فاضل دارالعلوم دیوبند کا چمکتا چاند

حضرت مولانا اسد زکریا قاسمی صاحب روشن ستارہ ہے میرے ملک کے مدارس دینیہ کے حوالے سے اللہ کریم انکی حفاظت فرماۓ.... آمین

بیمار معاشرہ

فلسفے سارے کتابوں میں الجھ کر رہ گئے
درسگاہوں میں نصابوں کی تھکن باقی رہی

شہر کراچی مدارس دینیہ اور اسلامی تحریک کے حوالہ سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ملک کے بڑے بڑے دینی ادارے اس شہر میں قائم ہیں۔اور تحریک نظام مصطفی جیسی تحریک کراچی کی تاریخ میں نمایاں ہے اور اس تحریک میں علماۓ حق کا کردار بھی, انہی مدارس دینیہ میں ایک معروف نام جامعہ اسلامیہ انوار العلوم کا بھی ہے۔جو نہ صرف ملک پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی پہچان آپ ہے۔

اس مقبولیت کی وجہ بانی ادارہ حضرت مولانا الحاج محمد زکریا قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کا اخلاص و للّٰہیت تھا ۔
حضرت مولانا محمد زکریا قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی وفا ت کے بعد جامعہ اسلامیہ انوار العلوم کی مجلس شوری نے انکے صاحبزادہ حضرت مولانا اسعد زکریا قاسمی فاضل دارالعلوم دیوبند کو مدرسہ کا مہتمم مقرر کیا ,

جن کا ‏نعم البدل کوئی نہیں ہوتا
جانے والا انہی میں شمار ہوتا تھا

‏اگر آپ دنیا و آخرت میں اللہ سے رحم کے طلبگار ہیں تو خود سے وابستہ، خود سے متعلقہ، اپنے زیر نگران اور جان پہچان کے بغیر سب انسانوں اور تمام جانداروں کو جہاں تک ممکن ہو آسانی دیا کریں یہاں تک کہ کسی سوکھے پیڑ کو پانی ہی ڈال دیں، یہ دنیا عارضی ہے انسان اگر اپنے علم سے لوگوں کو نفع دے تو اسکے ساتھ بھی خیر والا معاملہ ہوتا ہے.

فطرت ہے ‏کچھ چیزوں کو باہم جوڑنے اور متصل کرنے کے لئے انہیں توڑا جاتا ہے پھر خوب کُوٹا جاتا ہے تب کہیں جا کر کوئی مرکب بنتا ہے, اسی طرح ہمارا مان، بھروسہ، توقعات اور چاہتیں ریزہ ریزہ ہو کر وقت کی چکی میں جب پستی ہیں تو تب کہیں جا کر وہ دل ملتا ہے کہ جہاں اللہ کے سوا کوئی محبت نہیں رہتی۔کوئی خوف نہیں رہتا, کوئی لالچ باقی نہیں رہتا,
بے شک ‏"یہ دنیا تو اس قابل بھی نہیں کہ تم اس کی طرف چل کر جاؤ ؛ حیرت ہے کہ تم اس کے پیچھے گھسیٹتے چلے جاتے ہو !"
امام ابن القيم رحمه الله
( الفوائد : ٧٠)
ہم دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں کٹے ہُوئے درخت، ایک جَڑ والے درخت کا مقابلہ کبھی نہیں کرسکتے لہذا جب تک ہم بُنیادوں سے جُڑے رہیں، اِسی میں بقا ہے، وَرنہ فَنا ہی فَنا ہے....!
اللہ کریم ہے اللہ نے "روحانیت" کی مٹھاس انسانیت کی خدمت کو مقدس رکھنے میں رکھی ہے,

مولانا اسعد زکریا قاسمی 1963 کی روشن صبع کراچی میں پیدا ہوئے ,ابتدائی تعلیم جامعہ اسلامیہ بنوری ٹائون کراچی اور جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کرنے کے بعد اپنے باپ محمد زکریا قاسمی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کا سفر اختیار کیا, دارالعلوم دیوبند انڈیا سے طریقت و تصوف اور سلوک و معرفت کی تعلیم و تربیت حاصل کی اور اَخذِ فیض کیا۔
ہم انسان ہونے کے ناطے بھول جاتے ہیں کہ ‏بھیگے ہوئے تکیے کا نم،گیلی لکڑی جیسا سلگتا ہوا دل،سنی ان سنی باتوں کا زہر، کرب میں چٹختی ہوئی راتوں کے آنسو، بے آواز دعاؤں کی صدا، پھیلی ہوئی جھولی کی تمنا، اذیت میں گزرتے لمحات اور بے بسی و لاچارگی والی زندگی ہو بے شک لیکن مومن کو ہر حال میں تسلی ہوتی ہے کہ اللہ حکمت والا ہے سب جانتا ہے اور اسی کے ساتھ ہے,
‏وہ اللہ ایک ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، جو بادشاہ ہے، تقدس کا مالک ہے، سلامتی دینے والا ہے، امن بخشنے والا ہے، سب کا نگہبان ہے، بڑے اِقتدار والا ہے، ہر خرابی کی اِصلاح کرنے والا ہے، بڑائی کا مالک ہے۔ پاک ہے اللہ اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
سورۃ الحشر آیت نمبر 23
لیکن دارالعلوم دیوبند کی تعلیم اور دیوبند کے بیٹے محمد زکریا قاسمی رحمتہ اللہ کی تربیت کا اثر تھا کہ اسعد زکریا قاسمی ایمانی جذبات حد سوچ موجود تھے اور ہیں, ان پر
یہ بھی مالک کا احسان ہے کہ ‏ایمان دیا جائے، صحت دی جائے، رزق دیا جائے، چھت دی جائے، امن دیا جائے، دل کی خوشی دی جائے اور پھر اس خوشی پر شکر کرنے کی توفیق دی جائے تو آپ کا شمار دنیا کے خوش نصیب ترین لوگوں میں ہو لیکن یہ بلند بختی اس وقت کامل ہوتی ہے جب آخرت میں اللہ کا دیدار اور آقاﷺ کا قرب نصیب ہو جائے۔
‏انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا، مگر اُس پر ایک نگراں مقرّر ہوتا ہے، ہر وقت (لکھنے کے لئے) تیار! اور موت کی سختی سچ مچ آنے ہی والی ہے۔ (اے انسان!) یہ وہ چیز ہے جس سے تو بدکتا تھا۔
سورۃ ق آیت نمبر 18-19

‏حدیث قدسی بھی ہے کہ
میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ کچھ تیار کرکے جمع کررکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان (کے تصور) کا گزر ہوا ۔( یہ ) ان ( نعمتوں کے ) علاوہ ہے جن کے بارے میں تمھیں اللہ تعالیٰ نے مطلع کردیاہے ۔

(صحیح مسلم،۷۱۳۳)

‏شیطان انسان کو موت کے منہ تک تکلیف دینے پر تلا رہتا ہے، اسی لیے آپ ﷺ نے امت کو یہ دعا سکھلائی کہ:
( "وَأَعُوْذُبِكَ أَنْ يَّتَخَبَّطَنِيَ الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ"
[اور[یا اللہ!]میں تیری اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ شیطان مجھےموت کےوقت خبطی کر دے](سنن نسائی)

