تلگو وغیرہ تھی چنانچہ آج تک دکن میں یہ قدیم زبانیں مروّج ہیں ۔(3)

آریا فاتحین نے اس خطے کے مقامی باشندوں اور مفتوح شودروں کی زبان کو نا پسند کیا اور اپنے لیے ایک الگ زبان کی اختراع پر توجہ دی ۔اس خاص زبان کا نام سنسکرت رکھا گیا۔سیلِ زماں کے تھپیڑے اس نئی زبان کے قواعد کو بہا لے گئے اور ایک نئی زبان پراکرت وجود میں آ گئی۔ راجہ بکرما جیت نے سنسکرت کے فروغ کے لیے بہت کام کیا۔ چھٹی صدی عیسوی میں اس علاقے میں بولی جانے والی پراکرت زبانوں کی تعداد بیس کے قریب تھی ۔ان میں سے درج ذیل پانچ پراکرت زبانیں بہت مقبول ہوئیں:
۱۔ پالی، ۲۔ جینی،۳۔سوراسنی، ۴۔مگدھی ،۵۔مہاراشٹری

اپنی تخلیقی فعالیت سے دکنی زبان کے ادیبوں نے مادی نوعیت کے معاملات کو پس پشت ڈالتے ہوئے زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے لو ح وقلم کی پرورش میں انہماک کا مظاہرہ کرتے رہے ۔ ان ادیبوں نے دکھی انسانیت کے ساتھ جوپیمانِ وفا باندھا تھا ،اُسے اپنی اناکا بھرم بر قرار رکھتے ہوئے ہر حا ل میں استوار رکھا۔بیرونی حملہ آور وں کی دکن پر یلغار کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن مناظر کو دیکھ کر انھوں نے حوصلے اور اُمید کی شمع فروزا ں رکھی اور جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔نظم ہو یا نثر ان ادیبوں کی تخلیقات،جمود،بے عملی ، بے یقینی اور یاس و ہراس کے مسموم اثرات کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کی کاوش کی مظہر ہیں قدیم دکنی ادیبوں نے یہ ثابت کر دیا کہ جبر اور جورو ستم کے دشت ِپُر خار میں نسیم سحر کے عطر بیز جھونکے یہ پیغام دیتے ہیں نجاتِ دیدہ و دِل کی گھڑی قریب ہے ۔

بر عظیم میں مسلمان فاتحین اور ان کی افواج کی آمد سے صدیوں سے سوچ پرمتعصب اور کینہ پرور اکثریتی آبادی کے مسلط کردہ تار عنکبوت رفتہ رفتہ ہٹنے لگے اور فکری جمود کا خاتمہ ہوا ۔ مسلمان فاتحین اور اس علاقے کے مقامی باشندوں کے باہم میل جول اور قریبی روابط سے تکلم کے سلسلے جس سرعت سے بدلنے لگے وہ نہ صرف تخلیق ادب کے لیے بل کہ لسانی ارتقا کے لیے بھی ایک نیک شگون ثابت ہوئے ۔ جنوبی ہندوستان پر سالہا سال سے انتہا پسند ہندو ؤں کے غلبے کا جو عفریت منڈلا رہاتھا ،اس سے نجات کے امکانات پیدا ہونے لگے۔ ہندوستانی لسانیات میں دکنی زبان کی نمو انہی تہذیبی و ثقافتی میلانات کا ثمر قرار دیاجاتا ہے۔ تہذیب کے بارے میں یہ بات تو واضح ہے کہ جب کسی خطے کے باشندے اپنی تہذیبی شناخت کے بارے میں تذبذب اور گو مگو کا شکار ہوجائیں تو تہذیب کو کسی بیرونی جارحیت سے ہر گز کوئی خطر ہ نہیں ہوتا بل کہ یہ لرزہ خیز صور ت حال دیکھ کر اپنی موت آ ہ مر جاتی ہے ۔قدیم دکنی زبان کا ادب ایک تہذیبی میراث کی حیثیت رکھتاہے۔ یہاں کے باشندوں نے اس خطے کی تہذیب کے تحفظ کو اس مقصد کے لیے ایک تحریک کی شکل دے دی کہ وہ جانتے تھے کہ جو تہذیب اپنا دفاع نہ کر سکے اور بیرونی تہذیبوں کی یلغار کو نہ روک سکے وہ حر ف ِ غلط کی طرح مٹ جاتی ہے ۔ وہ اس حقیقت کے رمز آشنا تھے کہ حیات جاوداں کا راز ستیز میں پنہاں ہے۔یہی وجہ ہے کہ دکنی زبان کے ادیبوں نے ہوائے جورو ستم میں مشعل وفا کو فروزاں رکھااور افکار ِ تازہ کو خضر راہ بنا کر جہانِ تازہ کی جانب پیش قدمی جاری رکھی ۔تخلیق ِادب کے وسیلے سے انھوں نے نئی نسل کو علمی ،ادبی اور تہذیبی میراث کی منتقلی کی سعی کی۔ عالمی شہرت کے حامل ممتاز برطانوی مورخ ،فلسفی اور ادیب آرنلڈ جے ٹائن بی ( : 1889-1975 Arnold J. Toynbee ) نے اپنی معرکہ آرا تحقیقی تصنیف تاریخ کا مطالعہ ( A Study Of History ) میں مختلف تہذیبوں کے تقابلی مطالعہ کے حوالے سے لکھا ہے:
ٓAs we pursue our study of History,we shall find that this rhythmic alternation between two antithetic yet complementary activities ,which is native to thought in general and to historical thought in particular,is also nativeto History itself.(4)

دکنی زبان میں سب سے پہلے نثری تصانیف سامنے آ ئیں دکنی نثر کے پہلے تخلیق کار کا نام حضرت خواجہ بندہ نوا ز گیسو درا ز سیّد محمد حسینی ( متوفی : 825 ہجری )ہے۔ تصوف کے موضوع پراُن کی تصانیف ہدایت نا مہ ، رسالہ ،تلاوت الوجود، شکارنامہ اور معراج العاشقین ‘‘ کو دکنی نثر کے اوّلین نمونے قرار دیا جاتاہے ۔ دکنی زبان میں شاعر ی کے حوالے سے بھی حضرت خواجہ بندہ نوا ز گیسو درا ز سیّد محمد حسینی ( متوفی : 825 ہجری )کو اوّلیت کا اعزاز حاصل ہے ۔دکنی زبان میں شعرا نے سب سے پہلے صنف مثنوی پر توجہ دی اس کے بعد وہ وہ غزل ، رباعی اور قصیدہ کی طرف مائل ہوئے ۔ ماہرین لسانیات کا قیاس ہے کہ دکن میں مختلف بو لیاں مروّج و مقبول رہی ہیں جن میں مراٹھی،تامل اور تلگو وغیرہ شامل ہیں مگر دکن میں مقیم مسلمانوں کی جدت پسندی نے ان زبانوں اور فاتحین کی زبانوں کے امتزاج سے ایک فکر پرور اور خیال افروزلسانی تجربے کاآغاز کیا۔ نصیر الدین ہاشمی نے اپنی تصنیف ’’ دکن میں اردو ‘‘ میں اس خطے میں دکنی اور ارودو زبان کے ارتقا کا ذکر کرتے ہوئے درج ذیل آ ٹھ ادوار کو اہم قرار دیاہے:
نمبرشمار
ادوار
از
تا
پہلا دور
بہمنی دور
۷۴۷ ہجری
۹۰۰ ہجری
دوسرا دور
9 قطب شاہی اور عادل شاہی دور
۹۰۱ ہجری
۱۱۰۰ ہجری
تیسرا دور
مغلیہ دور
۱۱۰۱ ہجری
۱۱۳۶ ہجری
چوتھا دور
1 سلطنت آصفیہ اور اُردو
۱۱۳۶ ہجری
۱۲۲۰ ہجری
پانچواں دور
/سلطنت آصفیہ اور اُردو
۱۲۲۰ ہجری
۱۳۰۱ ہجری
چھٹا دور
-سلطنت آصفیہ اور اُردو
۱۳۰۱ ہجری
۱۳۳۶ہجری
ساتواں دور
/سلطنت آصفیہ اور اُردو
۱۳۳۶ ہجری
۱۳۷۵ ہجری
آٹھواں دور
!اندھرا میں اُردو
۱۳۷۶ ہجری
"۱۳۷۶ ہجری (5)

5 دکن میں جن منفرد نوعیت کے تہذیبی تغیرات کے مظہر لسانی تجربات کاآغاز ہوااُن کے گہرے اثر سے فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی ۔ اظہار و ابلاغ کے سلسلے میں زبانوں میں مستعمل الفاظ کو ایک مضبوط و مستحکم حیثیت حاصل ہے۔روزمرہ گفتگو میں استعمال ہونے والے الفاظ کا نوائے سروش کے روپ میں صریر خامہ کے وسیلے سے منصۂ شہود پر آنازندگی اور اس کی مقتضیات کی گرہ کشائی کرتاہے ۔فکر انسانی کے متعدد پہلو روزمرہ کی گفتگو کے ذریعے سامنے آتے ہیں۔ ماہرین نفسیات ،ماہرین لسانیات ،ماہرین عمرانیات اور ماہرین علم بشریات نے تکلم کے سلسلوں اور فکر و خیال کے مابین پائے جانے والے ربط کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے ۔ بنی نوع انسان کی حیات کی مصروفیات اور تہذیب و تمدن کی کیفیات کی تفہیم میں روزمرہ گفتگو کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتاہے ۔ یہیں سے اُن مسحور کن لسانی تغیرات کاآغاز ہواجن کی ہمہ گیر اثر آفرینی نے پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیا ۔ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور نے اپنی تصنیف’’ ہندوستانی لسانیات ‘‘ میں لکھاہے :
’’ مختلف قوموں کی تاریخ اور ماقبل تاریخی حالات کا اندازہ کرنے میں لسانیات سے زیادہ مفید کوئی اور علم ثابت نہیں ہوا۔مثال کے طور پر مقامات کے ناموں کی تشریح و تجزیہ ہی کو لیجیے جس کی مدد سے آج یورپ اور مغربی ایشیا کی قدیم ترین تاریخیں مرتب کی جا رہی ہیں ۔‘‘ ( 6)

