انٹرنیٹ پر کچھ ایسی ویڈیو موجود ہیں جن میں استاد اپنے
طلبہ پر دوران تدریس تشد کررہے ہیں۔ وہ بچوں کو کتاب سے پڑھنے کے لئے کہہ
رہے ہیں لیکن بچوں سے درست طور پر پڑھا نہیں جارہا جس کے نتیجہ میں وہ اپنے
اساتذہ کی مارپیٹ کا نشانہ بنتے چلے جارہے ہیں۔ ان میں اسکولوں کے اساتذہ
اور مذہبی مدرسوں کے معلم بھی شامل ہیں۔ بچوں کے درست طور پر کتاب نہ پڑھنے
پر اساتذہ غصہ میں آگ بھگولا ہو کر ان پر تشدد کرنے بجائے اگر ان وجوہات کو
جاننے کی کوشش کرتے کہ بچے کیوں درست طور پر نہیں پڑھ سکتے تو پھر وہ
مارپیٹ نہ کرتے۔ سائنسی تحقیق اور علم انسانی نے یہ دریافت کیا ہے کہ کچھ
بچوں کے درست طور پر نہ پڑھنے کہ وجہ ڈیسلیسیا نامی عارضہ ہے جسے ’’پڑھنے
لکھنے میں دشواری‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اس عارضہ کی وجہ سے درست طور پر پڑھنا
اور پھر لکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ڈیسلیسیا دماغ کے ان علاقوں کو متاثر کرتا
ہے جو زبان پر عملدرآمد کرتے ہیں۔ ڈیسکلیسیا کے شکار افراد کو درست طور
پڑھنے اور اسے لکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔جو بچے سبق نہ پڑھنے پر اپنے
اساتذہ کے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں، ممکن انہیں بھی ڈسلیسیا ہو ، اس لئے اس
کی طرف توجہ مبذول کروانے اور ان کی مدد کی ضرورت ہے ۔ڈسلیسیا ایک مورثی
عارضہ ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے اور یہ پیدائش کے وقت موجود
ہوتا ہے۔ اس سے بچا نہیں جاسکتا اور نہ ہی ادویات سے اس کا علاج کیا جاسکتا
ہے البتہ خصوصی ہدایت اور بہتر انتظامات کی مدد سے اس دشواری کو کم
کیاجاسکتا ہے۔اس کے لئے پڑھنے کی دشواریوں کو دور کرنے کے لئے ابتداء میں
ہی تشخیص اور معاونت ضروری ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ ڈیسلیسیا آٹزم کی ایک شکل
نہیں ہے بلکہ یہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ اگر کسی بچے میں کوئی بھی ایسی
علامت نظر آئے تو اس کا مکمل معائینہ اور تشخیص ہونی چاہیے اور یہ تین سے
سات سال کی عمر تک ہوجانی چاہیے۔ اگرکسی بچے میں یہ مسئلہ ہو تو پہلے اس کے
کانوں اور آنکھوں کا معائنہ ہونا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ سماعت اور
بصارت تو ٹھیک ہے۔
اگر کسی کو یہ مسئلہ درپپش ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں، آپ دنیا میں اکیلے
نہیں ، دنیا کی 10 فی صد آبادی میں یہ مسئلہ پایا جاتا ہے۔یہ عارضہ لڑکیوں
کی نسبت یہ لڑکوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ایسے بچوں کی ذہانت متاثر نہیں ہوتی
اور نہ ہی انہیں کوئی دماغی مسئلہ ہوتا ہے اور وہ بالکل عام زندگی گزار
سکتے ہیں۔ سویڈن کے شاہی خاندان میں بہت سے لوگوں کو لکھنے پڑھنے میں
دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سویڈن کے باشادہ کارل گستاف بھی اس مشکل کا
شکار ہیں۔ سویڈن کی ولی عہد شہزادی وکٹوریہ اور شہزادے کارل فلپ اس سے
دوچار ہیں۔ ان کی والدہ ملکہ سلویہ تھیں ، جنھوں نے اپنے بچوں کی ابتدائی
