علامہ اقبال... اور ہماری تنگ نظری..ناقابل حقیقت

اقبال کا مقامِ خودی
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کا واحد مقصدِ حیات فقط ”خودی“ کے اسلامی، تعمیری اور عرفانی حقائق کی نشر و اشاعت تھا. یوں تو علامہ مرحوم نے خاص طور پر ”خودی“ ہی کے موضوع پر ایک نہایت جامع چیز بعنوان ”اسرارِ خودی“ تحریر فرمائی، لیکن ان کی دیگر فارسی اور اردو تصنیفات کا بھی بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تقریباً ہر صفحہ پر مختلف پیرایوں میں ”خودی“ کے سرمدی پیغام کو بیان کیا گیا ہے. اور اس لحاظ سے بالوثوق کہا جاسکتا ہے کہ ”خودی“ تعلیماتِ اقبال کا سنگ بنیاد ہے؛
بایں ہمہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ امتِ مسلمہ نے اقبال کی اصطلاحِ ”خودی“ کو اس صحیح اور مفید زاویہ نگاہ سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی، جو کہ خود اقبال کا مقصود ہے اور جس کی رو سے یہ ایک خالص ”اسلامی“ اور ”قرآنی“ چیز ثابت ہوتی ہے.
مسلمانوں نے مضمونِ ”خودی“ کو محض سطحی نظر سے مطالعہ کیا ہے اور اس قدر غفلت اور بے اعتنائی برتی ہے کہ عام طور پر اس کا مطلب نہایت گمراہ کن ثابت ہورہا ہے. یہاں آپ قدرتی طور پر دریافت فرمائیں گے کہ عقیدتمندانِ اقبال نے عموماً ”خودی“ کے کیا معنی سمجھے ہیں؟ جواباً عرض ہے کہ انہوں نے خودی کا مطلب ”انانیت“ خواہشِ غلبہ و حکمرانی یا ”غرور و تکبر“ سمجھا ہے اور بس
بسا اوقات میں نے اچھے خاصے تعلیم یافتہ اور فارغ التحصیل حضرات کو بار بار یہ کہتے سنا
ع ”خودی نہ مٹاؤ جب تک خدا نہیں ملتا“ اور کبھی
ع ”جہاں خودی ہے صداقت عیاں نہیں ہوتی“ اور کبھی
ع ”خودی نے حیف مردہ کی ہے تیری روحِ ایمانی“ وغیرہ وغیرہ. ظاہر ہے کہ ایسے مصرعوں میں ”خودی“ کو سراسر بمعنی ”تکبر“ استعمال کیا گیا ہے، اور یہی ہے وہ مفہوم جس کو عموماً اقبال کی ”خودی“ پر بھی چسپاں کرکے نہ صرف کلامِ اقبال پڑھنے والے خود گمراہ ہوتے ہیں بلکہ دوست احباب کو بھی ایک خوفناک غلط فہمی میں مبتلا کرتے ہیں
غالباً اسی خدشے کی بنا پر علامہ اقبال نے بھی ”خودی“ بمعنی تکبر کی شدت سے تردید کی ہے اور کسقدر واضح الفاظ میں فرماتے ہیں
خودی کی تندی و شوخی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز بھی ہو تو بے لذٌت نیاز نہیں
مطلب یہ کہ مسلمان کی خودی باوجود اسقدر خوددار، غیرت مند، محکم اور سربلند ہونے کے اپنے اندر کبر و ناز نام کو نہیں رکھتی، اس میں اگر ناز (یعنی غنا) ہے تو بھی وہ بے لذتِ نیاز (یعنی عجز و فروتنی) ہرگز نہیں
بالفاظِ دیگر ”خودی“ میں جذبہ غیرت و خودداری کے ساتھ ہی ساتھ عجز اور تواضح کی عالی صفات بھی پائی جاتی ہیں. خودی نیاز مند ہو بھی تو اپنی غیرت کی حدود سے نکل کر نہیں بلکہ عزتِ نفس کے دائرے میں مقید رہتے ہوئے کہ بقول اقبال یہ ”فقیری“ بھی رشکِ ”شہنشاہی“ ہے
استغفراللہ! یہ بھی کسقدر خوفناک غلط فہمی ہے کہ ”خودی“ انسان کو خدا سے واصل نہیں ہونے دے گی
اور بطور حجاب خالق اور مخلوق کے درمیان حائل رہے گی، اگر ایسا ہوتا تو اقبال ”خودی“ کو ذریعہ دیدارِ الہی قرار دے کر یہ کیوں کہتا کہ
ز من گو صوفیانِ با صفا را
خدا جویانِ معنی آشنا را
غلامِ ہمتِ آں خود پرستم
کہ با نورِ خدا بینَد خدا را
جب انسان فطری طور پر حاصل شدہ صفات کی قدر کرتا ہے اور اعمال صالحہ اور ذکر الہی سے آئینہ دل روشن کرتا ہے تو لازمی طور پر اس کی زندگی خدا کی مقدس صفات کی ترجمان بن جاتی ہے. ایسا انسان کم از کم اس انعام کا مستحق ہے کہ خدا اسے ایک دائمی اثر و رسوخ عطا کرے اور اسکا نام اور کام دونوں چیزیں لوحِ عالم پر نقشِ دوام حاصل کریں. اسطرح گویا انسان نے خدا کی ذات و صفات کو اپنے اعمالِ صالحہ سے دنیا میں متعارف کیا اور خدا نے راستبازی کے عوض انسان کی ہستی کو دنیائے فانی میں بھی غیر فانی ہونے کا رتبہ عطا فرمایا. اسی بنا پر اقبال فرماتے ہیں کہ :-