بر صغیر میں دکنی زبان کے سوتے قدیم تہذیبی و ثقافتی میلانات سے پھوٹتے ہیں ۔ ہر عہد میں زبان کو فکر و خیال کی وادی کے سب موسموں کی جملہ کیفیات کو ظاہر کرنے کے لیے اہم اور موثر ترین وسیلہ سمجھا جاتا رہا ہے ۔الفاظ اور جملوں کے بر محل استعمال سے دل کی بات لبوں تک لائی جا سکتی ہے ۔اشارے ،کنائے ،عشوہ ،غمزہ و ادا اور شان دل ربائی سب اظہار و ابلاغ کے و سیلے ہی ہیں۔ یہ نطق بیاں ہی ہے جو انسان کو حیوان سے ممیز کرتاہے ۔ دکنی زبان کے آغاز وارتقا کے بارے میں ڈاکٹر پنڈت شری رام شرما نے اپنی تصنیف’’ دکنی زبان کاآغاز و ارتقا ‘‘ میں لکھاہے :
’’ علا ء الدین خلجی سے لے کر آصف جاہ اوّل تک دکن پر جتنے بھی حملے ہوئے اِن مہموں میں فوجی عہدہ دار اکثر مسلمان ہوتے تھے،جن کا تعلق معزز خاندانوں سے ہوتاتھا۔ان کمان داروں کی قیادت میں ہزاروں خاندان دکن پہنچے ،جن میں ہندو اور مسلمان شامل تھے ۔یہ لوگ زیادہ تر سپاہی پیشہ اور محنت کش تھے ۔یہ مختلف مقامات کے باشندے تھے ،کوئی بہار کا تھا،تو کوئی اودھ کا اور کوئی راجستھان کا۔فوجی افسر عموماً دِلّی کے تھے ،وہ ایسی زبان بولتے تھے جس پر پنجابی ،ہریانی،اودھی اور برج بولیوں کے اثرات تھے ۔‘‘ ( 7)

بر صغیر میں لسانی ارتقا اور تقابلی لسانیات کو تاریخی تناظر میں دیکھنے سے حقائق کا جو منظر نما سامنے آتا ہے اس کا کرشمہ فکر و خیا ل کے جو متعدد نئے زاویے سامنے لاتا ہے اس کی تفصیل قابل غور ہے ۔

محمود غزنوی (971-1030) اور اس کی اولاد نے تقریباًدو سو برس تک سندھ ،ملتان ،پنجاب اوردہلی کے بیش تر علاقوں میں اپنی حکومت برقرار رکھی ۔ اس عرصے میں غزنوی خاندان کے زیرِنگیں علاقوں میں لسانی اِرتقا کا سلسلہ جاری رہا ۔علاء الدین خلجی(1250-1316)کی گجرات اور دکن کی تسخیر کے بعدایک سو برس تک یہ علاقہ دہلی کی عمل داری میں شامل رہا ۔علاء الدین خلجی کے حکم پر شمالی ہند کے باشندوں نے بہت بڑی تعداد میں دکن، گجرات اور مالوہ کی طرف ہجرت کی ۔جب محمد تغلق (1290-1351) نے سلطنت دہلی کا انتظام سنبھالا تو اس نے دولت آباد (مہاراشٹر) کو اپنا دارالحکومت کا درجہ دیا ۔سال 1327میں قصر شاہی سے افواج ،اہل کاروں ،عمائدین اورسرکاری عملہ کو دولت آباد پہنچنے کا حکم صادر ہوا ۔اس شاہی فرمان کے نتیجے میں جو وسیع پیمانے پر نقل مکانی ہوئی اُس سے تہذیبی و ثقافتی میلانات کے علاوہ لسانی ارتقا کو بھی نئی جہت ملی ۔قدیم دکنی زبان اور اردو زبان کے ادب کے بارے میں تخمین و ظن کے بجائے ہر قسم کے تعصب سے بالاتر رہتے ہوئے حقائق کی گرہ کشائی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے جائزے سے قاری کسی حدتک مطمئن ہو جاتا ہے کہ ہر دور میں انسانی زندگی کو نشیب و فراز کا سامنا رہاہے ۔مطلق العنان حکومتوں میں بے بس انسانوں کی زندگی جبر مسلسل کے مانند گزرتی ہے ۔انھیں یہ معلوم نہیں ہوتاکہ انھیں نا کردہ گناہوں کی سزا کیوں دی جا رہی ہے ؟انسانی فطرت کے بارے میں تاثر پایا جاتاہے کے اس کے سوتے انسان کی طبع کے بنیادی رجحانا ت اور احساسات سے پُھوٹتے ہیں۔ٹھوس ثبوت اور نقدو نظر کے بغیر تاریخ اور اُس کے پیہم رواں عمل کی تہہ تک پہنچنا بعید ا ز قیاس ہے۔ امریکی ادیب ، مورخ اور فلسفی ویل ڈیورنٹ ( Will Durant: 1885-1981 (نے اپنی کتاب تاریخ کے اسباق ( The Lessons Of History )میں معاشرتی زندگی کی تشکیل اور اُس کے پس پردہ کارفرما عوامل کے بارے میں لکھاہے :
Society is founded not on the ideas but on the nature of man,and the constitution of man rewrites the constitution of states.But what is the constitution of man?(8)

