انسانیت کی سب سے محترم شخصیت یعنی محسنِ انسانیت حضرت
محمدﷺ‘جن کا احترام اُن کے ماننے والوں کے نزدیک ہی نہیں، غیر جانب دار اور
انصاف پسند مستشرقین کے یہاں بھی مسلّم ہے‘ نہ جانے کیوں بعض نا ہنجار،
اسلام اور مسلمانوں کو دیکھ کر پیچ و تاب کھانے والے، باربار آپﷺ کی شانِ
اقدس میں گستاخیاں کرتے رہتے ہیں؟ افسوس ہزار بار افسوس! آج اخلاق و وفا
کے پیکر کی تضحیک کی ناپاک کوششیں کی جاتی ہیں، جس نے حیوان نمالوگوں کو
انسانیت کا عملی درس دیا۔ تم خواہ کتنے ہی جتن کر لو، لیکن کامیاب نہیں ہو
سکتے، اس لیے کہ محمد مصطفیٰ ﷺ کے ناموس کی حفاظت کی ذمّے داری خود اللہ
سبحانہ و تعالیٰ نے لی ہے۔تم بہت جلد اپنے انجامِ بد کو پہنچ کر رہو گے،
اور یہ بدرِ منیر ہمیشہ ہمیش اپنی نورانی کرنوں کے ساتھ چمکتا دمکتا رہے
گا۔ ان شاء اللہ
ہمارے عقیدے کے مطابق خلاصۂ کائنات، افضل المخلوقات، ختم الرسل، سید
الانبیا، سیدنا و مولانا حضرت محمد ﷺکی عظمت، محبت، اطاعت اور احترام‘
ایمان کا لازمی جُز ہے۔ جب تک مسلمان اپنے اہل و عیال سے زیادہ بلکہ اپنی
جان سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے محبت نہ کرے، اُس کا ایمان کامل و مکمل ہی
نہیں ہوتا۔ آپﷺ سے محبت کے بغیر ایمان کا دعویٰ باطل و مردود ہے۔
اپنے نبی کی محبت ہر مسلمان کے دل میں پیوست ہے، اس لیے آپ دیکھیں گے کہ
مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے،لیکن گنہ گار سے گنہ گار مسلمان بھی رسول
اللہﷺ کی شان میں ادنیٰ گستاخی برداشت نہیں کر سکتا،یہ گستاخی صراحتاً ہو
یا کنایۃً۔ مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر ہرمردود و مکروہ فعل کی ہمیشہ مزاحمت
کرتا ہے ۔ رسول اللہﷺ کی شان میں ادنیٰ گستاخی، خواہ کسی نوعیت کی ہو،
مسلمانوں کے لیے نا قابلِ برداشت ہے۔
اس کے باوجود کبھی ڈنمارک تو کبھی ناروے اور کبھی فرانس اور دیگر مغربی و
یوروپی ممالک میں رحمۃ للعالمینﷺ کے خاکے بنا کر رسول اللہﷺ کی شان میں
گستاخیاں کی جاتی رہتی ہیں۔ مغربی اقوام کا یہ شنیع فعل باربار عالمِ اسلام
کے جذبات کو مجروح کرتا ہے۔اُنھیں تکلیف پہنچاتا ہے۔ آخر کیوں اس قبیح فعل
پر سختی سے پابندی عائد نہیں کی جاتی؟جب نام نہاد سیکولر ملکوں میں ایک عام
انسان کی عزت کو بھی تحفظ حاصل ہے کہ کوئی اس پر ہتک آمیزی کی کوشش نہیں
کرسکتا،تو کروڑوں بلکہ اربوں انسان کے دلوں میں بسنے والی اس عظیم اور
محترم شخصیت کے ناموس کاتحفظ کیوں نہیں کیا جاتا؟
اقوامِ متحدہ کے ۱۹۴۸ء کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی دفعہ ۱۸ ؍کے
مطابق ’ہر انسان کو خیال، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق‘ دیا گیا ہے،تو
کیا اس آزادی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایک یا چند افراد ڈیڑھ ارب مسلمانوں
کی دل آزاری کرنے کے لیے آزاد ہیں؟ آخر کیوں وقتاً فوقتاً رسول اللہﷺ کے
ناموس پر ضرب لگائی جاتی اور آپﷺکے مقامِ عالی شان پر رکیک حملوں کی کوشش
کی جاتی ہے؟
قطعِ نظر اس حالیہ واقعے کے، اس شنیع فعل پر ردِ عمل کے طور پر ایک مناسب
حکمتِ عملی کے تحت پُر زور کوشش کی جانی لازمی ہے۔ سیکولرزم کے پس پردہ
ایسی ناپاک کوششوں کو جواز فراہم کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ اگر سیکولرزم
واقعی اسی طرح انسان کو بے مہار چھوڑ دینے کا قائل ہے،تو کل کوئی اس کا
فایدہ اٹھا کر کسی کی ماں کی برہنہ تصویر کو سرِ عام کسی شرم ناک فعل کا
مرتکب دکھا سکتا ہے! کسی کی بہن اور بیٹی کی عزت کو سرِ بازار نیلام کر
سکتا ہے!کیا کوئی عقل مند اسےبرداشت کرسکتا ہے؟
اگر نہیں، تو جس رحمۃ للعالمینﷺکی محبت ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی رگ رگ میں خون
