بھٹو کی پنکی اور آصف علی زرداری کی آصفہ دونوں باپ کی لاڈلی بیٹیاں، سیاست کے عملی میدان میں ان دونوں میں کتنی یکسانیت ہے جانیں

image
 
پاکستان پیپلز پارٹی کا شمار پاکستان کی ان سیاسی پارٹیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سیاسی میدان میں سب سے زيادہ قربانیاں دی ہیں- اس پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جن کو اللہ نے چار اولادوں سے نوازہ تھا جس میں ان کی سب سے بڑی بیٹی بے نظیر بھٹو نے ان کی پھانسی کے بعد پارٹی کی قیادت بہت کم عمری میں سنبھالی تھی اور بے نظیر کے قتل کے بعد ان کی جگہ ان کے بیٹے بلاول زرداری سے سنبھالی- مگر وقت کے ساتھ اب پارٹی کی ذمہ داری ان کی سب سے چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری کو سونپی جا رہی ہے سیاسی ناقدین آصفہ کو بے نظير کی تصویر قرار دے رہے ہیں اور بہت سارے حوالوں سے ان کو بے نظیر سے مماثل قرار دیا جا رہا ہے- آج ہم اسی حوالے سے دیکھتے ہیں کہ ان دونوں میں کتنی مماثلت پائی جاتی ہے-
 
آصفہ بھٹو اور بے نظیر بھٹو میں حیرت انگیز مماثلت
1: پیدائش کے اعداد
آصفہ بھٹو بے نظير بھٹو اور آصف علی زرداری کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں ان کی تاریخ پیدائش 3 فروری 1993 ہے جب کہ ان کی والدہ بے نظیر بھٹو کی تاریخ پیدائش 21 جون 1953 ہے- ان دونوں کی پیدائش کے اعداد کو اگر جمع کیا جائے تو 27 بنتا ہے ۔علم الاعداد کو جاننے والے افراد کے مطابق 27 کو جمع کر کے 9 بنتا ہے اور اس نمبر کے حامل افراد ارادے کے مضبوط اور پیدائشی لیڈر ہوتے ہیں-
 
2: باپ کی لاڈلی
آصفہ بھٹو جو کہ اپنے والدین کی سب سے چھوٹی اولاد ہیں ان کا نام ان کے والد آصف علی زرداری نے تجویز کیا تھا وہ بچپن ہی سے اپنے والد کے بہت قریب ہیں- یہی صورتحال بے نظیر بھٹو کی بھی تھی وہ بھی تمام سیاسی سرگرمیوں میں بچپن ہی سے اپنے والد کے ساتھ رہتی تھیں اور تمام بچوں کے مقابلے میں اپنے والد کے سب سے زيادہ قریب تھیں اور کم عمری میں ہی اپنے والد کے قید ہونے کی صورت میں انہیں ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا تھا- جس کے بعد والد کی پھانسی کے بعد جلا وطن ہو گئی تھیں جب کہ آصفہ کے والد بھی اس وقت جیل چلے گئے تھے جب کہ وہ صرف تین سال کی تھیں اور پھر گیارہ سال کی عمر تک وہ اپنے والد سے ملنے کے لیے اپنی والدہ کے ہمراہ ان کے ساتھ جیل جاتی تھیں-
image
 
3: اپنے قریبی عزیز کی موت کا صدمہ
آصفہ بھٹو اور بے نظیر بھٹو میں اس حوالے سے بھی یکسانیت پائي جاتی ہے کہ ان کی زندگی میں اس حوالے سے یہ بہت اہم واقعہ رہا کہ بے نظیر بھٹو نے بھی کم عمری میں اپنے والد کی پھانسی کا دکھ سہا جس کے بعد ان کو وقت سے پہلے عملی سیاست میں قدم رکھنا پڑا- جب کہ یہی حالات آصفہ بھٹو کے ساتھ بھی رہے جنہوں نے 2007 میں اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد کی صورتحال کا سامنا کیا اور عمر کا ایک بڑی حصہ جلاوطنی میں گزارا-
image
 
4: تعلیمی میدان
بے نظیر بھٹو کی طرح آصفہ بھٹو بھی اپنے تعلیمی دور میں ایک محنتی اور کامیاب طالب علم ثابت ہوئيں آصفہ نے آکسفورڈ یونی ورسٹی سے سوشیالوجی اور سیاسیات میں گریجوئشن کیا جب کہ ان کی والدہ بے نظیر بھٹو نے بھی ہاورڈ یونی ورسٹی سے انہی مضامین میں گریجوئشن کی تھی ۔ گریجویشن کے بعد آصفہ نے بھی اپنی والدہ ہی کی طرح ماسٹرز تک تعلیم مکمل کی اس کے بعد سیاسی میدان میں قدم رکھا-
image
 
5: عملی سیاست میں قدم
2018 کے الیکشن میں آصفہ بھٹو نے عملی طور پر سیاست کے میدان میں قدم رکھا جب کہ ان کی عمر 25 سال تھی- اسی طرح اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو نے بھی عملی سیاست میں قدم رکھا جس وقت ان کی عمر بھی 25 سال تھی -
image
 
اس جائزے سے ثابت ہوتا ہے، جو لوگ آصفہ بھٹو کو بے نظیر بھٹو کی تصویر قرار دے رہے ہیں وہ یہ امید کر سکتے ہیں کہ ان کی روپ میں ملک کو ایک تعلیم یافتہ نوجوان قیادت مل جائے جو کہ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں
YOU MAY ALSO LIKE: