ناز برداران ِ اردو

’’ناز برداران ِ اردو‘‘
طرزیؔ کی سچائی اور خون جگر سے تراشیدہ ایک ادبی تاج محل

متبسم چہرہ، گور ارنگ، لمبی ناک، سرخ ہونٹ، فہم وفراست کی غماز آنکھوں اور شرعی وضع قطع میں ملبوس چھوٹے قد پر مشتمل جو ہیئت بنتی ہے، اسے میں نے ڈاکٹر عبد المنان طرزی کی شکل میں دیکھا ہے۔

آپ نے حافظ، آئی اے، بی اے، ایم اے، ایل ایل بی اور پی ایچ ڈی جیسی بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کی ہیں؛ مگر سادگی اس قدر کہ کوئی بہ چشم زدن دیکھنے والا انھیں صرف ایک ملّاجی سمجھے یا بہت مہربانی کرے تو میٹرک پاس گردان لے۔

ظرافت شستہ، گفتگو شگفتہ اور ملنسار ہیں۔ دوستی کرنے میں بہت آگے ہیں۔ اہل علم ودانش کی شناخت انھیں خوب آتی ہے۔ ’’اَنزِلوا الناسَ مَنازِلَھُم‘‘ کے اصول سے وہ اچھی طرح واقف ہیں۔ شخصیت سازی ان کی گھٹی میں پیوست ہے۔

فعال ایسے کہ سویرے اٹھے، نماز پڑھی، دو سپارہ قران کریم کی تلاوت کی، چائے کی چسکی لی، منہ میں پان دبایا، اخبار دیکھے، گھریلو امور حل کیے، ہم نواؤں سے ملے اور سب کرتے کراتے بیٹھ گئے شاعری کرنے۔ غزل نویسی کی، سیرۃ الرسول سے شاعری کو توقیر بخشی، منظوم تبصرہ لکھا، تقریظ نظم کی، سہرا لکھا، دولہا دولہن کو نظمیہ مبارکباد دی، قطعۂ تاریخ رقم کی، منظوم مقالے پیش کیے، مشاعرے میں شریک ہوئے، صدارت سنبھالی اور مترنم یا غیر مترنم کلام سے سامعین کو محذوذ کرنے کے بعد اگلی صبح کے لیے نماز عشاء پڑھ کر محو خواب ہوگئے۔

۳؍جولائی ۱۹۴۰؁ء کو قاری محمد داؤد طالب ؔ(صاحب دیوان شاعر) کے گھر آنکھیں کھولنے والی اس شخصیت پر نہ صرف جلوارہ گاؤں بلکہ پورا کیوٹی بلاک نازاں ہے۔ یہاں تک کہ شہر دربھنگہ کو منظوم شہر کہلوانے کی سعادت کا سہرا بھی آپ کے سر جاتا ہے۔

پڑھتے بھی خوب ہیں اور لکھارو بھی ہیں۔ نظم و نثر دونوں پر یکساں دسترس حاصل ہے، مگر نظم نگاری غالب ہے۔ اچھے شاعر ہیں۔ بلا کا شعر کہتے ہیں۔ زندگی کے ہر پیچ وخم کو نظم کردینا ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ ان کی کثرت شعری، زود گوئی اور روانی کے زیر اثر ۳۱؍مارچ سے ۷؍اپریل ۲۰۲۰ء ؁لاک ڈاؤن پیرئیڈ والی کتاب ’’پچاس یک بحری غزلیں‘‘ منظر عام پر آکر نہ صرف نظم نگاروں کو متحیر کر دیتی ہے، بلکہ نثر نویس بھی انگشت بدنداں ہیں۔
کانپور کی ایک مشہور شاعرہ کا عندیہ شاعری کے لیے تو یہ ہے کہ ؂
جب ذہن ترنم تپتا ہے احساس کے شعلوں میں پہروں
تب جا کے کہیں اے اہل قلم اک شعر غزل کا ہوتا ہے
مگر طرزی کے یہاں تپیدن اور سوختن کی کوئی جگہ نہیں۔ آورد سے پرے آمد ہی ان کا سرمایۂ کل ہے۔ ان کے قلب ودماغ میں اشعار کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جب ابال کھاتا ہے تو ایک سیل رواں بن کر بیاض در بیاض سواد کرتا چلا جاتا ہے۔ ایک آدھ شعر کی بداہت تو شاعروں سے نمودار ہوجایا کرتی ہے؛ مگر بحالت صوم روزانہ ڈھائی گھنٹوں کے درمیان ۱۵؍غیر مسلم نعت گویوں کا تذکرہ فی البدیہہ منظوم املا کرانے کی مثال دنیائے اردو نے طرزی کے سوا اب تک نہیں دیکھی۔

نظم نگاری کے نکات پر حاوی، فصاحت و بلاغت سے لبریز اور فنی وفکری جہات سے باخبر شاعری کا جوہر دکھانے والا قادر الکلام شاعر جب قلم اٹھاتا ہے تو نہ صرف غزل نویسی؛ بلکہ مقالے، تذکرے، تبصرے اور تنقید وتحقیق جیسے اہم نثری اصناف بھی منظوم شکل میں اس اچھوتے اور سہانی وسلونی غنائیت کے ساتھ اس کی قید تحریر میں آتے چلے جاتے ہیں کہ کہیں پر بھی آمد، آہنگ، مناسبت یا موزونیت مجروح نہیں ہوتی، کہیں سلاست کو زک پہنچتا ہے اور نہ کہیں برجستگی کو ٹھیس لگتی ہے۔ نثری تنقیدوں میں نثّاروں نے جو کام تفصیل سے انجام دیا، اسے طرزی نے جامعیت کے ساتھ اشارات و کنایات کے لطیف پیرہن میں ملبوس کرکے دنیائے ادب کو منظوم عطا کردی ہے۔

وہ تبصرہ یا تنقید کتابوں کو یوں ہی الٹ پلٹ کر نہیں لکھا کرتے؛ بلکہ کتاب اور صاحب کتاب کے مکمل مطالعہ اور تجزیہ کے بعد جو نتائج سامنے آتے ہیں، انھیں تنقیدی روش سے گزارتے ہوئے اس طرح نظم کر دیتے ہیں کہ شاعرانہ مطالبات کبھی تشنہ نہیں رہتے۔

لہذا نظمیہ تنقید وتحقیق کی بنیاد رکھنے والے پروفیسر طرزی کی کھوج پر گوپی چند نارنگ کا سینہ اگر چالیس انچ کا ہو جاتا ہو، تو کوئی تعجب کی بات نہیں؛ کیوں کہ بہار کے دور افتادہ گاؤں سے طرزی جیسے گوہر نایاب کا دستیاب ہونا واسکوڈی گاما کے جہانِ نو کی دریافت سے کوئی کم نہیں۔

بحر رَمل مزاحف، بحر متقارب مثمن محذوف، بحر رمل اخرب مکفوف، بحر متدارک مقطوع اور نہ جانے کئی متعدد و مختلف بحروں میں غواصی کرکے طرزی نے نہ صرف ’’لکیر، رفتگاں وقائماں، مناظر نامہ، دستار طرحدار، نارنگ زار، طلع البدرعلینا، سیرۃ الرسول، آیاتِ جنوں، آہنگ غزل، قامت، توشیحی نظمیں، پچاس یک بحری غزلیں، فن کار حق شعار اور دیدہ ورانِ بہار‘‘ جیسے لؤلؤ ومرجان سے شاعری کو مالامال کیا؛ بلکہ ’’نعت گویانِ غیر مسلم اور نازبردارانِ اردو‘‘ جیسے انمول موتیوں کا وہ گنج گرانمایہ ادب نویسوں کے حوالہ کردیا، جس سے صاحبان قلم پر کبھی افلاس طاری نہ ہوگا۔