‏اللہ کا کرم نہ ہوا اور اپنے عمل نہ ہوئے تو دنیا کا سارا مال و متاع، حکومت و سلطنت، بیٹے اور خاندان، محبتیں اور دوستیاں، دولت و ثروت اور جاہ و حشمت سمیت سب صفر جمع صفر برابر صفر ہو جائے گا۔
‏انسان جو کچھ بھی حاصل کرتا ہے اس کے بدلے میں کچھ نہ کچھ ضرور کھوتا ہے۔
یہ ہاتھ پاؤں،یہ آنکھیں،یہ دماغ سب کچھ میرے پاس اللہ کی امانت ہے۔اُس نےمجھے کوئی گھردے دیا ہےتو وہ بھی اس کی امانت ہے، اولاد دی ہے تو وہ بھی اُسی کی امانت ہے۔چنانچہ ملکیت تامّہ اسی کےلیے ہے۔
ہم مالک ومختار نہیں ہیں کہ جو چاہیں کرتے پھریں۔
{ڈاکٹر اسرار احمدرحمہ اللہ}
بس ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ
‏کسی اندھے کے دیکھ سکنے جیسی، کسی گونگے کے بول سکنے جیسی، کسی بہرے کے سن لینے جیسی، کسی لنگڑے کے دوڑنے جیسی، کسی مردہ کے جی اٹھنے جیسی اور کسی کالے دل کے چمک اٹھنے جیسی، یہ دعا دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
بے شک وجود کائنات ‏میرے آقاﷺ کی محبت ہی ابدی ہے کیونکہ میرے سرور کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اے نامہ روشن اے چراغوں بھرا رستہ، تاریخ کے صحرا میں نور کا دریا، ظلمت کے جنگلوں میں کہکشاں کا جادہ، معصیت کی گلیوں میں چاند کا اجالا، رات کے سمندر میں سورج کا اشارہ، کائنات کا سب سے حسیں نظارہ، آپ پر سلام کہ آپ کا نام ہماری جان کی راحت، روح کا سکون اور دل کا سکینہ۔
‏پھر اِنسان (کا حال یہ ہےکہ جب اُس) کو کوئی تکلیف چھوجاتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے، اس کے بعد جب ہم اُسے اپنی طرف سے کسی نعمت سے نوازتے ہیں تو وہ کہتا ہےکہ یہ تو مجھے (اپنے) ہنر کی وجہ سے ملی ہے۔نہیں! بلکہ یہ آزمائش ہے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔
سورۃ الزمر آیت نمبر 49
‏دنیا کی بے لذتی، موت کی یاد، بے ثباتی کا خیال اور آخرت کی فکر سے جہاں زندگی کے مصائب کمتر دکھائی دینے لگتے ہیں وہیں نہ صرف اللہ سے اپنے تعلق کی گہرائی اورمضبوطی سمجھ آتی ہے بلکہ دل میں ایک گونہ بے نیازی اور ٹھہراؤ بھی آ جاتا ہے۔
‏اللہ تعالی کسی کو اس کی ہمت سے بڑھ کر نہیں آزماتا لہذا جس قدر استطاعت ہو اسلام پر عمل کریں، جس حد تک ممکن ہو احکامات الہی کی پیروی کریں، جس حد تک توفیق ہو رسول اللہﷺ کی اتباع کریں اور اللہ سے سدا رحم مانگتے رہیں کیونکہ ہم سے خطائیں ہوتی رہیں گی باقی کوشش کریں نیت پر آنچ نہ آئے۔
حضرت مولانا اسعد زکریا قاسمی نے علم الحدیث، علم التفسیر، علم الفقہ، علم التصوف والمعرفۃ، علم اللغۃ والادب، علم النحو والبلاغۃ اور دیگر کئی اِسلامی علوم و فنون اور منقولات و معقولات کا درس اور اَسانید و اِجازات اپنے والد گرامی حضرت مولانا محمد زکریا قاسمی رحمہ اللہ (فاضل دیوبند) اور اساتذہ دارالعلوم دیوبند علامہ محمد حسین بہاری ،مفتی سعید پالن پوری ،مولانا ارشد مدنی ،مولانا ریاست علی خان ،
مولانا نعمت اللہ خان ،شیخ الحدیث مولانا عبد الحق ،
مولانا انظر شاہ کشمیری رحمتہ اللہ جیسے کبار علماء سے حاصل کی .
جنہیں گزشتہ صدی میں تاریخ اِسلامی علوم کی نہ صرف حجت تسلیم کیا جاتا ہے، بلکہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک مستند و معتبر اَسانید کے ذریعے منسلک ہیں.

