آگاہی

اسد اور رانیہ نے پسند کی شادی کی...عائشہ ان کی اکلوتی اولاد تھی...شروع شروع میں تو اس کا باپ ناخوش تھا کہ اس کی بیوی نے لڑکی پیدا کی..مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے عائشہ سے لگاؤ ہونے لگا... وہ گھر آتا تو بیوی سے زیادہ بات نہ کرتا بس عائشہ کے ساتھ کھیلتا رہتا... عائشہ بھی باپ کو دیکھ کر کھل اٹھتی...رانیہ یہ سوچ کر خوش ہو جاتی کہ کم از کم اسد عائشہ سے تو پیار کرتا ہے....

عائشہ جیسے جیسے بڑی ہو رہی تھی وہ محسوس کر رہی تھی کہ اس کا باپ اس کی ماں سے ہر وقت اکھڑا رہتا ہے... اس کو وجہ سمجھ نہ آتی... ان دونوں میں اکثر جھگڑے ہوتے رہتے...جو عائشہ کی شخصیت کو خراب کرتے جا رہے تھے.... ایک دن عائشہ نے اسد کو رانیہ پر ہاتھ اٹھاتے دیکھا....وہ ڈر گی... اس دن کے بعد وہ اپنے باپ سے دور دور رہنے لگی..اسد کو بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر وجہ کیا ہے...وہ جب بھی اس کے قریب آتا وہ رونے لگتی...اگرچہ وہ دس سال کی بچی تھی مگر اس کو سب سمجھ آ رہا تھا...وہ جان چکی تھی کہ ان کی ہر لڑائی کی وجہ اُسکی اپنی ذات ہے۔

ایک روز اسد اور رانیہ کے درمیان بہت ہنگامہ ہوا... اسد نے رانیہ پر ہاتھ اٹھایا...رانیہ نے چھری اٹھا لی... عائشہ یہ سب دیکھ کر بہت خوفزدہ ہو گئی.. وہ بھاگ کر کمرے میں گئی اور اپنے بیگ سے کاپی پنسل نکال کر کچھ لکھ کر گھر سے بھاگ گئی... آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا لڑائی کو...رانیہ کمرے میں عاہشہ کی طرف آئی تو وہ وہاں موجود نہ تھی...اس نے پریشانی میں باہر آ کر اسد کو بتایا... وہ دونوں ہی حیران تھے کہ وہ تو کبھی اکیلی باہر نہیں گئ پھر کہاں جا سکتی ہے...دونوں اسے تلاش کرنے کے لیے باہر نکلے... مگر وہ نہیں ملی...جب تھک ہار کر واپس گھر آئے تو رانیہ کی نظر ایک کاغذ پر پڑی... وہ عائشہ کی طرف سے دونوں کے لیے خط تھا..." ماما بابا آپ دونوں میرے وجہ سے نہ لڑا کریں...مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا... بابا اگر آپ کو بیٹیاں اچھی نہیں لگتی تو آپ مجھے اس گھر میں چھوڑ دیں جہاں صرف بچے رہتے ہیں جن کے ماما بابا نہیں ہوتے....اور ماما آپ میری وجہ سے بابا سے مار نہ کھایا کریں..مجھے برا لگتا ہے مگر آپ کو اس بات کی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ میری زندگی متاثر ہو رہی ہے۔

خط پڑھ کر دونوں ہی دنگ رہ گئےاور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے...اپنے مسائل میں انھیں یہ یاد نہ رہا کہ معصوم بچی ہر روز یہ تماشا دیکھتی ہے اور اندر ہی اندر گھٹ رہی ہے.... ابھی وہ دونوں اپنی سوچوں میں گم تھے اور ان کے ضمیر انھیں ملامت کر رہے تھے ...اسد کے بڑے بھائی کی کال آئی انھوں نے بتایا کہ عائشہ کافی دیر سے یہاں آئی ہوئی ہے۔

اسد کے بھائی نے اسے ڈانٹا کہ اتنے لاپروا ہو کہ بچی اکیلی ان کے گھر پہنچ گئی... عائشہ نے اپنے تایا ابو کو کچھ نہیں کہا... شام کو اسد اسے لینے گیا... وہ عائشہ سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا.... گھر پہنچ کر رانیہ نے اسے گلے لگایا... اور خوب پیار کیا... اسد بس خاموش بیٹھا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا... اسد نے کہا کچھ نہیں مگر اس دن کے بعد اس نے اپنے عمل سے عائشہ اور رانیہ کو یہ دکھا دیا کہ وہ بدل گیا ہے.... ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے پیار میں اضافہ ہو رہا تھا....

عائشہ نے اپنی سمجھداری سے والدین کو یہ بات سمجھا دی تھی کہ جب اولاد بڑی ہو جائے تو پھر اُن کے احساسات و جذبات کا خیال رکھتے ہیں اورگھرکے معاملات سنورتے ہیں تاکہ گھرمیں سب ہنسی خوشی رہ سکیں۔
 

Hira Falak
About the Author: Hira Falak Read More Articles by Hira Falak: 12 Articles with 12454 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.