ممتاز صحافی ،دور حاضرکے سرسید اور ماہنامہ اردو
ڈائجسٹ کے بانی و منیجنگ ایڈیٹر ڈاکٹراعجاز حسن قریشی 2نومبر 2020ء کو
92سال کی عمر پاکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔(بیشک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور
اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں ۔)
ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ہندوستان کے ضلع کرنال کے ایک گاؤں ہابڑی میں 1928ء
کو پیدا ہوئے ۔انہوں نے ابتدائی تعلیم بھانہ گاؤں تحصیل کیتھل ضلع کرنال سے
حاصل کی ۔1944ء میں گورنمنٹ ہائی سکول سرسہ سے میٹرک کا امتحان اول پوزیشن
میں پاس کرکے مزید حصول تعلیم کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی جاپہنچے ۔1946ء میں
علی گڑ ھ یونیورسٹی سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا ۔اس دوران تحریک
پاکستان عروج پر پہنچ چکی تھی پھر جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو آپ اپنے
خاندان کے ہمراہ پہلے ہارون آباد پھر لاہور تشریف لے آئے ۔1947ء میں آپ نے
محکمہ انہار بطور کلرک ملازمت کا آغاز کیا ۔بعد ازاں ملک نصراﷲ خان عزیز کی
ادارت میں شائع ہونے والے اخبار "تسنیم " سے وابستہ ہوگئے ۔1955ء میں جرمن
سفارت خانے کی جانب سے اسکالر شپ ملا ۔تو آپ پی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ) کی ڈگری
حاصل کرنے جرمنی جا پہنچے ۔جرمنی سے واپسی پر آپ نے پنجاب یونیورسٹی میں
بطور پروفیسر دو سال تک اپنی خدمات انجام دیں ۔1960ء میں اردوڈائجسٹ کی
اشاعت کا اہتمام کیا جو اپنی مضامینی اور طباعتی معیار کی بناپر بہت جلد
مقبول عام ہوگیا ۔ایک وقت یہ بھی آیا کہ اردد ڈائجسٹ کی تعداد اشاعت دو
لاکھ سے بھی تجاوز کرگئی ۔آپ کی ادارت میں شائع ہونیو الے اس ڈائجسٹ نے ایک
نہیں تین چار نسلوں کی ذہنی نشوونما میں بہترین کردارادا کیا ،اس کی عوامی
سطح پر مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ اس کے اگلے شمارے
کے منتظر رہا کرتے تھے ۔پاکیزہ خیالات پر مشتمل مضامین کے علاوہ اس ڈائجسٹ
میں چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے جناب الطاف حسن قریشی کے حالات حاضرہ اور سیاسی
مدو جزر پر مشتمل تاریخ ساز تجزیئے شامل ہوتے ۔1960ء سے لے کر آج تک یہ بے
باک تجزیئے صحیح معنوں میں پاکستان حقیقی تاریخ کے عکاس ہیں ۔مولانا محمد
علی اور مولانا شوکت علی کی طرح ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور الطاف حسن قریشی
نے اپنے ڈائجسٹ کی مقبولیت کو برقراررکھنے یا کاروباری لالچ کی بنیاد پر
صحافتی اصولوں اور مواد کے انتخاب پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ۔انہی کاوشوں
کی بنا پر اردو ڈائجسٹ پاکستانی صحافت میں اعلی صحافتی اقدار اور روایات کی
بنیاد پر جانا اور پہچانا جانے لگا۔لیکن کلمہ حق کہنے کی بنا پر دونوں
بھائیوں کو حکومت وقت کے دباؤ ، کاروباری نقصان اور قید و بند کی صعوبتیں
بھی برداشت کرنی پڑیں اور اردو ڈائجسٹ کو کئی ماہ تک بندش کا سامنا بھی