معاشرتی زندگی میں رخشِ حیات پر سوار افراد میں ربط باہمی نا گزیر ہے ۔سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کو محض اتفاقی یا حادثاتی قرارد ینا کسی طور پر بھی درست نہیں ۔فلک کی گردش جو کسی کو چین ہی نہیں لینے دیتی یہ بھی منشائے فطرت کے مطابق ایک خاص نظم و ضبط کی تابع ہے۔نظام ِہستی یہ بات واضح کر رہاہے کہ یہاں سکون محال ہے اور محض تغیر کو ہی ثبات حاصل ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ طوفانِ حوادث کے مہیب بگولے قوموں کے وجود کو تو گزند پہنچا سکتے ہیں مگر کسی بھی خطے کی تہذیب اِن کی تباہ کاریوں سے اس لیے محفوظ رہتی ہے کہ ہر عہد کے ادیب اور مورخ اِسے قلم و قرطاس کا معتبر حوالہ بنا دیتے ہیں۔دکنی زبان کے قدیم ادیبوں نے نہایت ،محنت ،لگن اور احساسِ ذمہ دار ی سے سر شار ہو کر اپنے عہد کے حالات اور واقعات کو اس موثر انداز میں پیش کیا ہے کہ یہ نئی نسل کے لیے ایک بیش بہا تہذیبی میراث ثابت ہوئے ہیں۔ ہر دور میں یہ تہذیبی اثاثہ تعلیم کے وسیلے سے قارئینِ ادب کو منتقل کیا جاتارہے گا۔

دکنی زبان کے ادیبوں نے معاشرتی زندگی کے تضادات ،مناقشات اور ارتعاشات کے موضوع پر کُھل کر لکھا ہے ۔ ان کے اسلوب کے بارے میں یہی کہا جا سکتاہے کہ جہاں تک موضوعات کا تعلق ہے یہ اجتماعی نوعیت کے ہیں مگر اسلوب میں ان تخلیق کاروں کی انفرادیت جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں سے بھی اپنی تاثیر کالوہا منوا لیتی ہے ۔ اپنے عہد کے تمام حالات کو اپنی تحریروں میں جگہ دے کر ان ادیبوں نے آنے والے دور کے قارئین کو نئے زمانے اور نئی صبح و شام پیدا کرنے کی راہ دکھائی ہے ۔ایام گزشتہ کی کتاب کے صفحات کی ورق گردانی کرتے ہوئے دکنی زبان کے ادیبوں نے جو انداز اپنایا ہے وہ نہ صرف ان کی انفرادی رائے اور عزم کاآئینہ دار ہے بل کہ اِس میں اجتماعی شعور کا کرشمہ بھی دامنِ دِل کھینچتاہے ۔ وہ جانتے تھے کہ عہدِ سلاطین میں مجبوروں پر خود مختاری کی تہمت لگی ہوتی ہے ۔ ان حالات میں وہ گلشن ہستی میں اُگے صنوبر کے سر بہ فلک نخل ِ تناور کی مثال پیشِ نظررکھتے تھے جو ارضی پابندیوں اور جکڑ بندیوں کے باوجودوسعت ِ افلاک کی خبر رکھتاہے ۔

دکن میں بہمنی خاندان کا عرصہ ٔ اقتدار
سال 1323میں ورانگل ( Warangal ) میں تغلق افواج کے ہاتھوں شکست کے بعد آندھرا ( Andharas)کی طویل حکمرانی کا خواب بکھر گیا ۔اس کے بعدسال 1347ء میں گلبرگہ کے افغان حاکم علاء الدین بہمن شاہ نے تغلق افواج کو نکال باہر کیا اور شمالی ہند سے دکن کو الگ کر کے خود مختار بہمنی سلطنت کا قیام عمل میں لایاگیا۔بہمنی سلطنت کا عرصہ گلبرگہ ( 75سال ) اور جب احمد شاہ اول نے گلبرگہ کے بجائے بیدر کو دار الحکومت بنایاتو اُس عرصے ( 116سال )میں منقسم ہے۔ گلبرگہ اور بیدر میں تصوف کے شعبوں میں ایک نیا جذبہ اور نیا انداز دیکھنے میں آیا۔بہمنی حکمرانوں نے تمام اہلِ کمال،روحانی پیشواؤں ، دانش وروں ،صوفیا ،سیاست دانوں ،اساتذہ اور علام کو اپنے ہاں دعوت دی۔ اس خطے کے علم دوست حلقوں کودنیا بھر کی زبانوں بالخصوص عربی ،فارسی ،ترکی اور مقامی زبانوں کے ادب سے اخذ و استفادہ کے فراواں موقع میسر آئے ۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے :
گلبرگہ کا عرصہ( 75 سال)
نمبر شمار
بادشاہ کانام
)عرصۂ اقتدار : از
تا
1
+ علاء الدین حسن بہمن
1347ء
1358ء
2
محمد شاہ اوّل
1358ء
1375ء
3
+ علاء الدین مجاہد شاہ
1375ء
1378 ء
4
داؤد شاہ
16۔اپریل1378
21۔مئی1378
5
!محمد شاہ (ثانی)
1378 ء
1397ء
6
!غیاث الدین شاہ
20۔اپریل 1397
14۔جون1397
7
شمس الدین
14۔جون 1397
15۔نومبر 1397
8
* تاج الدین فیروز شاہ
1397 ء
1422ء
v بیدر کا عرصہ ( 116۔سال)
نمبر شمار
بادشاہ کا نام
'عرصہ ٔ اقتدار : از
تا
9
%احمد شاہ اوّل ولی
1422
1436
10
احمد شاہ دوم
1436
1458
11
ہمایوں ظالم شاہ
1458
1461
12
%نظام الدین احمدسوم
1461
1463
13
%محمدشاہ سوم لشکری
1463
1482
14
محمد شاہ چہارم
1482
1518
15
احمد شاہ سوم
1518
1520
16
علاء الدین شاہ
1520
1523
17
ولی اﷲ شاہ
1523
1526
18
کلیم اﷲ شاہ
1527
1527

