ڈاکٹر غلام شبیر رانا
قدیم زمانے میں شمالی ہند میں اُردو زبان و ادب کی جو کونپل نمو پانے لگی
وہ مستقبل میں نخل تناور بننے والی تھی ۔یہ خواب اُس وقت حقیقت میں بدل گیا
جب سال ۱۲۹۶ء میں علاؤالدین خلجی کی آمد سے نئی زبان جنوب میں دکن پہنچی
تویہاں فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی ۔بہمنی اور عادل شاہی دور میں اس خطے میں
دکنی زبان کے تخلیق کار شمال سے بے نیاز رہتے ہوئے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے
میں انہماک کا مظاہرہ کرتے رہے ۔ گول کنڈہ میں قطب شاہی خاندان نے سال
1508میں ایک آزاد اور خود مختار سلطنت قائم کی۔ اس ریاست کے آٹھ مطلق
العنان بادشاہوں کی علم وا دب کی سرپر ستی کے نتیجے میں ان کی اقلیم میں
ادب اور فنون ِ لطیفہ سے وابستہ تخلیق کاروں نے اپنے ذوقِ سلیم کو رو بہ
عمل لاتے ہوئے قارئین کی خداداد قدرتی، ادبی ،اخلاقی اورعلمی اوصاف کو صیقل
کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔ مورخین کی تحقیق کے مطابق قطب شاہی
عہدکو درج ذیل تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
۱۔ ابتدائی دور : ( 1508-1580 )
۲۔عروج کا زمانہ : ( 1676 1580- )
۳۔دور انتشار : ( 1676-1687 )
تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ بر صغیر میں بولی جانے والی مختلف زبانوں
میں ارتقا کا عمل پیہم جاری رہا ۔ دکنی زبان کے متعدد الفاظ معاصر ہمسایہ
یا مقامی زبانوں میں داخل ہوتے رہے ۔ان میں سے کچھ الفاظ ایسے تھے کہ وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ جن کی شکلیں اور ترکیبیں بدلتی رہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ
لسانی ارتقا کے مسلسل عمل کے دوران میں بر صغیر کی مقامی زبانوں نے اپنے
ذخیرہ ٔالفاظ میں اضافہ کرنے کے لیے عام طور پر فارسی سے اورخاص طور پر
ہندی سے بہت سے الفاظ مستعار لیے ہیں تا ہم جدید تحقیق نے اس مفروضے پر
سوالیہ نشان لگا دیاہے ۔عصر حاضر کے ماہرین لسانیات کی اکثریت اس بات پر
متفق دکھائی دیتی ہے کہ مقامی زبانوں نے ہندی سے بہت کم اثرات قبول کیے
ہیں۔ہاڈلے (Hadley)نے اس دلیل کو مستر د کر دیا کہ ہندی کے سوتے فارسی سے
پھوٹتے ہیں۔وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ ہندوستان کی مقامی زبان میں
متعدد فارسی الفاظ کی موجودگی سے یہ باور کرنا صحیح نہیں کہ اس زبان کا قصر
عالی شان فارسی کی اساس پر استوار ہے ۔دکنی اوراردو زبان کے افعال کے
تقابلی مطالعہ کے سلسلے میں فعل کی ساخت کا مطالعہ بہت اہم ہے ۔دکنی زبان
کا ادب چار سو برس قبل سر زمین دکن سے شروع ہونے والے لسانی سفر کی تاریخ
کا شاہد ہے ۔ابتدائی دورکی تخلیقات میں متعدد الفاظ ایسے ہیں جو موجودہ دور
میں متروک ہو چکے ہیں اور دکن کے باشندوں کے لیے بھی بڑی حد تک نا مانوس
اور ناقابل فہم ہیں۔دکنی زبان میں عربی ،فارسی اور ہندی الفاظ کا بلاتامل
استعمال دکنی تخلیق کاروں کے اسلوب کا اہم پہلو ہے ۔اس سے یہ تاثر ملتا ہے
کہ دکنی زبان کے تخلیق کار اس زبان کے ذخیرہ ٔالفاظ میں اضافہ کرنے کی خاطر
نئے تجربات پر مائل ہو ئے ۔ملاوجہی نے دکنی زبان کی اپنی کتاب ’’سب رس ‘‘
میں کچھ ایسے محاورات بھی شامل کیے ہیں جو صدیاں گزرنے کے بعد بھی اپنی
تاثیر اور چاشنی برقرار رکھے ہوئے ہیں اور آج بھی بغیرکسی ترمیم یا اضافے
کے جوں کے توں مستعمل ہیں۔ چند مثالیں درج کی جا رہی ہیں جیسے شان نہ
گمان،خالہ کا گھر ،کہاں گنگا تیلی کہاں راجہ بھوج،گھر کے بھیدی تے لنکا
ڈھائے(گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے )،شرم حضوری ،دیکھا دیکھی،چائیں مائیں
کھیلنا،سونا ہور (اور) سگند،دودھ کا جلیاچاچھ پھونک پیا وغیرہ۔ملاوجہی کی
تصنیف ’’سب رس ‘‘ کے آغاز میں مولوی عبدالحق کا عالمانہ مقدمہ بھی شامل
ہے۔سب رس کے اس مقدمے میں مولوی عبدالحق نے قدیم دکنی زبان کی صرف و نحوکے
حوالے سے گرامر سے متعلق جن اہم قواعد کی جانب متوجہ کیاہے وہ دکنی زبان کی
تفہیم میں بے حد معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ان قواعد کا ملخص اور دکنی کی
مثالوں کے لیے تو سب رس کے مقدمے سے استفادہ کیا گیا ہے
قطب شاہی خاندان کے پہلے بادشاہ سلطان قلی نے قصرِ شاہی میں ادب اور فنون
لطیفہ سے وابستہ تخلیق کاروں کے مِل بیٹھنے کے لیے ’ آش خانہ ‘ کے نام سے