انہی بیش بہا خزینوں میں سے ایک ’’نازبرداران اردو‘‘ ہے، جو غیر مسلم اردو ادبا اور شعرا کا منظوم تذکرہ ہے۔ڈاکٹر طرزی نے اس میں ۵۷۰ محبانِ اردو کا نام شامل کیا ہے اور انفرادیت کو باقی رکھتے ہوئے سبھی قلم کاروں کو صنف وار باعتبار حروف تہجی تقسیم کردیا ہے۔ مثلا اردو کے غیر مسلم مدیر، صحافی، طنزیہ نویس، مزاحیہ نگار، قصیدہ گو، مرتب، نعت گو، اقبال شناس، مثنوی نگار، محقق، مؤرخ، ناول، افسانہ، خاکہ، دوہا، ڈرامہ وسوانح نگار ادیب وادیبہ اورغزل گو شعرا و شاعرات ہر ایک کو الگ الگ زمروں میں رکھا ہے۔

جذبات و احساسات کی تصویر کشی، کیفیات کی ترجمانی اور ہمہ گیر آفاقیت سے لبالب یہ طویل ترین منظوم تذکرہ طرزی صاحب کی سچائی اور خون جگر سے تراشیدہ ایک ادبی تاج محل ہے؛ جہاں فدائیان اردو کی زندگی کے کارنامے، شخصیت اور فن کا امتیاز، اردو سے محبت اور اس پر مرمٹنے کے جذبات اس ہنر مندی اور جامعیت کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں، کہ فن کار کا مجموعی خاکہ صرف چار مصرعوں میں بیک نگاہ قاری پر منکشف ہوجاتا ہے۔
اعجاز بھگوان داس کے بارے میں لکھتے ہیں:
خوش نصیبی یہ اردو کی کہلائے گی

اس نے بھگوان کا دیکھا اعجاز بھی
آپ نے بخشا دوہے کو وہ اعتبار

چھا گئی گلستانِ سخن پہ بہار
ذاکر کشمیری لال کی افسانوی خدمات کو یوں بیان کرتے ہیں:
لال کشمیری ذاکر وہ فنکار تھے

جو َسواسو کتابیں ہیں لکھ بھی گئے
فن افسانہ کے تھے وہ سرمایہ دار

گویا اردو ادب کا وہ تھے افتخار
گلشن کھنّہ کی فنی ہمہ گیریت کو اس طرح قلم بند کرتے ہیں:
شخصیت تھی بڑی گلشنِ کھنّہ کی

ناول افسانہ بھی اور پھر شاعری
تینوں فن میں ہی مجموعے ہیں آپ کے

اب تو لندن میں ہی آپ ہیں رہ گئے
اس طرح زبان وبیان کی ندرت اور لب ولہجہ کے حسن سے بھرپور دو اشعار کے تذکروں میں شخصی سطح کو مس کرتے ہوئے طرزی نے روایات، اقدار، اخلاق وکردار اور تصانیف کو بڑی تہہ داری کے ساتھ واضح کردیا ہے۔

۱۵؍ویں صدی سے لے کر ۱۹؍ویں صدی کے اواخر تک پیدا ہونے والے جن محبان اردو کی نازبرداری طرزی نے اپنی اس کتاب میں کی ہے، ان میں ۱۸؍ویں صدی کے دوران اس جہان ِرنگ وبومیں آنکھیں کھولنے والوں کی تعداد ۴۰؍فیصد ہے، جب کہ ۵۰؍فیصد وہ اہل سخن ہیں جن کا استقبال اس دنیا نے ۱۹؍ویں صدی میں کیا ہے۔ اسی طرح ۱۷؍ ویں صدی میں پیدا شدہ ۸؍فیصد اور ۱۵؍ ویں صدی میں ولادت سے شرف یاب ہونے والے ۲؍ فیصد اردو داں بھی ہیں، جنھیں طرزی نے بڑی عرق ریزی اور صحرا نوردی کے بعد ’’نازبرداران اردو‘‘ کے اوراق میں قیمتی نگینوں کی مانند جڑ دیا ہے۔