بہمنی دور ( 1347-1527 )

محمد تغلق کے انداز حکومت کے بارے میں دکن کے بارسوخ امرا،رؤسا اور عمائدین میں تحفظات پائے جاتے تھے ۔ امیران ِصدہ نے محمد تغلق کی مطلق العنان حکومت کے خلاف بغاوت کر دی اور بلا شرکت غیرے سارے دکن کے حاکم بن بیٹھے۔ کامیاب بغاوت کے نتیجے میں رونماہونے والے انقلاب کے بعداپنے ایک معتمد امیر علاء الدین بہمن شاہ کو سال 1347ء میں بادشاہ بنا یا گیا اور یوں دکن میں بہمنی سلطنت کا قیام عمل میں آیا۔ بہمن شاہ نے دکن کو ایک نئے اندازِ انجمن سے متعار ف کرایا ۔اُس نے دکن اور اس کے نواحی علاقوں کے اُن تمام مسلمان قائدین سے معتبر ربط جومحمد تغلق کے انداز حکمرانی سے ناخوش و بیزار تھے ۔ بہمن شاہ نے اپنی حکمت عملی سے مغرب میں واقع دکن کے نصف علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور اپنی پسند کے عمال کا تقرر کیا۔ بر قرار رکھاصو لت بہمنی کا عرصہ دو سو برس پر محیط ہے تاریخ کے مختلف ادوار میں بہمنی خاندان کے اٹھارہ بادشاہوں نے اس خطے پر حکومت کی ۔ اس کے ساتھ ہی جنوبی ہند میں عسکری ،تہذیبی و ثقافتی اور معاشرتی زندگی میں تبدیلی کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں ادب اور فنون لطیفہ میں نئے رجحانات کو نمو مِلی۔ شمال سے آنے والے ان ترکوں نے اپنے دکنی ہونے کو لائق صد افتخار قرار دیا اور اس علاقے میں ہندوی کی ترویج میں گہری دلچسپی لی ۔ اس سلطنت کا دار الحکومت (1347-1425) احسن آ باد ( موجودہ گلبرگہ ) تھا ،اس کے بعد دار الحکومت کرناٹک کے شمال مشرق میں فرازِ کوہ پر واقع شہر محمد آباد ( موجودہ بیدار ) منتقل ہو گیا ۔خواجہ محمود گیلانی (محمود گوان ) کے عہدِ وزارت (1466-1481)میں بہمنی سلطنت جاہ و حشمت اور ترقی کے اعتبار سے اوجِ کمال تک پہنچ گئی ۔اس عرصے میں معیشت، ادب اورفنون لطیفہ کے شعبوں میں قابلِ قدر ترقی ہوئی ۔ بہمنی دور میں جن بادشاہوں نے اپنے عہد حکومت میں ادب اور فنون لطیفہ کی ترقی کے لیے گراں قدرخدمات انجام دیں ان میں بہمن شاہ ( عہد حکومت:1347-1358 )، محمد شاہ ( عہد حکومت : 1358-1375 )،علاالدین مجاہد( عہد حکومت:1375-1378 ) اور محمد شاہ دوم ( عہد حکومت : 1378-1397) کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ علاء الدین کے بیٹے محمد شاہ نے اپنے خسر اور وزیر سیف الدین غوری کو یہ ہدایت کی کہ نظام مملکت کی صلاح کے لیے قواعد و ضوابط مرتب کیے جائیں ۔بادشاہ اور وزیر کی مشترکہ کاوش رنگ لائی اورایک اہم کتاب ’’ نصائح الملوک ‘‘ کے نام سے منصہ ٔ شہود پر آئی ۔ بہمنی دور میں جن تخلیق کاروں نے پرورش لوح و قلم میں انہماک کا مظاہرہ کیا اُن میں حضرت خواجہ بندہ نوا ز گیسو درا ز سیّد محمد حسینی،سیّد اکبر حسینی ،نظامی ،شاہ صدر الدین ،عبداﷲ حسینی، مشتاقؔ،لطفی ؔ ،شاہ میراںؔ جی شمس العشاق اور آذری ؔشامل ہیں۔ بہمنی دور میں تخلیق ِ ادب کے مثالی نمونے پیش کیے گئے ۔اس عہد کے تخلیق کاروں کے اسلوب کی چند مثالیں پیش ہیں:
۱۔ حضرت خواجہ بندہ نوا ز گیسو درا ز سیّد محمد حسینی
تبلیغ ِ اسلام کی غرض سے حضرت خواجہ بندہ نوا ز گیسو درا ز سیّد محمد حسینی نے نوے (90) برس کی عمر میں باطنی تحریک کے زیر اثر دکن منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔قدیم زمانے میں دکن سے تعلق رکھنے والے شعرا اور نثر نگار انسانی صحت کو درپیش مسائل کے بارے میں اپنے اشہب ِ قلم کی خوب جولانیاں دکھاتے تھے ۔ انسانی زندگی اور جسم و جاں کی تقاضوں کے موضوع پر نظم ’’ چکی نامہ ‘‘جس کے بارہ بند ہیں زندگی کی حقیقی معنویت کو سامنے لاتی ہے۔ اُردو زبان میں یہ سلسلہ جدیددور میں بھی جاری ہے ۔دردمندوں ،بیماروں ،ضعیفوں اور الم نصیب جگر فگاروں کے ساتھ قلبی وابستگی کا یہ انداز دکنی اور اردو ادیبوں کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔اپنی جنم بھومی اور اہلِ وطن کے دکھ درد میں شریک ہونے کا یہ انداز انسانیت نوازی کے جذبہ کا مظہر ہے ۔ حضرت خواجہ بندہ نوا ز گیسو درا ز سیّد محمد حسینی کو طبی مسائل میں گہری دِلچسپی تھی۔ کئی منظوم طبی نسخے اُن کی یادگارہیں:
سُن تُو سیانے میری بات
بولوں دارُو میں کِس دھات
جِس کے منھ میں آوے باس
اُس کی دارُو سُن مجھ پاس
جس کے منھ میں دِکھتے دانت
ہِلتے جُلتے کٹے کٹے پات
وزن برابر سب کو تول
دارو ہووے یوں انمول
داتوں کارن مسّی کر
خوبی کن تو دِل میں دھر
زِیرہ مرچیاں ستوا سنوٹ
کہتا اُجلا لے کر گھونٹ
نیلا طوطہ دھنیا بھون
اِس میں مِلا تو سیندا لُون
پان پلاس کے کاہنٹیاں آن
ماپھل لوچن اور لوبان
جوں جوں لگاوے پاوے سُکھ
تجھ دانتوں کا جاوے دُکھ