ایک حسین محل تعمیر کرایا۔ اِس خاندان کے آخری چار بادشاہ خود شاعر تھے
۔قطب شاہی دور میں جو ادیب شاعری اور نثر کی مختلف اصناف میں پرورش لوح و
قلم میں مصروف رہے ان کے نام درج ذیل ہیں :
شاعری : ابن نشاطی ،احمد ،افضل،اولیا،بلاقی،تانا شاہ،جنیدی،خداوند خدا نما
،خواص ،خیالی،سالک،سلطان،سیوک،شاہ راجو حسینی،شیخ عبداﷲ،طبعی،ظل اﷲ ،
عاجز،عبداﷲ ،غلام علی ،غواصی ،فائز،فتاحی ،فیروز،قطبی،قلی قطب شاہ،کبیر
،کیشو،لطیف،محب،محمود،میاں زوری ،وجہی۔
نثر : صنف نثر میں دکن کے جن ممتاز ادیبوں نے اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں
دکھائیں اُن میں اسداﷲ ملا وجہی(مولانا عبداﷲ)،میراں جی حسن خدا نما اور
میراں یعقوب کے نام نمایاں ہیں۔
قطب شاہی خاندان کا پانچواں بادشاہ قلی قطب شاہ سال 1580میں تخت نشین ہوا
جو دکنی اُردو کا پہلا شاعر ہے جس کا تخلص قطبؔ شاہ اور معانیؔ تھا ۔قلی
قطب شاہ کی شاعری حسن و رومان کے بیان سے لبریزہے ۔وادیٔ حسن و جمال میں
مستانہ وار گھومنے کے عادی اِس راجہ اِندر نے پریوں کے اکھاڑے میں ہمیشہ
گہری دلچسپی لی ۔وہ جھوٹی قسمیں کھا کر اپنی حسن پرستی او ر عیاشی پر ناز
کرتاہے ۔حسین و جمیل دوشیزاؤں کے ساتھ گزرنے والے لیل و نہار کو وہ اپنی
زندگی کا حاصل سمجھتاہے ۔وہ ان ناقابل فراموش لمحات کی یادوں میں کھو کر
سکون حاصل کرتاہے ۔
نبی صدقے قطبا نویلیاں سونت
وقت اپنا نِس دِن بلاؤ سدا
مجازی عشق اور مے نوشی قلی قطب شاہ کی شخصیت کی پہچان بن گئی تھی ۔وہ اِس
بات کا بر ملااعتراف کرتاہے کہ ایک گونہ بے خودی کی جستجو میں شراب اور
شباب سے معتبر ربط رکھنے پر مجبور ہے ۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ اُس نے مے نوشی
اور حسن پرستی کو اپنا وتیرہ بنا لیا تھا اور اِسے برقرر رکھنے کی قسم
اُٹھا رکھی تھی ۔
شراب ہور عشق بازی باج منج تھے نا رہیا جاسے
کہ یو دو کام کرنا کر میں لئی سو گندھ کھایا ہوں
مورخین نے اس کی رنگین مزاجی کے قصے بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ اس کی زندگی
میں بارہ عورتوں نے اُس کی محبت کو جیت لیا۔ قلی قطب شاہ نے اِن حسیناؤں پر
اڑتیس (۳۸) نظمیں لکھیں ۔اِس حسن پرست بادشاہ کی جو بارہ محبوبائیں بہت
مشہور ہوئیں اُن میں مشتری ، لالہ ،ننھی،سانولی،کانولی،گوری، چھبیلی ،
بلقیس،رنگیلی ، ،لالن اور موہن شامل ہیں ۔ اپنی محبوب حسیناؤں کی سراپا
نگاری میں قلی قطب شاہ نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی ۔یوں تو ہر حسینہ کو وہ عیش
و مستی کا خزینہ سمجھتا تھامگر اپنی بارہ پیاریوں کے عشوہ و غمزہ وادا کے
بیان میں اُس کی عیاشی بعض اوقات فحاشی کی حدود کو چُھو لیتی ہے ۔اپنی
پیاری محبوبہ سانولی کے پر کشش خدو خال کو اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہوئے
قلی قطب شاہ نے لکھاہے :
سانولی
ننھی سانولی پر کیا ہوں نظر
خبر سب گنوا کر ہوا بے خبر
نین چلبلائی سوں کرتی ہے ناز
ہمن روں روں بھیدیا ہے اُس کا اثر
ہنسا جب کرے ناز او جَل سیتی
دِسن جوت منج کوں دِسیں جوں قمر
تِرا قد نکلے جب چِھند سوں
اُڑے کھونپے کا سُج اوپر چنور
سو دھن کسو تاں کر جو آئی آ نگن
اُجالا دو کسوت تھے پایا انبر
موتی رنگ کا نیم تنی پینے تو ں
دِیسے مُنج نظر تِل بہشتی سُندر
معانی ؔ نزاکت تیرا سب بُوجھیا
توں اس کوں کنٹھے کا جھکا دوش کر
قلی قطب شاہ نے اپنی بارہ پیاری حسیناؤں کے علاوہ دس مزید پر ی چہرہ عورتوں
سے بھی تعلقات استوار کر رکھے تھے جن کے حسن و جمال کی تعریف میں اُس نے
اڑتالیس ( ۴۸) نظمیں اور تین سو پینتیس (۳۳۵) اشعار لکھے ۔ اِن دس پیاریوں
میں ساجن،سُندر،پدمنی،بہمنی ہندو شامل ہیں ۔اپنی محبوبہ ’ رنگیلی‘ کی کڑی
کمان جیسی چال کی لفظی مرقع نگاری کرتے ہوئے قلی قطب شاہ نے لکھا ہے :
ڈھلک تارا لٹک جالاں منے چالاں تپاتی ہے
مدن گانٹھاں نوے جوبن نویلے تن اوپر سیتے
اس کی تمام شاعری کو کلیات کی صورت اس کے بھتیجے محمد قطب شاہ نے بڑی
دلچسپی سے مرتب کر کے شائع کیا ۔اس کی کتاب زیست کا مطالعہ کرنے سے معلوم
ہوتا ہے کہ جوانی میں اس نے ایک پیشہ ور مغنیہ ،رقاصہ اور طوائف بھاگ متی
سے پیمان وفا باندھا اور اس کی محبت میں شعر گوئی شروع کی ۔جب تخت نشین ہوا
تو بھاگ متی کو حیدر محل کا نام دے کر شریک حیات بنا لیا اور اسی مہ جبیں