کی طرح گردش کرتی ہے، بار بار اُس عظیم و برتر ہستی کو کیوں نشانے پر لیا
جاتا ہے؟ کیوں اُس کی شان میں گستاخیاں کی جاتی ہیں؟ کیوں اُس سے منسوب
خاکے تراشے جاتے ہیں؟ اور جن ملکوں میں وقتی وزیرِ اعظم اور صدر کی شان میں
گستاخی کرنا جرم ہے، وہاں کیوں سید الکل فی الکل کی شان میں گستاخیاں روا
رکھی جاتی ہیں؟ عامۃً ایسے کارٹون بنانے والے اسے تفریح کا ذریعہ بتاتے
ہیں۔لیکن ہمیں بتائیے کہ کیا کروڑں لوگوں کی دل آزاری کرکے چند لوگوں کی
تفریحِ طبع کاسامان کرنا کسی طرح جائز ہو سکتا ہے؟ کیا مذہبی شخصیات کی اس
طرح ہتک آمیزی کے سوا آپ کے پاس تفریحِ طبع کا کوئی اور سامان نہیں ہے؟سچ
تو یہ ہے کہ یہ سب جان بوجھ کر ، منصوبے کے تحت کیا جاتا ہے۔ پھر اگر اس پر
کوئی ردِ عمل ظاہر کرتا ہےتو اس میں حیران ہونے والی کیا بات ہے؟ جب آپ
اپنے عمل میں آزاد ہیںتو وہ اپنے رد عمل میں کیوں آزاد نہیں؟
یہ چند ضروری باتیں اسی آزادی کے تحت رقم کی جا رہی ہیں، جس آزادی کے تحت
آپ غیر ضروری باتوں کو فروغ دے کر فضا کو مسموم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم
تو یہی کہیں گے کہ اسلام کسی مسلمان کو محض جذباتی ہوکر بغیر سوچے سمجھے
کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں دیتا،لیکن شاید ایسے موقع پر مناسب ردِ عمل
ظاہر ہونا بھی ضروری ہے۔ اسلام کبھی بے قابو ہوکر سرکاری و غیر سرکاری
املاک کو ضائع کرنے، دکانوں و مکانوں کو آگ لگانے اور کاروں و موٹر
سائیکلوں کو جلا ڈالنے کا روادار نہیں،لیکن اس طرح کی ناپاک حرکت کرنے
والوں کی حد درجہ حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے، تاکہ آیندہ کوئی ایسی شنیع
حرکت نہ کر سکے۔
رسول اللہﷺکی حیثیت اسلام میں محض پیام بر کی نہیں، بلکہ مخدوم و مطاع کی
ہے۔ خالق پر ایمان لانا، اس کی عبادت کرنا اور اس کے ہاں قرب جوئی حاصل
کرنا‘اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک رسول اللہﷺ پر ایمان نہ لایا جائے، آپﷺ
کی اطاعت نہ کی جائے اور آپﷺ کا قرب نہ حاصل کیا جائے۔حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا نےفرمایاکان خلقہ القرآن‘یعنی آپ کی برگزیدہ ہستی مجسمِ
قرآن تھی، لہٰذا اگر قرآن حجت ہے اور بلا ریب وشک حجت ہےتو پھر اس کا
بیان بھی حجت ہوگا۔ آپﷺ نے جو بھی کہا ،جو بھی کیا ، وہ حق ہے، دین ہے،
نیکی ہے، اس لیے کہ آپﷺ کی زندگی مکمل تفسیرِ کلامِ ربانی ہے۔ارشادِ ربانی
ہے:لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللہِ اُسْوَة حَسَنَةٌ۔اللہ کا رسول
تمھارے لیے نمونۂ عمل ہے۔[سورۃ الاحزاب:۲۰] یہی نہیں بلکہ آپﷺ کو بارگاہِ
رب العزت سے رفعت وبلندی کا وہ مقام حاصل ہے، جس کے آگے تمام رفعتیں
سرنگوں ہیں ۔
اس وقت دنیا کے نقشے سے جہاں مسلمانوں کے وجود تک کو ختم کرنے کی بہیمانہ
کوششیں کی جا ر ہی ہیں، وہیں مسلمانوں کا ایمانی وجود بھی سخت امتحان سے دو
چار ہے، اور ایک عرصے سے مسلمانوں کے مسلسل امتحانات لیے جا رہے ہیں۔ کبھی
ان پر آگ وبارود برسا کر دین پر ان کی استقامت کا امتحان لیا جاتاہےتو
کبھی شعائرِ اسلام ، مقدس مقامات کے خلاف اہانت کرکے مسلمانوں کی دینی حمیت
اور اسلامی غیرت کو للکارا جاتاہے!ظاہر ہے کہ ان تمام مراحل میں امتِ مسلمہ
کو سست اور غافل پاکر دشمنانِ دین اور شیطان لعین‘ دونوں کی ذریت رسول
اللہﷺکے نام لیواؤں پر پے در پے حملے کیے جا رہی ہے ۔ یہ بھی مسلمانوں کی
ایمانی غیرت ودینی حمیت کا گویا امتحان ہی ہے کہ ایک بار پھر خلاصۂ
کائنات، محسنِ انسانیت ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کا گھناؤنا ارتکاب کیا
گیا!
یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں، بلکہ بار بار خبثِ باطن کااسی طرح برملا مظاہرہ
کیا جاتا ہے، لیکن ۶۰؍ کے قریب اسلامی ممالک اور ایک ارب سے زائد مسلمانوں
میں سے سوائے چند مقامات اور مخصوص اشخاص کے، کسی کی طرف سے کوئی مثبت
ومؤثر ردِ عمل دیکھنے میں نہیں آتا۔ حالاں کہ اس قسم کی گستاخانہ حرکت
اگر کوئی انسان ہماری اپنی ذات، ہمارے والدین اور ہمارے عزیزوں میں سے کسی
کے خلاف کرتاتو ہمارے جذبات میں لازماً ارتعاش آجاتا! ہم اس کے در پہ ہو
جاتے!سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ہمیں ہماری جانیں ،عزیز واقارب اور دنیوی مال
ومتاع محسنِ انسانیت ﷺ سے زیادہ عزیز ہوچکے ہیں؟ اگریہ حقیقت ہے تو ہمیں
اپنے ایمان کا جایزہ لینا ہوگا، کیوں کہ اگر ایسا ہواتو پھر ہمیں دنیا میں
مظلومیت، مقہوریت اور مذلت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اگر ہم ایمان کی
سلامتی،کامیابی اور آخرت کے عذاب سے حفاظت چاہتے ہیںتو ہمیں اتباعِ رسول
اور محبتِ رسولﷺ کا سچا وپکا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور یہ سچا وپکا راستہ
وہی ہے، جو منشاے خداوندی کے مطابق حضور ﷺکے طرزِ عمل اور آپ ﷺکے دین کی
عملی تصویر یعنی صحابہ کرامؓسے میل ومناسبت رکھتا ہو۔یوں تو پورا قرآن
مجید حرمتِ رسول اللہﷺکا بیان ہے، کیوں کہ آپ ﷺکی حرمت وتقدس کے بغیر
قرآن مجید کی حرمت وتقدس کا تصور نہیں کیا جا سکتا، جب کہ قرآن مجید میں
بہ طور خاص دو درجن سے زائد آیاتِ مبارکہ ایسی ہیں، جن میں آپﷺ کی حرمت
وتقدس کو بہ طور خاص موضوع بنایا گیا ہے اور آپ ﷺکی بے ادبی،گستاخی اور
ایذا رسانی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
جس طرح کسی ملک میں وہاں کے صدر اور وزیرِ اعظم کی ہتک آمیزی جرم تصور کی
جاتی ہے، اسی طرح ہم اپنی حکومتِ وقت اور اقوامِ متحدہ سے کہتے ہیں کہ وہ
ملکی وبین الاقوامی سطح پرانبیاےکرام علیہم السلام، اسلام کی محترم شخصیات
اور شعائر ِاسلام کی توہین کرنے والوں کے خلاف ہرممکن اقدام اور اپنی حیثیت
کے مطابق بھر پور کردار ادا کرے۔
ہم کسی کا بے جا خون بہانے کو جرم سمجھتے ہیں، اسلام کسی قسم کی دہشت گردی
کا روادار نہیں، لیکن شانِ رسولﷺ میں گستاخی کرنے والوں کو بھی حکومت کی
جانب سے سزا دی جانی چاہیے۔عالمی عدالت میں ، ایسے مجرموں کو بین الاقوامی
مجرم قرار دیتے ہوئے ان پر لگام لگانا از بس ضروری ہے،اگر ایسا نہ ہو سکے
تو جن ممالک کے باشندے اس گھناؤنے جرم کے مرتکب ہوں،ان ممالک پر سفارتی
دباؤ ڈالتے ہوئے، ان مجرموں کی سر کوبی کروائی جانی چاہیےیا ان مجرموں کی
تحویل کے لیے حتی الامکان کوشش کی جانی چاہیے تاکہ قیامت کے روز احکم
الحاکمین کی عدالت میں پوری انسانیت ہمارے حق میں گواہ بن سکے کہ ہم نے
رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی پر مقدور بھر ایمانی قوت اوردینی غیرت وحمیت
کا مظاہرہ کیا تھا اور ہم اس قسم کے واقعات سے ناخوش اور آزردہ تھے۔اللہ
تعالیٰ ہم سب کو اپنے حبیب ﷺپر جاں نثاری کی توفیق سے نوازے۔آمین
|