ضمیر کا صحافی کا جوابی خط

اے میرے صحافی!
تم نے اپنے خط مجھے مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا کہ میری کوئی حیثیت نہیں کوئی سٹیٹس نہیں تو اپنے آپ پر غور کرو تمھاری کیا حیثیت ہے مٹی سے پیدا کئے گئے اور اب اتنا اکڑتے ہو . یہ اتنا غرو ر کس بات کا ہے. مٹی کے اندر تو ویسے بھی دفن ہونا ہے.میرا کام تمھیں سمجھانا ہے جو میںکرتا رہوں گا.

تمھارا خط ملا پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ تم میں اب بھی احساس نام کی کوئی چیز موجود ہے اس لئے تم نے اپنے غلط کاریوں کا اعتراف کیا ہے لیکن بہت ساری باتوں میں پھر بھی ڈنڈی مار گئے ہو.
آخر تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو . صحافی ہو لکھتے ہو، تمھارے لکھنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن سچ لکھا کرو میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں. اور ہاں مجھے یہ دھمکی مت دو کہ تمھیں سلا دونگا. میں تمھارا ضمیر ہوں تم مجھے سلا نہیں سکتے میں کوشش کرونگا کہ تمھیں تمھاری غلطیوں سے آگاہ کرتا رہوں اور تم اپنی اصلاح کرو. ۔
میں تحریری طور پر یہ جواب اس لئے دے رہا ہوں کہ تمھیں احساس ہو جائے اپنی غلطیوں کا . اور اسے دہرانے کی کوشش نہ کرو..
میں تمھارا ضمیر ہوں اور مجھے اللہ تعالی نے صرف اس لئے ہی بنایا ہے کہ ہر ایک شخص کو اس کی غلطیوں کی نشاندہی کرتا رہوں ، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ جس کو میں غلطی بتا رہوں وہ دنیا وی لحاظ سے کس پوزیشن پر ہے .
تم صحافی ہو اس لئے اپنے آپ کو کچھ اونچی چیز سمجھتے ہو.حالانکہ تم پر بھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے کیونکہ تمھیں اللہ تعالی نے قلم کی طاقت سے نوازا ہے . وہ قلم جس پر اللہ تعالی کی ذات اقدس نے قران میں قسم کھائی . وہ قلم جس کے زریعے اللہ نے علم پھیلایا.
ٹھیک ہے کہ تمھیں اس قلم کی وجہ سے عزت ملی ہے اور یہ بھی اللہ کا ہی احسان عظیم ہے کہ تمھیں قلم کی مزدوری کیلئے منتخب کیا ورنہ تم سے ہر لحاظ سے بہتر افراد موجود ہیں اگر یقین نہیں آتا تو اپنے ارد گرد دیکھ لو.تم سے خوبصورتی میں ، خاندان میں ، تعلیم میں ہر لحاظ سے بہتر افراد موجود ہیں . لیکن یہ اپنے لئے اعزاز سمجھو کہ اللہ نے تمھیں قلم ہاتھ میں دیا ہے..۔
جو کچھ تم لکھتے ہوکیا تمھیں اندازہ ہے کہ اس ایک ایک لفظ کا تم سے پوچھا جائیگا . ٹھیک ہے کہ تمھیں اس دنیا میں بہت بڑا مقام ملا ہے. لیکن جس طرح ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے اسی طرح ہر عمل کا اللہ کے حضور پیشی میں سوال و جواب ہوگا. کیا تم اس کا جواب دے سکو گے. وہاں یہ نہیں چلتا کہ میں سینئر ہوں ، صحافت کے میدان میں اتنا وقت گزار چکا ہوں یا فلاں وزیر سمیت ڈائریکٹریا جنرل سے میرا اچھا تعلق ہے اور میں کچھ بھی کروں کچھ بھی کہہ د وں تو کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی.
ٹھیک ہے یہاں پر تم ان تین " ج" میں شامل ہو جس سے نیب بھی انکوائری نہیں کرسکتی ..لیکن یاد رکھنا اس وقت اور مقام کو جب اللہ تعالی کے پاس حاضری ہوگی اور یہ یقینی حاضری ہے جہاں پر تمھاری طرح کوئی یہ بھی نہیں سکے گا کہ میں اونچی چیز ہوں..وہاں پر ثبوت کی بھی ضرورت نہیں . خود تمھارا یہ جسم جس پر تم بہت ناز کرتے ہو تمھارے خلاف گواہی دے گا..
