مَردوں کا عالمی دن۔۔۔۔۔۔۔ چند حقائق

ہر سال 19 نومبر کو مردوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگ اس بات سے لاعلم ہیں کہ مردوں کا بھی عالمی دن منایا جاتا ہے اور اگر منایا بھی جاتا ہے تو کس دن منایا جاتا ہے؟مردوں کا عالمی دن پہلی مرتبہ کب اور کسں ملک میں منایا گیا؟ اس کے حوالے سے مختلف لوگوں نے اپنی اپنی آرا پیش کی ہیں لیکن تاریخ و تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ مردوں کا عالمی دن پہلی مرتبہ فروری 1992ء کو منایا گیا۔1990ء کی دہائی کے اوائل میں، مینز سٹڈی کے ڈائریکٹر، تھامس اوسٹر نے امریکہ،آسٹریلیا اور مالٹا میں کچھ تنظیموں کو فروری میں مردوں کے عالمی دن کے حوالے سے مدعو کیا۔ فروری 1992ء میں تھامس اوسٹر کے ذریعے مردوں کا عالمی دن منانے کا افتتاح کیا گیا۔ یومِ مرد منانے کے منصوبے کا آغاز اس سے بھی قبل 8 فروری 1991ء کو کیا گیا تھا۔ تھامس اوسٹر نے دو سال تک کامیابی سے یہ تقریب منعقد کروائی لیکن 1995ء میں امریکہ اور آسٹریلیا کی جانب سے ان کے اس پروگرام کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ اب اس تقریب کو منانے والا واحد ملک مالٹا ہی رہ گیا جسں نے اس تقریب کو جاری رکھا۔اس منصوبے کی از سرِ نو شروعات 1999ء میں ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو میں کی گئی۔عالمی یومِ مرد کے حوالے سے سب سے طویل عرصے تک جاری رہنے والا جشن مالٹا میں ہی منایا گیا۔مالٹا میں 7 فروری 1994ء سے مردوں کا عالمی دن منایا جا رہا تھا۔ یہ ایک طویل عرصہ تھا۔مالٹا ہی وہ واحد ملک تھا جس نے تاریخ میں پہلی مرتبہ فروری میں مردوں کے دن کو منانے اور معاشرے میں ان کی شراکت کا مشاہدہ کیا۔2009ء میں مردوں کے عالمی دن کی تاریخ 7 فروری سے بدل کر 19 نومبر کرنے کی تجویز پیش کی گئی تو مالٹا ہی وہ پہلا ملک تھا، جس نے اس تجویز کی حمایت میں سب سے پہلا ووٹ دیا۔مردوں کے عالمی دن کے پروگرام کو از سرِنو منانے والی شخصیت جیروم تلکسانگ، جس کا تعلق ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تھا،اس نے اپنے والد کی سال گرہ کے اعزاز میں ایک تقریب 19 نومبر کو منعقد کی، اس دن کی مناسبت سے انہوں نے 19 نومبر کو مردوں کا عالمی دن قرار دیا۔جیروم تلکسانگ نے اس موقع پر عالمی یومِ مرد کا آغاز کرنے والے ممالک کو فراموش نہیں کیا۔ انہوں نے 19 نومبر کا دن اس لیے بھی منتخب کیا کہ اس تاریخ کو ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو کی فٹ۔بال ٹیم ورلڈ کپ کے لیے منتخب ہوئی تھی، جس کی بدولت ملک متحد ہوا تھا۔مردوں کے عالمی دن کی بنیاد چھ ستونوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ دن خاص طور پر قوم، معاشرے، برادری، خاندان، شادی اور بچوں کی دیکھ بھال میں مردوں کے تعاون کے لیے لڑکوں اور مردوں کی کامیابیوں اور شراکتوں کو منانے کا ایک خوش گوار دن ہے۔عالمی یومِ مرد منانے کا مقصد بنیادی انسان دوست اقدار و روایات کو فروغ دینا ہے۔عالمی سطح پر یومِ مرد منانے کا مقصد مردوں اور لڑکوں کی ذہنی و جسمانی صحت سے آگاہی فراہم کرنا بھی ہے۔ مردوں کے حقوق کو اجاگر کرنے اور بہتر زندگی گزارنے میں مدد کے لیے بہت سی تنظیمیں اور خیراتی ادارے وقف ہیں۔ مثال کے طور پرمین۔کائنڈ انیشی ایٹو تنظیم مردوں کو گھریلو تشدد اور بدسلوکی سے بچانے اور بحالی میں مدد کرنے کے لیے وقف ہے۔اس کے علاوہ سین کمرلنگ ٹیسٹیکولر کینسر فاؤنڈیشن، کینسر سے متعلق شعور اجاگر کرنے اور خود معائنہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں معاون ہے۔ اس کے علاوہ نشے کے عادی مردوں کے لیے بھی کئی بحالی مراکز اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں جو کسی بھی نشے کے عادی افراد یا زندگی سے اکتائے ہوئے مردوں کو زندگی کی طرف واپس لانے میں اپنا اہم کردارا دا کرر ہی ہیں۔ مرد کو اللہ رب العزت نے قوام بنایا ہے۔ اسے عورت کی نسبت سخت جان بنایا ہے۔ اس پر گھر اور معاشرے کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ مرد تمام عمر اپنے گھر والوں اور معاشرے کے معزز شہری ہونے کے ناطے اس پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان کو بطریقِ احسن نبھانے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ مرد ساری زندگی اپنے گھر والوں، ماں باپ اور دیگر افراد کی ذمہ داریوں کو نبھاتا رہتا ہے ۔ سردی ہو یا گرمی، وہ صرف اس فکر میں مبتلا رہتا ہے کہ اپنے بیوی بچوں اور گھر والوں کو زمانے کے سرد و گرم سے بچائے رکھے۔ مرد خود تو سارا دن باہر کام کرتا ہے ، دو وقت کی روٹی کے لیے سارا دن دوسروں کی لعن طعن اور طنز و تشنیع کو برداشت کرتا ہے لیکن اپنے گھر والوں کے لیے ہمیشہ اچھے سے اچھا اور بہترین سے بہترین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک مرد جب وہ بچہ ہوتا ہے، تب سے ہی اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے، اسے شروع سے ہی یہ سکھا دیا جاتا ہے کہ تم مرد ہو، مضبوط بنو۔ ذمہ دار بنو۔ یوں وہ بچہ جس نے ابھی شرارتیں کرنی ہوتی ہیں، اس کا بچپن زمانے کی اور حالات کی گرد میں کہیں کھو کر رہ جاتا ہے۔ خواتین کا عالمی دن تو ہر سال پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز بھی بلند کی جاتی ہے لیکن مردوں کے حقوق کے لیے کوئی ایک لفظ بھی اپنی زبان تک نہیں لاتا بلکہ اگر کوئی بھولے سے مردوں کے حقوق کی بات بھی کرے تو اس کا تمسخر اُڑایا جاتا ہے اور ہنسی مذاق میں اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ مردوں کے اس معاشرے میں عورتوں کا ہی غلبہ ہے۔ مرد تو اللہ رب العزت کی بہت سمجھدار مخلوق ہے۔ اللہ رب العزت نے عورتوں کے جو حقوق مقرر کر دیے ہیں، وہ اتنے کافی ہیں کہ اسے ایک باعزت معاشرے میں کبھی اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں کرنی پڑتی لیکن جہاں عورتوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے تو وہاں آواز اٹھانا لازم ہے۔ یہ عورتیں ہی ہیں جنہوں نے مرد کی آزادی سلب کر رکھی ہے۔ اگر مرد شادی شدہ ہے تو ہمارے معاشرے میں عام رجحان یہی ہے کہ وہ کھل کر اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے بات تک نہیں کر سکتا کہ کہیں بیوی کو پتا چل گیا تو وہ ناراض نہ ہو جائے۔ اگر والدین کی سنتا ہے تو بیوی کو مناسب حقوق نہیں دے پاتا۔ بہت کم مرد ایسے ہیں جو اعتدال کی راہ اپناتے ہیں اور بیوی کو بیوی کے حقوق اور والدین کو والدین کے حقوق دے پاتے ہیں ورنہ زیادہ تر مرد بیوی اور اپنے والدین کے جھگڑوں سے تنگ آ کر ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ عورتوں کے پاس اپنے کتھارسس کا بہت اچھا طریقہ یہ ہے کہ اگر وہ کسی دکھ میں مبتلا بھی ہیں تو وہ آنسو بہا کر یا اپنے شوہر یا والدین کے کندھے پر سر رکھ کر اپنا سارا دکھ آنسوؤں کی صورت میں بہا دیتی ہیں۔ اس طرح سے وقتی طور پر ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے لیکن مرد ایسا کچھ نہیں کر سکتا۔ بچپن سے اس کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ مرد کبھی روتا نہیں ہے۔ میں کہتی ہوں کہ مرد کو رونے دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے دکھوں کا بوجھ ہلکا کر سکے۔ کیا آپ نے کبھی یہ بات محسوس کی کہ دل کے دورہ سے ہونے والی اموات میں ہمیشہ مردوں کی تعداد ہی کیوں زیادہ ہوتی ہے؟ خواتین میں دل کی بیماریاں مردوں کی نسبت کم ہوتی ہیں۔ مرد روتے نہیں ہیں اورہر غم کو اپنے سینے میں چھپا لیتے ہیں۔ ہر دکھ، ہر غم چپ چاپ سہتے ایک وقت وہ بھی آتا ہے، جب ان کا دل پھٹ جاتا ہے۔ تب بس یہ کہا جاتا ہے کہ اس کو تو کوئی روگ ہی نہیں تھا، پھر اچانک سے ہارٹ اٹیک کیسے ہوا؟ اس کا واضح جواب یہی ہے کہ جب ہم کسی محدود چیز کو لامحدود اشیا سے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں تو نتیجتاً اس چیز کا ٹوٹ جانا یا پھٹ جانا یقینی ہے۔ مرد ہر زخم ، ہر دکھ سہتا رہتا ہے ۔ دوسروں کا سہارا بنا رہتا ہے لیکن اس کا اندر خالی ہو چکا ہوتا ہے۔ پھر ایک جھونکا آتا ہے اور اس کی ہستی کو فنا کرتا چلا جاتا ہے۔ عورتیں اگر چاہیں تو مرد بھی ذہنی پریشانیوں سے دور رہ سکتے ہیں۔ اگر مرد سارا دن کما کر، باہر والوں کے طعنے برداشت کر کے گھر والوں کے آرام و سکون کے لیے دن رات کوشش کر سکتا ہے تو عورت کے لیے بھی یہ لازم ہے کہ وہ مرد کو، جب وہ کام سے تھکا ہارا گھر لوٹے، اس کے آرام کے لیے پرسکون ماحول فراہم کرے۔ یاد رہے کہ گھر والوں کی ضروریات کا خیال رکھنا اگر مرد کی ذمہ داری ہے تو عورت پر بھی کچھ ذمہ داریاں و فرائض لاگو ہوتے ہیں۔عورت مرد کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کے لیے ہر ممکن پرسکون ماحول فراہم کرنے کی کوشش کرے۔ ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ مرد جب تھکا ہارا گھر لوٹتا ہے تو کبھی بیوی کی شکایات شروع ہو جاتی ہیں تو کبھی والدین کو بہو سے شکایات ہوتی ہیں، یوں جس آرام و سکون کی تلاش میں وہ گھر آتا ہے، وہ آرام و سکون خواب ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ انتہائی معذرت کے ساتھ اگر مرد باہر کی عورتوں کی طرف راغب ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار بھی کہیں نہ کہیں گھریلو خواتین ہی ہوتی ہیں۔ بہت افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اگر عورتیں ،مردوں کے آرام و سکون اور ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھیں گی تو وہ باہر سکون ڈھونڈنا شروع کر دیں گے اور کئی ایسے چور دروازے ان کو آسانی سے مل جاتے ہیں جس سے کسی کی بھی آخرت خطرے میں پڑ جانے کا خدشہ ہو۔ ماضی میں اور حال میں بھی بار بار اور ہر جگہ ایک ہی فقرہ دہرایا جاتا ہے کہ سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں، ان سے میرا ایک عاجزانہ سوال ہے کہ کیا آپ اپنے بھائیوں اور اپنے والد کو بھی مردوں کی اسی صف میں کھڑا کرتی ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ کیسے مان لیا گیا ہے اور بار بار اس بات کو کیوں دہرایا جاتا ہے کہ سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں؟ مرد اگر وحشی ، غاصب، ظالم، بےوفا، آپ کی عزت کی دھجیاں اُڑانے والا ہے تو آپ کے حقوق کی ، آپ کی عزت و عصمت کی حفاظت کرنے والا بھی مرد ہی ہے۔ مردوں کے اس معاشرے میں اگر عورت غیرمحفوظ ہے تو اسے تحفظ فراہم کرنے والے بھی مرد ہی ہیں۔ مرد محافظ بھی ہیں۔ مرد نگہبان بھی ہیں۔ مرد گھر والوں کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے ساتھ ساتھ گھریلو کام کاج میں اپنی عورتوں کے معاون بھی ہیں۔ میں نے تو مرد کا وہ روپ بھی دیکھا ہے جہاں وہ خود سورج کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے لیکن کبھی اپنے گھر والوں پر غموں کی دھوپ نہیں آنے دیتا۔ میں نے مرد کو تمام عمر بس ذمہ داریاں نبھاتے دیکھا ہے،کبھی والدین کے حوالے سے، کبھی بیوی کے حوالے سے، کبھی بچوں کے حوالے سے تو کبھی بچوں کے بچوں کے حوالے سے۔ میں نے مرد کو وفا کا پیکر بنے اپنی بیوی سے وفا نبھاتے دیکھا ہے، والدین کا سعادت مند بیٹا بنے دیکھا ہے، معاشرے کے معزز شہری ہونے کے ناطے سماجی ذمہ داریاں نبھاتے دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب سردی گرمی اس کے پاؤں میں ٹوٹے جوتے اور تن پر پرانے کپڑے ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی وہ اپنے فرائض تندہی سے انجام دے رہا ہوتا ہے لیکن بہت افسوس ہوتا ہے جب یہ سننے میں آتا ہے کہ تمام مرد ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ہر سال عالمی سطح پر جو یومِ مرد منایا جاتا ہے، اس میں عالمی رابطہ کار ایک نیا نظریہ و مقصد پیش کرتے ہیں کہ بین الاقوامی دن پر اس مسئلے کی جانب توجہ دی جائے۔ جیسے 2013 میں "مرد اور لڑکوں کومحفوظ رکھنا" کے نام سے ایک نئی تجویز سامنے آئی تھی۔مردوں کے حقوق پر بات کرتے اکثر مرد صرف اسی وجہ سے خاموش ہو جاتے ہیں کہ انہیں کہا جاتا ہے وہ مضبوط ہیں اور ان سے کون ان کے حق چھین سکتا ہے؟؟؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مرد کو اس کا حق دیا ہی نہیں جاتا۔ اس سے حق چھیننا تو بہت دور کی بات ہے۔
 

Miss Safia
About the Author: Miss Safia Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.