نمود اسکی نمود تیری، نمود تیری نمود اس کی
خدا کو تو بے حجاب کردے، خدا تجھے بے حجاب کردے
”نمود اسکی نمود تیری“ یعنی خدائی صفات کا اظہار در حقیقت تیرے حسنِ فطرت کا اظہار ہے اور جب تیرا حسنِ فطرت ایمان محکم اور اعمال صالحہ کی صورت میں ظاہر ہوا تو گویا خدا ہی کا دنیا میں نور و ظہور ہوا. اور یہی چیز ہے ”نمود تیری نمود اس کی“ اس طرح جب انسان کے اعمال میں خدا جلوہ گر ہوا. اور خدا نے بطور انعام انسان کو چشمِ عالم پر ہمیشہ کے لئے جلوہ گر کردیا تو اس کیفیت نے ہر دو نے ایک دوسرے کی مخفی صفات کو بے حجاب کردیا
یعنی” اَلَستُ بِرَبِّکُم قَالُو بَلیٰ “کے معانی عملی طور پر ظہور پذیر ہوئے. ان اشعار کو بہ نظرِ غائر ملاحظہ فرمایئے
تری خودی سے ہے روشن ترا حریمِ وجود
حیات کیا ہے ، اسی کا سُرور و سوز و ثبات
بلند تر مہ و پرویں سے ہے اسی کا مقام
اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات
حریم تیرا ، خودی غیر کی ! معاذاللہ
دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارِ لات و منات
یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تُو نہ رہے
رہا نہ تُو تو نہ سوز خودی ، نہ سازِ حیات
( جاری ہے )
اقبال کا مقامِ خودی (سلسلہ نمبر ٢)
اقبال کی ”خودی“ کا مطلب ”تکبر“ نہیں بلکہ ”خود شناسی“ یا عرفانِ نفس ہے اور یہ وہ مقدس، وہ برگزیدہ، اور وہ سرمدی حقیقت ہے جس کی تاکید خود قرآن حکیم نے متعدد مقامات پر کی. اور سچ پوچھئے تو اقبال کی تعلیم خودی بھی ان آیات قرآنی کی وضاحت ہے جو عرفان نفس کے متعلق نازل ہوئی ہیں ذیل کی آیات میں غور و تدبر فرمایئے اور ان کے مقصد حقیقی کا سراغ لگایئے
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (16)
ترجمہ:- ہم نے انسان کو پیدا کیا، اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ اس کے دل میں اس کا نفس کیا کیا وسوسے پیدا کرتا ہے. اور ہم انسان کی طرف اس کی شہ رگ سے بھی قریب تر ہیں
اس آیت شریف کا کیا مقصد ہے؟ مقصد یہ ہے کہ انسان کو دنیا کی سب سے زیادہ صادق، غیر فانی اور ناقابل تغیر کتاب (قرآن حکیم) کے ذریعے اس حقیقت کا اذعان کرایا جائے کہ خدا نے اسے گوشت پوست اور حواس خمسہ دے کر دیگر حیوانات کی طرح فقط کھانے پینے اور نفسانی و شہوانی خواہشات کی تعمیل کرنے کے لئے آزاد نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ اسے اپنا مقام خلافت عطا فرماتے ہوئے خود اس کے وجود میں شہ رگ سے بھی قریب تر آکے جلوہ افروز ہوا ہے اور جسم انسانی میں ”دل“ کو اپنی نشست بنایا ہے
خدا کے اس احسان عظیم کے باوجود جو شخص اپنے مقام خودی کو نہیں پہچانتا اور اپنی ذات و صفات کا وہ عرفان حاصل نہیں کرتا، جس کی وساطت سے خدا کی وہ ہستی اس پر آشکار ہو جو اس کے سینے میں مکیں ہے تو اس شخص سے زیادہ غافل، بدبخت اور ظلوم و جہول اور کون ہوسکتا ہے؟ پس خدا کی ہستی کو ذکرِ الہی اور عرفان نفس سے اپنے سینے میں موجود پانا اور پھر نگاہِ پاک سے اس کا مشاہدہ کرنا ہی ”خودی“ کا مقصد اولیں ہے اور اسی مقدس احساس سے اس کی تمام عملی قوتیں بیدار ہوتی ہیں
یہاں آپ سوال پیدا کریں گے کہ انسانوں کی اکثریت خدا کی موجودگی کو اپنے دل میں کیوں محسوس نہیں کرتی
حالانکہ وہ شہ رگ سے بھی قریب تر ہے؟
جواباً عرض ہے کہ جس آئینے پر غبار کی تہ ہو وہ صاحبِ آئینہ کو کبھی صاف چہرہ نہیں دکھا سکتا اور نہ ہی نقش و نگار کے حسن و قبح کا اندازا کراسکتا ہے.
