لڑکی بے حد دل کش تھی- اس کی عمر یہ ہی کوئی انیس بیس سال
رہی ہوگی- اس نے نیلی جینز پر سفید رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی - پاؤں میں
ایک مشہور کمپنی کے جوتے تھے- شکل و صورت اور کپڑوں سے وہ کسی امیر خاندان
کی لگ رہی تھی- وہ اپنی ماں کے ساتھ ریلوے اسٹیشن آئی تھی- ساڑھے دس بجے
والی ٹرین سے اس کا بھائی اپنی نئی نویلی بیوی کے ساتھ آ رہا تھا-
رات کے دس بج گئے تھے- لڑکی ایک بنچ پر بیٹھی آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہی
تھی- اس کی ماں کسی سے موبائل پر باتوں میں مصروف تھی- شکل و صورت سے وہ
ایک سخت گیر خاتون نظر آتی تھی- اسٹیشن پر موجود تمام بنچوں پر لوگ بیٹھے
ہوۓ تھے- وہاں پر چونکہ رش بہت زیادہ تھا اس لیے جن لوگوں کو بنچوں پر جگہ
نہیں ملی تھی وہ اپنے سوٹ کیسوں اور سامان پر ہی ٹک گئے تھے- کچھ خواتین
زمین پر کپڑا بچھائے بیٹھی تھیں- ان کے ساتھ آئے ہوۓ بچے ادھر ادھر بھاگتے
پھر رہے تھے- مختلف خوانچہ فروش بھی وہاں پھر رہے تھے- ان کے پاس زیادہ تر
بچوں کے مطلب کی چیزیں تھیں- وہ آوازیں لگاتے ہوۓ بچوں کے نزدیک سے گزرتے
تو بچے رک کر انھیں دیکھنے لگتے- وہ چلے جاتے تو وہ پھر اپنے کھیلوں میں لگ
جاتے-
وہاں سے کچھ دور لوگوں کی آتی جاتی بھیڑ میں ایک نوجوان لڑکا کھڑا لڑکی اور
اس کی ماں کی طرف ہی دیکھے جا رہا تھا- اس کی شکل صورت تو اچھی تھی مگر جسم
پر کپڑے معمولی تھے- اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت پھولوں کا گلدستہ تھا-
گلدستے میں کئی طرح کے رنگ برنگے گلاب کے پھول تھے جنہیں گلاب کی چھوٹی
چھوٹی پتی والی ٹہنیوں کے درمیان رکھ کر گلابی رنگ کی ربن سے باندھ دیا گیا
تھا - یہ گلدستہ جوزی کے نام سے مشہور تھا اورعموماً کوئی محبّت کرنے والا
کسی محبّت کرنے والے کو دیا کرتا تھا-
لڑکا بنچ پر بیٹھی ہوئی لڑکی اور اس کی ماں سے کچھ دور کھڑا تھا- اس نے ایک
مرتبہ پھر گلدستے کو دیکھا اور دونوں ماں بیٹی پر ایک نظر ڈال کر کچھ سوچنے
لگا- اس کے چہرے پر عجیب سی کشمکش کے تاثرات تھے- ایسا معلوم دیتا تھا کہ
جیسے وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا ہو کہ اسے کیا کرنا چاہیے-
اچانک موبائل کے سگنل کا کوئی مسئلہ ہوا تو لڑکی کی ماں بنچ سے اٹھ کر کچھ
دور چلی گئی- اسے جاتا دیکھ کر لڑکے کو کچھ ہمت ہوئی- وہ تیز تیز قدموں سے
لڑکی کی طرف آیا اور گلدستہ اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا-" ٹھیک ہے باجی! چار
سو نہ سہی آپ تین سو روپے ہی دے دیں- سو روپوں کے لیے آنٹی خواہ مخوا ہ غصہ
کر گئی تھیں"-
(ختم شد)
|