حسینہ کے نام پر گولکنڈہ سے آٹھ میل دُور دریائے موسی کے کنارے ایک پُر فضا
مقام پر ایک نیا شہربھاگ نگر بسایا جو بعد میں حیدر آباد کے نام سے مشہور
ہوا۔ اِس نئے شہر کو بساتے وقت قلی قطب شاہ نے اپنے خالق کے حضور التجا کی
تھی کہ اے دعاؤں کے سننے والے اِس نئے شہر میں لوگوں کی اس طرح چہل پہل ہو
جیسے دریاؤں کی طوفانی لہروں میں مچھلیوں کی فراوانی ہوتی ہے۔قلی قطب شاہ
نے کہا تھا:
میرا شہر لوگاں سُوں معمور کر
رکھیا جوں دریا میں مِن یا سمیع
بھاگ متی نے اپنے پیشے کو کبھی لائق اعتذار نہ سمجھااور نئے شہر میں کئی
قحبہ خانے اور چنڈو خانے قائم کیے ۔ اس علاقے میں مقیم تشفی کنجڑے اور
بہرام ٹھگ کی اولاد اور کچھ قدیم باشندے آج بھی حیدر آباد کو بھاگ نگر ہی
کہتے ہیں ۔ یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ قلی قطب شاہ نے اپنی سترہ بیگمات
کا ذکر تو اپنی تحریروں میں کیا ہے مگر اس نے کہیں بھی بھا گ متی کا کوئی
حوالہ نہیں دیا۔ الحاج میاں اقبال زخمی نے علم بشریات اور عمرانیات کے
ماہرین کے حوالے سے بتایا کہ آج بھی تفسو،مس بہا بنو، محافظہ رومان،شگن
،سمن ، تفوسی، صبوحی اور ظلی جیسی قحبہ خانوں کے دھندے سے وابستہ سیاہی وال
سے تعلق رکھنے والی کچھ طوائفیں شرم ناک ڈھٹائی اور لائق نفرت گھمنڈ سے
اپناشجرہ نسب بھاگ متی ،لال کنور ،زہر کنجڑن اورادھم بائی سے ملاکر غراتی
پھرتی ہیں۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے نتیجے میں بھاگ متی کی قبر کانشان تک
مٹ جاناایک المیہ ہے ۔اگر کردار بے جان ہوں توالمیہ سے مطلوبہ نتائج حاصل
کرنا بعیدازقیاس ہے ۔المیہ میں رنگ،خوشبو ،حسن و جمال ،عروج و زوال اور
جذباتی کیفیات کے سبھی استعارے کرداروں کے دم سے ہیں۔المیہ نگار اپنے اشہبِ
قلم کی جولانیوں سے قاری کو فکر و خیال کی ایسی وادی میں پہنچادیتاہے جہاں
اِک گونہ بے خودی اُس کی منتظر ہوتی ہے نرغہ ٔ اعدا میں انسان کی جب کوئی
اُمید بر نہیں آتی اور اصلاح ِاحوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو وہ اپنی
زندگی سے مایوس ہوجاتاہے ۔ انتہائی خوف کے باعث اس کی زندگی قابلِ رحم
ہوجاتی ہے ۔المیہ کی تفہیم کے حوالے سے یونانی دیومالاسے ماخوذایک واقعہ
پیش ہے۔
یونانی دیومالا کے مطابق تھیسلے ( Thessaly) میں واقع میلوبیا (Meliboea)کے
بادشاہ پو ئیاس ( Poeas) کے شجاع بیٹے فیلو ککٹس( Philoctetes)کی بہادری
،مہم جوئی اور خطر پسند طبیعت کی ہر طرف دھوم مچی تھی ۔ جادو کی کمان رکھنے
والاوہ ایسا ماہر ناوک انداز تھا جس کا نشانہ کبھی خطانہ ہوتا تھا اور کوئی
صید بچ کر نکل نہ سکتا تھا۔اس نے ہیری کلز(Heracles) کی آخری آرام گاہ کا
راز فاش کر دیااور اس کی بد دعاسے ایک سفر میں سانپ کے کاٹنے سے اُسے پاؤں
پر ایسازخم لگا جو مندمل نہ ہوسکا۔اس زخم سے بیمار کر دینے والی عفونت و
سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے تھے ۔شہر کے لوگوں کی نفرتوں ،حقارتوں اور عداوتوں
سے عاجزآ کروہ روپوش ہو گیا۔کینہ پرور اور حاسد اس لیے اس مہم جو کے خون کے
پیاسے تھے کہ وہ جنگ تورجان (Torjan War ) جیتنے کے لیے وہ طلسماتی کمان
اور تیرحاصل کرناچاہتے تھے جو فیلو ککٹس کوہیری کلز نے دی تھی۔اُس کے زخم
سے نکلنے والی بُو کی وجہ سے اُنھوں نے فیلو ککٹس کو ڈھونڈنکالا۔ سگمنڈ
فرائڈ اور کارل مارکس پر کام کرنے والے اپنے عہد کے ممتاز امریکی ادیب،نقاد
اور دانش ور ایڈ منڈولسن (Edmund Wilson :1895-1972)نے اپنی کتاب زخم اور
کمان( The wound andthe bow)میں اسی جانب اشارہ کیا ہے ۔ عالمی شہرت کے
حامل ممتاز جرمن ناول نگار تھامس من ( : 1875-1955 Thomas Mann )کے اسلوب
میں بھی اس یونانی دیو مالائی کہانی کا پرتو ملتاہے ۔ قدیم دکنی مثنویوں
میں المیہ کا جو ذکر ملتا ہے وہ بھی دیومالائی نوعیت کاحامل ہے ۔
ایک تخلیق کار اپنے تخیل کو متعددنئی جہات سے آ شنا کرتاہے ،یہ خیال ہی ہے
جو کسی چیزکے وجودیا عدم کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ صادر کر سکتاہے
۔المیہ میں وہ ممکنہ حدتک یہ دیکھتا ہے کہ حالات وواقعات کی مناسبت سے
اظہارو ابلاغ کی صورت تلاش کی جائے۔گفتگو اورتکلم کے سلسلوں کاتعلق بھی
خیال سے ہے ۔طے شدہ معائر اور مسلمہ اصولوں کا برملااعلان خیال کا امتیازی
