مائیں بچوں کو کینسر اور ایڈز سے بچائیں

 انسان کی صحت مندی ظاہری امور کے ساتھ ساتھ پوشیدہ یا جسم کی اندرونی صحت پر بھی محیط ہے۔ ایک شخص جو کھانسی، زکام یا بخار سے دوچار ہوتا ہے، وہ عمومًا موسمی تبدیلیوں یا ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے عارضی طور پر بیمار ہو سکتا ہے۔ جو شخص ملیریا یا تپ محرقہ کے عارضوں سے پریشان ہوتا ہے وہ مزید بڑی اور زیادہ عرصے تک چلنے والی بیماریوں سے پریشان ہوتا ہے۔ تاہم کئی بار کوئی شخص ذیابطیس اور تھائیرائڈ جیسی بیماریوں سے بھی پریشان ہو سکتا ہے۔ یہ بیماریاں صحیح دیکھ ریکھ کی صورت میں جان لیوا نہیں ہوتی ہیں۔ مگر اگر وقت پر علاج نہیں کیا جائے تو یہ امراض لوگوں کی جان بھی لے سکتے ہیں۔ کچھ بیماریاں عالمی طور پر جان لیوا ہی ہوتی ہیں۔ ان میں کینسر اور ایڈز شامل ہیں۔

ماہرین کاکہنا ہے اچھی صحت کے لیے ضروری ہے کہ انسان وقت پر کھائے، پیے ، سوئے، کسرت کرے اور اسی طرح حفظان صحت کے اصولوں کا خیال رکھے۔ تاہم جدید دور میں لوگ رات کی نیند پر توجہ نہیں دیتے اور دن کے وقت کام کاج کی وجہ سے سو بھی نہیں سکتے۔ کام کے بوجھ کی وجہ سے لوگوں کے کھانے پینے میں کافی بے اعتدالیاں پائی گئیں ہیں۔ کھانے کے اوقات طے نہیں ہوتے اور ان میں کبھی کم فاصلہ اور کبھی ضرورت سے کہیں وقفہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جدید آرام و آسائش کی وجہ لوگ کم تر جسمانی مشقت کے کام کرتے ہیں۔اس سے ویسے بھی مشقت نہیں ہوتی۔ فطری مشقت کی جگہ لوگ جیم اور کسرت کے آلات کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر وقت کی کمی اور کام کاج اور مصروفیات کی وجہ سے اس پر بھی عمل آوری نہیں ہوتی۔ کھانے پینے میں جنک فوڈ کا چلن عام ہے۔ اس میں سڑک کی بھیل پوری، نوڈلز، پاپ کون وغیرہ لوگ بہ کثرت کھاتے ہیں، جو کسی بھی طرح سے مفید نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تیار شدہ کھانوں میں کئی ملاوٹیں ہوتی ہیں جو صحت کے لیے مضر ہیں۔ محلوں اور گھر کی صفائی کی وجہ سے بھی لوگوں کی صحت اچھی رہ سکتی ہے۔ بہ صورت دیگر کئی بیماریاں اپنے آپ آتی ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ صحت مند زندگی کے لئے صفائی لازمی ہے ۔ بچوں کو صحت مند ماحول فراہم کرنا ماں کی اہم ذمہ داری ہے ۔بلکہ اولین ترجیح ہے ۔ڈاکٹرزحضرات کے مطابق بچوں کے مستقبل سے بے خبر اکثرمائیں ۔بچوں کی صحت پر توجہ دینے کے بجائے فیشن پر خاص توجہ رکھتی ہے ۔صرف لاہور شہرکی بات کی جائے تو جس میں بچوں اور بزرگوں کے لئے تقریباً روزانہ 8لاکھ کے قریب پیمپرز استعمال کئے جاتے ہیں۔پیمپر ایک لنگوٹ نما نیکر ہے جسے کیمیکلز اور پلاسٹک کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے۔آج کل کی خواتین سارا سارا دن بچوں کو یہ نیکر نما پیمپر چڑھا کر رکھتی ہیں تاکہ انہیں بار بار بچے کا گیلا پاجامہ تبدیل نہ کرنا پڑے جبکہ رات کو سوتے وقت بھی پیمپر پہنا کر سلاتی ہیں کہ بستر گیلا نہ ہو اور انہیں پاجامہ تبدیلنہ کرنا پڑے اور صبح جاکر بچے کا پیمپر تبدیل کیا جاتا ہے۔خواتین کے لیے تو یہ سہولت رہتی ہے مگر بچہ جس اذیت سے دوچار ہوتا ہے وہ بعد میں بیماریوں کی شکل ظاہر ہوتی ہیں۔بچے کے پیشاب میں غلیظ جراثیم مثانہ کی نالیوں کے ذریعے اندر جاکر مرض پیدا کرتے ہیں اور پاخانہ کئے کتنے گھنٹے گزر جاتے ہیں اور اسکے گندے مادے واپس اندر جاکر اندرونی اعضاء کو نقصان پہنچاتے ہیں۔پیمپرز کے گیلے پن سے بچے نزلہ ،بخار،کھانسی ،ناک بند ہونا اور نمونیا سمیت کئی موذی مرض شکار ہوجاتے ہیں۔ والدین اس صورت سے بے خبر ہوتے ہیں۔دوسری جانب کچھ ٹائم پیچھے چلے جائیں مائیں بچوں کو پیدائش سے لے کر ایک دو ماہ تک لنگوٹ باندھتی تھیں جو نرم کپڑے سے گھر میں تیار کئے جاتے تھے بچوں کو لٹانے کے لیے نیچے نرم گدا بچھایا جاتا تھا بچہ جیسے ہی پیشاب کرتا ماں کو فورا پتہ چل جاتا اور بچے کا لنگوٹ تبدیل کر کے گدا بدل دیتی تھیں۔اس وقت بچے نہ تو زیادہ بیمار ہوتے تھے نہ انکی صحت گرتی تھی جبکہ پیمپر میں کئی کئی گھنٹے بچہ مسلسل پیشاب پاخانہ کرتا ہے پھر کہیں جاکر اس کا پیمپر بدلا جاتا ہے ۔اکثر مائیں شکایت کرتی ہیں کہ بچہ دودھ ٹھیک پیتا ہے مگر سوتے وقت روتا ہے ضد کرتا ہے اور دن بدن کمزور ہوتا جارہا ہے اس کا اصل سبب گیلا پیمپر ہے جو بچے کو بے چین رکھتا ہے۔بچے کے جنسی ارگنز جو گروتھ کرنا چاہتے ہیں مگر پیمپرز رکاوٹ پیدا کرکے ان ارگنز کی نشونما نہیں ہونے دیتے اور بچے جنسی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں-

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہماری نیند کی مقدار بھی بدلتی جاتی ہے۔ نوزائیدہ بچے دن میں 16 سے 18 گھنٹے سوتے ہیں۔ ایک سے تین سال کا بچہ 14 گھنٹے سوتا ہے اور تین یا چار سال کا بچہ 11 یا 12 گھنٹے سوتا ہے۔ سکول جانے والے بچوں کو کم ازکم 10 گھنٹے، نوجوانوں کو تقریباً 9 یا 10 گھنٹے اور بالغوں کو 7 سے 8 گھنٹے کی نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے نسل نو کو بچانے کے لئے حکومت پیمپرکے استعمال نقصات بارے ماؤں میں آگاہی مہم شروع کرئے ۔اور مائیں فیشن کے بجائے نسل نو کوکینسر اور ایڈز سے بچائیں۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 201341 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.