’’نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب ؐکی حرمت پر

یہود و نصاریٰ شروع دن سے ہی شان اقدس میں نازیبا کلمات کہتے چلے آ رہے ہیں۔ کبھی یہودیہ عورتوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دیں ، کبھی مردوں نے گستاخانہ قصیدے کہے۔ کبھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار پڑھے اور کبھی نازیبا کلمات کہے۔ تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے شان نبوت میں گستاخی کرنے والے بعض مردوں اور عورتوں کو بعض مواقع پر قتل کروا دیا۔ کبھی صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو حکم دے کر اور کبھی انہیں پورے پروگرام کے ساتھ روانہ کر کے۔ کبھی کسی صحابی رضی اﷲ عنہ نے حب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم میں خود گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے جگر کو چیر دیا اور کسی نے نذر مان لی کہ گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو ضرور قتل کروں گا۔ کبھی کسی نے یہ عزم کر لیا کہ خود زندہ رہوں گا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا گستاخ۔ اور کبھی کسی نے تمام رشتہ داریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خود دیکھنے کے لئے گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور یہودیوں کے سردار کا سر آپکے سامنے لا کر رکھ دیا۔ جو گستاخان مسلمانوں کی تلواروں سے بچے رہے اﷲ تعالیٰ نے انہیں کن عذابوں میں مبتلا کیا اور کس رسوائی کا وہ شکار ہوئے اور کس طرح گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو قبر نے اپنے اندر رکھنے کے بجائے باہر پھینک دیا تا کہ دنیا کیلئے عبرت بن جائے کہ گستاخ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا انجام کیا ہے انہیں تمام روایات و واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے یہ اوراق اپنوں اور بیگانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ کبھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اور بات کا حلیہ نہ بگاڑنا۔ ذات اور بات کا حلیہ بگاڑنے سے امام الانبیاء علیہما لسلام کی شان اقدس میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آپ اپنی دنیا و آخرت تباہ کر بیٹھو گے۔ رسوائی مقدر بن جائے گی۔جیسا کہ قرآن مجید میں اﷲ رب العزت اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو تکلیف دینے والوں کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں۔( 33/احزاب 57 )۔ ‘‘بے شک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو تکلیف دیتے ہیں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘ ایک اندھے شخص کی ایک ام ولد لونڈی تھی جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی وہ اسے منع کرتا تھا وہ گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی وہ اسے جھڑکتا تھا مگر وہ نہ رکتی تھی ایک رات اس عورت نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دینا شروع کیں اس نے ایک بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا اور اسے زور سے دبا دیا جس سے وہ مر گئی۔ صبح اس کا تذکرہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کیا گیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا۔ میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے کیا۔ جو کچھ کیا۔ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ایک نابینا آدمی کھڑا ہو گیا۔ اضطراب کی کیفیت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے آکر کہا۔ اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں اسے منع کرتا تھا اور وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی۔ میں اسے جھڑکتا تھا مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی تھی اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری رفیقہ حیات تھی گزشتہ رات جب وہ آپکو گالیاں دینے لگی تو میں نے بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا میں نے زور سے اسے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ساری گفتگو سننے کے بعد فرمایا تم گواہ رہو اس کا خون ہد رہے گستاخ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور گستاخ صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا حکم :حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ : ( رواہ الطبرانی الصغیر صفحہ 236 جلد 1 )رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ کو گالی دی اسے کوڑے مارے جائیں۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا فتویٰ :حضرت ابوبرزہ رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ :
میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ کے پاس تھا آپ کسی شخص سے ناراض ہوئے تو وہ بھی جواباً بدکلامی کرنے لگا۔ میں نے عرض کیا۔ اے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلیفہ۔ مجھے اجازت دیں۔ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ میرے ان الفاظ کو سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا سارا غصہ ختم ہو گیا۔ آپ وہاں سے کھڑے ہوئے اور گھر چلے گئے۔ گھر جا کر مجھے بلوایا اور فرمانے لگے ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ نے مجھے کیا کہا تھا۔ میں نے کہا۔ کہا تھا۔ کہ آپ رضی اﷲ عنہ مجھے اجازت دیں میں اس گستاخ کی گردن اڑا دوں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ فرمانے لگے اگر میں تم کو حکم دے دیتا۔ تو تم یہ کام کرتے ؟ میں نے عرض کیا اگر آپ رضی اﷲ عنہ حکم فرماتے تو میں ضرور اس کی گردن اڑا دیتا۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔ نہیں۔ اﷲ کی قسم۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کے لئے نہیں کہ اس سے بدکلامی کرنے والے کی گردن اڑا دی جائے یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کی ہی گردن اڑائی جائے گی۔عصماء بنت مروان کا قتل :اسی طرح حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’ خَطمَہ ‘‘ قبیلے کی ایک عورت نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہجو کی۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس عورت سے کون نمٹے گا۔ ‘‘ اس کی قوم کے ایک آدمی نے کہا۔ اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ! یہ کام میں سرانجام دوں گا ، چنانچہ اس نے جا کر اسے قتل کر دیا۔ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں یعنی اس عورت کا خون رائیگاں ہے اور اس کے معاملے میں کوئی دو آپس میں نہ ٹکرائیں۔ بعض مورخین نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے۔عصماء بنت مروان بنی امیہ بن زید کے خاندان سے تھی وہ یزید بن زید بن حصن الخطمی کی بیوی تھی یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایذاء اور تکلیف دیا کرتی۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی۔ عمیر بن عدی الخطمی کو جب اس عورت کی ان باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا۔ تو کہنے لگا۔ اے اﷲ میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اس وقت بدر میں تھے۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم غزوہ بدر سے واپس تشریف لائے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے۔ تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی۔ عمیر نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹٹولا۔ تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے اس بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ عمیر نے بچے کو اس سے الگ کر دیا۔ پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اسے زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہو گئی

 

Haji Latif Khokhar
About the Author: Haji Latif Khokhar Read More Articles by Haji Latif Khokhar: 141 Articles with 97904 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.