انسانی قلوب بھی بالکل آئینے کی مثال ہیں کہ جب ان پر گناہوں اور نفس کی ناپاک خواہشوں کا غبار پے در پے پڑتا ہے تو نورِ خداوندی اس تہ میں یوں مخفی ہوتا ہے کہ آپ کی آنکھیں اس کو دیکھنے سے قاصر رہتی ہیں
یہ ”خودی“ کی موت کا پہلا اور سب سے زیادہ خطرناک مرحلہ ہے. ہاں اس غبار کو دور کرنے اور نور خدا کو مشاہدہ کرنے کا طریقہ بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ گزشتہ بداعمالیوں سے توبہ کی جائے ارکان اسلام کی پابندی کی جائے اور گناہوں کی تلافی نیکی سے کی جائے
جیسا کہ اس آیت شریفہ سے ثابت ہے
إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (70)
ترجمہ:- مگر جن لوگوں نے صدقِ دل سے توبہ کی، ایمان لائے اور نیک کام کیئے خدا ان کی برائیوں کو بھی بھلائیوں سے تبدیل کردے گا. کیونکہ اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے
إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ (114)
ترجمہ:- بلا شبہ نیکیاں انسان کی برائیوں کو محو کردیتی ہیں. یہ ایک نصیحت ہے یاد رکھنے والوں کے لئے
ان شواہد سے صاف ظاہر ہے کہ قلبِ انسانی ذاتِ خداوندی کا مسکن ہے، اور خدا کی ذات و صفات کے صحیح عرفان ہی کا نام ”خودی“ ہے. بالفاظ دیگر اس خودی کو جس قدر قوت اور برکت اور عزم و استقلال حاصل ہوتا ہے وہ سراسر اس خدا کے نورِ یکتا سے جو از روئے قرآن ہماری شہ رگ سے قریب تر ہے.
عرفانِ نفس کی اسی ضرورت و اہمیت کے متعلق دوسری آیت میں فرمایا:-
وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ (20) وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (21)
ترجمہ:- خدا پر یقین و ایمان لانے والوں کے لئے روئے زمین پر بے شمار نشانیاں ہیں. اور یہ نشانیاں تمہارے اپنے نفس میں بھی موجود ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے؟
ان الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کی ذات و صفات کو پہچاننے کے لئے بہت سی آیات (نشانیاں) ہمارے ”نفس“ میں ہمہ وقت موجود تو ہیں، لیکن جب انہیں ہم خود نہ دیکھیں اور بے اعتنائی سے کام لیں، تو قصور صانع یا صنعتِ صانع کا نہیں بلکہ ہماری چشمِ کور کا ہے، جو بینا ہوے ہوئے بھی مطالعہ فطرت میں کور ہے
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
اور بقولِ اکبر الہ آبادی
کیا تم سے کہیں جہاں کو کیسے پایا
غفلت ہی میں آدمی کو ڈوبا پایا
آنکھیں تو بے شمار دیکھیں لیکن
کم تھیں بخدا جن کو بینا پایا
مذکورہ حقائق کی بنا پر یہ چیز اظہر من الشمس ہے کہ اقبال کی ”خودی“ نہ تو اس کی ایجاد کردہ شے ہے کہ اسے ”بدعت“ کہا جاسکے، اور نہ یہ کوئی شاعرانہ یا فلسفیانہ قسم کا نظریہ ہے جو کسی آئندہ زمانہ میں متغیٌر یا کمزور ہوسکے گا بلکہ یہ ”خودی“ وہ ازلی و ابدی صداقت ہے جس کی تعلیم اللہ تعالی اپنے کلام میں دے رہا ہے. یہ ”خودی“ دنیا کی وہ عظیم ترین نعمت ہے جسے ہدایت کی دولت کہتے ہیں اور جس کے ذوق و شوق میں انبیاء، شہدا، اور اولیاء نے دنیا کی تمام دیگر اشیاء پر لات ماردی. یہ ”خودی“ غنائے نفس کا وہ مقام ہے جہاں ”قلبِ سلیم“ کا نایاب تحفہ ملتا ہے.
الغرض یہ ”خودی“ حاصل ہے تو انسان انسان ہے ورنہ چوپایوں سے بدتر ہے.
(جاری ہے)
اقبال کا مقامِ خودی (سلسلہ نمبر ٣)
”خودی“ کے اس عارفانہ مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے اسے ”فطرت اللہ“ بھی کہا جاسکتا ہے. اور یہ وہ فطرت ہے جو ہمارے جنم دن سے ہمارے ساتھ آتی ہے اور تا دمِ مرگ ہم سے باوفا ہے. اس آیت شریف پر غور فرمایئے:-
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (30)
ترجمہ:- پس دینِ ابراہیم کی اطاعت کے لئے اپنا منہ سیدھا کرلے. یہ دین کیا ہے؟ وہی فطرت الہی جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا. خدا کے اس قانونِ پیدائش میں کوئی تبدیلی نہیں. یہی دنیا کا صحیح ترین مذہب ہے. لیکن اکثر لوگ (جہالت کی وجہ سے) اس حقیقت کو نہیں سمجھتے.