عمر ہی میں اپنے بچوں میں یہ مسئلہ دیکھ لیا تھا ۔ شہزادی وکٹوریا کا کہنا
ہے کہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہماری والدہ کو ابتداء میں ہی علم ہوگیا اور
انہوں نے بہت تعاون کیا جس سے ہمیں اس مشکل پر قابو پانے میں بہت مدد ملی۔
دنیا کے کئی عظیم لوگ اس مشکل سے دوچار رہے ہیں لیکن انہوں نے اس پر قابو
پاتے ہوئے اپنا نام کمایا اور شہرت حاصل کی۔ ان میں عظیم سانئس دان آئین
سٹائین، سب سے زیادہ ایجادات کرنے والے سائنس دان ایڈیسن، برطانوی وزیر
اعظم چرچل، امریکہ کے فورڈ , باکسنگ کے عالمی چیمپئن محمد علی، سویڈن کے
معروف ادارےIKEA کے بانی انگور کپراد ، ناروے کے بادشاہ اور موجودہ امریکی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہیں ۔ یہ عارضہ مورثی ہے اور والدین سے بچوں کو وراثتی
مادے جنہیں جین کہتے ہیں ان سے منتقل ہوتا ہے۔ سویڈن کی لنشاپنگ یونیورسٹی
کے محققین اس پر تحقیق کررہے ہیں کہ آیا دماغ میں کوئی ایسی چیز ہوسکتی ہے
جو اس کا باعث ہوتی ہے اوریہ مسئلہ کیسے درپیش ہوتا ہے۔ آنے والے دور میں
سائنسی تحقیقات مزید آگاہی دے سکیں گی لیکن مورثی بیماریوں کا ادویات سے
علاج ابھی ممکن نہیں۔ اس لئے ایسی بیماریوں کو ہم سمجھ کر وہ اقدامات
کرسکتے ہیں جن کی وجہ سے ان کی شدت کم ہوسکتی ہے اور ایسے عوارض میں مبتلا
لوگوں کو آسانیاں میسر ہوسکتیں ہیں۔
اساتذہ اوروالدین کو ان بچوں کی مشکلات کا علم ہونا چاہیے اور ان سے سختی
سے پیش نہیں آنا چاہیے بلکہ ان کی مدد کرنی چاہیے۔معاشرہ میں اس بارے میں
آگاہی ہونی چاہیے اور اگر کسی کو یہ مشکل درپیش ہو تو اس کا مذاق اڑانے اور
تکلیف پہنچانے کی بجائے اس کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا چاہیے۔ انہیں بلند
آواز سے پڑھنے کے لئے نہیں کہنا چاہیے اور اگر وہ پڑھنے میں غلطیاں کرے تو
اس کے ساتھ پیار اور محبت سے پیش آنا چاہیے۔ اگر کسی کو لکھنے اور پڑھنے
میں دشوای ہو توسوالات کا زبانی طور پر جواب دینا بہتر ہوتا ہے۔ اسی طرح
اگر جواب لکھنے میں بھی دشواری کا سامنا ہو تو زبانی جواب دیا جاسکتا ہے۔
بچوں کو کتابیں یا کھیلوں کا سامان و فراموش کرنے پر سزا نہ دیں۔ ایسے بچوں
کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے اور ان کے لئے سست، غبی، نالائق اور کند ذہن جیسے
الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیں۔ ان بچوں کو تحریری کام کم دیں اور امتحان
میں انہیں دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ وقت ملنا چاہیے۔ سویڈن میں ایسے طلبہ
کو امتحان میں دوسرے طلبہ سے زیادہ وقت دیا جاتاہے۔ ان بچوں سے بورڈ پر
لکھنے یا کتاب سے متن پڑھ کر لکھنے کے لئے نہیں کہنا چاہیے۔پڑھنے کی بجائے
ان کے لئے سمعی اور بصری کتابیں مفید ہیں اور لکھنے کی بجائے ، کمپیوٹر سے
لکھنا آسان ہے، اس لئے یہ ذرائع بروئے کار لانا چاہیے۔ ان اقدامات سے ہم
ڈسلیسیا میں مبتلا افراد کی بہتر مدد کرسکتے ہیں اور وہ بھی زندگی کی دوڑ
میں بہتر مقام پیدا کرسکتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے تعلیمی اداروں اور معاشرہ
میں ہر سطح پر آگاہی مہم ہونی چاہیے۔
|