وصف سمجھاجاتاہے ۔مفاہیم ،مطالب اورمدعا کو پیرایۂ اظہارعطاکرنے میں کسی
بھی زبان کے الفاظ کلیدی کردارادا کرتے ہیں۔المیہ نگار کے اسلوب میں یہی وہ
جوہر ہے جو نظم و نثر کی تخلیقات کو روح اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر
جانے والی اثر آفرینی سے ثروت مند بنانے کا وسیلہ ہے ۔اسلوب کی زیب و زینت
میں موسیقیت و ترنم کااپنا ایک الگ مقام ہے ۔نالے کو پابند نے کرنا ہی
تخلیق کارکا کمال ہے ۔ نظارے کی اپنی ہی
بات ہے جس کی جذباتی کشش پتھروں سے اپنی تاثیر کا لوہا منوانے کی صلاحیت
رکھتی ہے ۔لفظی مرقع نگاری سے ایسا نظارہ منصۂ شہودپر آتاہے کہ قاری چشمِ
تصورسے المیہ سے وابستہ واقعات اور مقامات دیکھ لیتاہے۔یہ تصنع سے بَری ہے
اور اس کا احساس سے گہرا تعلق ہے ۔
بعض مورخین نے اس مفروضے کی جانب توجہ دلائی ہے کہ جب بھا گ متی نے ایک
بیٹی ’’ حیات بخشی بیگم ‘‘ کو جنم دیا تو بھاگ متی کو ’ حیدر محل‘ کے خطاب
سے نواز اگیااور شہر حیدر آباد اور مشہور قصر ’ حیدر محل ‘ اسی واقعہ کی
یاد دلاتاہے ۔ شہر اور محل کے نام کے بارے میں سب واقعات تاریخ کے طوماروں
میں دب چکے ہیں اور یہ سب مفروضے پشتارۂ اغلاط ہیں ۔ حاجی حافظ محمد حیات
کا اصرار تھاکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنے عقیدے کے مطابق قلی قطب شاہ نے حیدریم،
قلندرم ،مستم ہونے کا ثبوت دیا۔بہ قول اقبال :
جنھیں نان جویں بخشی ہے تُو نے
اُنھیں بازوئے حیدرؑ بھی عطاکر
اپنے اسلوب کو جذبہ ٔ خلوص ،مروّت اور ایثار سے مزّین کرنے والے فطرت کے
مقاصد کی نگہبانی کرنے والے اس رومانی شاعر نے رباعیات،ترجیح بند ،
غزل،قصیدہ،مثنوی،مرثیہ اور نظم میں ایک لاکھ کے قریب اشعار کہے جن میں
زیادہ تر عشوہ و غمزہ واد ،گل و بلبل اور شاہد و ساقی کا پرانا موضوع غالب
ہے ۔ وسعت نظر کے مظہر تجربات ،مشاہدات ،فطرت نگاری ، رفعتِ تخیل ، جدت
،تنوع اوراسلوب میں تشبیہات اور استعارات کی کمی کھٹکتی ہے۔ حقیقت میں قلی
قطب شاہ کے اشعار بر صغیر کی مقامی تہذیب و ثقافت ،عمرانی مسائل اور معاشرت
کے آئینہ دارہیں۔اس کے کلام میں مذہب کی آفاقی اقداراور فطرت نگاری پر بھی
توجہ دی گئی ہے مگر وادی ٔخیال میں مستانہ وار گھو منے اور رومان کی طرف
زیادہ دھیان ہے ۔مثال کے طور پر قلی قطب شاہ نے ’ باغ محمد شاہی کی تعریف
میں جو قصیدہ ‘ لکھاوہ اس کے منفر د اسلوب کاآئینہ دار ہے :
پیا باج پیالہ پیا جائے نہ
پیا باج یک تِل جیا جائے نہ
کہتے ہیں پیا بِن صبور ی کرو
کہا جائے امّاں کیاجائے نہ
نہیں عشق جس میں بڑا کُوڑ ہے
کدھیں اِس سے مِل بیہا جائے نہ
قطب شاہ ؔنہ دو مُنج دیوانے کو پَند
دیوانے کوں کُچ پَنددیا جائے نہ
بھے دم عیسوی دا نم چمن میں گُل لگانے تیں
ہرے نہالاں کے جلوے میں مشاطا ہو پون سارا
دسے ناسک کلی چنپابہواں دو پات میں تس کے
بھنور تِل دیکھ اس جاگاہوا حیران من سارا
کھجوراں کے دسیں چھونکے کہ جوں مرجان کے پنجے
سپاریاں لعل خوشے جوں دسیں دن ہور بن سارا
ہے عشق ہر اک دھات ہر اک دل میں پیارا
دسیں ناریل کے پھل یوں زمردمرتباناں جوں
ہور اس کے تاج کون کہتا ہے پیالا کر دکہن سارا
دسیں جاموں کے پھل بن میں نیلم کے نمن سالم
نظر لاگے تیوں میویاں کوں راکھیا ہے جتن سارا
بہار و خزاں کے آنے جانے کو بھی قلی قطب شاہ نے دِل کے کِھلنے اور مُرجھانے
سے مر بوط کیاہے ۔ بسنت ، مرگ موسم برسات اور دیگر موسموں کے بارے میں اس
کی شاعری میں نہایت دل نشیں انداز میں مرقع نگاری کی گئی ہے ۔تیزی سے بدلتے
موسموں کی ادا دیکھ کر تخلیق کار اسراز سے آگا ہ ہو جاتاہے کہ انسانی مزاج
بھی دیکھتے ہی دیکھتے اس سرعت سے بدل جاتے ہیں کہ دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ
جاتی ہے ۔
قلی قطب شاہ کے اسلوب میں فطرت نگاری کو اہم مقام حاصل ہے ،اس کی شاعری میں
’ بسنت ‘ کے موضوع پر کئی نظمیں اس کی فطرت نگاری کی شاہد ہیں اس کی مثال
پیش کی جار ہی ہے :
بسنت کھیلیں عشق کی آ پیارا
تُمیں ہیں چاند ،میں ہو ں جوں ستارا
پیا پگ پر مِلا کر لیائی پیاری
بسنت کھیلی ہوا رنگ رنگ سنگارا
جو بن کے رنگ خانے رنگ مدن بھر
سو روما روم چرکیاں لائے دھارا
بھیگی چولی میں بھیٹن نِس نشانی
عجب سورج میں ہے کیوں نس کو ٹھارا
بسنت کھیلیں ہمن ہو ساجنا یوں
کہ اسماں رنگ شفق پایا ہے سارا
شفق رنگ جھینے میں تارے مگٹ جو ں
سرج کرنا نمن زرتار تارا
