اچھا ہوا جو ٹرمپ ہار گیا۔۔۔۔ ٹرمپ کی ہار اور بائیڈن کی جیت پر مسلمان خوش کیوں؟

image
 
سال 2016 کے امریکی الیکشن بعد تو امریکی سیاست میں اچانک سے ایک تبدیلی آئی تھی ۔ لوگوں کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ اس وقت کے صدارتی امیدوار ٹرمپ وہ الیکشن اپنے نام کرلیں گے ، لیکن چونکہ انہوں نے الیکشن مہم کے دوران سفید فام امریکیوں کو ان کے جائز حق دلوانے کے وعدے کئے تھے تو اسی وعدوں کی وجہ سے امریکیوں کی بڑی تعداد نے ٹرمپ کو ووٹ دے کر انہیں جتوانے میں اپنا کردار نبھایا۔ ٹرمپ کی جیت پر امریکی تو خوش ہوئے لیکن مسلمانوں کیلئے یہ خبر زیادہ اچھی نہیں تھی۔ کیونکہ اس وقت کی الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ کے خیالات مسلمانوں کے بارے میں اچھے نہیں رہے تھے ۔
 
بغور دیکھا جائے تو مسلمانوں کے ساتھ ٹرمپ کا رویہ اپنے دورِ اقتدار میں بُرا رہا ہے۔ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے ایک ہفتے کے بعد ہی جہاں تارکین ِ وطن کی آمد پر پابندی لگائی ، وہیں کچھ مسلم ممالک کے مسافروں کے لیے امریکا کے بارڈر بند کر دئیے۔ ٹرمپ نے بیت المقدس میں سفارتخانہ کھولنے اور اسرائیل کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ٹرمپ ہی کوششیں تھیں کہ کئی مسلم ممالک جیسے متحدہ عرب امارات ، بحرین اور سوڈان نے اسرائیل کو ناصرف تسلیم کیا بلکہ اس کے ساتھ کئی معاہدے کئے ، ان کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے کی راہیں ہموار ہوئیں اور ائیر لائن کے ذریعے باقاعدہ پروازوں کا عمل بھی شروع کرنے کے فیصلے ہوئے۔ یوں فلسطین کی حمایت کرنے والے مسلم ممالک کی تعداد کم ہوتی دکھائی دی اور ان مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے نے فلسطینی مسلمانوں کو دُکھ سے دوچار کیا۔
 
image
 
چین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات نے امریکا کو اتنا پریشان کیا کہ چین کی کئی کمپنیوں پر پابندیاں لگا دی گئیں، پھر ٹرمپ کا بھارت کا دورہ بھی پاکستان کے لیے بڑا اہم پیغام تھا کہ امریکا، انڈیا کا بڑا حمایتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو سلجھانے کی کوششوں کے لئے ساتھ دینے کی گزارشات کے باوجود ٹرمپ نے وہاں کے نہتے مسلمانوں کے لئے کبھی آواز بلند نہیں کی اور ناہی ان کے حق اور انڈیا کے خلاف بات کی، انہوں نے ایک دو بار ثالثی بننے کی پیشکش تو کی لیکن عملی طور پر وہ کبھی بھی انڈیا کے خلاف بات نہیں کرپائے ۔ صرف اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ٹرمپ نے کبھی مودی کے خلاف بات نہیں کی۔
 
دوسری جانب رواں سال جولائی میں امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار اور نومنتخب صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ اگر وہ صدارتی انتخاب جیت گئے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سات مسلم ممالک کے تارکین وطن کے ملک میں داخلے پر پابندی کے حکم نامے کو ختم کر دیں گے۔ جو بائیڈن نے ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ سات مسلم ممالک کے افراد پر امیگریشن کی پابندی عائد کرنا اختیارات کا ناجائز استعمال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیاہ فام سے قبل مسلم کمیونٹی ٹرمپ کے حملے کا شکار ہوئی تھی۔ یہ انتظامیہ اسلامو فوبیا کا شکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ مسلم مخالف نظریات کے ذریعہ دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں، امریکی قوم کو اپنی طاقت نہیں بلکہ حسن سلوک کا پیغام دنیا کو دینا چاہیے۔ جو بائیڈن نے یہ بھی کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اسلامو فوبیا کے نظریات کے باعث اسکولوں میں مسلم بچوں کے ساتھ بد سلوکی کے ساتھ ساتھ ملک میں مسلم مخالف نفرت انگیز واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔
 
image
 
امریکی مسلمان ٹرمپ کے مخالف:
امریکا میں صدارتی انتخاب سے قبل ایک سروے کیا گیا تھا، جس میں 71 فیصد مسلمانوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کی مخالفت کردی تھی ۔یہ سروے امریکی صدارتی انتخاب کے تناظر میں مسلم ووٹ بینک پر کیا گیا تھا ، جس میں مسلمانوں کی اکثریت نے ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جو بائیڈن کو ووٹ دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ یہ سروے کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز کی جانب سے کیا گیا تھا ۔ سروے میں مسلمانوں کا ووٹ جو بائیڈن کی جانب بڑھتا دکھایا گیا۔ سروے کی مطابق اس بار سب سے زیادہ 89 فیصد مسلمانوں نے ووٹ دینے کا عزم کیا تھا جس میں سے 71 فیصد مسلمانوں نے ٹرمپ کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ امریکا کی طرح دنیا کے دیگر ممالک بشمول پاکستان میں بھی لوگ ٹرمپ کے ہارنے پر خوش ہیں اور انہیں امید ہے کہ جو بائیڈن مسلمانوں کے لئے اچھے ثابت ہوں گے اور وہ مسلمانوں سے کئے گئے وعدے نبھائیں گے۔
YOU MAY ALSO LIKE: