گزشتہ دنوں یاسر پیرزادہ صاحب کا کالم "نکاح کے بغیر توبہ
توبہ پڑا" وقت نہ ملنے کے سبب بروقت نہ لکھ سکا. یاسر صاحب کافی ترقی یافتہ
ممالک میں گھوم چکے ہیں، انہیں ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز کا سکرٹ
پہننے اور بغیر نکاح کے جنسی تعلقات قائم کرنے میں نظر آیا ہے، جیسے سکرٹ
پہننا اور نکاح کے بغیر مرد عورت کا ساتھ رہنا جسے انگریزی کی اصطلاح میں
live in relationship کہا جاتا ہے ترقی کے لیے ناگزیر ہو۔ یاسر صاحب کی
اضافی رگ پروفیسر ہودبھائی کا متحدہ عرب امارات میں نئے قوانین کے اطلاق کے
بارے میں کالم دیکھ کر پھڑکی۔ شنید ہے کہ متحدہ عرب امارات نے موجودہ دور
کے خود ساختہ تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے شراب نوشی ، شادی , طلاق اور
متفرق عائلی قوانین میں ترمیم کر دی ہے۔ خیر نتائج تو ان تبدیلیوں کی
شروخیر کا تعین کریں گے ہی مگر یاسر صاحب نے یہاں جلدی کر دی ہے
نتائج کے رونما ہونے سے پہلے ہی سیدھا پارلیمان سے مطالبہ کردیا ہے کہ
متحدہ عرب امارات ترقی کی سیڑھی پر قدم رکھ چکا ہے اب اگر آپ کسی قسم کی پس
وپیش کرتے ہیں تو یقیناً یہ پاکستانی عوام کے ساتھ بعینہ زیادتی ہوگی یاسر
صاحب اسی کالم میں مزید یہ گلہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی بھی روشن خیال
اس مسئلہ پر قلم اٹھاتا ہے تو اسے یہ کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے کہ وہ
معاشرے میں فحاشی کا فروغ چاہتا ہے یا مغربی اقدار سے متاثر ہے یاسر
پیرزادہ صاحب کا یہ کہنا بالکل بےجا ہے،
بشمول ان کے پاکستان کے کسی لبرل نے سنجیدہ طور پر ترقی کی راہ میں حائل
رکاوٹوں کی نشاندہی کے لئے کبھی قلم نہیں اُٹھایا، اُن کی آنکھوں میں صرف
حجاب اور پردہ ہی اٹکتا ہے یاسر صاحب نے کچھ وقت کے لئے اس حقیقت کو تسلیم
کیا ہے کہ دنیا چاہے مریخ پر پہنچ جائے یا انسان خود کو خنوط کر کے دوبارہ
زندہ ہو جائے جن معاملات پر مذہب نے حدود کا تعین کر دیا ہے ان میں حکومت،
اسلامی یا غیراسلامی تاقیامت تبدیلی نہیں کر سکتی۔ مگر آگے چل کر یاسر صاحب
نے دوبارہ وقت کے تقاضوں کو حجت بنا کر پلٹا کھایا ہے اور بات اسی حجاب پر
لا کر ختم کر دی ہے۔ اب معمولی زہن رکھنے والا شخص بھی اس بات کو جان لے گا
کہ ترقی حجاب ہونے یا نہ ہونے سے منسلک ہے یا ٹیکنالوجی ، انڈسٹری ، زراعت
اور دیگر اس جیسے شعبوں میں کوشش کرنے سے۔
مگر یاسر صاحب جدید دنیا میں قدامت پسند رویوں کے ساتھ رہنے کو ممکن نہیں
سمجھتے جن کی دلیل ان کے لیے سعودی عرب میں ایک سینما گھر ہے جس کی بنیاد
گزشتہ برس رکھی گئی ، جیسے اس سے پہلے سعودی عرب چندہ پر گزارہ کرتا رہا
ہوگا۔ یاسر پیرزادہ صاحب کا ایک قدامت پسند دوست ان سے مشرقی اور مغربی
ممالک میں ریپ کیسز کی شرح پر الجھتا ہے اس بھلے آدمی کے نزدیک بلکہ ہر
سمجھدار شخص یہ سمجھتا ہے کہ ریپ کا براہ راست تعلق کلچر سے ہے،
مگر یہاں یاسر صاحب بات کو اعداد و شمار کے الٹ پھیر میں گول کر دیتے ہیں
ان کے نزدیک مشرقی ممالک اور مغربی ممالک میں ریپ کی شرح برابر ہے. البتہ
مشرقی ممالک میں ان کیسز کو زیادہ تر رپورٹ نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے
نمبرز میں تفریق آتی ہے، یاسر پیرزادہ صاحبنے کو کوئی بتائے کہ Single
parent کا مسئلہ کس کلچر کا ہے؟ Child abortion کی شرح کس معاشرے میں زیادہ
ہے؟ بقول آپ کے دنیا جو بہت دور نکل جا چکی ہے وہ گول ہونے کے سبب دوبارہ
دورِ جاہلیت میں پہنچ چکی ہے۔ باقی معیشت کے گنجلک مسائل ضرور ایڈریس ہونے
چاہیے مگر اس کے لیے کلچر کوManipulate کرنا اتنا ضروری نہیں جتنا آپ اس کو
لے کر بیٹھ گئے ہیں۔
صدر کلنٹن کے دورہ پاکستان میں ان کی بیٹی چیلسی کلنٹن ان کے ساتھ آئی تھی
اسلام آباد میں ایک ہائی سکول کے دورے کے دوران انہوں نے میٹرک کی ایک بچی
سے ہائی سکول میں میٹرک کی ایک مغربی لڑکی کو جو درپیش مسائل ہوتے ہیں اسکا
پوچھا بچی کا جواب معصومانہ تھا کہ ہمارے فنڈز مقتدرہ کھا جاتے ہیں جس کے
سبب ہمیں کاپی پینسل اور کتابیں نہیں مل پاتیں بچی کے Counter Question نے
چیلسی کلنٹن کو ششدر کر دیا کچھ دیر تو وہ خاموش رہی مگر بچی کے متواتر
اصرار کرنے اسے مجبوراً جواب دینا پڑا۔ چیلسی کلنٹن کا یہ جواب سو کالڈ
ترقی یافتہ ممالک کے کلچر کی کِلی کھول دیتا ہے کہ
"ہائی سکول لیول پر ہمارا سب سے بڑا مسئلہ میٹرک پڑھتی لڑکی کا حاملہ ہو
جانا ہے اس مسئلہ کا تدارک ہمارے لئے ایک بڑا المیہ ہے"
اللہ تعالی یاسر پیرزادہ صاحب کو اس بات کی سمجھ عطاء کرے کہ culture
manipulation سے کسی طرح بھی ترقی کا حصول ممکن نہیں کم از کم آپ سے سیکولر
اقدار کا خیال رکھتے ہوئے اس مسئلہ کو عوامی عدالت میں چھوڑ دیں وہی
ریفرنڈم کے ذریعے اپنے رہن سہن کا انداز خود طے کرلیں گے اور آپ اپنی
تحاریر میں پروفیسر ہود بھائی کے Biased Narrative کو پروموٹ نہ کریں.
|