نبی صدقے بسنت کھیلیا قطب شاہ
رنگیلا ہو رہیا تر لوک سارا
گھنگھور گھٹا کی آمد اور برسات کی بہاروں کے بارے میں اکثر شعرا نے اپنے
تجربات اور مشاہدات کو اشعارکے قالب میں ڈھالا ہے ۔قلی قطب شاہ نے ’’ مرگ
‘‘ موسم برسات کے آغاز پر ایک نظم میں یوں سماں باندھاہے :
مرگ مہینے کو ں ملا ے ملکاں مل گگناں میں
سمد موتیاں کے جو برسائے سو بھرے انگنا میں
دھرت بند چیر جواہر چولی رنگ پاچ کر انک پر
بہر بہوٹیاں لعلاں سوں اترے ہیں یمناں میں
ہرے صحرا میں نہ ہوئے لالی گلالاں نہ ہوئے بن میں
شبنمی تیل سوں شمعاں جوں زمرد لگناں میں
قلی قطب شاہ کی مثنوی ’ سالگرہ ‘ ا س کے ذاتی تجربات،قلبی جذبات اور
احساسات کی حسین لفظی مرقع نگاری کی آ ئینہ دار ہے :
مِراقطب تارا ہے تاریاں میں نجل
تو مجھ برفلک رنگ کا چتر چھایا
سورج چندر پی تال ہوکر بجیں تب
منڈل ہو فلک ٹمٹمایاں بجایا
کرے مشتری رقص مجھ بزم میں نِت
برس گانٹھ میں زہرہ کلیاں گایا
قلی قطب شاہ کے شعری کلیات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک زیرک
تخلیق کار کی حیثیت سے اس نے ہر صنف شعر میں طبع آزمائی کی ۔اس کے دیوان
میں شامل کُل تین سو بارہ(312) غزلوں کی ردیف وار ترتیب کا خیال رکھا گیا
ہے۔اس کے دو ہزار دو سو چوّن (2254) اشعارزبان و بیان پر اس کی خلاقانہ
دسترس کا منھ بولتا ثبوت ہیں ۔
محمد قطب شاہ ظل اﷲ (عرصہ اقتدار : 1611-1624) اپنے چچا اور سسر قلی قطب
شاہ کے بعد تخت نشین ہوا ۔اس کے دربار میں ادیبوں اور شاعروں کوقدر کی نگاہ
سے دیکھا جاتا تھا اور ان کی تخلیقات کو اہم ادبی اثاثہ سمجھا جاتا تھا
۔دکنی زبان میں محفوظ ماضی کی یہ ادبی میراث نہ صرف دکنی زبان کے ارتقا کے
مختلف مدارج سامنے لاتی ہے بل کہ اس کے مطالعہ سے عہدِ رفتہ کے بارے میں
احساس اور شعور کو نئے اور متنوع امکا نات کے بارے میں کامل آ گہی سے متمتع
کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ محمد قطب شاہ ظل اﷲ کا بہت کم کلام دستیاب ہے محمد
قطب شاہ ظل اﷲ کانمونہ کلام درجِ ذیل ہے :
ہوا آتی ہے لے کے بھی ٹھنڈ کالا
پیا بِن سنتا نا مدن بالی بالا
رہن نا سکے من پیا باج دیکھے
ہووے تن کوں سکہ جب ملے پیو بالا
سجن مُکہ شمے باج اوجالا نہ بہاوے
بھلایا ہے منج جیو کوں او اجالا
جو رات آ وے چندنی کے منج کوں ستاوے
کہ چند نا منجے نین نین سوز لالا (محمد قطب شاہ ظل اﷲ )
دکنی زبان کے شاعر ظل اﷲ نے اپنے خسر (قلی قطب شاہ ) کی شخصیت اور اسلوب کو
جس طر ح خراج تحسین پیش کیا ہے وہ اس کے ذوقِ سلیم کا مظہر ہے ۔
سو کچھ شاعری بِیچ شہ دھر کمال
بچن کہہ کے موتیاں نمن صدف ڈھال
دتا شعر کہہ بیت میں ٹیک بات
کہے نین لکھیں اپنے وصف سات
عبداﷲ قطب شاہ
عبداﷲ ؔ قطب شاہ اپنے باپ سلطان محمد قطب شاہ کے بعد تخت نشین ہوا ۔اس کے
دربار میں غواصیؔ ،قطبیؔ،ابن نشاطیؔ ،طبعیؔ ،جنیدی ؔاورامینؔ جیسے اس زمانے
کے ممتاز شعرا موجود تھے۔ نمونہ کلام:
لکھ فیض سوں پھر آیا دن دین محمد ﷺ کا
آفاق صفا پایا دن دِین محمد ﷺ کا
اے پری پیکر ترا مُکہ آفتاب
دیکھتا ہوں تو رہے نا منج میں تاب
یاد ایسا تا د دکھاتا ہے ہنوز
دیکھ تری زلف کا دو پیچ و تاب (عبداﷲ قطب شاہ عبداﷲ ؔ )
سلطان ابو الحسن قطب شاہ( تانا شاہ ): یہ گول کنڈہ کا آخری بادشاہ تھا ۔مغل
بادشاہ اورنگ زیب نے اسے شکست دی اور اس کی حکومت کا خاتمہ کرکے اس کے لیے
حکم حبس دوام صادر کر دیا ۔ عسکری مہمات اور قید و بند کی صعوبتوں کے باعث
یہ بادشاہ تخلیق ادب پر توجہ مرکوز نہ رکھ سکا اور اس کا کلام بھی محفوظ نہ
رہا ۔اس کا یہ شعر اس کے حالات کی صحیح عکاسی کرتا ہے :
کس در کہوں کان جاؤں میں مجھ دِل پہ کٹھن بچھڑات ہے
یک بات ہوں گے سجن یہاں جیو بارہ باٹ ہے (تانا شاہ )
ملا اسداﷲ وجہی ( پیدائش: یہ تاریخ معلوم نہیں ہو سکی ، وفات : 1659ء )
سترہویں صدی عیسوی کے اوائل میں دکنی نظم اور نثر کے اس با کمال تخلیق کار
نے ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں بہت اہم ہے ۔ اس نے چار
بادشاہوں کا دور دیکھا جن میں ابرہیم قطب شاہ ،محمد قلی قطب شاہ ، محمدقطب
شاہ اور سلطان عبداﷲ شامل ہیں ۔اس کی تصانیف ’قطب مشتری (1609) ‘ اور ’ سب
رس (1634) ‘ دکنی ادب کے ارفع معیار کا نمونہ ہیں۔ قطب مشتری میں وجہی نے
قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی داستان محبت کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے
۔وجہی کی شاعری کا نمونہ درج ذیل ہے :
تو ں اول توں آخر تو ں قادر ا ہے
تو مالک تون باطن توں ظاہرا ہے
طاقت نہیں دُوری کی اب تون بیگی آ مِل رے پیا
تج بن منج ے جینا بہوت ہوتا ہے مشکل رے پیا
کھانا برہ کیتی ہوں میں پانی انجھو پیتی ہوں میں
تج نے بچھڑ جیتی ہوں میں کیا سخت ہے دِل رے پیا
چھپی رات اجالا ہو ا دیس کا
لگیا جگ کرن سیو پریس کا
شفق صبح کا نیں ہے آ سمان میں
کہ لالے کھلے ستبسا ستان میں
جو آیا جھلکتا سورج داٹ کر
اندھار ا جو تھا سو گیا نھاٹ کر
سورج یوں ہے رنگ آسمانی منے
کہ کھلیا کمل پھول پانی منے
غواصی ؔ
قطب شاہی دور میں غواصی ؔ اپنے زمانے میں رومانی شاعری کا مقبول شاعر
تھااورعبداﷲ قطب شاہ کے عہد میں ملک الشعرا تھا اور اپنی شاعری میں اس نے
غواصی ؔ اور غواص ؔ کے دو تخلص استعما ل کیے ۔ اس کی مثنویوں ’مینا ستونتی
‘، ’سیف الملوک و بدیع الجما ل ‘ ، ‘ اور ’طوطی نامہ ‘ کو دکنی ادب میں قدر
کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ یہ مثنویاں فارسی زبان سے ماخوذ ہیں اور انھیں
دکنی زبان میں منتقل کیا گیا ہے ۔ اس کی طویل مثنوی ’ طوطی نامہ ‘ چار ہزار
پر مشتمل ہے جو دراصل سنسکرت کے مشہور حلقہ قصص ’’ شکا سب تتی ‘‘ سے ماخوذ
ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غواصیؔ کی یہ تخلیق ضیا الدین بخشی کے ’ طوطی
نامہ‘ کا دکنی منظوم ترجمہ ہے ۔ دو ہزار اشعار پر مشتمل غواصیؔ کی مثنوی
’سیف الملوک و بدیع الجما ل ‘ ، الف لیلیٰ کا قصہ ہے ۔ غواصیؔ کی شاعری کا
کلیات بھی موجود ہے اس میں غزلیں اور مر ثیے شامل ہیں ۔ سلطان محمد قطب شاہ
کے عہد حکومت میں غواصی ؔ کی شاعری کی دھوم تھی ۔ غواصی ؔ نے مثنوی ،قصیدہ
،غزل ،نظم، رباعی ،ترکیب بند اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی ۔اس کے بعد عبداﷲ
قطب شاہ کے دور میں اسے شاہی دربار تک رسائی حاصل ہو گئی۔ وجہی ؔ کی مثنوی
’قطب مشتری ‘ شائع ہوئی تو اس کا موثر جواب دینے کی خاطر غواصی نے ’سیف
الملوک و بدیع الجمال ‘ تخلیق کی ۔ دونوں شاعروں کے اسلوب کی خاص بات یہ ہے
کہ جہاں وجہی ؔنے مفصل واقعات بیان کیے ہیں وہاں غواصی ؔ نے اختصار سے کام
لیا ہے ۔ مثنوی کے اس رجحان ساز شاعر کی شہرت پورے دکن میں پھیل گئی ۔اس
عہد کے مقبول شاعر مقیمی ؔ نے غواصی کے اسلوب سے متاثر ہو کر ’’چندر بدن و
مہیار ‘‘ تخلیق کی ۔غواصی ؔ کا نمونہ کلام درج ذیل ہے :
الٰہی جگت کا آلہی سو توں
کرن ہار جم بادشاہی سو توں
تیر ے حکم تل نوکر آسمان کے
رعیت ملک تیری فرمان کے (حمد )
رتن خاص دریائے لولاک کا
جھلک لامکان نورِ افلاک کا
محمد ﷺ نبی سید المرسلین
سدا روشن اوس تے دنیا ہو دین (طوطی نامہ )
شیخ مظہر الدین ابن نشاطی
شیخ مظہر الدین ابن نشاطی کے والد کا نام شیخ فخر الدین تھا ۔اس کے سوانح
حیات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکے ۔عبداﷲ قطب شاہ کے زمانے میں ابن نشاطی کو
شاہی دربار میں اہم مقام حاصل تھا اور وہ قطب شاہی سلطنت کا آخری شاعر تھا
۔اس نے نثر میں اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوایا جب کہ نظم میں اس کی ایک
ہزار سات سو چوالیس (1744) اشعار پر مشتمل مثنوی ’پھول بن ‘ دکنی ادب میں
بہت مقبول ہوئی ۔ابن نشاطی نے یہ مثنوی تین ماہ کے مختصرعرصے میں مکمل کر
کے زبان وبیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کا ثبوت دیا۔پھول بن فارسی شاعر احمد
حسن دبیر کی تخلیق ہے جو اس نے بساتین الانس کے نام سے لکھی تھی ۔ابن نشاطی
نے اسی کو دکنی کے قالب میں ڈھالا ہے ۔
اول میں حمد رب العالمین کا
دل وجان سوں کہوں جان آفرین کا
خداوندا تجھے ہے جم خدائی
ہمیشہ تُج کون ساجی کبریائی
محمد ﷺ پیشوا ہے سروران کا
رہے سر خیل سب پیغمبران کا (ابن نشاطی : پھول بن )
اسد علی خان تمنا: ان کی اہلیہ لطف النسا امتیاز بھی شاعرہ تھیں ۔ان کا
تعلق اورنگ آبادسے تھامگر جوانی میں وہ حیدر آباد منتقل ہو گئے ۔مجاہدجنگ
اور محمد علی خان شوق جیسے شعرا نے ان سے اکتساب ِ فیض کیا ۔
نظارہ اگر چشم خماری نہ ہو ا
زخمی پلکوں کاجوتمھاری نہ ہوا
ہے جنبش مژگاں میں یہ دِل بِسمل
اوچھا سا ہوا یہ تیر کاری نہ ہوا
احمدجنیدی
عبداﷲ قطب شاہ کے عہد کا شاعر تھا اور برہان پور میں مقیم تھا ۔اس کی