تیرے پیروں کو چومنے کے لیے
مچھلیاں لڑ رہی ہیں پانی میں


آپ کے اساتذہ میں عرب و عجم کی معروف شخصیات شامل ہیں یعنی آپ کی ذاتِ گرامی میں دنیا بھر کے شہرہ آفاق مراکزِ علمی کے لامحدود فیوضات ہیں,
آپ نے دورِ جدید کے چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے علمی، فلاحی و تجدیدی کام کی بنیاد عصری ضروریات کے گہرے اور حقیقت پسندانہ تجزیاتی مطالعے پر رکھی،
جس نے سندھ کی سطح پرکئی قابلِ تقلید نظائر قائم کیں۔ فروغِ دین میں آپ کی کاوِشیں منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ جدید عصری علوم میں وقیع خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ آپ کا کردار احکام القرآن کے نام سے جو قرآن حکیم کے اُلوہی بیان کا لغوی و نحوی، اَدبی، علمی، اِعتقادی، فکری اور سائنسی خصوصیات کا آئینہ دار ہے۔
یہ کتاب کئی جہات سے عصرِ حاضر کی اس عنوان پہ مرتب کی گئی ہے جو دیگر کتب کے مقابلے میں زیادہ جامع اور منفرد ہے۔
وحدانیت خداوندی اور سیرت کے عنوان پر آپ کی تالیفات ایک گراں قدر علمی سرمایہ ہیں۔
مولانا اسعد زکریا قاسمی دامت برکاتہم نے دارالعلوم دیوبند کی طرز و فکر کے عین مطابق اپنے ادارہ کا بے مثال و منفرد نظام قائم کیا ہے ,
انکے ادارے جامعہ انواراالعلوم کی اولین ترجیح
بامقصد، معیاری اور سستی تعلیم کا فروغ،غریب اور مستحق طلباء کے لیے وظائف کا بندوبست،صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم افراد کے لیے معیاری اور سستی طبی امداد کی فراہمی,خواتین کے حقوق اور بہبود کے منصوبہ جات کا قیام،بچوں کے بنیادی حقوق اور بہبود کے منصوبہ جات کا قیام،یتیم اور بے سہارا بچوں کی تعلیم وتربیت اور رہائش کا بہترین بندوبست کرکے ان کو معاشرے کا مفید شہری بنانا۔
قدرتی آفات میں متاثرین کی امداداور بحالی،پسماندہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی،بیت المال کے ذریعے مجبور اور حقدار لوگوں کی مالی امداد،غریب بچیوں کی شادیوں کے لیے جہیز فنڈ کا قیام ہے ,
اپنے مقاصد کی تکمیل اور سندھ کی عوام کی خدمت کے لیئے مہتمم جامعہ مولانا اسعد زکریا قاسمی صاحب نے اپنے کام کو درجنو ں مختلف اور فعال شعبہ جات میں تقسیم کر رکھا ہے جن میں
شعبہ حفظ القرآن ،
نیو روضہ اقراء روضۃ الطفال،
جوریہ لائبریری،
شعبہ دالافتاء،
پرائمری سکول،
شعبہ خوشنویسی،
الانوار انسٹیٹیوٹ آف کمپیوٹر ٹیکنالوجی،
ٹیلرنگ ورکشاپ،
تقوی فزیو تھراپی سنٹر،
اسپیچ تھراپی سنٹر،
زکریا کلینک،
زکریا حجامہ سنٹر،
اصلاحی مجلہ الانوارقابل ذکر ہیں
حال ہی میں علماء کرام کی فلاح و بہبود کے لیئے کچھ شعبہ جات مزید ترتیب دیئے جا رہے ہیں .

میری زندگی کا تجھ سے نظام چلتا ہے
تیرا آستاں سلامت ، میرا کام چلتا ہے

ان سے ملاقات کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج اگر سندھی قوم واقعی اپنے حالات بدلنے میں سنجیدہ ہے،
بے روزگاری اور پسماندگی جیسے عذابوں سے چھٹکارا پانا چاہتی ہے اور سندھ کو اَقوامِ عالم کی صف میں نمایاں مقام دلانا چاہتی ہے تو اِسے حضرت مولانا اسعد زکریا قاسمی کے ویژن پر ہی عمل کرنا ہوگا,
ماضی قریب میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ فردِ واحد نے اپنی دانش و فکر اور عملی جدّ و جہد سے فکری و عملی، تعلیمی و تحقیقی اور فلاحی و بہبودی سطح پر ملّتِ اِسلامیہ کے لیے اِتنے مختصر وقت میں اِتنی بے مثال خدمات اَنجام دی ہوں۔
بلا شبہ مولانا اسعد زکریا قاسمی ایک فرد نہیں بلکہ عہد نو میں ملّتِ اِسلامیہ کے تابندہ و روشن مستقبل کی نوید ہیں.
وہ پہچان ہیں اپنے اسلاف کی کہ جن کا مقصد انسانیت کی فلاح ہے کیونکہ ایسا عمل میرے اللہ کے ہاں قبول ؤ مقبول ہے.

تاریک رات, سنسان سڑک اور طویل سفر میں
میسر ہے مجھے صرف تیری روشنی کا تصور

حضرت مولانا اسعد زکریا قاسمی صاحب سے ملاقات اور ایک سفر ساتھ کرنے کے بعد میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ مسلمان نسل نو کی بہتری صرف ابدی دنیا کی راحت کو مدنظر رکھ کر کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ
یہ دنیا عارضی ہے یہاں کی کامیابی بھی عارضی ہے آخرت کا سفر ابدی ہے اور وہاں کی کامیاب زندگی کی بنیاد محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارک زندگی ہے جس پر عمل کے بعد اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے....
”یہ دنیا پانے کی نہیں سہنے کی جا ہے،
اگر دُنیا میں من چاہی عارضی خوشیاں حاصل کر لیں تو آخرت کےعذاب کو سہنا پڑے گا.“اور اگر اللہ کی اطاعت میں, رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت میں بسر کی جاۓ تو کامیابی ابدی ملتی ہے. انسان سوچتا ہے کہ جب ایک دن ہمیں یہ سب کچھ چھوڑ ہی جانا ہوتا ہے تو پھر ہم ان درو ؤ دیوار راستہ ؤ شجر اور آس پاس کے ماحول اور رشتوں سے اتنا جڑ کیوں جاتے ہیں کہ ذرا سی دوری خود ہمیں توڑ کر رکھ دیتی ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا اگر عارضی پڑاؤ ہے تو اپنے ساتھ عارضی پن کا احساس لے کر کیوں نہیں آتی.؟
تو اسکا جواب اگر سمجھ آ سکتا ہے تو قران کریم کی تعلیم سے اور اس تعلیم کی سمجھ آتی ہے دینی مدارس کا رخ کرنے سے لہذا
دینی مدارس اسلام کی نرسریاں اور امن کے گہوارے ہیں دینی مدارس کے ساتھ تعاون کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے.
والدین اگر اپنے بچوں کی دنیا اور آخرت سنوارنا چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کو دینی مدارس کی چار دیواری میں لائیں عصری علوم بھی وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن قرآن حفظ کرنے سے دنیا وآخرت میں کامیابی ملتی ہے اسلام پھیلانے اور امن قائم رکھنے میں دینی مدارس کا کلیدی کردار ہے اور حضرت اسعد زکریا قاسمی صاحب سے ملاقات کے بعد میں اس نقطہ پر پہنچا ہوں کہ کراچی میں ایسا کوئی اور ادارہ نہیں جو بچوں کی تعلیم ؤ تربیت کے حوالے سے ایسا کام کر رہا ہو.
حضرت مولانا اسعد زکریا قاسمی صاحب کے ادارے کا مقصد مسلمان بچوں میں دینی مدارس کے فورم سے اسلام بھائی چارے اور محبت کا درس دیکرمثالی فلاحی معاشرہ تشکیل دینا ہے, اور معاشرے کی اصلاح میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں.
یہ مدراس اسلام کے مضبوط قلعے ہیں. جو ملک کے نظریاتی سرحدوں کی اساس و محافظ ہے.بلکہ آپکی مذہبی سرحدوں کو بھی تحفظ شعور فراہم کرتے ہیں,
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558298 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More