لسانی ارتقا کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات واض ہو جاتی ہے کہ نوے برس دہلی میں گزارنے والے معمر بزرگ حضرت خواجہ بندہ نوا ز گیسو درا ز سیّد محمد حسینی کی تصانیف میں جو زبان استعما ل کی گئی ہے اُس پر بلاد شرقیہ میں بولی جانے والی زبانوں اور گجراتی زبان کا اثر ہر چند کہیں کہ ہے ،نہیں ہے ۔قدیم دکنی زبان کے لسانی جائزے سے یہ معلوم ہوتاہے کہ حضرت خواجہ بندہ نوا ز گیسو درا ز سیّد محمد حسینی نے اپنا منفرد انداز اپنانے کی سعی کی ۔

۲۔ سیّد محمد اکبر حسینی نے بہمنی دور میں نظم اور نثر میں اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا۔ انھوں نے تصوف کے موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی ۔
بیٹے کوں باپ بولے بیٹاکہے پِدر تئیں
ہونامرید جلدی لے کر بجا امر تیں

۳۔نظامی
بہمنی دور میں نظامی کی مثنوی ’’ کدم راؤ اور پدم ‘‘ بہت مقبو ل ہوئی ۔

۴۔صدر الدین
بہمنی دور میں صدر الدین کی تصنیف ’’ کسبِ محویت ‘‘میں روحانیات ،احادیث اور عرفان ِ ذات کے موضوع پر شاعر نے موثر انداز میں لکھا ہے ؛
بسکر ا ے شہ صد ر الدین راز کوں
دیدار میں دیدار یا آپس کو ں کھوں

۵۔ عبد اﷲ حسینی
عبداﷲ حسینی نے احمد شاہ ثانی بہمنی کے عہدِ حکومت میں اپنے دادا حضرت خواجہ بندہ نوا ز گیسو درا ز سیّد محمد حسینی کے مانند تصوف کا اپنایا۔

۶۔ مشتاقؔ
سلطان محمد شاہ بہمنی کے عہدِ حکومت میں مشتاق ؔ کی شاعر ی بالخصو ص قصائد اور غزلیات کی ہر طرف دُھوم مچی تھی ۔اپنے عہد کے اِس باکمال شاعر کے حالات ِ زندگی ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد میں اوجھل ہو گئے ہیں ۔
نیں تجھ مد بھرے دیکھت نظر میانے اثر آوے
آدھرکے یاد کرنے میں زباں اوپر شکر آوے