مثنوی’ ماہ پیکر ‘ کی تخلیق سے دکنی ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا ۔نمونہ کلام
رکھیا ماہ پیکر سو اس نیک نام
الٰہی توں کر اس نظم کوں تمام
کہ ملک باغ میں گال گل لالہ دو
کہ تل باغباں ہے واں رکھوال ہو
طبعی
طبعی نے سلطان عبداﷲ قطب شاہ کے آخری زمانے میں مقبولیت حاصل کی ۔سلطان
ابوالحسن تانا شاہ کے درباری شاعر کی حیثیت سے طبعی کو معاشرتی زندگی میں
عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا
جاتاتھا۔اس کی مثنوی ’بہرام و گل اندام ‘میں ایران کے بادشاہ بہرام گو ر کا
منظوم قصہ پیش کیا گیا ہے ۔ نمونہ کلام:
تیرے ہات میں شاہ جم جام اچھو
ہمیشہ بغل میں دلا رام اچھو
الٰہی یو طبعی ؔ ترا داس ہے
دے ایمان اس کوتیرا آس ہے
فیروز : بیدرسے تعلق رکھنے والے اس شاعر نے ابراہیم قطب شاہ کے عہد میں گو
ل کنڈہ میں سکونت اختیار کر لی۔ فیروز کے حالات زندگی دستیاب نہیں اس کی
مثنوی پرت نامہ المعروف ’ ’ توصیف نامہ ‘‘ تاریخ کے طوماروں میں دبنے سے بچ
گئی ۔ اپنی اس مثنوی میں فیروز نے حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی کی مدح کی ہے
۔
تہیں قطب اقطاب جگ پیر ہے
تہیں غوث اعظم جہاں گیر ہے
تہیں چاند باقی ولی تارے ہیں
توں سلطان سردار بسارے ہیں
محمود ؔ : اپنے دور کے اس استاد شاعر کے حالات زندگی اور کلام کا کہیں سرا
غ نہیں ملتا۔ بساط ِ سیل پہ قصر حباب کی تعمیر میں انہماک کا مظاہرہ کرنے
والے وقت کی ہلاکت خیزیوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔وہ شاعر جسے ابن
نشاطی نے خراج تحسین پیش کیا اب اس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ابن
نشاطی نے محمودکے بارے میں کہا تھا:
اہے صد حیف جو نیں سیّد محمود
کِتے پانی کوں پانی دُودھ کوں دُودھ
خیالی ؔ : قطب شاہی دور کے اس مقبول شاعر کی زندگی کے حالات اور ادبی
کمالات تاریخ کے طوماروں میں دب گئے ہیں۔ابن نشاطی نے سیلِ زماں کے تھپیڑوں
کے اثرات پر اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے لکھاہے :
اچھے تو دیکھتا مُلّا خیالی ؔ
یو میں بربتا ہوں سو صاحب کمالی
مُلّا وجہی ( اسداﷲ ) : شاعری اور نثر میں مُلّا وجہی کی تخلیقی کامرانیوں
کی پورے دکن میں دُھوم مچی تھی ۔ خراسان سے دکن پہنچنے والے اس ادیب نے
دکنی زبان کا دامن گُل ہائے رنگ رنگ سے بھر دیا۔
فاتحین کی آمد اور اس خطے میں ان کے قیام سے ان کی زبان کے کئی محاورات
دکنی میں شامل ہو گئے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ محاورات اپنی جاذبیت کھو
بیٹھے اورانھیں ترک کر دیا گیا ۔فاتحین کی زبان کا ملاپ زیادہ تر تامل ،مر
ہٹی اور تلنگی سے ہوا ۔اس لسانی ملاپ کے نتیجے میں دکنی زبان کے ذخیرہ
الفاظ اور زبان کی ساخت میں تغیر و تبدل کا آغاز ہو گیا۔اس عہد کی لسانی
کیفیات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان لسانی تغیرات اور ارتعاشات پر نظر
ڈالی جائے جو اس دور میں زبان میں موجود تھے۔ لسانیات میں دلچسپی رکھنے
والے اس حقیقت سے آ گاہ ہیں کہ دنیا کی مختلف زبانوں کے ذخیرہ ٔ الفاظ میں
تغیر و تبدل کا سلسلہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس طرح چُپکے سے اور چُھپ کے
جاری رہتا ہے کہ کسی کو علم ہی نہیں ہوتا۔ابراہیم قطب شاہ ،سلطان محمد قلی
قطب شاہ ،محمدقطب شاہ اور سلطان عبداﷲ کے دور میں وجہی کا ادب میں ڈنکا
بجتاتھا۔مُلّا وجہی کی مثوی ’’ قطب مشتری ‘‘ اور نثر کی تصانیف ’’ سب رس ‘‘
اور ’’ تاج الحقائق ‘‘ سے دکنی زبان کے ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
نمونہ کلام:
مد عشق میں پیا سو چڑیا ہے اثر منجے
سد عقل نام چھین کیا بے خبر منجے
دکنی زبان اور ادب اس خطے کی تاریخ اور تہذیب کی پہچان ہے ۔سیلِ زماں کے
مہیب تھپیڑوں کی زد میں آکر اقوام کی قوت و ہیبت ،جاہ و حشمت اور سطوت کے
سفینے تو غرقاب ہو سکتے ہیں مگر کسی بھی خطے کی تہذیب اندیشۂ زوال سے نا آ
شنا ہے ۔ تاریخ کا مطالعہ ذہن و ذکاوت کو صیقل کر کے فکر و خیال کو مہمیز
کرتا ہے ۔تاریخی حقائق کی تحقیق او رتجزیے سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا
اہتمام ہوتا ہے ۔مطالعہ ادب میں بھی تاریخی حقائق کو بہت اہمیت حاصل ہے
۔قارئین کے ذہن و شعور کو فہم و ادراک سے متمتع کرنے میں تاریخ اور اس کا