تمھیں ڈنڈی مارنے کی عادت بچپن سے ہے سکول کے نالائق ترین طلبا میں تمھارا شمار ہوتا تھا اسی وجہ سے بیک بنچر تھے اس وقت بھی میں تمھارا ضمیر تمھیں سمجھاتا تھا کہ ماں باپ کا پیسہ ایسے مت اڑایا کرو اور اپنی محنت کرو . لیکن تم نے کھیل کے میدان میں آکر اپنی نالائقی کو کھیلوں کے شعبے میں چھپایا.نصابی سرگرمیوں کا نالائق بچہ کھیلوں میں اچھا ہوگیا . لیکن یہ بھی زیادتی ہے کہ تم اس وقت بھی چغلی کھانے کی عادت تھی اور اسی چغلی کے عادت کے باعث ہر ایک کھلاڑی کے پیچھے باتیں کرتے رہتے اور تم نے اپنی پوزیشن اساتذہ کی نظر میں بہتر کردی تھی. حالانکہ اس اس عمل سے جو لڑکے کھیل کے میدان سے رہ گئے تھے اس میں تمھارا کوئی کمال نہیں تھا بس اللہ تعالی نے ہر ایک شخص نے ایک کام لینا ہوتا ہے اورہر ایک شخص اپنے حصے کا کردار ادا کرکے چلا جاتا ہے . تمھاری دوسروں کی چغلی کھانے کی عادت صحافت کے میدان میں آنے کے بعد بھی ابھی تک نہیں گئی .پیٹ پیچھے دوسروں کی برائیاں کرنے اور اپنے آپ کو بڑا ثابت کرکے تم کچھ بھی نہیں کررہے.جو لوگ تمھیں جانتے ہیں وہ تم پر بعد میں ہنستے ہیں کہ یہ بڑبولا ہے. لیکن تم کبھی نہیں سمجھوگے..
اے میرے صحافی!
تم نے اپنے خط مجھے مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا کہ میری کوئی حیثیت نہیں کوئی سٹیٹس نہیں تو اپنے آپ پر غور کرو تمھاری کیا حیثیت ہے مٹی سے پیدا کئے گئے اور اب اتنا اکڑتے ہو . یہ اتنا غرو ر کس بات کا ہے. مٹی کے اندر تو ویسے بھی دفن ہونا ہے.میرا کام تمھیں سمجھانا ہے جو میںکرتا رہوں گا.
جب تم جھوٹ لکھتے ہو تو بھی میں تمھیں ٹوکتا رہتا ہوں لیکن تم پر کسی چیز کا اثر ہی نہیں ہوتا ، مثبت رپورٹنگ کے نام پر کب تک لوگوں کو دھوکہ دو گے کب تک جھوٹ لکھ کر اور سٹیج پر آکر بول کر اپنے آپ کیساتھ زیادتی کرو گے. تم جو دیکھتے ہو وہ لکھتے کیوں نہیں ، ٹھیک ہے کہ تمھاری ضروریات ہیں لیکن کیا تمھاری ضروریات اللہ تعالی پوری نہیں کررہا .کیا کوئی انسان تمھاری ضرورتیں پوری کرسکتا ہے. کیا رازق اللہ نہیں.. کیا تم کبھی بھوکے سوئے ہو.. کیا تمھاری اولاد کبھی بھوکی سوئی ہے.. نہیں تو پھر صرف چند ٹکوں کی خاطر تم لوگوں کوبلیک میل کیوں کرتے ہو..
ہاں بڑبولے صحافی..
مجھے بتا دو تمھارا پیٹ کب بھرے گا کتنا کمائو گے اور جو کمایا ہے کیا اسے اپنے ساتھ لیکر قبر میں جائو گے کیاتمھیں یقین ہے ہے کہ یہ تمھاری اولاد کے کام آئے گا..تمھارے پاس قلم ہے جس کے ذریعے تم سچ کو پھیلا سکتے ہو لیکن تم اس سے صاحبان کے شلوارمیں ناڑے ڈالنے کا کام لیتے ہو.
ہاں ہاں مجھے پتہ ہے کہ تم شرمندہ ہورہے ہو اور یہی شرمندگی اس بات کی دلیل ہے کہ تم میں اب بھی شرافت اور حیا ہے لیکن اس شرافت اور حیا کو آگے لے آئو .تمھیں یاد ہے کہ میں تمھیں صنف نازک کے معاملے پر بہت خبردار کرتا ہوں لیکن تم میری باتوں پر سمجھتے ہی نہیں..کیا عدالت میں کیس تمھیں یاد نہیں..اوپر سے تم جھوٹ بولتے ہو ..چھوڑو...
میں تمھارا ضمیر ہوں اس لئے مجھے تمھارا بہت زیادہ پتہ ہے کہ جب تم طاقتور دیکھتے ہو تو اس کی خوشامد ، مکھن بازی اور پالش کرکے اپنی پوزیشن دوسروں کے سامنے بہتر کرتے ہو لیکن جب تم کسی کمزور کو دیکھتے ہو تو پھر خود کو فرعون سمجھتے ہو.
لیکن یاد رکھو ہر فرعون کیلئے موسی ہوتا ہے.اپنی فرعونیت کم کرو اور اپنی اوقات پر آجائو..
میرا کام تمھیں سمجھانا تھا . نصیحت کرنی تھی .. اور میں ہر کام پر تمھیں ٹوکتا رہونگا..جو میری ذمہ داری ہے وہ میں پورا کرتا رہونگا..
تمھارا
ضمیر

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420506 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More