۷۔ لطفی ؔ
لطفیؔ کے حالات ِ زندگی تو تاریخ کے طوماروں میں دب گئے ہیں مگر اُس کاکلام کے ہونے کی گواہی دیتاہے ۔قصائد اور غزلیات میں لطفی ؔنے خو ب رنگ جمایا :
خلوت منے سجن کے میں موم کی بتی ہوں
یک پاؤں پر کھری ہوں جلنے پرت پتی ہوں

۸۔ شاہ میرا ں جی شمس العشاق
اس با صلاحیت شاعراور صوفی نے اپنے فیضان ِ نظر سے اپنے عہد کے لوگوں کا دِل مسخر کر لیا۔شاعری کے علاوہ نثر میں بھی شاہ میرا ں جی شمس العشاق نے اپنے اسلوب کے جوہر دکھائے ہیں۔ شرح مرغوب القلوب ، بشارت الذکر ،مغز مر غوب ، خو ش نامہ اورخوش نغز،اُن کی اہم تصانیف ہیں۔اِن تصانیف پر جن زبانوں کے اثرات پائے جاتے ہیں ان میں مر ہٹی ،برج بھاشا اور گجراتی شامل ہیں ۔
صنعت کروں میں اﷲ کی جے پوری پورن پور
قادر قدر ۃ انگیکا رول نیرے نا دُور

۹۔ شاہ برہان الدین جانم
اپنے والد شمس العشاق میراں جی کے زیر اثر ان کا رجحان تصوف کی طرف تھا۔بر ہان الدین جانم اپنے باپ کے خلیفہ تھے اور انھیں مذہبی علوم اور روحانیات پر کامل دسترس حاصل تھی۔ شاہ برہان الدین جانم کے اسلوب پر مر ہٹی ،برج بھاشا اور گجراتی کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔
روحی انتر دھیان لگا دے یوں لک دیوے باد
روحی کے سرتی ان ہی بھی پایا دیکھا ہوا شاد
آپس رکھیا اس تسلی میں سے جبر و تیکا حال
جبر یہ خالی چھور کرامت سبھی ھچی کھال

۱۰۔ آذریؔ
آزریؔ کا تعلق ایران سے تھا،اُس نے سلطان احمد شاہ بہمنی کے عہدِ حکومت میں بہمنی حکومت کے دارالسلطنت بیدر کو اپنا مستقل مسکن بنالیا۔سلطان احمد شاہ بہمنی نے اپنے زمانے کے اس فاضل کو ملک الشعراکاخطاب دیا اوراِسے بہمنی سلطنت کی تاریخ ( بہمن نامہ )لکھنے کی ذمہ داری تفویض کی ۔قصیدہ گوئی میں آذری ؔنے اپنے فن کی دھاک بٹھا دی تھی۔
آسماں ہم نتواں گفت کہ ترک او بست
قصر سلطان ِ جہاں احمد بہمن شاہ است

سال 1397میں بر صغیر پر ترک منگول مہم جُو امیر تیمور (1336-1405)کے حملے کی خبر سن کر مقامی حکمرانوں یاس و ہراس کا شکار ہو گئے اور ان کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے ۔تغلق بادشا ہ ناصر الدین محمود(عرصہ اقتدار :1246-1266) اپنے ساتھیوں سمیت دہلی چھوڑ کرگجرات پہنچا اور یہا ں سے بے نیلِ ِمرام مالدہ جا پہنچا۔امیرتیمور کی عسکری یلغار کے بعدسلطنت دہلی کا انتظامی ڈھانچہ مکمل انہدام کے قریب پہنچ گیا۔ اس آفت ِ ناگہانی نے نظام سلطنت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں ۔سال 1398میں امیر تیمور نے دریائے سندھ کو عبور کیا اور پیش قدمی کرتا ہوا ملتان پہنچا۔اُسی سال امیر تیمور نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور دریائے جمنا عبور کر کے دہلی پر دھاوا بول دیا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ شہر کے الم نصیب مکینوں پر سب بلا ئیں تمام ہو گئیں اب وہ مرگِ نا گہانی کے منتظر تھے ۔ اس عرصے میں گجرات کے طاقت ور اور با رسوخ حاکم مظفر خان نے اپنی خود مختار بادشاہت کا اعلان کر دیا ۔سیل زماں کے تھپیڑے بہمنی خاندان کے جا ہ و جلال کو خس وخاشاک کے مانند بہالے گئے۔بہمنی خاندان کے زوال کے بعد جن ریاستوں نے خود مختاری کا اعلان کیا اُن میں احمد نگر، برار،بیجاپور، بیدر اورگول کنڈہ شامل ہیں۔

اردو زبان کے ابتدائی دھندلے نقوش جو امیر خسرو (1253-1325)کے زمانے میں دکھائی دیتے ہیں ،وہ شاہانِ بیجا پوراور گولکنڈہ کے حکمرانوں کے دور میں نمایاں ہو گئے۔ تاریخی حقائق کے مظہر اس عہد کے ادب پاروں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سر زمین دکن ہی تھی جہاں سے اردو زبان کے ابتدائی نقوش نمو پانے لگے ۔فکر و خیال کی وادی میں اس لسانی کِشت کے نتیجے میں ایک نئی زبان کے شگوفے پُھوٹنے لگے ۔