جس زبان کے نتیجے میں گنگا جمنی تہذیب پروان چڑھی وہ اردو تھی اور جو تہذیب اردو زبان کے سائے میں پھلتی پھولتی رہی وہ گنگا جمنی تہذیب تھی۔ اردو جس کا خمیر مسجد کے صحن، خانقاہوں کے حجرے اور مندروں کے پرانگن سے تیار ہوا اور سماعت کی شیرینی، اذان کی لَے اور مندر کی گھنٹیوں کی آواز سے بنی؛ اس زبان نے کبھی بھی اس چیز کا فاصلہ نہیں رکھا کہ وہ اپنے دامن کو کس کے لیے وسیع کرے اور کس کے لیے سمیٹ لے۔

چنانچہ پروفیسر طرزی نے پنڈت دیا شنکر نسیم، پنڈت رتن ناتھ سرشار، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، منشی پریم چند، اعجاز بھگوان داس ناگپال، گلزار دہلوی پنڈت آنند موہن زتشی اور گوپی چند نارنگ جیسی ان عظیم ہستیوں کا بھی تذکرہ اس کتاب میں کیا ہے، جنھیں دنیا میں آتے ہی اردو کے تئیں حالات سازگار ملے اور اسے اپنے خون جگر سے سینچ کر بچپن سے جوانی کی دہلیز تک پہنچا دیا اور عنبر برجیس، جودھپور، ۱۹۷۵ء۔ بَہار بہاری لال، کلو، ۱۹۶۵ء۔ ثانی مہندر کمار، امبیڈکر نگر، ۱۹۸۴ء۔ خواب اکبر آبادی سنگھرش بھاردواج، آگرہ، ۱۹۶۵ء۔ آشا پربھات، سیتامڑھی، ۱۹۵۸ء۔ امن اویناش، ۱۹۷۸ء۔ پرواز جتیندرپال، پٹھان کوٹ، ۱۹۷۵ء۔ ساکیت رنجن پرویز، چھپرا، ۱۹۶۹ء۔ ناز مرادآبادی کرشن کمار ۱۹۶۱ء۔ اظہر منوج کمار، ۱۹۷۸ء۔ انجنا سدھیر ڈاکٹر، ۱۹۶۹ء۔ دانش مدن موہن مشرا، رام گڑھ، ۱۹۶۰ء۔ سیما گپتا، انبالہ، ۱۹۷۱ء۔ نادان راجیو چکرورتی، کرنول، ۱۹۶۹ء۔ نفس انبالوی کملیش کوشک، بمبئی، ۱۹۶۱ء جیسے محبان اردو کو بھی طرزی نے چار چار مصرعوں کے گلدستوں میں سجادیا ہے؛ جو ۱۹۶۰؁ء کے بعد ایسے دور میں پیدا ہوئے، جب اردو کو بھری جوانی میں تعصب کے گہرے غار میں دھکیلنے کی سازش رچی گئی اور اس کے ساتھ سرکاری وعوامی سطح پر سوتیلا پن برتا گیا۔

غرض جو کام پوری ایک جماعت کے زیر اثر وجود میں آتا، اسے الحاج الحافظ ڈاکٹر پروفیسر عبدالمنان صاحب طرزی نے ’’نازبرداران اردو‘‘ کی شکل میں تن تنہا انجام دیا ہے۔ طرزی کی اس گراں قدر خدمت پر اردو داں طبقہ ہمیشہ ان کی بھی نازبرداری کرتا رہے گا۔
٭ ٭ ٭
 

Mufti MUhammad Fiyaz Qasmi
About the Author: Mufti MUhammad Fiyaz Qasmi Read More Articles by Mufti MUhammad Fiyaz Qasmi: 10 Articles with 10977 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.