کرنا پڑا۔حصول تعلیم کے دوران ڈاکٹر اعجاز قریشی کو مختلف ممالک میں جانے
کا اتفاق ہوا۔انہوں نے محسوس کیا کہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانی
اپنے وطن کی سبزیاں اور پھل کھانے کے آرزو مند ہیں ۔ چنانچہ سبزیوں اور
پھلوں کی بہترین پیکنگ میں برآمد کرنے کا آغاز ہوا ۔یہ کاروبار روشن
انٹرپرائزر کے نام سے شروع ہوا تھا بعد ازاں پاکستانی پھلوں کی مانگ میں اس
قدر اضافہ ہوا کہ یہ ادارہ روشن گروپ کی شکل اختیار کرگیا ۔یاد رہے کہ اس
ادارے نے کئی بار بہترین ایکسپوٹر کے ایوارڈ بھی حاصل کئے ۔2002ء کی ایک
صبح ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کی نظر اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر پر رک
گئی کہ میٹرک کے امتحانات میں 850نمبروں میں سے 810نمبر لے کر ریکارڈ قائم
کرنے والی طالبہ سعدیہ مغل کولاہور کے ایک تعلیمی ادارے میں داخلے کے سلسلے
میں مالی مشکلات کا سامنا ہے ۔اس خبر نے انہیں رنجیدہ کردیا وہ سوچنے لگے
کہ پچاس سال پہلے وہ خود انہیں بھی حصول تعلیم کے لیے ایسی ہی مالی مشکلات
کا سامنا کرناپڑا تھا ،جب ان کی جیب میں صرف ایک سو روپے تھے ۔پھر علی گڑھ
یونیورسٹی کی انتظامیہ کے تعاون سے آپ نہ صرف وہاں سے انٹر کا امتحان پاس
کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ گزراوقات کے علاوہ ہوسٹل کے اخراجات بھی ان سے
نہ لیے گئے ۔انہوں نے اپنے بھائی الطاف حسن قریشی سے مشورہ کرنے کے بعد
کاروان علم فاؤنڈیشن کی بنیاد صرف دس ہزار روپے سے رکھی ۔ڈاکٹر مرحوم کا
لگایاہوا یہ پودا اب تناآور درخت بن کر پورے پاکستان کے مستحق طلبہ و
طالبات کی مالی مدد کررہا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق اب تک 6820طلبہ اس ادارے
سے مستفید ہوچکے ہیں ۔آپ کے بقول آپ سمیت تمام بہن بھائیوں کی کردار سازی
میں ان کی عظیم والدہ کا بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے اپنی اولا د کی سیرت کو ایسے
مضبوط سانچے میں ڈھالا کہ جوانی سے بڑھاپے تک ان کے پاؤں میں کہیں لغزش نہ
آئی ۔کردار سازی کا اب یہی عنصر ڈاکٹر اعجاز قریشی کے بیٹوں بطور خاص طیب
اعجاز قریشی میں دیکھنے کو ملتا ہے جو اپنے والد کے لگائے ہوئے پودے "اردو
ڈائجسٹ"کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں ۔اس حوالے سے انہیں قدم قدم پر جناب
الطاف حسن قریشی کی سرپرستی اورصحافتی تعاون حاصل ہے۔ڈاکٹر اعجاز قریشی کا
شمار جمعیت طلبہ کے بانیوں میں ہوتا ہے ۔جب اور جہاں بھی اردو ڈائجسٹ کا
ذکر آئے گا وہاں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے جناب
الطاف حسن قریشی کے نام سنہری لفظوں میں ذہنوں کی سکرین پر ابھرتے دکھائی
دیں گے ۔بظاہر تو ڈاکٹر اعجاز قریشی کی صورت میں ایک شخص دنیا سے رخصت ہوا
ہے لیکن ان کے پسماندگان میں بیٹوں کے علاوہ وہ تمام لوگ بھی شامل ہیں جو
کسی نہ کسی شکل میں مرحوم کی ذات اور ادارے سے وابستہ رہ چکے ہیں۔راقم کا
شمار بھی انہی لوگوں میں شامل ہے ۔اﷲ انہیں غریق رحمت فرمائے ۔آمین |