پیہم رواں عمل کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔
لسانیات کے ارتقا کو سمجھنے کے لیے تخلیق ادب اورتخیل میں جو گہر ا تعلق ہے
اُسے سمجھنا نہایت ضروری ہے ۔اسی تعلق کے اعجاز سے تخلیقی فعالیت تصوراتی
مواد سے متمتع ہوتی ہے ۔عملی زندگی کے تجربات ،مشاہدات اور تخیلات کے ادب
اور فنون لطیفہ پر دُوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔فکر و خیال کی دنیا کے
انداز بھی نرالے ہوتے ہیں جہاں ہر لحظہ نیا طُور نئی برق تجلی کی کیفیت
تخلیقی عمل کو مہمیز کرتی ہے ۔اس کے معجز نما اثرسے تکلم کے سلسلے اور
اسالیب بیان میں جدت اور تنوع کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ادب میں موضوع
ہو یا مواد ،افکار ہوں یا تصورات سب پیہم ارتقا ئی مدارج طے کرتے ر ہتے
ہیں۔زندگی کی یہ برق رفتاریاں اوراسالیب بیان کی یہ بو قلمونیاں زبان حال
سے فریب خیال کو متنبہ کر کے یہ کہتی ہیں کہ طلوع صبح بہاراں سرابوں کے
عذابوں کے سوا کچھ بھی نہیں ابھی تو سیکڑوں دورِ فلک آنے والے ہیں ۔علامہ
اقبال نے کہا تھا :
یہ کائنات ابھی نا تما م ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
جدید دور میں لسانیات اور سماجی علوم کے تعلق کو بڑی اہمیت حاصل ہو چکی ہے
۔اس تعلق کو تاریخی تناظر میں دیکھنے سے ماضی سے وابستہ متعدد حقائق سے
پردہ اُٹھتا ہے ۔ کسی بھی زبان کا تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق
ہوتا ہے تووہ ید بیضا کا معجزہ دکھانے کی خاطر اپنے ما فی الضمیر کو جملوں
کی صورت میں زیبِ قرطاس کرتا ہے ۔اس طرح خیالات الفاظ میں ڈھلنے کے بعد
جملوں میں پر و دئیے جاتے ہیں۔ لسانی گرامر اس سلسلے میں خضر راہ ثابت ہوتی
ہے ۔ متکلم اور سامع دونوں کا واسطہ ایک خاص نوعیت کے پیرایۂ اظہار سے پڑتا
ہے ۔اس پیرایہ ٔ اظہار کو دل کش انداز عطا کرنے میں گرامر کلیدی کردار ادا
کرتی ہے ۔عملی زندگی میں آوازیں جب سکوت کا خاتمہ کر کے فضا میں گونجتی ہیں
تو سننے والے ان آوازوں کی بازگشت پر کان دھرتے ہیں اوران آوازوں کے مطالب
اور ان کے پس پردہ کار فرما محرکات کی جستجو میں انہماک کامظاہرہ کرتے ہیں
۔خارجی مظاہر کے مشاہدے اور داخلی کیفیات کی غواصی کا یہ سفردنیا بھر میں
اظہار و ابلاغ کے آفاقی طور پر مسلمہ معائر کا نمایاں ترین پہلو سمجھاجاتا
ہے ۔ بر صغیر میں بولی جانے والی مقامی زبانیں صدیوں تک مسلمان فاتحین کی
زبان فارسی کے زیر اثر رہیں ۔سرکاری سطح پر سر پرستی کے باوجود متعدد
وجوہات کے باعث اس خطے میں فارسی زبان عوامی پزیرائی سے محروم رہی۔ لسانیات
سے دلچسپی رکھنے والے اس حقیقت سے آ گاہ ہیں کہ بر صغیر کے طول و عرض میں
فارسی کی جڑیں نہیں تھیں اور یہاں کے مقامی باشندے فارسی زبان کو اجنبی
زبان خیال کرتے تھے ۔ بر صغیر کے باشندوں کو فارسی زبان سکھانے پر کوئی
توجہ نہ دی گئی اِس لیے فارسی زبان میں لوگوں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر
تھی ۔نا سازگار معاشرتی حالات کے باعث فارسی کا تخم سر زمین ہند میں نمو نہ
پا سکااور مقامی زبانوں کی روز افزوں ترقی سے مقامی تہذیب و تمدن اور
معاشرت وثقافت کو فروغ مِلا۔نو آبادیاتی دور میں جان گِل کرسٹ اوراس کے
ساتھیوں نے بر صغیر کی مقامی زبانوں بالخصوص ہندوی /ریختہ سیکھنے پر توجہ
دی اور اِ ن زبانوں کے قواعد مرتب کرنے پر توجہ مرکوز کر دی ۔ بر صغیر کی
مقامی زبانوں کی گرامر اسی عہد کی یاد دلاتی ہے ۔ تخلیقی عمل کے دوران میں
جملوں کے وسیلے سے اظہار و ابلاغ کے نئے امکانات سامنے آتے ہیں۔
سیلِ زماں کے تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند
بہا لے جاتے ہیں ۔سلطان ابو ا لحسن کے عہد میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے گول
کنڈہ پر دھاوا بو ل دیا ۔گو ل کنڈہ کے قلعہ کا آ ٹھ ماہ تک محاصرہ جاری رہا
۔آخر کار سلطان ابوالحسن کی افواج کو شکست سے دو چار ہونا پڑا اور سال
1658عیسوی میں مغل افواج نے قلعہ گو ل کنڈہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ فاتح
مغل شہنشاہ کے حکم پر گو ل کنڈہ کے بادشاہ سلطان ابوا لحسن کو دولت آباد کے
قلعہ میں پابند سلاسل کر دیا گیااورگزر اوقات کے لیے معزول بادشاہ کے لیے
پنشن مقرر کر دی گئی۔اس کے ساتھ ہی دکنی زبان کا آفتاب اقبال بھی گہنا گیا۔
|