پس یہی ”فطرت الہی“ یا ”خودی“ ہے جو بقول اقبال ہمارے سینے میں ”من“ یا ”انا“ یا ”ہستم“ کی صدائے سرمدی پیدا کرتی ہے، اور اسی صدا کی تعظیم و تعمیل اور فروغِ روح اور عروجِ حیاتِ انسانی کی اولین شرط ہے
من از بود و نبودِ خود خموشم
اگر گویم کہ ہستم خو پرستم
ولیکن ایں نوائے سادہء کیست
کسے در سینہ می گوید کہ ”ہستم“
ترجمہ:- میں اپنی ہستی اور عدم کے متعلق خاموش ہوں
کیونکہ اگر خدا کی موجودگی میں کہا جائے کہ میں بھی ”موجود“ ہوں تو یہ خود پرستی معلوم ہوتی ہے. لیکن یہ دلکش آواز سینے میں کیا آرہی ہے کہ ”میں یہاں ہوں“
یہ آواز دینے والا کون ہے؟ (پس جب میں کہوں کہ ”ہستم“ تو گویا اپنی ہستی کے اقرار سے بھی میں سراسر خدا ہی کی ہستی کا اقرار کرتا ہوں، اور یہی توحید ہے)
خودی سے اس طلسمِ رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا
جب سینے میں ایک دلربا آواز پکار پکار کر کہتی ہے کہ ”میں“ یہاں ہوں. میں تیرے دل میں موجود ہوں! تو پھر اقبال یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہے کہ:-
تراشیدم صنم برصورتِ خویش
بشکل خود خدا را نقش بستم
مرا از خود بروں رفتن محال است
بہر رنگے کہ ہستم خود پرستم
ترجمہ:- میں نے اپنی صورت پر مٹی کا ایک بت بنایا
اور اس شکل میں گویا خدا ہی کا نقش باندھا
بحرکیف میرے لئے اپنی ذات اور اپنی ”خودی“ سے باہر جانا محال ہے
میں جس رنگ میں بھی ہوں خود پرست ہوں
(کیونکہ یہ خود پرستی در حقیقت اس خدائے واحد کی پرستش ہے جو میرے سینے میں جلوہ افروز ہے)
در بود و نبودِ من اندیشہ گمانہا داشت
از عشق ہویدا شد این نکتہ کہ ”ہستم“ من
سوچ اس گمان میں تھی کہ میں ہوں یا نہیں ہوں
عشق سے یہ نکتہ ظاہر ہوا کہ میں موجود ہوں
ان مثالوں سے معلوم ہوا کہ ”خودی“ کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ کائنات کی دیگر اشیاء یا دیگر انسانوں کے حسن و جمال اور جذب و کشش کو دیکھ کر حیران نہ ہو بلکہ انسان کو اپنے حسنِ معنوی اور کمالاتِ فطری کی جانب متوجہ کرے. اس عرفانِ نفس اور مشاہدہ باطن کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان دوسروں کی پرستش کرنے کی بجائے ذاتی کمالات اور فروغ و ارتقاء کی طرف مائل ہوگا اور خدا کی عطا کردہ صفات کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرے گا. وہ حجابات جو اتباع ہوَس سے حائل ہوگئے تھے، دل کی صحیح صدا سننے سے خود بخود اٹھنے لگیں گے، اور دوسروں کا حسن دیکھنے کے بجائے اپنا حسنِ لازوال دیکھنے کا شوق پیدا ہوگا. خود شناس انسان دنیا سے بے نیاز ہوگا مگر دنیا اس کے دیدار کے لئے دوڑی چلی آئے گی
اےتماشا گاہِ عالم روئے تو
تو کجا بہرِ تماشا می روی
ترجمہ:- اے مخاطب تیرا اپنا چہرہ ہی تمام دنیا والوں کی تماشاہ گاہ ہے
تو دوسروں کے چہرے کا تماشاہ کرنے کہاں جارہا ہے؟
اسی مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:-
رہے در سینہء انجم کشائی
ولے از خویشتن ناآشنائی
یکے برخود کشا چوں دانہ چشمے
کہ از زیرِ زمیں نخلے بر آئی
ترجمہ:- تو ستاروں کے سینے سے تو راستے پیدا کرتا ہے
مگر اپنے نفس اسرار و رموز سے بے خبر ہے
اے غافل! ایک مرتبہ بیج کی طرح اپنے آپ پر تو آنکھ کھول
تاکہ زیر زمیں سے تیری ہستی بصورت نخلِ ثمر دار نمایاں ہو
بروں از ورطہء بود و عدم شو
فزوں تر زیں جہانِ کیف و کم شو
خودی تعمیر کن در پیکر خویش
چو ابراہیم معمارِ حرم شو
ترجمہ:- موجود اور غیر موجود یا مشہود اور غیر مشہود کے بھنور سے نکل
اور اس دنیائے فانی کی کیفیت و مقدار کے گورکھ دھندوں سے بالاتر ہوجا، یعنی بیرونی دنیا سے بے نیاز ہوکر اپنے ہی پیکر میں صفات خودی تعمیر کر
اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مانند (ہَوا و ہوَس کے بتوں کو توڑ کر) اپنے دل میں توحید و ایمان کا کعبہ استوار کر.