دکنی عہد میں دکن میں ادب اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں بہت ترقی ہوئی ۔فن تعمیر میں اگرچہ بہمنی بادشاہوں نے دہلی اور ایران کے فن تعمیر کو قدر کی نگاہ سے دیکھا مگر بہمنی حکمرانوں نے کورانہ تقلید سے بچتے ہوئے آزادانہ سوچ کے مظہر طبع زاد،اصلی اورانوکھے نمونوں کی پزیرائی کی ۔مثال کے طور پر بہمنی حکمرانوں نے بیدر، گلبرگہ اور کر ناٹکا میں جو عمارات تعمیر کرائیں وہ بر صغیر کی مقامی اوراسلامی تہذیب و ثقافت کے امتزاج کی ایسی عظیم الشان یادگاریں جوتاریخ کے ہر دور میں عظمت رفتہ کی جانب توجہ دلاتی ر ہیں گی۔سال 1367ء میں تعمیر ہونے والی جامع مسجد( ہفت گنبد ) جس کی لمبائی 216فٹ اور چوڑائی 176فٹ ہے آج بھی بہمنی بادشاہوں کے ذوق کی کہانی سنا رہی ہے ۔اس کے علاوہ قلعہ گلبرگہ ،قلعہ بیدر اور مدرسہ محمودگاوان بھی ایام گزشتہ کی تاریخ کا زریں باب ہیں۔

بہمنی دور میں اس خطے میں لسانی ارتقا کی کہانی بہت طولانی ہے ۔یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ زبانوں کو اشارات کے وسیع اور معانی کے حامل ایک سیٹ کی حیثیت حاصل ہے ۔تکلم کے سلسلوں کے دوران میں یہی اشارات جب اظہار وابلاغ کی صورت اختیار کرتے ہیں تو گنجینہ ٔ معانی کے طلسم کی گِرہ کشائی کے متعدد امکانات پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ تخلیق ِ ادب اورلسانیات میں گرامر کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتاہے ۔کسی بھی زبان کی گرامر کی تفہیم کے معجز نما اثر سے ابتدائی نوعیت کے یہی اشارات ید بیضاکا معجزہ دکھاتے ہیں۔اِن ابتدائی نوعیت کے اشارات سے وسیع تر معانی کے حامل مزید اشارات کے سوتے پُھوٹتے ہیں جولسانی ارتقا کے مقاصد کو تخلیقی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیتے ہیں۔ ان اشارات کانمایاں وصف یہ ہے کہ یہ خود کفیل ہوتے ہیں اور ا پنی دنیا آپ پیدا کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔انھیں اظہار و ابلاغ کے سلسلے میں کسی دوسرے آسرے یہاں تک کہ اپنے ماخذ کی احتیاج بھی نہیں رہتی۔ اشارات کی یہ روز افزوں کیفیت ایک منفرد لسانی تجربہ ثابت ہوتاہے جو افکارِ تازہ کی اساس پر جہان ِ تازہ کا قصر عالی شان تعمیر کرنے کا ولولہ عطاکرتاہے ۔یہی اشارات عصری آ گہی کے تقاضوں کے مطابق لسانیات کے جہان میں ہوا کا رخ پہچاننے پر مائل کرتے ہیں۔قدیم دکنی زبان کا مطالعہ کرنے کے بعداشارات کا جو دھنک رنگ منظرسامنے آتاہے وہ تاریخ ِ ادب کی بصیرت افروز صداقتوں کا امین ہے ۔
مآخذ
(1 ) حافظ محمود شیرانی : پنجاب میں اُردو (حصہ اول ) ، اسلام آباد ،مقتدرہ قومی زبان ،پاکستان، طبع اول، 1988،ص11۔
94 R.G.Collingwood:The Idea Of History , Oxford University press,1946,Page, (2)
( 3 ) نصیر الدین ہاشمی: دکن میں اُردو ،قومی کونسل برائے فروغ اُردو ،نئی دہلی ،دوسرا ایڈیشن،جولائی 2002،صفحہ 32
(4).Arnold J.Toynbee:A Study Of History , Volume I,Oxford University Pres London,Page,50
(5) نصیر الدین ہاشمی : دکن میں اُردو ،ترقی ٔ اردو بیورو ،نئی دہلی ،سال اشاعت ، 1985 ،صفحہ43
(6) ڈاکٹر سید محی الدین قادر ی زور : ہندوستانی لسانیات ،حیدر آباددکن ،1932،صفحہ21
(7)ڈاکٹر شری رام شرما : دکنی زبان کا آغاز و ارتقا ،ساہتیے اکیڈمی ،آندھر ا پردیش ،حیدرآباد ،1967،صفحہ،12
(8).Will And Ariel Durant:The Lessons Of History,Simon And Company ,New York ,Seventh Printin,Page,32
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 609367 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.