صنفی عدم مساوات

میں اپنے معاشرے کی بات کروں گی جہاں ہر لحاظ سے عورتوں اور لڑکیوں کو دبایا جاتاہے اور ایک سخت رویہ اپنايہ جا تا ہے۔ جہاں خواتین کے بجائے معاشرتی کنٹرول ، دولت اور طاقت کے حوالے سے ہر شعبے میں مردانہ شخصیت غالب ہے۔ پاکستان میں ، 80٪ خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے جیسے جائیداد سے حصہ نہ دینا ، اپنی زندگی کے فیصلے خود نہ کرنا ، تعلیم سے محروم رکھنا ، زبردستی کی شادی ، نوکری نہ کرنے کی اجازت اور صرف گھریلو کام انجام دینے کے لئے چار دیواری میں رہنا اور وہیں مر جانا کيا یہ واقعی پڑھے لکھے پاکستانیوں کی سوچ ہے ؟

خواتین معاشرے کا لازمی جز ہیں۔ تاہم ، لگ بھگ ہر دن اخبارات ميں غیرت کے نام پر قتل ، ہراساں کرنے ، تیزابی حملوں اور گھریلو تشدد کی شہ سرخیاں رہتی ہیں۔ لڑکیوں اور خواتین کے خلاف تشدد انسانی حقوق کی بنیادی خلاف ورزی ہے جسے ہر بار نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ کہ بچپن سے ہی لڑکیوں پر کچھ پابندیاں لگا دی جاتی ہيں جيسے باہر مت نکلو،جیسا گھر کے بڑے بولیں ویسا کرو، لڑکياں زیادہ نہيں پڑھتی اور دیگر مذہبی رسم و رواج انہيں وہ کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں جو وہ نہیں کرنا چاہتی. کیا ان پابنديوں کی وجہ ہماری سوچ ، کلچر ، سوسائٹی ہے یا تعلیم کی کمی؟ ہماری بيمارذہنيت کا یا ہماری تعلیم کی کمی کا یہ عالم ہے کہ ہم زيادہ جہيز دينے کو تو فخر سمجھتے ہيں پر بنيادی حق دينے کو غلط سمجھتے ہيں۔

عورت کی حق تلفی ایک سب سے بڑا غیر مساواتی عمل ہے، یہ حق تلفی پیدائش سے لے کر قبر تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی، سب سے بڑی اور پہلی حق تلفی تو یہی ہے کہ لوگ ایک عورت سے بیٹے کی خواہش کرتے ہیں اور بیٹی کی پیدائش پر اس کو برا بھلا کہتے ہیں اور بس اسی دن سے اس کا امتحان چلتا رہتا ہے اور اس کی پيدائش سے ہی اس کے خوابوں کو روند دیا جاتا ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ خود کو محتاج محسوس کرنا شروع کر دیتی ہے اس محتاجی کا نتيجہ يہ نکلتا ہے کہ ایک نسل ، معاشرے اور قوم کو وہی غلام اور محتاج ذہنيت کی ماں ملتی ہے ۔ جبکہ ماں کو پہلی درسگاہ بھی کہا گيا ہے آخر ايسی ماں کس طرح اپنے بچوں کی پرورش کر سکے گی اور انہیں ان کا حق دلا سکے گی؟ پاکستاں میں گھریلو تشدد بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا بھی سب سے بڑا گناہ ہے کیونکہ مردوں کے خیال میں خواتین ان کی ملکیت ہیں اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان پر یہ تشدد بڑہتا جا تا ہے اس کا اثر نہ صرف اس عورت پر پڑتا ہے بلکہ اس کے بچوں پر بھی پڑتا ہے کيوں کہ ہر بچہ سب سے پہلے اپنے گھر کے ماحول سے ہی سیکھتا ہے اور دیکھتے ديکھتے یہ عجيب اور خودغرض نظام چلتا رہتا ہے۔
گھریلو تشدد کے ساتھ ساتھ جنسی زیادتی بھی معمول کا حصہ بنتی جا رہی ہے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے انہیں تعنہ دے کر دبایا جاتا ہے صرف اس ڈر سے کہ "لوگ کیا کہیں گے" اور آخرکار قصوروار اسی مظلوم کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ آخر یہ سب کب تک چلتا رہے گا ؟ آخر کب تک ہم یوں ہی خاموش رہیں گے؟

ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ذريعہ آمدنی مرد ہے جس کی وجہ سے گھر چلتا ہے اور یہ وجہ بھی عورت کی محتاجی کا اہم سبب معلوم ہوتی ہے, انہی باتوں نے اس معاشرے ميں رہنے والے لوگوں پر ایک عجيب گہرا اثر ڈالا ہے جس کو تبديل کرنا شايد تھوڑا مشکل ہے پر ناممکن نہيں۔

ميرے خيال سے سب سے پہلے ہميں‏ اس پرانی سوچ اور رسم و رواج کو تبديل کرنا ہے جو صنفی مساوات کے لیۓ اہم ہے اور اس کے ليۓ ہميں خود آگے بڑھنا ہوگا اوراپنے حقوق کے ليۓ خود لڑنا ہوگا اور اس سوچ کو ختم کرنا ہوگا کہ ہم آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے حق کے لیۓ آواز اٹھانا شروع کریں گے اور سب سے زیادہ اہم ,اس سوچ کو بدلنا ہے کہ لڑکیاں لڑکوں سے کم ہیں۔ بلکہ لڑکیاں ہر شعبے میں ترقی کر سکتی ہیں اور اپنے ملک کا نام روشن کر سکتی ہیں اور عظیم کارنامے سر انجام دے سکتی ہیں۔
 

Sehar AfShan
About the Author: Sehar AfShan Read More Articles by Sehar AfShan: 12 Articles with 14728 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.