ز خاکِ خویش طلب آتشے کہ پیدا نیست
تجلٌیِ دگرے درخورِ تماشا نیست
اگرچہ عقل فسوں پیشہ لشکرے انگیخت
تو دل گرفتہ نہ باشی کہ عشق تنہا نیست
ترجمہ:- جو آگ تجھے درکار ہے اسے اپنی خاک (جسم) ہی سے طلب کر
دوسروں کی تجلیاں دیدار کے لائق نہیں ہیں
اگرچہ عقل کے جادو (تیرے نورِ خودی کو چھیننے کے لئے) بصورت لشکر حملہ آور ہیں
تاہم غمزدہ مت ہو، اس لئے کہ تیرا عشق (جذبہ ایمان) تنہا نہیں (بلکہ اسے خدا کی امداد حاصل ہے)
زخاکِ خویش بہ تعمیرِ آدمے برخیز
کہ فرصتِ تو بقدرِ تبسٌمِ شرر است
ترجمہ:- اے غافل! اپنی خاک سے انسانِ کامل تعمیر کرنے کے لئے کمربستہ ہوجاؤ
اس لئے کہ زندگی مختصر ہے اور جینے کی مہلت ایک شرر کے تبسم سے زیادہ نہیں ہے.
آیا ہے تو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستیء ناپائدار دیکھ
طوافِ کعبہ زدی گردِ دیر گردیدی
نگہ بخویش نہ پیچیدہ ای دریغ از تو
ترجمہ:- تو نے زندگی میں کعبے کے بھی طواف کئے اور دیر و بتخانہ کی بھی مسلسل گردش کی
مگر افسوس، صد افسوس! کہ اپنے کعبہء دل کو تو نے کبھی نظر جھکا کر نہ دیکھا کہ یہ نورِ الہی سے کس قدر معمور ہے.
حسن کا گنج گراں مایہ تجھے مل جاتا
تو نے فرہاد! نہ کھودا کبھی ویرانہء دل
زندگی از طوف ِ دیگر رستَن است
خویش را بیت الحرم دانستَن است
ترجمہ:- زندگی کا صحیح معنی یہ ہیں کہ انسان غیروں کی طواف سے آزاد ہوجائے
اور اپنی ذات کو بیت الحرم یقین کرلے (تاکہ دنیا اس کے طواف کو دوڑی چلی آئے)
ان چند فارسی مثالوں کے علاوہ اردو کلام میں بھی اکثر جگہ اسی حقیقت کی جانب اشارات پائے جاتے ہیں
کِرمک ِ ناداں طوافِ شمع سے آزاد ہو
اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو
کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثلِ کلیم
اپنی ہستی سے عیاں شعلہء سینائی کر
کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں
کہ لیلی کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں
رہا دل بستہء محفل، مگر اپنی نگاہوں کو
کیا بیرونِ محفل سے نہ حیرت آشنا تو نے
فدا کرتا رہا دل کو حسنیوں کی اداؤں پر
مگر دیکھی نہ اس آئینے میں اپنی ادا تو نے
مندرجہ بالا اشعار میں سراسر اپنے محاسنِ باطنی اور کمالاتِ فطری کو مشاہدہ کرنے، ان کی قدر کرنے اور غیروں کی ہیبت اور پرستش سے آزاد ہونے کی تلقین کی گئی ہے. لیکن یاد رہے کہ ”مشاہدہِ نفس“ اور ”عزتِ نفس“
کا یہ بلند مقام ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ انسان کائنات کی تمام دیگر مخلوقات کے مقابلے میں بالخصوص اپنی فضیلت کا ادراک نہ کرے
(جاری ہے)
اقبال کا مقامِ خودی (سلسلہ نمبر ٤)
بحیثیتِ انسان ہمیں اپنی فضیلت کا پختہ ثبوت کہاں سے ملتا ہے؟ جواباً عرض ہے کہ قرآن حکیم انسان کی اس فضیلتِ خودی کے شواہد سے معمور ہے. بخوف طوالت زیادہ مثالیں پیش نہیں کرونگا. مختصر طور پر مندرجہ ذیل آیات کی حکمت پر غور فرمایئے.
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (30)
ترجمہ:- اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ مَیں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں.
اس آیت شریف سے انسان کا روئے زمین پر خدا کا خلیفہ ہونا ثابت ہورہا ہے، اور اسے وہ مقام خلافت سونپا جارہا ہے جس کی اہلیت آسمانوں، زمینوں، پہاڑوں اور ان کے جملہ کائنات میں بھی نہ تھی
آسماں بارِ امانت نتوانست کشید
قرعہء فال بنامِ منِ دیوانہ زنَد
ایک اور آیہ شریفہ میں اللہ تعالی انسان کی خلافت اور اس کے مقام خلافت کا مقصد بھی بیان فرما رہا ہے. اور تلقین کرتا ہے کہ تم زمین پر میرے خلیفے اور وارث بن کر محض دنیوی درجات کی پستی و بلندی یا ثروت و دولت کی کمی بیشی سے ایک دوسرے کو حقیر مت سمجھو. بلکہ انصاف و دیانت سے اخلاقِ انسانی اور منصب خلافت کی حفاظت کرو. کیونکہ عہدوں میں درجات اور دولت کا فرق تو تمہیں آزمانے کے لئے ہے کہ تم ”ناموسِ خلافت“ کی کہاں تک قدر کرتے ہو
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۗ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ (165)
ترجمہ:- اور خدا کی شان تو یہ ہے کہ اس نے تمہیں روئے زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض پر عہدہ و درجہ میں بلند کیا. یہ امتیاز محض اس لئے ہے کہ تمہیں آزمایا جائے کہ بحیثیت خلیفہ تم اپنی مملوکہ اشیاء کس طریق پر صرف کرتے ہو. تیرا پروردگار جلد حساب لینے والا ہے. اور ہاں، وہ بخشنے والا، رحم کرنے والا بھی ہے.
