فیس بک پر پوسٹس لگاتے وقت اس بات کا خیال رہے کہ
ہماری پوسٹس ہماری شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہیں ،روزمرہ زندگی کے ایسے
واقعات یا امثال جن سے گھریلو زندگی کا کوئی پہلو آشکار ہوتا ہو ،ایسی پوسٹ
لگانا خود کو ’’بے پردہ‘‘ کرنے کے مترادف ہوتا ہے ۔ہماری پوسٹس سے ہمارے
فرینڈز یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ شاید بندے کو ذاتی طور پریہ مسئلہ درپیش
ہے ۔اسی شک و شبہ پرفرینڈزاپنی ہمدردیاں ظاہر کرنے لگتے ہیں اور اگر جواب
میں اوپن پوسٹ میں انہیں اچھا Responeمل رہا ہوتو وہ فوراً اِن باکس یا
میسنجر میں آ دھمکتے ہیں اور ہمدردی کا یہ مرہم رفتہ رفتہ بگاڑ کا سبب بنے
لگتا ہے ۔یوں جب بندہ اخلاقی حدود سے تجاوز کرنے لگتا ہے تو انسان خاص طور
سے خواتین ایک نا ختم ہونے والی اذیت میں مبتلا ہوجاتی ہیں ۔سب سے زیادہ
عذاب اِن خواتین کو سہنا پڑتا ہے جو کسی فرینڈ کے ساتھ میسنجر میں غیر
ضروری باتوں کو طول دیتی ہیں ۔بدقسمتی سے کسی پیچیدہ صورتحال پر کوئی
مہربان’’ اِن باکس ‘‘میں کسی کو کچھ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے تو متاثرہ شخص
یا خاتون بات کی سنگینی کو سمجھنے کی بجائے سیخ پا ہوجاتا ہے اور اسی شریف
انسان کو دھمکیاں دینے لگتا ہے جو اسے سیدھی راہ دکھا رہا ہوتا ہے ۔
اسلام میں بغیر نکاح کئے لڑکے اور لڑکیوں میں دوستی کا کوئی تصور نہیں ہے۔
اگر عورتوں کو غیر محرم مردوں سے بات کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو انتہائی
محتاط انداز اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
اے ازواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو، اگر تم
پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (مردوں سے حسبِ ضرورت) بات کرنے میں نرم لہجہ
اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں (نِفاق کی) بیماری ہے(کہیں)وہ لالچ کرنے
لگے اور (ہمیشہ)شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا۔(ترجمہ ـ:الاحزاب، 33: 32)۔
یوں اسلام نے خواتین کوغیر مردوں سے ملائم گفتگو کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ
اس طرح بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔لیکن سوشل میڈیا کی حد تک ہم ان تمام
باتوں سے بے نیاز ہو چکے ہیں ۔ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم خواتین کے ساتھ غیر
شائستہ رویہ اپناتے وقت یہ بھی بھول جاتے ہیں ،ہم بھی ماں ،بہن جیسے مقدس
رشتوں سے جڑے ہیں ۔اوربحیثیت مسلمان’’ احترام نسواں ‘‘ہماری ذمہ داری ہے ۔کسی
کو اذیت دینا بذات خود ایک گناہ ہے ۔اور سوشل میڈیا پر ہم ان باتوں کا ذرا
بھر خیال نہیں رکھتے ۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ فیس بک پر تمام تر خرابیوں کی ذمہ دار خواتین خود ہیں
جو بلا ضرورت ’’فرینڈز ‘‘بنا کر اپنے لئے پریشانی کا سامان کرتی ہیں ۔فیس
بک پر اکثر خواتین و حضرات اپنی شنا خت ظاہر نہیں کرتے ،اس کے برعکس اپنے
فرینڈز کا سارا ’’شجرہ نسب‘‘ جاننا گویا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔میں اس خاتون
کا شکر گزار ہوں کہ جس نے ایک بار اپنے شوہر کی دوسری شادی پر غم و غصے کا
اظہار کرنے کیلئے ’’فیس بک ‘‘کا سہارا لیتے ہوئے اپنے شوہر کی دوسری شادی
کی تصاویر پوسٹ کیں اور اپنے فرینڈز کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اس کا
شوہر اچھاانسان نہیں ہے اس نے اس پر ’’سوتن ‘‘ڈالی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی
بتایا کہ اس کے پاس دنیا کی سبھی آسائشیں موجود ہیں ، دو بیٹے بھی ہیں ،گاڑی
اور بنگلہ بھی ہے ،اپنا روزگار ہے اور اب وہ دوسری شادی کے اقدام کی وجہ سے
اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔خاتون نے جونہی یہ پوسٹ لگائی
’’ہمدردانِ ملّت و خیر خواہان ِخواتین‘‘ کا جوش ِمحبت جاگا تو ہر دوسرا
بندہ خاتون کے زخموں پر مرہم لگانے میں لگ گیا ۔میں نے پوسٹ دیکھی تو میں
نے مذکورہ خاتون سے ان باکس میں کہا کہ بی بی ! آپ نے یہ پوسٹ لگا کر اپنے
لئے اور اپنے شوہر کے لئے پریشانی بڑھا دی ہے ،اس سے آپ کو بھی نقصان پہنچ
سکتا ہے ۔شکر خدا کا کہ ہم نے جس پیرائے میں خاتون کو مشورہ دیا ،خاتون نے
سمجھداری کا مظاہرہ کیا اور اس معاملے کو وہی روک دیا ۔لیکن اس کے برعکس
بعض خواتین ان معاملات کی سنگینی کو سمجھنے کی بجائے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی
سے اپنی مشکلات میں اضافہ کر لیتی ہیں ۔فیس بک پر فرینڈز کوایڈ کرنے کامطلب
بعض اوقات یہی نکلتا ہے کہ
آ بیل مجھے مار ۔۔۔۔۔
قربِ قیامت کی اس صدی میں جہاں اپنوں پر اعتبار کرنا مشکل ہو چکا ہے،وہاں
انجان لوگوں کو اپنا رازدار بنانا کوئی عقل مندی نہیں کہلا سکتی ۔کتنی ہی
خواتین اپنی نا تجربہ کاری اور اندھے اعتماد کی بدولت زندہ درگور ہو چکی
ہیں ،شاہد ہم ان کے انجام سے بھی عبرت پکڑنا نہیں چاہتے ۔خواتین کی پوسٹس
پر نوجوانوں اور عمر رسیدہ بزرگوں کے کمنٹس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا
ہے کہ وہ ذہنی طور پر کس الجھن کا شکار ہیں ،جہاں کہیں خاتون نے ایک دو
میٹھے بول بولے ،وہیں بندہ خاتون کے عشق کا دم بھرنے لگتا ہے ،یہ الگ بات
ہے کہ جب خاتون اپنا رویہ تبدیل کرتی ہے تو بندہ اپنے کمنٹس کے ذریعے
کھسیانی بلی کھمبہ نوچے۔۔۔کی تصویر بنا نظر آتا ہے ۔یہ وہ کیفیت ہے کہ جب
انسان نا چاہتے ہوئے بھی اپنی فرینڈکو’’باجی اور آپی ‘‘کہہ کر مخاطب ہوتا
ہے ۔ان کمنٹس سے ان کی بے بسی عیاں ہوتی ہے کہ بندہ اب اپنی فرئنڈ کو
’’آنٹی یا خالہ ‘‘ بھی نہیں کہہ سکتا اور ’’آئی لویو‘‘ بھی نہیں بول سکتا ۔بلاشبہ
!اس تمام صورتحال کی ذمہ دار وہ غیر شائستہ اور غیر ذمہ دار خواتین ہیں کہ
جو اپنے عاشقوں کوپہلے اپنی محبت کے جال میں پھانسنے کا ناٹک کرتی ہیں بعد
ازاں ان سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی کوشش کرتی ہیں اوریوں اپنے روئیے سے
مجبور کر دیتی ہیں کہ بندہ خود کشی کر لے ۔اس بات سے انکار نہیں کیا جا
سکتا کہ ’’فیس بکی محبوبہ‘‘کے بارے میں وہ زیادہ نہیں جانتا اور نہ ہی اس
تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔ اگر محبوبہ تک رسائی ممکن ہوتی توشاہد وہی بندہ
پہلے اپنی ’’فیس بکی محبوبہ ‘‘کو واصل جہنم کردے اور پھر اپنی زندگی کا
خاتمہ کرنے میں اپنی عافیت سمجھے ۔
المیہ یہ ہے کہ’’ فیس بکی فوبیا ‘‘نے ہمارادن رات کا سکون غارت کرکے رکھ
دیا ہے ،ہمیں اپنے فیس بکی فرینڈز کا غم اندرہی اندر دیمک کی طرح چاٹ جا
رہا ہے ۔صبح شام اور رات گئے ہم اپنے دوستوں کے ساتھ منسلک رہنا چاہتے ہیں
،چاہئے دوست اپنی کتنی ہی بڑی پریشان میں مبتلا کیوں نہ ہو ۔اس فیس بک کی
وجہ سے ہم دین اور دنیا دونوں سے بہت دور جا چکے ہیں۔ہمارے معمولات زندگی
برباد ہو کر رہ گئے ہیں ۔ہر وقت فیس بک کے استعمال سے ہماری صحت خراب ہو
رہی ہے ،بینائی متاثر ہو رہی ہے ،اپنوں سے دوریاں پیدا ہو رہی ہیں ،گھریلو
زندگی کی رنگینیاں ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی
ہے کہ ہم ’’فیس بکی فرینڈز‘‘کے چکر میں اپنی بربادی کا سامان کرنے کی بجائے
اپنا یہ سارا وقت اپنوں کو دیں ۔اپنے حقیقی رشتوں پہچانیں ۔ایسا نہ ہوکہ ہم
سے ہمارے اپنے بھی دور ہو جائیں اور انجان فرینڈزکو بھی ہم ڈھونڈتے رہ
جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|