یہ کالم شیخ محمد دانش کے کالم
اک ہندو کی فریاد۔۔۔۔۔مسلم قوم کے نام کا جواب ہے۔
کچھ عرصہ قبل ہنود کا ایک پیغام بصورت نظم بوساطت شیخ محمد دانش ، ہماری
ویب پر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ویسے یہ بات سوچنے کی ہےکہ ہنود کے پیغام ہمیشہ
براہ راست کیوں نہیں آتے ، انہی لوگوں کے ذریعہ آتے ہیں۔ ان کا اور اہل
ہنود کا باہمی کیا تعلق ہےیہ مجھے بھی نہیں پتہ، اگر قارئین کرام جانتے ہوں
تو ضرور میرے علم میں اضافہ فرمائیں۔
انشاء اللہ اس کالم میں ہنود کے پھیلائے ہوئے تمام شکوک کا جواب بصورت نظم
پیش کیا جائے گا اور ساتھ ساتھ شیخ دانش صاحب کی طبعیت کے لئے آرام کا
سامان بھی مہیا کیا گیا ہے۔
یہ نظم مفکر اسلام ، سرمایہ ء اہل سنت کنز العلماء ڈاکٹر محمد اشرف آصف
جلالی دامت برکاتہم العالیہ نے 2011 میں منعقد ہونے والے تیسرے عقیدہء
توحید سیمینار میں سنا کر سامعین کے دل موہ لیے۔ یہ نظم قبلہ ڈاکٹر صاحب نے
کعبہ شریف کے دروازہ کے عین سامنے تحریر فرمائی۔ آئیے اس کی برکات سے آپ
بھی مستفید ہوں۔
سُن لے ہندو، خوامخواہ تُو نے دھرا الزام ہے
تُو ہے کافر ، میں ہوں مومن کیوں تجھے ابہام ہے
کس لئے بُت سے ملا بیٹھا ہے تُو رب کا ولی
لگتا ہے تیر ا پڑوسی ہے نکھٹو خارجی
تُو نے مانا دیوتاؤں کو پرستش کی جگہ
ہم نے ولیوں کے مزاروں کو نہ مانا سجدہ گاہ
تُو نے ہر ہر مورتی کو کر لیا مسجود ہے
اپنا تو رب جہاں ہی بس فقط معبود ہے
گر نہیں سمجھا برہمن صنم و مرقد میں فرق
کچھ نہیں اس پہ تعجب، وہ ہے ظلمت میں غرق
اس فرق کو کیسے سمجھے جس کا دل بیمار ہے
اس فرق کو سمجھنے میں نور دل درکار ہے
سخت تعجب خارجی پر ، دعویء ایمان ہے
پھر بھی ظالم اس فرق سے بے خبر نادان ہے
قبر مومن بالیقیں ہے جنتی باغوں سے باغ
جبکہ پتھر مورتی کا بالیقیں دوزخ کی آگ
جس قدر ہے دوزخ و جنت کی ہیت میں فرق
اس قدر ہے صنم و تُربت کی حقیقت میں فرق
صنم میں جاں تھی نہ ہے نہ ہی ادراک بھی
بندہء خاکی تو سُن لیتا ہے زیر خاک بھی
نہ ملاؤ اولیا کو طبقہء اوثان سے
یہ تو عون کبریا ہیں پوچھ لو قرآن سے
گر عصائے موسوی پہ حق کی ہو جلوہ گری
سر جھکائے اس کے آگے عہد کی جادو گری
ایک لکڑی کی مدد سے جب ہوا حق کا ظہور
کس لئے عون ولی سے ہو عقیدے میں فتور
ہے مسلم لکڑیوں میں اس عصا کی سروری
پھر بھی ہے جنگلی دھتورے کو ولی سے ہمسری
اللہ والوں کی مدد گر ہے شریعت میں حرام
کس لئےآئے فرشتے بدر میں بہر حرام
ہے یہی آصف کا جھگڑا آج فکر خام سے
نہ ملاؤ رب کے بندوں کو کبھی اصنام سے |