تو انسان کو اس مقامِ خلافت کی تفویض کیا ایک معمولی اعزاز ہے؟ انعاماتِ الہی میں سے اس اعزاز کی مثال نہیں، اور اس عدیم النظیر اعزاز کی تشریح ذیل کی آیت میں ستائش کی ایک نئی شان رکھتی ہے
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا (70)
ترجمہ:- اور بلاشبہ ہم نے آدم کی اولاد کو بہت عزت بخشی ہے. انسانوں کے لئے بحر و بر کے راستے کھول دیئے ہیں، پاک چیزوں سے انہیں وافر رزق دیا ہے. اور کائنات میں جو کچھ بھی ہم نے پیدا کیا ہے اس میں سے اکثریت پر انسانوں کو فضیلت عطا کی ہے.
یہ تو تھا انسان کی معنوی فضیلت کا تذکرہ، یعنی خلیفہ الہی ہونے کی عملی صلاحیت، اور بلحاظِ عقل و شعور تمام دیگر مخلوقات پر حکم و اختیار کا حق، لیکن جسم اور صورت کے اعتبار سے بھی اللہ تعالی نے اسے ”احسنِ تقویم“ کا ممتاز مقام عطا فرمادیا ہے. یہ ہے معنوی عظمت کے علاوہ اسکی صوری فضیلت کا بین ثبوت
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (4)
ترجمہ:- ہم نے انسان کو بہترین صورت و ہیئت میں پیدا کیا ہے.
سچ تو یہ ہے کہ جب انسان ”احسنِ تقویم“ کے شرف کو سمجھے، اس کی قدر کرے اور عملی زندگی میں دیگر حیوانات سے خود کو اعلی و افضل ثابت کر دکھائے تو صحیح معنوں میں اس مقام و منصب کا مستحق ہوا.
اور اگر عملی طور پر یہ فضیلت ثابت کرنے میں ناکام رہے، تو پھر اس کے لئے ”اسفل سافلین“ اور ”ظلوم و جہول“ کے خطابات زیادہ موزوں ہیں.
پس اقبال انسان کو اس کی اسی معنوی اور صوری فضیلت کا احساس کراتے ہوئے مقام خودی کی تحصیل پر آمادہ کرتا ہے. بالفاظ دگر اقبال محض خودی کا دعوی کرتے ہوئے بغیر کسی ٹھوس دلیل و برہان کے آپ کو اس کا قائل نہیں کرنا چاہتا. بلکہ کلام الہی کے محکم و بیٌن دلائل کی روشنی میں پہلے آپ کو یقین دلاتا ہے کہ آپ ”خلیفتہ اللہ فی الارض“ ہیں، ”احسن تقویم“ ہیں ”اشرف المخلوقات“ ہیں، ”حاملِ امانت“ہیں، ”نائبِ حق“ ہیں، ”صاحبِ کتاب الہی“ہیں. اور پھر ان لاثانی صفات کے حفظ و ناموس کا واسطہ دے کر ”خودی“ کو پہچاننے اور کمالات فطری کی قدر کرنے کی تلقین کرتا ہے.
کیا کوئی طریقِ استدلال اس سے بھی زیادہ منطقی اور جاذب و پر اثر ہوسکتا ہے؟
کائنات عالم میں خاص طور پر انسان کی عظمت و قیادت کا ایک حوصلہ افزا اور ولولہ انگیز تذکرہ اقبال کے مندرجہ ذیل اشعار میں موجود ہے
ضمیرِ کن فکاں غیر از تو کس نیست
نشانِ بے نشاں غیر از تو کس نیست
قدم بیباک تر نِہ در رہِ زیست
بہ پہناے جہاں غیر از تو کس نیست
خدا کے حکم ”کن“ سے جو چیز پیدا ہوئی، وہ تیری ہستی کے سوا اور کچھ نہیں
دنیا میں بے نشان خدا (یعنی غائب اور غیر مرئی خدا) کا موجود و مشہود نشان تیری ذات کے علاوہ اور کوئی شے نہیں
جب تیرا مقام یہ ہے تو تجھے چاہئے کہ زندگی کے راستے پر بے خوفی سے گامزن ہو
اس لئے کہ وسعت عالم میں تیرے سوا اور کچھ موجود نہیں
از خود اندیش و ازیں بادیہ ترساں مگذر
کہ تو ہستی و وجودِ دو جہاں چیزے نیست
اپنی ہستی کی عظمت و قوت پر غور کر اور دنیا کے بیابان سے ڈرتا اور گھبراتا ہوا مت گذر
اس لئے کہ (خدا کا خلیفہ ہونے کی وجہ سے) کائنات میں موجودِ حقیقی فقط تو ہے اور دونوں جہان تیرے مقابل کوئی وجود نہیں رکھتے
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے، ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی
(جاری ہے)
اقبال کا مقامِ خودی (سلسلہ نمبر ٥)
جب ”خودی“ انسان کے عقائد اور جذبات و احساسات کی دنیا تعمیر کرچکتی ہے. اوہام اور شکوک و شبہات زائل ہوجاتے ہیں. اور یقین اپنی معراجِ کمال کو پہنچ جاتا ہے تو سراسر عمل کی راہ ظہور پذیر ہوتی ہے.
یہ عمل ”خودی“ کے فروغ کے لئے منزلِ مقصود کی جانب ایک قدم بھی نہیں بڑھ سکتا تاوقتیکہ انسان میں جرآت، جفا کشی، سخت کوشی کی صلاحیت ہیدا نہ ہو. اور وہ خطرات و حوادث کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ نہ ہو. یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری میں جا بجا مضبوط و محکم رہنے کی تاکید کی ہے.
بخود خزیدہ و محکم چو کوہساران زی
چو خش مزی کہ ہوا تیز و شعلہ بیباک است
پہاڑوں کی طرح مضبوط اور محکم ہوکر زندگی بسر کر خس و خاشاک کی طرح مت جی کہ ہوا تیز ہے اور شعلہ بیباک.
اقبال نے اپنی تصانیف میں ہمیں بارہا بتایا ہے کہ اگر ”خودی“ اور ارتقائے حیات مقصود ہے تو خطرات سے گریز مت کرو بلکہ ان سے پیار کرنا سیکھو. زندگی کی شاہراہ میں پے در پے خطرے پیش آئیں تو خون گرم اور رواں دواں ہے، ورنہ سرد اور منجمد. چنانچہ ”اگر خواہی حیات اندر خطر زی“ کے عنوان سے جو مستقل نظم ”پیام مشرق“ میں موجود ہے وہ اسی حقیقت پر شاہد ہے
مندرجہ ذیل اشعار میں تو یہ احساس اپنی انتہائی شان میں موجود ہے:-
بہ کیشِ زندہ دلاں زندگی جفا طلبی است
سفر بکعبہ نکردم کہ راہِ بے خطر است
زندہ دل لوگوں کے مذہب میں زندگی کے معنی ہیں جفا طلبی کے
لہذا میں نے کعبے کا سفر اس لئے اختیار نہیں کیا کہ اس کا راستہ بے خطر ہے
وائے آں قافلہ کز دونیء ہمت می خواست
رہگزارے کہ در و ہیچ خطر پیدا نیست
افسوس ہے اس قافلے پر جس نے اپنی پست ہمتی کی وجہ سے وہ راستہ اختیار کیا جس میں خطرات نام کو نہیں
ز قید و صیدِ نہنگاں حکایتے آور
مگو کہ زورقِ ما آشنائے دریا نیست
خطرات سے ڈر کر یہ مت کہہ کہ میری کشتی دریا کے طوفانوں کا عادی نہیں ہے
بلکہ دریا میں مردانہ وار کود پڑ، اور مگر مچھوں کے قید و صید کی حکایتیں ہمیں واپس آکر سنا
میارا بزم بر ساحل کہ آنجا
نواے زندگانی نرم خیز است
بہ دریا غلط و با موجش در آویز
حیاتِ جاوداں اندر ستیز است
ساحل پر اپنی بزم آراستہ نہ کر
اس لئے کہ وہاں زندگی کے نغمات بہت مدھم ہیں
زندگی کا صحیح لطف درکار ہے تو دریا میں کود پڑ اور اس کی طوفانی موجوں سے گتھم گتھا ہوجا کیونکہ حیات جاوداں کا راز صرف جنگ میں ہے
قدرے غور و تدبر سے کام لیا جائے تو یہاں بھی یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ اقبال کا فلسفہء جہد و عمل ان آیت پر مبنی ہے
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي كَبَدٍ (4)
ترجمہ:- ہم نے انسان کو محنت و مشقت کے لئے پیدا کیا ہے.
سر ایں فرمانِ حق دانی کہ چیست
زیستن اندر خطرہا زندگیست
کیا تجھے معلوم ہے کہ خدا کے اس راز میں کیا چھپا ہے؟
یہ کہ خطروں میں جینا ہی اصل زندگی ہے
درپے من پا بنہ از کس مترس
دستِ در دستم بدہ از کس مترس
تو میرے پیچھے چلتا آ اور کسی سے خوف نہ کھا
اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے اور کسی سے نہ ڈر
خطر پسند طبیعت کو ساز گار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
پس سعی و عمل اور شوقِ خطرات کے اصول ”خودی“ کی روحِ رواں ہیں
اور سعی و عمل کی درست رہنمائی ہمیں قرآن و سنت سے ملے گی
(جاری ہے)
اقبال کا مقامِ خودی (سلسلہ نمبر ٦)
علامہ اقبال رح کی ایک طویل مثنوی بعنوانِ ”ساقی نامہ“ بالِ جبریل میں موجود ہے. یہ مثنوی حسنِ الفاظ، چستیِ بندش، سوز و اثر اور روانی میں میر حسن کی مشہور و معروف مثنوی ”سحر البیان“ کو بھی مات کررہی ہے. ایک دریائے فصاحت و لطافت ہے کہ جذبات فطری کا جوش و خروش لئے ہوئے برق رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے اور خس و خاشاکِ باطل کو اپنے طوفان میں بہائے لئے جاتا ہے. چونکہ اس مثنوی کا بیشتر حصہ ”خودی“ کے عزم و استقلال اور قوت و عظمت پر مشتمل ہے
لہذا اس کا مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ فرمایئے
یہ موجِ نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے ، تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے ، رازِ درون حیات
خودی کیا ہے ، بیداریء کائنات
خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اک بوند پانی میں بند
اندھیرے اجالے میں ہے تابناک
من و تُو میں پیدا ، من و تُو سے پاک
ازل اس کے پیچھے ، ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے ، نہ حد سامنے
زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
تجسس کی راہیں بدلتی ہوئی
دما دم نگاہیں بدلتی ہوئی
سبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گراں
پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں
سفر اس کا انجام و آغاز ہے
یہی اس کی تقویم کا راز ہے
کرن چاند میں ہے ، شرر سنگ میں
یہ بے رنگ ہے ڈوب کر رنگ میں
اسے واسطہ کیا کم و بیش سے
نشب و فراز وپس و پیش سے
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
خودی کے نگہباں کو ہے زہر ناب
وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب
وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند
رہے جس سے دنیا میں گردن بلند
فرو فال محمود سے درگزر
خودی کو نگہ رکھ ، ایازی نہ کر
وہی سجدہ ہے لائقِ اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام
یہ عالم ، یہ ہنگامہء رنگ و صوت
یہ عالم کہ ہے زیرِ فرمان موت
یہ عالم ، یہ بت خانہء چشم و گوش
جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش
خودی کی یہ ہے منزل اولیں
مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاک داں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے ، تو جہاں سے نہیں
بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر
طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر
خودی شیرِ مولاؓ ، جہاں اس کا صید
زمیں اس کی صید ، آسماں اس کا صید
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیرِ وجود
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تری شوخیء فکر و کردار کا
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
تو ہے فاتحِ عالمِ خوب و زشت
تجھے کیا بتاؤں تری سرنوشت
حقیقت پہ ہے جامہء حرف تنگ
حقیقت ہے آئینہ ، گفتار زنگ
فروزاں ہے سینے میں شمعِ نفس
مگر تاب گفتار کہتی ہے ، بس!
اگر یک سرِ موے برتر پرم
فروغِ تجلّی بسوزد پرم
آخری فارسی مصرعے کا ترجمہ:-
(اگر میری اڑان مقررہ حد سے بال برابر بھی اونچی ہوجائے تو نورِ مطلق کی آتشیں تجلی میرے بال و پر جلا کر خاک کردے)
”خودی“ کے متعلق ان تمام مباحث کا حاصل یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک خدا کا منکر اتنا سنگین کافر نہیں، جتنا ”خودی“ کا منکر ہے. سبب یہ کہ جو شخص انسان میں خدا ہی کے ظاہر کردہ صفات کے موجود و مشہود ہوتے ہوئے ان کا منکر ہے وہ غائب اور غیر مرئی خدا کو کیا تسلیم کریگا؟
حسبِ آیہِ قرآنی خدا ہماری شہ رگ سے قریب تر ہے اور ہمارے ”نفس“ میں اس کی بے شمار آیات موجود ہیں.
جب خدا کی ذات و صفات کے اس قدر قریب ہونے کا بھی ہمیں احساس نہ ہو، اور اس احساس سے ہم ممکنات زندگی کی تسخیر نہ کریں، تو پھر ہمارے دل کو اس بعید خدا کی ہستی پر کیا یقین ہوگا جو ہفت افلاک سے ماورا اپنے مرکزِ جلال یعنی عرش پر متمکٌن ہے؟
لہذا ثابت ہوا کہ منکرِ خدا تو فقط ہستی باری تعالی کی نفی سے اکہرا کافر ہے. لیکن منکرِ ”خودی“ موجود اور غائب، مرئی اور غیر مرئی ہر دو ہستیوں کے انکار سے دوہرا کافر ہے.
اس بنا پر حکیم الامت کے اس ارشاد کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں کہ:-
منکرِ حق نزدِ ملٌا کافر است
منکرِ خود نزدِ من کافر تر است
ترجمہ:- خدا کا منکر علماء کے نزدیک کافر ہے
لیکن خودی کا منکر میرے نزدیک کافر تر ہے
خودی کے بارے میں یہ مضمون جناب عبدالرحمان طارق صاحب کی کتاب ”جہانِ اقبال“ سے لیا گیا ہے اور یہ کتاب اول مرتبہ 1947 میں شائع ہوئی
 

NAJAF ALI
About the Author: NAJAF ALI Read More Articles by NAJAF ALI: 22 Articles with 26366 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.